وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

انتیس جون2025 کو ’من کی بات‘ کی 123 ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 29 JUN 2025 11:40AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ’من کی بات‘ میں خوش آمدید۔۔۔ آپ سب کو سلام۔ اس وقت آپ سبھی کو یوگا کی توانائی اور ’بین الاقوامی یوم یوگا‘ کی یادوں سے بھرے ہوں گے۔ اس بار بھی 21 جون کو ملک اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے ’بین الاقوامی یوم یوگا‘ میں حصہ لیا۔ کیا آپ کو یاد ہے، یہ 10 سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اب، ان 10 برسوں میں، یہ تقریب ہر گزرتے سال کے ساتھ عظیم الشان ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اس کا بھی اشارہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں یوگا کو اپنا رہے ہیں۔ ہم نے اس بار ’یوگا ڈے‘ کی بہت سی پرکشش تصاویر دیکھی ہیں۔ وشاکھاپٹنم کے ساحل پر تین لاکھ لوگوں نے ایک ساتھ یوگا کیا۔ وشاکھاپٹنم سے ہی ایک اور حیرت انگیز منظر سامنے آیا۔۔۔ دو ہزار سے زیادہ آدیواسی طالب علموں نے 108 منٹ تک 108 سوریہ نمسکار کیے۔ تصور کریں کہ کتنا نظم و ضبط، کتنی لگن رہی ہوگی! ہمارے بحری جہازوں پر بھی یوگا کی ایک شاندار جھلک دیکھی گئی۔ تلنگانہ میں تین ہزار معذور ساتھیوں نے ایک ساتھ یوگا کیمپ میں حصہ لیا۔

انھوں نے دکھایا کہ کس طرح یوگا بااختیار بنانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دہلی کے لوگوں نے یوگا کو صاف یمنا کے عزم سے جوڑا اور یمنا کے کنارے یوگا کیا۔ جموں و کشمیر میں لوگوں نے چناب پل پر بھی یوگا کیا جو دنیا کا سب سے اونچا ریلوے پل ہے۔ ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں اور آئی ٹی بی پی کے جوان۔۔۔ وہاں بھی یوگا دیکھا گیا۔ ہمت اور سادھنا ساتھ ساتھ تھے۔ گجرات کے لوگوں نے بھی نئے سرے سے تاریخ رقم کی۔ وڈ نگر میں 2121 (اکیس سو اکیس) لوگوں نے مل کر بھوجنگاسنا کیا اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ یوگا کی تصاویر نیویارک، لندن، ٹوکیو، پیرس سے آئیں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں۔۔۔ اور ہر تصویر میں ایک چیز خاص تھی - امن، استحکام اور توازن۔

اس بار موضوع بھی بہت خاص تھا، ’ایک زمین کے لیے یوگا، ایک صحت‘۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی سمت ہے جو ہمیں ’وسودھیو کٹمبکم‘ کے جوہر کا احساس دلاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سال کے یوگا ڈے کی شان و شوکت یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یوگا اپنانے کی ترغیب دے گی۔

میرے پیارے ہم وطنو،

جب کوئی شخص زیارت پر جاتا ہے، تو سب سے پہلے ذہن میں یہ احساس آتا ہے، ’’چلو بلاوا آیا ہے۔۔۔‘‘ یعنی آئیے خدا کی پکار کے درمیان آگے بڑھتے ہیں۔۔۔ یہی احساس ہمارے مذہبی زیارتوں کی روح ہے۔ یہ زیارتیں جسم کو نظم و ضبط دینے، ذہن کو پاک کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ باہمی محبت اور بھائی چارہ، اور خدا کے ساتھ رابطہ قائم کرنا۔ ان کے علاوہ ان زیارتوں کا ایک اور بڑا پہلو بھی ہے۔ یہ مذہبی زیارتیں خدمت کے جذبے کے لیے مواقع کی ایک عظیم رسم بھی ہیں۔ جب کوئی زیارت ہوتی ہے تو حج کرنے والوں کی تعداد سے زیادہ لوگ زائرین کی خدمت میں مشغول ہوتے ہیں۔ بھنڈارے اور لنگر یعنی مفت کھانے کی تقسیم، مختلف مقامات پر لگائے گئے ہیں۔ لوگوں نے سڑک کے کنارے پینے کے پانی کے اسٹال لگائے۔ طبی کیمپوں اور سہولیات کا انتظام خدمت کے جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے خرچ پر یاتریوں کے لیے دھرم شالہ اور رہائش کا انتظام کرتے ہیں۔

ساتھیو،

ایک طویل عرصے کے بعد کیلاش مانسروور یاترا کا دوبارہ آغاز ہوا ہے۔ کیلاش مانسروور، یہ بھگوان شیو کا مسکن ہے۔ کیلاش کو ہر روایت میں عقیدے اور عقیدت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ چاہے وہ ہندو ہو، بودھ ہو یا جین۔

ساتھیو،

مقدس امرناتھ یاترا 3 تاریخ کو شروع ہونے جا رہی ہےrd جولائی کا مہینہ اور ساون کا مقدس مہینہ بھی چند دن دور ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم نے بھگوان جگن ناتھ جی کی رتھ یاترا بھی دیکھی ہے۔ اوڈیشہ ہو، گجرات ہو یا ملک کا کوئی اور کونا، لاکھوں عقیدت مند اس یاترا میں حصہ لیتے ہیں۔ شمال سے لے کر جنوب تک، مشرق سے مغرب تک، یہ یاترا ’ایک بھارت-شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کی عکاسی کرتی ہیں۔ جب ہم اپنے مذہبی سفر کا اختتام عقیدت، پوری لگن اور مکمل نظم و ضبط کے ساتھ کرتے ہیں تو ہمیں اس کے ثمرات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ میں یاترا پر جانے والے تمام خوش قسمت عقیدت مندوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں ان لوگوں کی بھی ستائش کرتا ہوں جو خدمت کے جذبے کے ساتھ ان یاتراوں کو کامیاب اور محفوظ بنانے میں مصروف ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

اب میں آپ کو ملک کی دو ایسی کامیابیوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جو آپ کو فخر کے جذبے سے معمور کر دیں گی۔ عالمی ادارے ان کامیابیوں پر بحث کر رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او یعنی ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ اور آئی ایل او یعنی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے ملک کی ان کامیابیوں کی ستائش کی ہے۔ پہلی کامیابی ہماری صحت سے متعلق ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے آنکھوں کی بیماری – ٹریکوما کے بارے میں ضرور سنا ہوگا۔ یہ انفیکشن بیکٹیریا کے ذریعے پھیلتا ہے۔

ایک وقت تھا جب یہ بیماری ملک کے کئی حصوں میں عام تھی۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ بیماری آہستہ آہستہ بینائی سے محرومی کا باعث بنتی تھی۔ ہم نے ٹریکوما کو اس کی جڑوں سے ختم کرنے کا عزم کیا۔ اور مجھے آپ کے ساتھ یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے بھارت کو ٹریکوما سے پاک قرار دیا ہے۔ بھارت اب ٹریکوما سے پاک ملک بن چکا ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس بیماری کا انتھک مقابلہ کیا۔ کسی وقفے کے بغیر۔ یہ کامیابی ہمارے ہیلتھ ورکرز کی ہے۔

اس لیے ’سوچھ بھارت ابھیان‘ نے بھی اسے ختم کرنے میں مدد کی۔ ’جل جیون مشن‘ نے بھی اس کامیابی میں بہت بڑا حصہ ڈالا۔ آج جب صاف پانی نل کے ذریعے ہر گھر تک پہنچ رہا ہے تو اس طرح کی بیماریوں کا خطرہ کم ہو گیا ہے۔ ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ ڈبلیو ایچ او نے بھی اس حقیقت کی تعریف کی ہے کہ اس بیماری سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے اس کی بنیادی وجوہات سے بھی چھٹکارا پا لیا ہے۔

ساتھیو،

اس وقت بھارت کی زیادہ تر آبادی کسی نہ کسی سماجی تحفظ کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور حال ہی میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن – آئی ایل او کی ایک بہت اہم رپورٹ سامنے آئی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بھارت کی 64 فیصد سے زیادہ (چونسٹھ فیصد) آبادی اب یقینی طور پر کسی نہ کسی سماجی تحفظ کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سوشل سیکورٹی دنیا میں سب سے بڑی کوریج میں سے ایک ہے۔ آج ملک کے تقریباً 95 کروڑ لوگوں کو کسی نہ کسی سماجی تحفظ کی اسکیموں کا فائدہ مل رہا ہے۔ جبکہ 2015 تک سرکاری اسکیمیں 25 کروڑ سے بھی کم لوگوں تک پہنچ رہی تھیں۔

ساتھیو،

بھارت میں صحت سے لے کر سماجی تحفظ تک، ملک ہر شعبے میں تسکین کے احساس کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ سماجی انصاف کی بھی ایک بڑی تصویر ہے۔ ان کامیابیوں نے یہ یقین پیدا کیا ہے کہ آنے والا وقت اور بھی بہتر ہوگا۔ بھارت ہر قدم پر مزید مضبوط ہوتا جائے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو،

عوام کی شرکت کی طاقت سے بڑے بحرانوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ میں آپ کے لیے ایک آڈیو چلاؤں گا ۔۔۔ اس آڈیو میں آپ کو اس بحران کی شدت کا اندازہ ہوگا۔ یہ بحران کتنا سنگین تھا۔۔۔ سب سے پہلے اسے سنیں ۔۔۔ اسے سمجھیں۔

آڈیو کلپ - مرارجی بھائی دیسائی

آخر دو سال تک جو ظلم ہوا، وہ ظلم پانچ سات سال پہلے شروع ہوا تھا۔ لیکن یہ گذشتہ 2 برسوں میں اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے، جب لوگوں پر ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا تھا۔ لوگوں سے آزادی کا حق چھین لیا گیا، اخبارات کو آزادی کے بغیر چھوڑ دیا گیا۔ عدالتوں کو مکمل طور پر بے اختیار بنا دیا گیا۔ اور جس طرح ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر من مانی حکمرانی جاری رہی، اس کا سراغ دنیا کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔

ساتھیو،

یہ ملک کے سابق وزیر اعظم جناب من مرارجی بھائی دیسائی کی آواز ہے۔ انھوں نے ایمرجنسی کے بارے میں مختصر لیکن بہت واضح انداز میں بات کی۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ دور کیسا تھا! جن لوگوں نے ایمرجنسی نافذ کی انھوں نے نہ صرف ہمارے آئین کا قتل کیا بلکہ عدلیہ کو اپنا غلام رکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ اس دوران لوگوں کو بڑے پیمانے پر اذیتیں دی گئیں۔ اس کی بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جنھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جارج فرنانڈیز صاحب زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

بہت سے لوگوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میسا کے تحت کسی کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ طالب علموں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ اظہار رائے کی آزادی کو بھی دبایا گیا۔ اس عرصے کے دوران گرفتار ہونے والے ہزاروں افراد کو اس طرح کے غیر انسانی مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہ بھارت کے لوگوں کی طاقت ہے۔۔۔ وہ جھکے نہیں تھے، ٹوٹے نہیں تھے اور جمہوریت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کیا تھا۔ آخر کار، بڑے پیمانے پر لوگ جیت گئے – ایمرجنسی ہٹا دی گئی اور ایمرجنسی نافذ کرنے والوں کو شکست ہوئی۔ بابو جگجیون رام جی نے اس سلسلے میں بہت مضبوط انداز میں اپنے خیالات پیش کیے تھے۔

آڈیو کلپ - بابو جگ جیون رام

بہنو اور بھائیو، پچھلا الیکشن نہیں تھا۔ یہ بھارت کے لوگوں کی ایک عظیم مہم تھی۔۔۔ اس وقت کے حالات کو تبدیل کرنے کے لیے ۔۔۔ آمریت کی لہر کو بدلنے اور بھارت میں جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے۔

اٹل جی نے اس وقت جو کچھ اپنے الگ انداز میں کہا تھا ہمیں اسے بھی سننا چاہیے۔

آڈیو کلپ - اٹل بہاری واجپائی

بہنو اور بھائیو، ملک میں جو کچھ بھی ہوا اسے محض الیکشن نہیں کہا جا سکتا۔ ایک پرامن انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ عوامی طاقت کی لہر نے جمہوریت کے قاتلوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔

ساتھیو،

ابھی چند دن پہلے ہی ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہوئے ہیں۔ ہم وطنوں نے ’سمودھن ہٹیا دیوس‘ منایا ہے۔ ہمیں ان سبھی لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے ایمرجنسی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہ ہمیں اپنے آئین کو مضبوط اور پائیدار رکھنے کے لیے مسلسل چوکس رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ایک تصویر کا تصور کریں۔ صبح کا سورج پہاڑوں کو چھو رہا ہے، روشنی آہستہ آہستہ میدانوں کی طرف بڑھ رہی ہے، اور اس روشنی کے ساتھ، فٹ بال سے محبت کرنے والوں کا ایک گروہ آگے بڑھ رہا ہے۔ سیٹی بجتی ہے اور چند لمحوں میں میدان تالیوں اور نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ ہر پاس، ہر ہدف کے ساتھ لوگوں کا جوش و خروش بڑھ تا جا رہا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ۔۔۔ یہ کتنی خوبصورت دنیا ہے؟

ساتھیو،

یہ تصویر آسام کے ایک بڑے علاقے بوڈو لینڈ کی حقیقت ہے۔ بوڈو لینڈ آج ملک میں ایک نئے چہرے، ایک نئی شناخت کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں جو توانائی اور اعتماد ہے، وہ سب سے زیادہ فٹ بال کے میدان میں نظر آتا ہے۔ بوڈو علاقائی علاقے میں بوڈو لینڈ سی ای ایم کپ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہ صرف ایک ٹورنامنٹ نہیں ہے۔ یہ اتحاد اور امید کا جشن بن گیا ہے۔ تین ہزار سات سو سے زیادہ ٹیمیں، تقریباً ستر ہزار کھلاڑی، اور یہاں تک کہ ان میں، ہماری بیٹی کی بڑی تعداد کی شرکت! یہ اعداد و شمار بوڈو لینڈ میں ایک بڑی تبدیلی کی کہانی بتاتے ہیں۔ بوڈولینڈ اب تیزی سے ملک کے کھیلوں کے نقشے پر اپنی چمک ڈال رہا ہے۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب جدوجہد ہی اس جگہ کی پہچان تھی۔ تب یہاں کے نوجوانوں کے لیے راستے محدود تھے۔ لیکن آج ان کی آنکھوں میں نئے خواب ہیں اور ان کے دلوں میں خود کفیلی کی ہمت ہے۔ یہاں سے تعلق رکھنے والے فٹ بال کھلاڑی اب اعلی سطح پر اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ ہالی چرن نرزاری، درگا بورو، اپوربا نرزاری، منبیر باسومتاری – یہ صرف فٹ بال کھلاڑیوں کے نام نہیں ہیں – یہ اس نئی نسل کی پہچان ہیں جس نے بوڈو لینڈ کو میدان سے قومی سطح تک پہنچایا۔

ان میں سے بہت سے محدود وسائل کے ساتھ پریکٹس کرتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے مشکل حالات میں اپنا راستہ بنایا، اور آج ملک کے بہت سے نوجوان بچے ان کے ناموں سے متاثر ہوکر اپنے خوابوں کی شروعات کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنی فٹنس اور تندرستی پر توجہ دینی ہوگی۔ ویسے ساتھیو، کیا آپ کو فٹنس کے لیے، موٹاپا کم کرنے کے لیے میری ایک تجویز یاد ہے! کھانے میں 10 فیصد تیل کم کریں، موٹاپا کم کریں۔ جب آپ فٹ ہوجائیں گے تو آپ زندگی میں زیادہ سپر ہٹ ہوں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

جس طرح ہمارا بھارت اپنے علاقائی، لسانی اور ثقافتی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح فنون لطیفہ، دستکاری اور ہنر مندی کا تنوع بھی ہمارے ملک کی ایک بڑی خوبی ہے۔ آپ جس بھی علاقے کا دورہ کریں گے ، آپ کو اس جگہ کی کچھ مقامی خصوصیات کے بارے میں معلوم ہوگا۔ ہم اکثر ’من کی بات‘ میں ملک کی ایسی انوکھی مصنوعات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مصنوعات میگھالیہ کی ایری سلک ہے۔ اسے کچھ دن پہلے جی آئی ٹیگ ملا ہے۔ ایری ریشم میگھالیہ کے لیے ایک ورثے کی طرح ہے۔ یہاں کے قبائل، خاص طور پر کھاسی برادری کے لوگوں نے اسے نسلوں سے محفوظ رکھا ہے اور اسے اپنی صلاحیتوں سے مالا مال بھی کیا ہے۔ اس ریشم کی بہت سی خصوصیات ہیں جو اسے دوسرے کپڑوں سے مختلف بناتی ہیں۔ اس کی سب سے خاص خصوصیت یہ ہے کہ اسے کس طرح بنایا گیا ہے۔ اس ریشم کو بنانے والے ریشم کے کیڑے اسے حاصل کرنے کے لیے نہیں مارے جاتے، اس لیے اسے اہمسا ریشم بھی کہا جاتا ہے۔

آج کل دنیا میں ایسی مصنوعات کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے جن میں تشدد شامل نہ ہو اور فطرت پر اس کا کوئی برا اثر نہ پڑے، اس لیے میگھالیہ کی ایری سلک عالمی مارکیٹ کے لیے بہترین پروڈکٹ ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ ریشم آپ کو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا رکھتا ہے۔ یہ معیار اسے زیادہ تر جگہوں کے لیے موزوں بناتا ہے۔ میگھالیہ کی خواتین اب سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے اس ورثے کو بڑے پیمانے پر آگے لے جا رہی ہیں۔ میں میگھالیہ کے عوام کو ایری سلک کو جی آئی ٹیگ ملنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آپ سبھی سے یہ بھی اپیل کروں گا کہ ایری سلک سے بنے کپڑوں کو آزمائیں۔۔۔ اور ہاں، آپ کو کھادی، ہینڈ لوم دستکاری، ووکل فار لوکل کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ اگر صارفین صرف بھارت میں تیار کردہ مصنوعات خریدتے ہیں اور تاجر صرف بھارت میں تیار کردہ مصنوعات فروخت کرتے ہیں، تو ’آتم نربھربھارت ابھیان‘ کو نئی توانائی ملے گی۔

میرے پیارے ہم وطنو،

’خواتین کی قیادت والی ترقی‘ کا منتر بھارت کے لیے ایک نیا مستقبل بنانے کے لیے تیار ہے۔ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں آج نہ صرف اپنے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک نئی سمت دے رہی ہیں۔ جب آپ کو تلنگانہ میں بھدراچلم کی خواتین کی کامیابی کے بارے میں پتہ چلے گا تو آپ کو بھی اچھا لگے گا۔ یہ عورتیں کبھی کھیتوں میں مزدورکے طور پر کام کرتی تھیں۔ وہ اپنے ذریعہ معاش کے لیے سارا دن سخت محنت کیا کرتے تھے۔

آج وہی عورتیں باجرے سے بسکٹ بنا رہی ہیں، یعنی شری انا۔ ’بھدردری باجرا میجک‘ نامی یہ بسکٹ حیدرآباد سے لندن تک پہنچ رہے ہیں۔ بھدراچلم کی ان خواتین نے ایک سیلف ہیلپ گروپ میں شمولیت اختیار کی اور تربیت حاصل کی۔

ساتھیو،

ان خواتین نے ایک اور قابل ستائش کام کیا ہے۔ انھوں نے ’گری سینٹری پیڈ‘ بنانا شروع کر دیا۔ صرف تین مہینوں میں، انھوں نے ۴0واں ہزار پیڈ تیار کیے اور انھیں اسکولوں اور آس پاس کے دفاتر تک پہنچایا – بھی بہت کم قیمت پر۔

ساتھیو،

کرناٹک کے کلبرگی کی خواتین کا کارنامہ بھی شاندار ہے۔ انھوں نے جوار روٹی کو ایک برانڈ بنا دیا ہے۔ انھوں نے جو کوآپریٹو بنایا ہے اس میں روزانہ تین ہزار سے زیادہ روٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ ان روٹیوں کی مہک اب گاؤں تک محدود نہیں ہے۔ بنگلورو میں ایک خصوصی کاؤنٹر کھولا گیا ہے۔ آن لائن فوڈ پلیٹ فارمز پر آرڈر آ رہے ہیں۔ کلبرگی روٹی اب بڑے شہروں کے باورچی خانوں تک پہنچ رہی ہے۔ اس کا ان خواتین پر بہت اثر پڑا ہے، ان کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔

ساتھیو،

مختلف ریاستوں کی ان کہانیوں کے مختلف چہرے ہیں۔ لیکن ان کی چمک ایک جیسی ہے۔ یہ خود اعتمادی، خود کفیلی کی چمک ہے۔ ایسا ہی ایک چہرہ مدھیہ پردیش کی سوما اوئیکے ہیں۔ سوما جی کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ انھوں نے بالاگھاٹ ضلع کے کٹنگی بلاک میں سیلف ہیلپ گروپ میں شامل ہوکر مشروم فارمنگ اور مویشی پروری کی تربیت حاصل کی۔ اس طرح اس نے اسے خود کفیلی کا راستہ تلاش کیا۔ جب سوما اوئیکے کی آمدنی میں اضافہ ہوا، تو انھوں نے اپنے کام کو بھی بڑھایا۔ ایک چھوٹی سی کوشش سے شروع ہونے والا یہ سفر اب ’دیدی کینٹین‘ اور ’تھرمل تھراپی سینٹر‘ تک پہنچ گیا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ایسی بے شمار خواتین اپنی اور ملک کی تقدیر بدل رہی ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

گذشتہ چند دنوں کے دوران ویتنام کے بہت سے لوگوں نے مجھے مختلف ذرائع سے اپنے پیغامات بھیجے۔ ان پیغامات کی ہر سطر میں احترام اور میل جول تھا۔ ان کے جذبات دل کو چھو لینے والے تھے۔ وہ بھگوان بدھ کے مقدس آثار کے درشن کو ممکن بنانے کے لیے بھارت کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ میں جذبات کسی بھی رسمی شکریہ سے کہیں زیادہ تھے۔

ساتھیو،

اصل میں بھگوان بدھ کے یہ مقدس آثار آندھرا پردیش کے پالناڈو ضلع کے ناگرجناکونڈا میں دریافت ہوئے تھے۔ اس جگہ کا بدھ مت سے گہرا تعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں سری لنکا اور چین سمیت دور دراز علاقوں سے لوگ اس جگہ پر آتے تھے۔

ساتھیو،

پچھلے مہینے بھگوان بدھ کے ان مقدس آثار کو بھارت سے ویتنام لے جایا گیا تھا۔ انھیں وہاں 9 مختلف مقامات پر عوامی درشن کے لیے رکھا گیا تھا۔ ایک طرح سے بھارت کا یہ اقدام ویتنام کے لیے ایک قومی تہوار بن گیا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ویتنام میں، جس کی آبادی تقریباً 10 کروڑ ہے، ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگوں نے بھگوان بدھ کے مقدس آثار کے درشن کیے۔ سوشل میڈیا پر میں نے جو تصاویر اور ویڈیوز دیکھی ہیں ان سے مجھے احساس ہوا کہ عقیدت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ بارش ہو یا تپتی دھوپ، لوگ گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہے۔ بچے، بوڑھے، معذور افراد، سبھی مغلوب تھے۔ ویتنام کے صدر، نائب وزیر اعظم، سینئر وزراء، سبھی نے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس زیارت کے لیے وہاں کے لوگوں میں احترام کا احساس اتنا گہرا تھا کہ ویتنامی حکومت نے اسے مزید 12 دن کے لیے بڑھانے کی درخواست کی اور بھارت نے اسے خوشی سے قبول کرلیا۔

ساتھیو،

بھگوان بدھ کے افکار میں ممالک، ثقافتوں اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی طاقت ہے۔ اس سے پہلے بھگوان بدھ کے مقدس آثار کو تھائی لینڈ اور منگولیا لے جایا گیا تھا اور وہاں بھی احترام کا یہی احساس محسوس کیا گیا تھا۔ میں آپ سبھی سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی ریاست میں بدھ مت کے مقامات کا دورہ ضرور کریں۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے ثقافتی ورثے سے جڑنے کا ایک شاندار موقع بھی ہوگا۔

میرے پیارے ہم وطنو،

اس مہینے ہم سب نے ’عالمی یوم ماحولیات‘ منایا۔ مجھے آپ کے ہزاروں پیغامات موصول ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے مجھے ان ساتھیوں کے بارے میں بتایا جو ماحول کو بچانے کے لیے اکیلے نکلے تھے اور پھر پورا معاشرہ ان میں شامل ہوگیا۔ ہر ایک کا یہ تعاون ہماری زمین کے لیے ایک بڑی طاقت بن رہا ہے۔ پونے کے جناب رمیش کھرمالے۔۔۔ اس کے کام کے بارے میں جاننا آپ کو بہت متاثر کرے گا۔ ہفتہ کے آخر میں جب لوگ آرام کرتے ہیں، تو رمیش جی اور ان کی فیملی کلہاڑی اور کودال لے کر نکل تے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ کہاں جانا ہے؟ جنار کی پہاڑیوں کی طرف۔ دھوپ ہو یا اونچی چڑھائی، ان کی چڑھائی رکتی نہیں ہے۔ وہ جھاڑیوں کو صاف کرتے ہیں، پانی کو برقرار رکھنے کے لیے خندقیں کھودتے ہیں اور بیج بوتے ہیں۔ انھوں نے صرف دو ماہ میں 70 خندقیں کھودیں۔

رمیش جی نے کئی چھوٹے تالاب بنائے ہیں، سینکڑوں درخت لگائے ہیں۔ وہ آکسیجن پارک بھی بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں پرندے واپس آنے لگے ہیں، جنگلی حیات کو ایک نئی سانس مل رہی ہے۔

ساتھیو،

گجرات کے احمد آباد شہر میں ماحولیات کے لیے ایک اور خوبصورت اقدام دیکھا گیا ہے۔ یہاں میونسپل کارپوریشن نے ’مشن فار ملین ٹریز‘ مہم شروع کی ہے۔ اس کا ہدف لاکھوں درخت لگانا ہے۔ اس مہم کا ایک خاص پہلو ’سندور وان‘ ہے۔ یہ جنگل آپریشن سندور کے بہادروں کے لیے وقف ہے۔ ان بہادر لوگوں کی یاد میں سندور کے پودے لگائے جا رہے ہیں جنہوں نے ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے۔ یہاں، ایک اور مہم کو ایک نئی تحریک دی جا رہی ہے – ’ایک پیڈ ما کے نام‘۔ اس مہم کے تحت ملک میں کروڑوں درخت لگائے گئے ہیں۔ آپ کو بھی اپنے گاؤں یا شہر میں چل رہی ایسی مہمات میں حصہ لینا چاہیے۔ درخت لگائیں، پانی بچائیں، زمین کی خدمت کریں، کیونکہ جب ہم فطرت کو بچاتے ہیں تو ہم دراصل اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

ساتھیو،

مہاراشٹر کے ایک گاؤں نے بھی ایک عظیم مثال قائم کی ہے۔ ’پٹوڈا‘ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع کی ایک گرام پنچایت ہے۔ یہ کاربن نیوٹرل گاؤں کی پنچایت ہے۔ اس گاؤں میں، کوئی بھی اپنے گھر کے باہر کچرا نہیں پھینکتا ہے۔ ہر گھر سے کچرا جمع کرنے کا ایک مکمل نظام ہے۔ یہاں گندے پانی کا بھی علاج کیا جاتا ہے۔ صاف کیے بغیر ندی میں پانی نہیں جاتا۔ یہاں گائے کے گوبر کے کیک سے آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں اور اس راکھ سے مرنے والے کے نام پر ایک درخت لگایا جاتا ہے۔ اس گاؤں میں صفائی ستھرائی بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ جب چھوٹی عادات اجتماعی عزم بن جاتی ہیں تو ایک بڑی تبدیلی یقینی ہوتی ہے۔

میرے پیارے ساتھیو،

اس وقت سب کی نظریں بین الاقوامی خلائی مرکز پر بھی ہیں۔ بھارت نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ کل میں نے گروپ کیپٹن شوبھانشو شکلا سے بھی بات کی ہے۔ آپ نے شوبھانشو کے ساتھ میری بات چیت بھی سنی ہوگی۔ شوبھانشو کو ابھی کچھ اور دن بین الاقوامی خلائی مرکز میں رہنا ہے۔ ہم اس مشن کے بارے میں مزید بات کریں گے، لیکن ’من کی بات‘ کی اگلی قسط میں۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس قسط میں آپ کو الوداع کہا جائے۔ لیکن ساتھیو، جانے سے پہلے میں آپ کو ایک خاص دن کی یاد دلانا چاہتا ہوں۔ یکم جولائی کو، پرسوں، ہم دو انتہائی اہم پیشوں – ڈاکٹروں اور سی اے – کا احترام کرتے ہیں۔ یہ دونوں ہی معاشرے کے ایسے ستون ہیں، جو ہماری زندگی وں کو بہتر بناتے ہیں۔ ڈاکٹر ہماری صحت کے محافظ ہیں اور سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) معاشی زندگی کے رہنما ہیں۔ تمام ڈاکٹروں اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کو میری نیک خواہشات۔

ساتھیو،

میں ہمیشہ آپ کی تجاویز کا انتظار کرتا ہوں۔ ’من کی بات‘ کی اگلی قسط آپ کے مشوروں سے مالا مال ہوگی۔ ہم اپنے ہم وطنوں کے نئے خیالات، نئی تحریکوں اور نئی کامیابیوں کے ساتھ دوبارہ ملیں گے۔ آپ کا بہت شکریہ، نمسکار۔

***

(ش ح – ع ا)

U. No. 2253


(Release ID: 2140576)