وزارات ثقافت
                
                
                
                
                
                    
                    
                        ثقافتی نشاۃ ثانیہ کے ذریعے ہندوستان کی علمی روایت کو قوم اور دنیا کے سامنے دوبارہ متعارف کرایا جا رہا ہے:جناب گجیندر سنگھ شیخاوت
                    
                    
                        
نئی دہلی میں ہندوستان کی علمی میراث سے متعلق گیان بھارتم بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز
                    
                
                
                    Posted On:
                11 SEP 2025 8:46PM by PIB Delhi
                
                
                
                
                
                
                ثقافت کی وزارت نے ’گیان بھارتم‘ کا آغاز کیا، جو کہ ہندوستان کے مخطوطات کے ورثے کے تحفظ، اس کو ڈیجیٹائز کرنے اور پھیلانے کے لیے ایک تاریخی قومی پہل ہے۔ اس موقع کی مناسبت سے، وزارت نے 11 تا 13 ستمبر 2025 کو نئی دہلی کےوگیان بھون میں پہلی بار گیان بھارتم بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا مقصد ’ہندوستان کے علمی ورثے کے ذریعے مخطوطات کے ورثہ کو دوبارہ حاصل کرنا‘ ہے۔ ہندوستان اور بیرون ملک کے اسکالرز، ماہرین، اداروں اور ثقافتی ماہرین سمیت 1,100 سے زیادہ شرکاء کو اکٹھا کرتے ہوئے، کانفرنس نے بحث و مباحثہ، غور و خوض اور ہندوستان کے مخطوطات کو دنیا کے ساتھ محفوظ کرنے، ڈیجیٹائز کرنے اور اسے بانٹنے کے لیے آگے کا راستہ طے کرنے کے لیے ایک باہمی پلیٹ فارم بنایا ہے۔ عزت مآب وزیر اعظم 12 ستمبر کو ورکنگ گروپس کی پریزنٹیشنز سننے کے لیے کانفرنس میں شرکت کریں گے اور اس کے بعد اجتماع سے خطاب کریں گے۔ تین روزہ مباحثے کا اختتام 13 ستمبر کو اختتامی اجلاس کے ساتھ ہوگا جس کی صدارت ہندوستان کے وزیر داخلہ کریں گے۔

ثقافت کے وزیرجناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے افتتاحی اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ اس اجلاس میں ثقافت کی وزارت کے سکریٹری جناب وویک اگروال کے علاوہ  ممتاز شخصیات- فیلڈز میڈل ایوارڈیافتہ اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر پروفیسر منجل بھارگاوا؛ وزارت ثقافت کی ایڈیشنل سکریٹری محترمہ امیتا پرساد سربھائی؛ وزارت ثقافت کے جواءنٹ سکریٹری جناب سمر نندا؛ ثقافت کی وزارت میں ڈائرکٹر جناب اندرجیت سنگھ،؛ آئی جی این سی اے کے ممبر سکریٹری ڈاکٹر سچیدانند جوشی؛ آئی جی این سی اےکے  کلاندھی ڈویژن کے ڈین (انتظامیہ ) اور صدر پروفیسر رمیش چندر گوڑاور مخطوطات سے متعلق قومی مشن کے ڈائرکٹر پروفیسر (ڈاکٹر) انیربان دش نے شرکت کی۔ اپنے تعارفی استقبالیہ کلمات میں،جناب وویک اگروال نے غور و خوض کے لیے راہ ہموار کی۔ پروفیسر منجل بھارگوا نے کلیدی خطبہ دیا، ہندوستان کی مخطوطہ کی  روایت کی اہمیت اور عالمی علمی نظام کو آگے بڑھانے میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے، ثقافت کے وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے کہا کہ ہندوستان کی علمی روایت، جو ہزاروں سالوں سے چیلنجوں، جدوجہد اور حملوں کے باوجود برقرار ہے، اب وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں شروع کیے گئے گیان بھارتم مشن کے ذریعے قوم اور دنیا کے سامنے دوبارہ متعارف کرائی جا رہی ہے۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ حقیقی فخر اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ اپنی تہذیبی دولت کو جانتے ہیں، پہچانتے ہیں اور اس سے جڑتے ہیں اور یہ مشن ڈیجیٹائزیشن، ترجمہ اور تکنیکی اختراع کے ذریعے مخطوطات کو زندہ کرکے اسے ممکن بنانے کی کوشش ہے۔ ہزاروں سال پہلے ہمارے باباؤں اور بزرگوں نے اپنی گفتگو، تجربات اور احساس کے ذریعے ایسی تحریریں تخلیق کیں جو آج کی دنیا کے لیے اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ وہ اس وقت تھیں جب ان کی تخلیق ہوئی تھی۔ انسانی زندگی سے متعلق بنیادی مضامین کے گہرے مطالعے پر مبنی یہ تحریریں صدیوں بعد بھی انسانیت، ماحولیات اور پورے ماحولیاتی نظام کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس ثقافتی نشاۃ ثانیہ کو محض لیکچرزیا تقریبات کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے اس وراثت کی حفاظت اور جشن منانے میں اجتماعی ذمہ داری کی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ ہر ہندوستانی کے لیے فخر کی بات بن جائے۔ انہوں نے ملک بھر میں ایک قومی ذخیرے، کلسٹرز اور سنٹرز آف ایکسی لینس کے قیام پر بھی زور دیا اور اداروں، یونیورسٹیوں اور ایسے افراد کی کوششوں کا اعتراف کیا جنہوں نے مشکلات کے باوجود مخطوطات کو محفوظ کیا اور انہیں ایک ایسے خزانے کے حقیقی محافظ قرار دیا جس کا تعلق نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری انسانیت سے ہے۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ مخطوطات سے متعلق قومی مشن سب سے پہلے جناب اٹل بہاری واجپائی کے دور میں شروع کیا گیا تھا، انہوں نے کہاا کہ اگرچہ اس وقت کچھ فہرست سازی اور شناخت کا کام شروع کیا گیا تھا،تاہم اس کے بعد کے سالوں میں یہ کوشش رک گئی تھی۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جو یجنہ اب دوبارہ شروع ہوا ہے وہ بلاشبہ کامیاب ہو گا اور سب پر زور دیا کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ کس طرح اس قومی ذخیرے کو مزید افزودہ اور وسعت دی جا سکتی ہے جس کا تصورپیش کیا گیا تھا۔

پروفیسر (ڈاکٹر) منجل بھارگوا نے اپنی کلیدی تقریر کے دوران کہا کہ ہندوستان، دس ملین سے زیادہ مخطوطات کے ساتھ، شاید کلاسیکی اور مقامی روایات کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھتا ہے۔ یہ تحریریں ادب، سائنس، ریاضی، فلسفہ اور فن کو گہرے بین المضامین طریقوں سے مجسم کرتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس روایت کا غور وفکر کے بعد کیا جانے والا احیاء قومی فخر کو متاثر کر سکتا ہے، تعلیم کو مضبوط بنا سکتا ہے، ثقافتی سفارت کاری کو بڑھا سکتا ہے، کمیونٹیز کو بااختیار بنا سکتا ہے، پائیدار ترقی کو فروغ دے سکتا ہے، اور نئی تحقیق کو متحرک کر سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ایسی تحریک کسی ہندوستانی نشاۃ ثانیہ ہی بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہی گیان بھارتم مشن شروع ہوتا ہے، اسے نہ صرف تحفظ کے طور پر بلکہ تخلیق کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے تاکہ  آنے والی نسلوں کو متاثر کرنے کے لیے ہندوستان کے کلاسیکی اور مقامی علمی نظام کا احیاء کیا جاسکے۔
جناب وویک اگروال نے اپنے تعارفی خطاب میں کہا کہ ہندوستان کی روایات، اس کی قدیم ثقافت اور اس کے ٹھوس اور غیر محسوس ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنا اور اسے آنے والی نسلوں کے سامنے پیش کرنا ایک بڑی ذمہ داری اور فرض ہے۔ اس ورثے سے حاصل ہونے والے اسباق کو نوجوان نسلوں تک پہنچانا چاہیے۔ انہوں نے یاد کیا کہ ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجنز کے دوران جب کسی نے پوچھا کہ آپ بتوں کی پوجا کرتے ہیں؟ سوامی وویکانند نے جواب دیا، ’’ہم بتوں کی پوجا نہیں کرتے، ہم بت کے پیچھے آئیڈیل کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اس بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہم کسی مخطوطہ کو محض ایک شے کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ علم کے ذخیرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کے دوران ہونے والی بات چیت ’گیان بھارتم‘ مشن کے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے روڈ میپ تشکیل دے گی۔
ڈاکٹر سچیدانند جوشی نے ’ہندوستانی مخطوطات کی وطن واپسی – ورثے کا تحفظ، شناخت کی بحالی‘ کے موضوع پر ایک سیشن کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے کہا کہ وطن واپسی اہم ہے، لیکن پہلا کام یہ جاننا ہے کہ یہ مخطوطات دراصل کہاں ہیں۔ آج بھی، ہمارے پاس دس ملین مخطوطات کا وہ صحیح ریکارڈ موجودنہیں ہےجس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان میں موجودہے اور نہ ہی فرانس، جرمنی، برطانیہ، ڈنمارک، سویڈن، ہالینڈ جیسے ممالک اور یہاں تک کہ ہرمیٹیج میوزیم میں تقریباً ایک ملین بیرون ملک موجودہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوری طور پر قدم یہ ہونا چاہیے کہ ڈیجیٹائزڈ کاپیوں کی شناخت کی جائے، فہرست بنائی جائے اور انہیں محفوظ کیا جائے، تاکہ ان کے پاس موجود علم کے وسیع خزانے کا مطالعہ کیا جا سکے، محفوظ کیا جا سکے اور بالآخر ہندوستان  واپس لایا جا سکے۔
مینو اسکرپٹولوجی اور پیلیوگرافی سروے، دستاویزات، میٹا ڈیٹا، ڈیجیٹائزیشن ٹولز، پلیٹ فارمز اور پروٹوکول (ایچ ٹی آر، اےآئی،ایچ آئی آئی ایف) معیارات اور ڈیجیٹل آرکائیونگ؛ مخطوطات کے ورثہ کا تحفظ: قومی اور بین الاقوامی تناظر؛ مخطوطات کا تحفظ اور بحالی جیسے موضوعات پر دن بھر کئی سیشن منعقد ہوئے۔ان سیشنز میں پروفیسر رمیش کمار پانڈے، سابق وائس چانسلر، شری لال بہادر شاستری نیشنل سنسکرت یونیورسٹی؛ پروفیسر سچن چترویدی، وائس چانسلر، نالندہ یونیورسٹی؛ پروفیسر بہاری لال شرما، وائس چانسلر، سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی، اتر پردیش؛ ڈاکٹر پدما سبرامنیم، ٹرسٹی،آئی جی این سی اے، کئی دیگر معزز مقررین اور اسکالرز سمیت ممتاز شخصیات موجود تھیں۔ افتتاحی سیشن کے اختتام پر جناب سمر نندا کی طرف سے رسمی کلمات تشکر پیش کیے گئے۔
*****
 
ش ح –ک ح۔ م ش
UR No. 5920
                
                
                
                
                
                (Release ID: 2165931)
                Visitor Counter : 8