ارضیاتی سائنس کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ نے بھارت کے پہلے دو ایکواناٹس، کمانڈر جتندر پال سنگھ اور جناب راجو رمیش کو خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے سمندر کی تہہ میں5000 میٹر گہرائی تک کامیاب غوطہ لگایا


ہندوستان نصف درجن سے بھی کم ممالک کے ایک ایلیٹ کلب میں شامل ہو گیا ہے جس نے سمندر میں اتنی گہرائی میں جانے کا کارنامہ انجام دیا ہے: ارضیاتی سائنس کے وزیر

ڈاکٹر جتندر سنگھ کا کہنا ہے کہ سمندر اور خلائی وسائل بھارت کی مستقبل کی اقتصادی ترقی کو نئی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کریں گے

این آئی او ٹی کی پانچ رکنی ٹیم نے ہند-فرانسیسی تحقیقی تعاون کے تحت فرانسیسی آبدوز ’ناٹائل‘ کے غوطہ خوری مشن میں حصہ لیا

Posted On: 14 AUG 2025 6:52PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) برائے سائنس و ٹیکنالوجی، وزیر مملکت  برائے وزیر اعظم کے دفتر، عملہ، عوامی شکایات، پنشنز، ایٹمی توانائی اور خلائی امور، ڈاکٹر جتندر سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ 5 اور 6 اگست 2025 کو دو بھارتی ایکواناٹس نے بحرِ اوقیانوس (ایٹلانٹک اوشین) میں بالترتیب 4,025 میٹر اور 5,002 میٹر گہرائی تک کامیاب غوطہ لگا کر مشن  سرانجام دیے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت نے اتنی گہرائی تک سمندر میں کامیاب غوطہ خوری کا کارنامہ انجام دیا ہے، جو ملک کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔

بھارتی ایکواناٹس — جناب راجو رمیش (سینئر سائنسدان) اور کمانڈر جتندر پال سنگھ (ریٹائرڈ) — نے تقریباً سات گھنٹوں پر مشتمل اپنے پہلے مشن میں کامیابی سے غوطہ لگایا۔انہوں نے اس دوران قیمتی مشاہدات اور تجربات حاصل کیے، اور مکمل حفاظت کے ساتھ سطحِ آب پر واپس آئے۔

میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتندر سنگھ نے کہا کہ بھارت اب اُن چند ممتاز ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے سمندر کی اتنی گہرائی تک کامیاب مشن سرانجام دیا ہے — ایسے ممالک کی تعداد آدھے درجن سے بھی کم ہے۔یہ مہم بحرِ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں فرانس کے سمندری تحقیقاتی ادارے آئی ایف آر ای ایم ای آرکے ساتھ ایک مشترکہ سائنسی سرگرمی کے طور پر انجام دی گئی، جس میں آئی ایف آر ای ایم ای آر کی آبدوز نوٹائل  استعمال کی گئی۔یہ تاریخی غوطہ بھارت کے "سمدریان مشن" کی ابتدائی سرگرمیوں کا پیش خیمہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ سال 2027 تک متسیہ -  6000 نامی ملک میں تیار کردہ آبدوز کے ذریعے تین ایکواناٹس کو 6,000 میٹر گہرائی تک بھیجا جائے۔

سمدریان، حکومتِ ہند کے فلیگ شپ منصوبے ڈیپ اوشن مشن کا ایک اہم حصہ ہے، جسے سمندر کی گہرائیوں میں موجود وسائل کو دریافت کرنے اور پائیدار طریقے سے استعمال میں لانے کے مقصد سے شروع کیا گیا ہے۔ڈاکٹر جتندر سنگھ نے کمانڈر جتندر پال سنگھ کی کامیابی پر ذاتی فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’یہ میرے لیے ذاتی فخر کا لمحہ ہے کہ میرے پڑوس، جموں، سے تعلق رکھنے والے ایک بیٹے نے بھارت کے لیے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔‘‘

ڈاکٹر جتندر سنگھ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ یہ کامیابی محض چار ہفتے بعد حاصل ہوئی ہے جب بھارتی خلا باز شبھانشو شکلا نے اے ایکس آئی او ایم4 مشن کے تحت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) تک کامیاب سفر کیا اور بخیریت واپس لوٹے۔انہوں نے کہا،’’اب جب کہ بھارتی شہری پہلی بار کامیابی سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اور سمندر کی گہرائیوں تک پہنچ چکے ہیں، تو ہم نے دنیا کے سامنے اپنی سائنسی صلاحیت، حوصلے اور عزم کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ یہ کامیابیاں وزیر اعظم نریندر مودی کے ویژن کے مطابق ‘وِکست بھارت’کی جانب ہماری پیش قدمی کا ثبوت ہیں۔‘‘

مرکزی وزیر برائے ارضیاتی سائنس  ڈاکٹر جتندر سنگھ نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’ڈیپ اوشن مشن‘‘  کو بھرپور سرپرستی اور ترجیح دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم نے اس مشن کا خصوصی طور پر ذکر 2021 اور 2023 میں لال قلعے کی فصیل سے یومِ آزادی کے خطابات میں کیا تھا۔ڈاکٹر سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ سمندر اور خلاء، بھارت کی مستقبل کی معاشی ترقی کے دو مضبوط ستون ہوں گے اور یہ دونوں شعبے بھارت کو دنیا کی نمایاں ترین معیشت بنانے کے خواب کی تعبیر میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ ان دونوں مشنز  یعنی خلائی اور سمندری میں بھارت کو بین الاقوامی تعاون کی پیشکش ہوئی ہے اور اب ہم دنیا کو مستقبل کے مشنز میں شراکت داری کی دعوت دے رہے ہیں۔ بھارت اب صرف پیروکار نہیں بلکہ رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے۔

ڈاکٹر جتندر سنگھ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بھارت کے پاس 11,098 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور ایک وسیع خصوصی اقتصادی زون  موجود ہے، جو سمندری حیاتیاتی اور غیر حیاتیاتی وسائل کے لحاظ سے بے پناہ امکانات کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسا قدرتی وسائل ہے جو دنیا کے کسی اور ملک کے پاس اس پیمانے پر موجود نہیں ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ان غیر دریافت شدہ وسائل کو تلاش کرنے اور استعمال میں لانے کے لیے مربوط کوششیں کی جائیں، تاکہ معیشت میں مزید قدر کا اضافہ کیا جا سکے، خاص طور پر بلیو اکانومی  کے فروغ کے ذریعے۔ڈاکٹر سنگھ نے مزید بتایا کہ بھارت نے پہلے ہی انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت بھارت کو سمندر کی گہرائیوں میں4,000 سے 5,500 میٹر تک معدنی وسائل کی تلاش کی اجازت دی گئی ہے۔

بھارت کے دونوں ایکواناٹس کا تعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشین ٹیکنالوجی (این آئی او ٹی ) ، چنئی سے ہے، جو وزارتِ ارضیاتی سائنس کے تحت کام کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کو بھارت کی پہلی انسانی آبدوز ایم اے ٹی ایس وائی اے-6000 تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس آبدوز کی تیاری کے بعد، بھارت دنیا کا چھٹا ملک بن جائے گا جس نے اپنی گہرے سمندر میں جانے والی انسانی آبدوز خود تیار کی ہے۔

ایم اے ٹی ایس وائی اے-6000، جو اپنی نوعیت کی پہلی چوتھی نسل کی سائنسی آبدوز ہے، کو 12 گھنٹے کی معمول کی آپریشنل برداشت اور 96 گھنٹے تک کی ایمرجنسی برداشت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔اس میں جدید ترین نظام شامل ہیں، جن میں:ہائی ڈینسٹی لیتھیم-پولیمر  لی –پو بیٹری، زیرِ آب صوتی ٹیلیفون، ایمرجنسی کے وقت وزن کم کر کے بچاؤ کے نظام (ڈراپ ویٹ ایمرجنسی اسکیپ میکنزم) عملے کی حفاظت اور صحت کی نگرانی کے لیے بایو ویسٹ  شامل ہیں۔

ایم اے ٹی ایس وائی اے-6000 نے جنوری-فروری 2025 میں ایل اینڈ ٹی شپ یارڈ ، کٹوپلی ، تمل ناڈو میں کامیاب ویٹ ٹرائلز مکمل کیے اور توقع ہے کہ 2026 تک 500 میٹر اتھلے پانی کی آزمائش کی جائے گی ۔

این آئی او ٹی کی پانچ رکنی ٹیم، جس میں جناب پلانی اپن، ڈاکٹر ڈی ستیانارائنن اور جناب جی ہری کرشنن شامل تھے، جس کی قیادت جی اور متسیہ-6000 گروپ  کے سربراہ سائنسدان  ڈاکٹر رامیش سیتو رمن کر رہے تھے، 3 اگست 2025 کو پرتگال کے لشبون کے قریب آئی ایف آر ای ایم ای آر کے تحقیقی جہازایل ایٹلانٹک پر سوار ہوئی۔

ارضیاتی سائنس کی وزارت کے سکریٹری ڈاکٹر ایم روی چندرن نے اس مہم سے قیمتی معلومات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیم نے کئی اہم آپریشنز میں وسیع عملی تجربہ حاصل کیا۔ ان میں غوطہ خوری سے پہلے کی تیاری اور پائلٹنگ آپریشن، اترنے اور چڑھنے کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی اور فلوٹیشن کی صلاحیتوں کے انتظام؛ جھنڈا لگانے اور نمونے جمع کرنے جیسے آلات کا استعمال کرتے ہوئے مداخلت کی کارروائیاں؛ چار غوطے کے دوران تعیناتی اور بحالی؛ جہاز سے رفتار ٹریکنگ؛ جہاز پر معاون نظاموں کا انتظام؛ صوتی ٹیلی فون مواصلات پروٹوکول کے آپریشن؛ نیز غوطہ خوری کی منصوبہ بندی، طرز عمل اور دیگر ضروری آپریشنل طریقہ کار شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ این آئی او ٹی کے عملے کو حاصل ہونے والے تجربات براہِ راست متسیہ- 6000 کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے اور انہوں نے منصوبے کے اہم سنگِ میل درج کیے جن میں شامل ہیں:

  • ٹائٹینیم ہل ، سنٹیکٹک فوم، وی بی ایس ، اور ڈراپ ویٹ میکانزم کا ادراک اور جانچ
  • ذیلی نظاموں اور سرٹیفیکیشن کی کھلے سمندر میں جانچ
  • 2026 کے اوائل تک 500 میٹر تک کم پانی کا مظاہرہ
  • ایل اے آر ایس کے ساتھ تحقیقی جہاز میں اضافہ
  • 1927 کے وسط تک انضمام اور گہرے پانی کے ٹیسٹ
  • 28-2027 کے دوران متسیہ-6000 کا استعمال کرتے ہوئے سائنسی تحقیقات

انہوں نے گہرے سمندر کے مشن کے وسیع مقاصد کا بھی اعادہ کیا ، جن میں گہرے سمندر میں کان کنی اور انسانی آب و ہوا کی ترقی کے ساتھ ساتھ سمندری آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق مشاورتی خدمات شامل ہیں ۔

ماضی میں سی ایس آئی آر-این آئی او کے ہندوستانی سائنسدانوں نے 1997 اور 2002 میں بالترتیب آلون (یو ایس اے) اور نوٹائل (فرانس) میں 3800 میٹر اور 2800 میٹر تک غوطہ لگایا تھا ۔  موجودہ مہم ہندوستان کی گہرے سمندر کی صلاحیتوں کے لیے ایک ریکارڈ توڑنے والا سنگ میل ہے ۔

پروفیسر بالاجی رام کرشنن ، ڈائریکٹر ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشین ٹیکنالوجی (این آئی او ٹی) ڈاکٹر ایم وی رمنا مورتی ، مشن ڈائریکٹر ، ڈیپ اوشین مشن  اور این آئی او ٹی اور ارضیاتی سائنس کی وزارت کے دیگر سینئر سائنسدان بھی میڈیا سے بات چیت کے لیے موجود تھے ۔

PC-1.jpg

PC-3.jpg

PC-2.jpg

****

ش ح۔ش ت۔ ش ت

U NO: 4804


(Release ID: 2157399) Visitor Counter : 15