وزارتِ تعلیم
وائس چانسلرز ہندوستان کی فکری تقدیر کے مشعل راہ ہیں: ڈاکٹر سکنتا مجمدار
دو روزہ مباحثے این ای پی 2020 کے ساتھ اسٹریٹجک صف بندی، پیر لرننگ اور نالج ایکسچینج اور فارورڈ پلاننگ اور تیاری پر مرکوز تھے
نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے "پنچ سنکلپ" اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے رہنما اصول ہوں گے
مرکزی یونیورسٹیاں وکست بھارت کے لیے حکمت عملی پیپر تیار کریں گی
کیواڈیا میں مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی دو روزہ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی
Posted On:
11 JUL 2025 2:59PM by PIB Delhi
وزارتِ تعلیم نے 10 تا 11 جولائی 2025 کو کیواڈیا، گجرات میں مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی دو روزہ کانفرنس کامیابی سے منعقد کی۔ اس اہم اجلاس میں معزز مرکزی وزیر تعلیم جناب دھرمیندر پردھان، معزز وزیر مملکت برائے تعلیم ڈاکٹر سکنتا مجمدار، وزارتِ تعلیم کے اعلیٰ حکام اور مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے شرکت کی۔

ڈاکٹر سکنتا مجمدار نے اختتامی اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ سردار پٹیل اتحاد، نظم و ضبط اور تعلیم کی تبدیلی کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ یہی ان کا وژن تھا جو ہماری قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی بنیاد بنا ، ایک بصیرت افروز اور مستقبل شناس اصلاح، جس کا مقصد ہندوستانی تعلیم کو روایتی اقدار سے جڑے رہتے ہوئے عالمی سطح پر مسابقتی بنانا ہے۔
وزیر موصوف نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ خواتین کا اندراج 2014-15 میں 1.57 کروڑ سے بڑھ کر 2020-22 میں 2.07 کروڑ ہو گیا، جو کہ 32 فیصد کا اضافہ ہے۔قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مجمدار نے کہا کہ تعلیم میں ٹیکنالوجی کے انضمام کو سوایم جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے تیز کیا گیا ہے۔ 295 سے زائد جامعات نے سوایم کورسز کے ذریعے 40 فیصد تک تعلیمی کریڈٹس کی اجازت دی ہے، اور یہ پلیٹ فارم اب سالانہ تقریباً 9 لاکھ سرٹیفکیٹس جاری کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے کثیر لسانیت کو فروغ دیا ہے، کیونکہ جے ای ای، این ای ای ٹی (نیٹ) اور سی یو ای ٹی جیسے اہم داخلہ امتحانات 13 علاقائی زبانوں میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت کی گئی پالیسی اصلاحات کی بدولت بھارت نے قیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2026 میں اپنی تاریخ کی بہترین کارکردگی پیش کی، جہاں کل 54 بھارتی اداروں کو درجہ بندی حاصل ہوئی ، جو کہ 2015 کے مقابلے میں پانچ گنا اضافہ ہے۔اکیڈمک بینک آف کریڈٹس، جو طالب علم مرکز تعلیم کا بنیادی ستون ہے، میں اب تک 2.75 کروڑ سے زائد طلبہ رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، اور اس میں 1667 اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل ہیں، جن میں متعدد مرکزی جامعات بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر سکنتا مجمدار نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عزت مآب وزیر اعظم کی بصیرت افروز قیادت نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 کو ممکن بنایا ، جو محض ایک اصلاح نہیں بلکہ ہندوستانی تعلیم میں ایک نئی بیداری (نشاۃ ثانیہ) ہے، جس نے ہر سیکھنے والے کو اس قابل بنایا کہ وہ عالمی سطح پر سوچ سکے اور ساتھ ہی ہندوستان کی تہذیبی اقدار سے بھی جڑا رہے۔
عزت مآب وزیر موصوف نے وائس چانسلرز سے اپیل کی کہ وہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کلیدی اقدامات کریں، جن میں تمام شعبوں میں اس پالیسی کے نفاذ کو تیز کرنا، جامعات کے اندر تحقیق اور اختراع کے نظام کو مضبوط بنانا، صنعتوں اور اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا، اور مساوات و امتیاز (ایکسلینس) کو بیک وقت مقصد بنا کر آگے بڑھانا شامل ہیں۔

اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سکریٹری (اعلیٰ تعلیم)، ڈاکٹر وینیت جوشی نے دو روزہ کانفرنس سے حاصل ہونے والے اہم نکات اور توقعات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اعلیٰ تعلیمی کوالیفیکیشن فریم ورک (این ایچ ای کیو ایف)، قومی کریڈٹ فریم ورک (این سی آر ایف) اور چار سالہ انڈرگریجویٹ پروگرام کا نفاذ صرف پالیسی کی ترجیح نہیں بلکہ ایک ساختی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی سوچ سمجھ کر مگر بغیر کسی تاخیر کے ادارہ جاتی سطح پر نافذ کی جانی چاہیے۔ہمیں اپنے طلبہ کو مستقبل کے کام کے لیے تیار کرنا ہوگا تاکہ ہمارے نصاب، تدریسی طریقہ کار اور انٹرنشپ حقیقی دنیا کی مہارتوں کی ضروریات کے مطابق ہوں۔ سوایم اور آپار جیسے پلیٹ فارمز کو تدریس و تعلم کے نظام میں شامل کرنا ضروری ہے۔ کریڈٹ ٹرانسفر، مخلوط تعلیم اور ڈیجیٹل شمولیت اب تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہیں، نہ کہ اضافی سہولیات۔جامعات کے انتظام کو تیز، ڈیٹا پر مبنی اور شہری مرکز بنایا جانا چاہیے۔ سامرتھ جیسے اوزار اس تبدیلی کے محرک ہیں اور میں توقع کرتا ہوں کہ آپ ان کے اپنانے میں فعال قیادت کا مظاہرہ کریں گے۔ہمارا اعلیٰ تعلیمی نظام مساوات اور شمولیت کے جذبے کی عکاسی کرے۔ داخلہ سے لے کر فیکلٹی کی تنوع اور کیمپس کے ماحول تک، شمولیت کو شرکت کے مواقع اور فراہم کردہ سہولیات کے حوالے سے قابل پیمائش اور نمایاں ہونا چاہیے۔

سکریٹری (اعلیٰ تعلیم) نے مزید کہا کہ بھارتی نظامِ علم اور بھارتی زبانیں محض ثقافتی ورثے نہیں بلکہ علمی قوت اور شناخت کے ذرائع ہیں۔ ان کا انضمام فعال طلبہ کی شرکت کے ذریعے ثقافتی طور پر مالامال ماحول میں حکمت عملی اور معنی خیز انداز میں ہونا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی کتب خانوں کو بھارتی نظامِ علم کے وسائل سے مالا مال کریں، علمی کلبز قائم کریں، زبان کی لیبارٹریز اور جدت کے لیے انکیوبیشن سینٹرز قائم کریں۔
یہ فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی جامعات ترقی یافتہ بھارت 2047 کے لیے حکمت عملی بنانے کے سلسلے میں آگے کے لائحہ عمل پر غور کے لیے الگ الگ حکمت عملی دستاویزات تیار کریں گی۔ حکمت عملی میں شامل کیے جانے والے کلیدی موضوعات میں مختلف مضامین کا کثیر الشعبہ انضمام، بھارتی نظامِ علم کو مرکزی دھارے میں لانا، مہارت اور مہارتوں کی بہتری کے لیے ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم کی حکمت عملی تیار کرنا، جدت پر مبنی کیمپس اقدامات اور روایتی اقدار کے ساتھ ٹیکنالوجی کے انضمام کو فروغ دینا شامل ہوں گے۔ نیز وائس چانسلرز جیسی کانفرنسز کو ہر یونیورسٹی کے کیمپس میں منعقد کیا جانا چاہیے۔
کانفرنس کا ایک اہم حصہ وائس چانسلرز کے ساتھ مباحثہ تھا، جس میں انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی دو ہزار بیس کے کلیدی ستونوں — رسائی، مساوات، معیار، استطاعت اور جوابدہی — پر غور کیا، خاص طور پر ادارہ جاتی حکمرانی، علمی جدت، ڈیجیٹل تعلیم، تحقیقی عمدگی، اور عالمی رابطہ کاری کے حوالے سے۔ یہ مباحثے ان کے ذاتی تجربات اور اپنی جامعات میں پالیسی اصلاحات کے نفاذ سے حاصل شدہ بصیرتوں پر مبنی تھے۔
کانفرنس کے پہلے دن میں مباحثے قومی تعلیمی پالیسی دو ہزار بیس کے تحت متوقع بنیادی ساختی اور تعلیمی اصلاحات کے گرد مرکوز تھے۔ قومی اعلیٰ تعلیمی کوالیفیکیشن فریم ورک اور قومی کریڈٹ فریم ورک کے نفاذ اور چار سالہ انڈرگریجویٹ پروگرام پر منعقدہ اجلاس میں لچکدار، کثیر الشعبہ تعلیم اور تعلیمی نقل و حرکت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔مستقبل کے کام کے موضوع پر بات چیت میں یونیورسٹیوں کے نصاب کو ابھرتے ہوئے عالمی پیشوں اور تکنیکی ترقیات کے مطابق ترتیب دینے پر زور دیا گیا تاکہ صنعت سے متعلقہ مہارتوں اور روزگار کے مواقع کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈیجیٹل تعلیم کے اجلاس میں سویام، سویام پلس اور آپار جیسے اقدامات کو لچکدار تعلیم کے راستے، کثیر لسانی ای-مواد اور کریڈٹ کی منتقلی کے اہم اوزار کے طور پر زیر بحث لایا گیا۔سامرتھ ای گورننس سسٹم کے اجلاس میں یونیورسٹیوں کے نظام میں ڈیجیٹل انضمام کی اہمیت اور شفافیت کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مساوات کے فروغ کے حوالے سے بحث میں علاقائی اور سماجی ثقافتی تفاوت کو ختم کرنے کی ضرورت پر بات ہوئی، جبکہ بھارتی زبانوں اور بھارتی نظامِ علم پر منعقدہ اجلاس میں مرکزی جامعات کی طرف سے دیسی زبانوں اور علم کے نظام کو اعلیٰ تعلیم کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی صلاحیت اور قومی تعلیمی پالیسی دو ہزار بیس کے انقلابی وژن کے مطابق اس عمل کی رہنمائی پر غور کیا گیا۔
دوسرے دن کے اجلاسوں میں توجہ جدت، معیار کی ضمانت، عالمی شراکت داری اور صلاحیت سازی جیسے اہم شعبوں پر مرکوز رہی، جو قومی تعلیمی پالیسی دو ہزار بیس کے اس وژن کی تکمیل میں معاون ہیں جس کا مقصد بھارت کو دو ہزار سینتالیس تک عالمی علمی طاقت بنانا ہے۔
تحقیق اور جدت پر مبنی اجلاس میں انو سندھان قومی تحقیقی فاؤنڈیشن، سینٹرز آف ایکسی لینس، اور وزیر اعظم ریسرچ فیلوشپ جیسے اقدامات پر گفتگو کی گئی۔ اجلاس کا محور ادارہ جاتی تحقیقی ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنانا اور بین الشعبہ جاتی تحقیق کو فروغ دینا تھا۔رینکنگ اور منظوری کے نظام پر منعقدہ اجلاس میں اداروں کے معیار، شفافیت اور عالمی سطح پر مقام بہتر بنانے کے لیے این آئی آر ایف اور این اے اے سی جیسے فریم ورکس کے تحت حکمت عملیوں پر بات چیت ہوئی۔بین الاقوامیت سے متعلق اجلاس میں اسٹڈی ان انڈیا پروگرام اور غیر ملکی اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھارت میں کیمپس قائم کرنے کی اجازت سے متعلق قوانین پر غور کیا گیا، جس سے بھارت کے ایک ترجیحی عالمی تعلیمی مرکز بننے کے عزم کی توثیق ہوئی۔آخر میں اساتذہ کی ترقی پر منعقدہ اجلاس میں مالویہ مشن ٹیچر ٹریننگ پروگرام کے کردار پر روشنی ڈالی گئی، جس کا مقصد اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں سے آراستہ کرنا اور ان کی پیشہ ورانہ ترقی کو مسلسل فروغ دینا ہے۔یہ تمام مباحثے مرکزی جامعات میں نظام جاتی تبدیلی کے عمل کو تیز کرنے اور آئندہ برسوں میں قومی تعلیمی پالیسی دو ہزار بیس کے مؤثر نفاذ کو آگے بڑھانے کی جانب اہم قدم ثابت ہوں گے۔
دو روزہ اجلاس میں ملک بھر کی مختلف اعلیٰ تعلیمی جامعات اور اداروں کی نمائندگی دیکھنے کو ملی، جن میں دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، وشو بھارتی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، آسام یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، نالندہ یونیورسٹی، تریپورہ یونیورسٹی، سنٹرل یونیورسٹی آف جھارکھنڈ، سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر، ہیم وتی نندن بہوگنا گڑھوال یونیورسٹی، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، ساؤتھ ایشین یونیورسٹی اور مرکزی(کیندریے) ہندی سنستھان شامل تھے، جنہوں نے بھارت کے تعلیمی نظام کی وسعت اور مضبوطی کو اجاگر کیا۔
یہ تقریب 10 جولائی کی صبح یوگا سیشن سے شروع ہوئی، جس نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے اس وژن کے مطابق ایک غور و فکر پر مبنی اور ہمہ جہت آغاز فراہم کیا، جو جسم، ذہن اور روح کے باہمی امتزاج کو تعلیمی تجربے کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔
----------
ش ح ۔ اس ک۔ن ع
U-2671
(Release ID: 2144027)