وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
azadi ka amrit mahotsav

جامع رابطہ پروگرام کے تحت 34 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں کا پالیسی سازوں سے رابطہ


ملک گیر فیڈبیک سیشنز کے ذریعے نچلی سطح کی آوازوں کو شامل کر کے ماہی پروری اور آبی زراعت کے لائحۂ عمل کی تشکیل

Posted On: 04 OCT 2025 1:17PM by PIB Delhi

اپریل سے ستمبر 2025 کے درمیان وزارتِ ماہی پروری، حیوانات پروری اور دودھ کی پیداوار کے محکمہ ماہی پروری (ڈی او ایف) کی جانب سے منعقدہ ملک گیر ورچوئل بات چیت کے سلسلے میں 34 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں سے 15,000 سے زائد ماہی گیر اور مچھلی پالنے والے شامل ہوئے۔ اس مہم کی قیادت سکریٹری محکمہ ماہی پروری ڈاکٹر ابھیلکش لکھی نے کی۔ اس اقدام نے متعلقہ فریقین کو اپنی تشویشات اور امنگوں کا اظہار کرنے کے لیے ایک براہِ راست پلیٹ فارم فراہم کیا۔

ان سیشنز میں ماہی گیر، مچھلی پالنے والے، ماہی پروری کی انجمنیں، کوآپریٹیوز، فشرمین فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف ایف پی اوز)، اسٹارٹ اَپس، محکمہ ماہی پروری کے ذیلی دفاتر، آئی سی اے آر ادارے، نیشنل فشرِیز ڈیولپمنٹ بورڈ اور ریاستوں/یونین ٹیریٹریز کے ماہی پروری محکمے شامل ہوئے۔ یہ مشاورت چھ ماہ تک جاری رہی، 2 اپریل سے 30 ستمبر 2025 تک، جس کے دوران ساحلی، اندرونی، پہاڑی، جزیراتی اور شمال مشرقی علاقوں میں وسیع نمائندگی کو یقینی بنایا گیا تاکہ تقریباً ہر ضلع کی آواز اس عمل میں شامل ہو سکے۔

اس مشق سے نہ صرف موجودہ چیلنجوں کی نشاندہی میں مدد ملی بلکہ مستقبل کی پالیسیوں، بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی اور فلاحی اقدامات کے لیے قیمتی فیڈبیک بھی حاصل ہوا، جو ماہی پروری اور آبی زراعت کے شعبے کو مضبوط بنانے میں معاون ہوگا۔

اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں نے حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی مدد کے لیے خصوصاً پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی)، پردھان منتری متسیا کسان سمرِدھی سہ-یوجنا (پی ایم-ایم کے ایس ایس وائی)، ماہی پروری و آبی زراعت بنیادی ڈھانچہ ترقیاتی فنڈ (ایف آئی ڈی ایف)، گروپ حادثاتی بیمہ اسکیم (جی اے آئی ایس)، بلیو ریولیوشن اور کسان کریڈٹ کارڈ جیسی اسکیموں کے تحت حاصل تعاون کے لیے شکریہ ادا کیا۔

متعلقہ فریقین کی جانب سے اہم فیڈبیک

بات چیت کے دوران ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں نے اعلیٰ معیار کے مچھلی بیج، بروڈ بینکس، سستا چارہ اور مقامی فیڈ ملز کی اہمیت پر زور دیا۔ متعلقہ فریقین نے یہ بھی نمایاں کیا کہ نقل و حمل، کیج کلچر، منی ہیچریز، آئس باکسز، پولی شیٹس، کولڈ اسٹوریج جیسی سہولتوں کو مزید مضبوط کرنے اور آبی زراعت کے فروغ کے لیے شمسی توانائی کے انضمام کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ متعلقین نے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی اختراعی حل اپنانے جیسے زندہ مچھلیوں کی ترسیل کے لیے ڈرونز کا استعمال تاکہ منڈیوں تک رسائی بڑھے، ماہی گیروں کی حفاظت کے لیے سیٹلائٹ ایپلیکیشنز اور ممکنہ فشنگ زون مشورے پر زور دیا۔ بات چیت کے دوران ماہی گیروں نے حکومت کی اس پہل کو سراہا جس کے تحت ان کی ماہی گیر کشتیوں میں مفت ٹرانسپانڈرز نصب کیے گئے۔ ان ٹرانسپانڈرز نے بروقت ممکنہ فشنگ زون کی معلومات، موسمی خبروں اور سمندری طوفان کی پیشگی اطلاع فراہم کر کے انہیں محفوظ راستوں کی رہنمائی میں مدد دی ہے۔ ماہی گیروں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ٹرانسپانڈرز بین الاقوامی سمندری سرحدوں کے غیر ارادی تجاوز سے بچاؤ میں بھی کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔

مارکیٹنگ کے محاذ پر شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ مخصوص مچھلی بازاروں، کیوسکوں اور جدید فش پروسیسنگ پلانٹس کو مضبوط کیا جائے تاکہ ویلیو چین میں بہتری اور بہتر قیمتوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا کے تحت متبادل روزگار جیسے سی ویڈ کی کاشت، آرائشی ماہی پروری اور موتی کی فارمنگ جیسی سرگرمیوں کے ذریعے مزید تقویت دی جائے۔

مزید برآں متعلقین نے زور دیا کہ تکنیکی علم، فارم مینجمنٹ اور امراض کے کنٹرول کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدہ تربیتی پروگراموں اور صلاحیت سازی کے اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے آبی صحت کے نظم و نسق اور امراض کے کنٹرول کے لیے واٹر کوالٹی ٹیسٹنگ لیبارٹریز کی سہولت فراہم کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

موبائل پر مبنی ویڈیو کانفرنسنگ کے اس طریقے نے شرکاء کو اپنے گھروں سے ہی اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے براہِ راست جڑنے کا موقع فراہم کیا۔ ان مشاورتی نشستوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے، ڈاکٹر ابھیلکْش لکھی نے کہا کہ یہ فیڈبیک سیشنز ماہی گیروں، مچھلی پالنے والوں اور پالیسی سازوں کے درمیان ایک مضبوط پل کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’حاصل ہونے والے قیمتی خیالات اور مشاہدات ہماری آئندہ حکمتِ عملی کی رہنمائی کریں گے اور یہ یقینی بنائیں گے کہ محکمہ ماہی پروری کے پانچ سالہ روڈ میپ اور وِکْسِت بھارت 2047 کے ویژن کے مطابق شعبۂ ماہی پروری کی ترقی جامع، پائیدار اور کسان مرکوز ہو۔‘‘

ماہی پروری کے شعبے کے بارے میں

ماہی پروری کا شعبہ، جسے ایک سن رائز سیکٹر‘ (ابھرتا ہوا شعبہ) تسلیم کیا گیا ہے، ملک میں تقریباً 3 کروڑ افراد کی روزی روٹی کا اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر ان ماہی گیروں اور مچھلی پالنے والوں کے لیے جو معاشی طور پر کمزور اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مچھلی پیدا کرنے والا ملک ہے جو عالمی پیداوار میں 8 فیصد حصہ رکھتا ہے، اور آبی زراعت میں بھی دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2015 میں ہدف بند اقدامات کے آغاز کے بعد سے حکومتِ ہند نے مختلف اسکیموں کے تحت کل 38,572 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی منظوری دی یا اعلان کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کی کل مچھلی پیداوار بڑھ کر 195 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ یہ شعبہ سالانہ 8.74 فیصد کی شرحِ ترقی سے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح سمندری خوراک کی برآمدات 2023-24 میں 60,524 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہیں۔ ملک بھر میں 34 ماہی پروری پیداوار اور پروسیسنگ کلسٹرز کے نوٹیفکیشن کے بعد محکمہ اب نوع مخصوص کلسٹرز کی تشکیل پر کام کر رہا ہے تاکہ ویلیو چین کو مضبوط کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہ کلسٹر پر مبنی طریقۂ کار خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے فشرمین فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف ایف پی اوز) اور کوآپریٹیوز کے قیام کو فروغ دیتا ہے۔ اس کا مقصد ملکی سطح پر مچھلی کے استعمال میں اضافہ، برآمدات میں فروغ اور پسماندہ ماہی گیروں و مچھلی پالنے والوں کے لیے روزگار کے استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

A group of boats in waterAI-generated content may be incorrect. A group of women working on a beachAI-generated content may be incorrect. A group of fish cages in the waterAI-generated content may be incorrect. A drone flying over a crowd of peopleAI-generated content may be incorrect.

******

ش ح۔ ش ا ر۔ ول

Uno-7054


(Release ID: 2174776) Visitor Counter : 10
Read this release in: Tamil , Malayalam , English , Hindi