وزارات ثقافت
azadi ka amrit mahotsav

راج کپورکے سو سال : صرف شو مین ہی نہیں بلکہ تہذیب کا آئینہ دار


آئی جی این سی اے نے صد سالہ جشن 2025 کے تحت  ْشبدانجلی:راج کپور-دی آئیڈیا آف شو مین شپ’ کا انعقادکیا

Posted On: 02 JUN 2025 9:25PM by PIB Delhi

ْْْراج کپور نے نوجوان نسل کے دلوں میں ایک جذبہ جگایا، ْبوبی اور ’میرا نام جوکر’ جیسی فلموں کوپسندیدگی کے جنون میں بدل دیا۔ اگر آپ نے کبھی چپکے سے سنیما میں داخل ہو کر فلم نہیں دیکھی، یا ٹکٹ کے لیے کچھ پیسے ْادھار’ نہیں لیے تو آپ نے سنیما کے جادو کو سچ میں محسوس ہی نہیں کیا۔ راج کپور صرف فلمیں نہیں بناتے تھےانھوں نے میٹھی بغاوتوں کو متاثر کیا، اور ہم ان یادوں کو فخر سے سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ْ ڈاکٹر سچیدانند جوشی، رکن سیکریٹری، آئی جی این سی اے نے راج کپور صد سالہ جشن 2025 کی ایک جذباتی اور فکری طور پر بھرپور شام کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔

یہ پروگرام ْریسپیکٹ انڈیا، دہلیْ کے زیر اہتمام منعقد ہوا، جس کا عنوان تھا ْشبدانجلی:راج کپور -دی آئیڈیا آف شو مین شپ ’۔اس موقع پر بھارت کے سب سے ممتاز فلمی کہانی گو راج کپور کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک سال پر محیط قومی مہم کا باضابطہ آغاز بھی کیا گیا۔

انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، نئی دہلی میں منعقدہ اس شام کی صدارت جناب بی پی سنگھ، سابق گورنر سکم نے کی، جبکہ معزز مہمان کی حیثیت سے جناب منوج تیواری، رکن پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ مہمانانِ اعزازی میں پدم شری ڈاکٹر یش گلاٹی، معروف آرتھوپیڈک سرجن، اور معروف اداکارجناب مکیش تیاگی شامل تھے۔ کلیدی خطاب محترمہ نیروپما کوٹرو، آئی آر ایس اور ایڈیشنل سیکرٹری، وزارتِ ثقافت، حکومتِ ہند نے پیش کیا، جبکہ اس شام کا آغاز ڈاکٹر نرمل گہلوت، صدر، ریسپیکٹ انڈیا کی جانب سے پرتپاک خیرمقدم کے ساتھ ہوا۔

راج کپور صرف ایک عظیم فنکار نہیں تھے بلکہ، جیسا کہ ڈاکٹر جوشی نے مشاہدہ کیا، ْایک نوجوان اور ترقی پذیر بھارت کے لیے ایک اخلاقی آئینہ’’ تھے۔ ان کی فلمیں محض بصری تماشے نہیں تھیں بلکہ گہرے ثقافتی متون تھیں جو ایک نوآزاد قوم کے جذباتی اور اخلاقی مسائل سے جڑی ہوئی تھیں۔ جب بھارت نوآبادیاتی تسلط کے سائے سے باہر نکل رہا تھا، تو کپور نے ایک ایسی فلمی زبان فراہم کی جو اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں قوم کے لیے ایک ذریعہ بنی۔ ڈاکٹر جوشی نے زور دے کر کہا، "جب بھارت کو آزادی ملی، تو کپور نے فلمی صنعت کے سنبھلنے کا انتظار نہیں کیا۔ صرف تین برسوں میں، انہوں نے ہمیں ‘آگ’، ‘برسات’ اور ‘آوارہ’ جیسی فلمیں دیں ۔ایسی تخلیقات جو جذباتی گہرائی سے لبریز تھیں، جبکہ فلمی زبان ابھی تشکیل پا رہی تھی۔’ان کا سنیما تفریح اور شعور کے درمیان حدیں مٹا دیتا تھا، اور قوم کی اجتماعی نفسیات کو تشکیل دیتا تھا۔

اپنے کلیدی خطاب میں، محترمہ نیروپما کوٹرو نے کپور کی فلموں کی گہری سماجی معنویت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ یہ ان کا کمال تھا کہْْ ْ انہوں نے اپنے ابتدائی دنوں میں بطور اسسٹنٹ بھی اتنی گہری اور عکاس فلمیں بنائیں۔ ْبوٹ پالش’، ْجاگتے رہو’ اور ْباورے’ جیسی فلمیں اُن کی ان گمنام اور محروم طبقات کے لیے ہمدردی کو ظاہر کرتی ہیں۔کپور کی کہانی سنانے کی طاقت صرف سنیما گھروں تک محدود نہیں تھی۔ محترمہ کوٹرو نے یاد کرتے ہوئے کہاکہْْ ْ ان کی کہانیوں کا اثر ایسا تھا کہ 1970 کی دہائی میں بھارت کے ڈاکو، ان کی فلموں میں دکھائے گئے نجات کے سفر سے متاثر ہو کر ہتھیار ڈالنے لگے۔’’

ایک ذاتی واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ْ ْ ْ ْایک بھارتی ڈاکٹر نے افریقہ میں ایک مریض کا آپریشن کیا۔ جب مریض کو پتا چلا کہ ڈاکٹر بھارت سے ہے، تو وہ خوشی سے چہک اٹھا اور بولا: ‘راج کپور کا بھارت!’ یہ تھی وہ گہری چھاپ جو انہوں نے دنیا کے ذہنوں پر چھوڑی۔’’

شام کی صدارت کرتے ہوئے جناب بی۔ پی۔ سنگھ نے کپور کی اس نایاب صلاحیت کی تعریف کی کہ وہ عوامی سینما کے ذریعے اخلاقی گہرائی کو اجاگر کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کپور نے فن کے ذریعے ایک اخلاقی سمت فراہم کی۔ جناب منوج تیواری نے انہیں ’’ ایک نسل کا فلمی ضمیر’’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کپور کی میراث ان کی محبت، وقار اور سماجی انصاف کی مسلسل تلاش میں مضمرہے۔ ڈاکٹر یش گلاٹی اور جناب مکیش تیاگی نے ذاتی طور پر خراجِ تحسین پیش کیا اور کپور کے سینما میں پائے جانے والے انسان دوستی کے دیرپا پہلو کو اجاگر کیا۔ اپنے استقبالیہ خطاب میں ڈاکٹر نرمل گہلوت نے کہاکہ’’یہ صد سالہ تقریبات ایک قومی لمحۂ تشکر ہیں، ایک ایسے فنکار کے لیے جس نے بھارت کو پردۂ سیمیں پر ایک روح عطا کی۔’’

راج کپور کی صد سالہ تقریبات 2025 تک جاری رہیں گی، جن میں لیکچرز، فلمی جائزے، ثقافتی پروگرامز اور نمائشیں بھارت بھر میں اور بین الاقوامی سطح پر منعقد کی جائیں گی۔ ریسپیکٹ انڈیا کا مقصد نئی نسلوں کو راج کپور سے دوبارہ متعارف کرانا ہے ۔ نہ صرف ایک عظیم شہرت یافتہ فلم ساز کے طور پربلکہ ایک ایسے انسان دوست وژنری کے طور پر جنہوں نے تہذیب کے اخلاقی شعور سے بات کی۔ جیسا کہ ڈاکٹر جوشی نے جذبات سے لبریز انداز میں کہاکہ’’راج کپور صرف فلم ساز نہیں تھے، وہ سیلوائیڈ پر لکھی گئی ہندوستان کی جذباتی سوانح عمری تھے ۔’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح۔ ش آ۔ش ب ن)

U. No.1384


(Release ID: 2133451)