وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
azadi ka amrit mahotsav

ہندوستانی سمندری ماہی گیری پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

Posted On: 20 AUG 2025 1:53PM by PIB Delhi

ماہی پروری، مویشی پروری اور دودھ کی صنعت کے وزیر مملکت جناب جارج کورین نے 20 اگست 2025 کو راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ ہندوستان کی سمندری ماہی گیری کی پیداوار2020-21 میں34.76 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2023-24 میں 44.95 لاکھ ٹن ہوگئی ہے جس کی سالانہ اوسط شرح نمو 8.9 فیصد ہے۔آی سی اے آر سینٹرل میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی ایم ایف آر آئی)کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ہندوستانی بحری حدود میں میرین فشریز اسٹاک اسسمنٹ اسٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسٹاک بہتر پوزیشن میں ہے اور 2022 کے دوران مختلف علاقوں میں 135 مچھلیوں کے ذخیرے کا 91.1 فیصد معمول کے مطابق پایا گیا۔ اس کے علاوہ حکومت ہند کے انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آی سی اے آر)کے زیراہتمام ماہی گیری کے تحقیقی ادارے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لینے اور پائیدار ماہی گیری اور آبی زراعت کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق حکمت عملی تیار کرنے کے لیے باقاعدگی سے سائنسی مطالعہ کرتے ہیں۔ نیشنل انوویشنز ان کلائمیٹ ریزیلینٹ ایگریکلچر (این آئی سی آر اے) کے ذریعہ کی جانے والی ریسرچ میں آسام، مغربی بنگال، بہار، اڈیشہ اور کیرالہ میں گیلی زمین کی ماہی گیری کے خطرے کا جائزہ شامل ہے۔ بڑے دریا کے کنارے آباد علاقہ میں آب و ہوا کے رجحان کا تجزیہ اور فش کیچ، مچھلی کی انواع اور پیداوار پر اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سمندری ماہی گیری کے شعبے میں تحقیق میں موسمیاتی تبدیلی کی ماڈلنگ، فش کیچ اور میری کلچر کی پیداوار کا تخمینہ، خطرے اور کمزوری کا اندازہ، ویٹ لینڈ میپنگ، کاربن فوٹ پرنٹ اور بلیو کاربن ممکنہ مطالعہ، سمندرکے کھارے پن کے اثرات، جانداروں کے ردعمل کا تجزیہ اور ماحولیاتی ہم آہنگی کے اقدامات شامل ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی روشنی میں ماہی گیروں کی کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے اوڈیشہ، آسام، مغربی بنگال اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں بیداری مہم اور صلاحیت سازی کے پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔

پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی)، جو ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کے تعاون سے نافذ کی گئی ہے، پائیدار ماہی گیری کے طریقوں، ماحول دوست آبی زراعت کے طریقوں، مضبوط انفراسٹرکچر اور سمندری ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو فروغ دیتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے موافقت اور تخفیف میں نمایاں طور پر مدد کرتی ہے۔ ماحولیاتی بحالی کی اہم کوششوں میں ساحلی پانیوں میں مصنوعی چٹانوں کا قیام اور مقامی مچھلیوں کے ذخیرے کی بحالی اور آبی ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے سمندری کھیتی اور دریائی کھیتی کے پروگراموں کا نفاذ شامل ہے۔ ان اقدامات کا مقصد حیاتیاتی تنوع کی حفاظت، پیداواری صلاحیت کو بڑھانا اور ماہی گیری کی کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانا ہے۔ مزید، پی ایم ایم ایس وائی  کے تحت، محکمہ نے تمام ساحلی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ساحل کے قریب واقع 100 موجودہ کوسٹل فشرمین ولیجز (سی ایف ویز) کو موسمیاتی تبدیلی ساحل کے اطراف آباد علاقے (سی ایف ویز) کے طور پر تیار کرنے اور انہیں معاشی طور پر قابل عمل ماہی گیری گاؤں بنانے کے لیے ایک تبدیلی کی پہل شروع کی ہے۔ اس کے تحت متعلقہ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تعاون سے رہنما خطوط کی بنیاد پر 100 گاؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس جزو کے تحت، سرگرمیوں کو مقامی ضروریات کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ فرق کے تجزیہ کے مطالعے کی بنیاد پر ماھولیات کے مواقف حالات پیدا کئے جا سکیں۔ر سی ایف وی کی ترقی پی ایم ایم ایس وائی کا ایک مرکزی سیکٹر اسکیم ہے جس کی فی ماہی گیری گاؤں یونٹ کی لاگت 200 لاکھ روپئے ہے۔   اور مرکزی حکومت اسکے (100فیصد)  کاخراجات برداشت کرتی ہے۔

پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا، محکمہ ماہی پروری، حکومت ہند کی طرف سے ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ کے تعاون سے لاگو کیا گیا ہے، معیاری مچھلی کی پیداوار، مچھلیوں کی اقسام کے تنوع، برآمد پر مبنی مچھلیوں کی پیداوار کے فروغ، برانڈنگ، معیاری کاری اور سرٹیفیکیشن کے لیے مدد فراہم کرکے ماہی گیری کے معیاری  انتظام کے طریقوں کو فروغ دیتا ہے۔ اس اسکیم میں کٹائی کے بعد کے بنیادی ڈھانچے کی تخلیق پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس میں بلاتعطل کولڈ چین کو یقینی بنایا جائے اور جدید ماہی گیری کے بندرگاہوں اور فش لینڈنگ سینٹرز کی ترقی، معیار کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے جہازوں اور فارموں میں ماہی گیری کے صاف انتظام کے طریقوں سے متعلق شراکت داروں کو تربیت اور آگاہی فراہم کی جائے۔ پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا کے تحت، 58 ماہی گیری کے بندرگاہوں اور فش لینڈنگ سینٹروں کو کل 20 کروڑ روپے کی لاگت سے منظور کیا گیا ہے۔جس میں3281.31 کروڑ روپے موجودہ ماہی گیری کے بندرگاہوں کی جدید کاری اور اپ گریڈیشن کے لیے مختص ہیں۔ اس کے علاوہ 734 آئس پلانٹس/ کولڈ اسٹوریج، 192 فش ریٹیل مارکیٹس، 21 جدید ہول سیل فش مارکیٹس، 6410 فش کیوسک بشمول آرنمینٹل کیوسک اور 134 ویلیو ایڈڈ انٹرپرائز یونٹس کی تعمیر کے لیے 1568.11 کروڑ روپے منظور کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، محکمہ ماہی پروری، حکومت ہند نے 27,297 یونٹس کی بھی منظوری دی ہے جو فصل کے بعد مچھلی کی نقل و حمل کی سہولیات جیسے کہ ریفریجریٹڈ (375) اور انسولیٹڈ ٹرک (1407)، زندہ مچھلی فروخت کرنے والے مراکز (1265)، آٹو رکشا (3915)، موٹر سائیکل (10924 بائیسکل اور 10924) لاگت 835.27 کروڑ روپے۔ اس کے علاوہ، ساگر متروں کو ساحلی دیہاتوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ ماہی گیروں کو حفظان صحت کے کاموں، ذاتی حفظان صحت اور ماہی گیری کے پائیدار طریقوں سے آگاہ کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ، میرین پراڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم پی ای ڈی اے) نے اپنے نیٹ ورک فار فش کوالٹی مینجمنٹ اینڈ سسٹین ایبل فشنگ (این ای ٹی ایف آئی ایس) کے ذریعے اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ تال میل میں، معمولی ماہی گیروں کے لیے ماہی گیری کے معیاری انتظام اور  پیداوارکے بعد کے طریقوں پر وسیع بیداری اور تربیتی پروگرام شروع کیے ہیں۔ایم پی ای ڈی اے کی رپورٹ کے مطابق، 2007 سے اب تک 45,500 سے زیادہ پروگرام منعقد کیے گئے ہیں، جس سے تمام سمندری ریاستوں میں تقریباً 15 لاکھ متعلقین کو فائدہ پہنچا ہے اور اس کے نتیجے میں پیداوار کے بعد ہونے والے نقصانات میں کمی، سمندری غذا کے معیار میں بہتری، ماہی گیروں کی آمدنی میں اضافہ اور ہندوستانی سمندری برآمدات  میں مسابقت کو تقویت ملی ہے۔

*******

ش ح۔ ع و ۔اش ق

U.NO. 4966


(Release ID: 2158362)
Read this release in: English , Hindi , Bengali , Tamil