وزارت اطلاعات ونشریات
azadi ka amrit mahotsav

آپریشن سندور: دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں بھارت کی اسٹریٹجک حکمتِ عملی

Posted On: 14 MAY 2025 8:53PM by PIB Delhi

تعارف:

22 اپریل کو پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ پاکستان کی حمایت یافتہ حملہ آوروں نے ایک گاؤں پر دھاوا بولا، لوگوں سے ان کا مذہب پوچھا اور انہیں قتل کر دیا، جس کے نتیجے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ واضح طور پر فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکانے کی کوشش تھی، جو سرحد پار حملوں سے ہٹ کر بھارت کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے کی طرف ایک تبدیلی کو ظاہر کرتی تھی۔ جواب میں، بھارت نے حملے کے پیچھے دہشت گرد اڈوں کو تباہ کرنے کے لیے آپریشن سندور شروع کیا۔ لیکن پاکستان نے اور زور دار جواب دیا۔ اگلے ہفتے کے دوران، اس نے مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز اور گولہ باری کا استعمال کیا۔ جموں میں شمبھو مندر، پونچھ میں گرودوارہ، اور عیسائی گرجا پر حملے کیے گئے۔ یہ بے ترتیب حملے نہیں تھے۔ یہ بھارت کی یکجہتی کو توڑنے کے منصوبے کا حصہ تھے۔

آپریشن سندور کا مقصد:

  • دہشت گردی کے مرتکب افراد اور منصوبہ سازوں کو سزا دینے کے لیے تیار کیا گیا
  • سرحد پار دہشت گردی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا

انٹیلی جنس اور ہدف کا انتخاب:

  • دہشت گردی کے منظرنامے کا باریکی سے جائزہ لیا گیا
  •  متعدد دہشت گرد کیمپوں اور تربیتی مقامات کی نشاندہی کی گئی

کارروائی کے دوران اخلاقیات اور تحمل:

  • خود پر عائد کردہ تحمل کے تحت کام کیا تاکہ غیر ضروری نقصان سے بچا جا سکے
  • صرف دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنایا گیا، شہری نقصان سے گریز کیا گیا

7 مئی کو پہلی پریس بریفنگ کے دوران، بھارت نے اپنے ردعمل کو واضح طور پر مرکوز، نپا تلا اور اشتعال سے پرے قرار دیا۔ یہ خاص طور پر ذکر کیا گیا کہ پاکستانی فوجی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ یہ بھی دہرایا گیا کہ بھارت میں فوجی اہداف پر کسی بھی حملے کی صورت میں مناسب جواب دیا جائے گا۔ خارجہ سیکریٹری وکرم مسری نے 8، 9 اور 10 مئی کو متعدد پریس بریفنگز میں بھارت کے عملی منصوبے اور پاکستان کے مکمل عزائم کو واضح طور پر بیان کیا۔

بھارت کا جوابی اقدام: بھارت نے لاہور میں ریڈار تنصیبات اور گوجرانوالہ کے قریب ریڈار سہولیات پر جوابی حملے کرکے  تباہ کر دیا گیا۔

جنگ بندی: اس شدید نقصان کے نتیجے میں، پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے بھارتی ڈی جی ایم او سے رابطہ کیا اور دونوں نے اتفاق کیا کہ 10 مئی 2025 کو بھارتی معیاری وقت کے مطابق 1700 بجے سے دونوں فریق زمین، ہوا اور سمندر میں تمام فائرنگ اور فوجی کارروائیوں کو روک دیں گے۔

جنگ بندی کے بعد پاکستان کا ردعمل: جنگ بندی کے باوجود، یو اے ویز اور چھوٹے ڈرونز کی لہر نے بھارتی شہری اور فوجی علاقوں میں گھس پیٹھ کی۔ ان ڈرونز کو کامیابی سے روکا گیا۔

بھارتی مسلح افواج نے پاکستان کی اس دراندازی کا منہ توڑ جواب دیا۔ بھارتی مسلح افواج سرحد پار سے کسی بھی شرارت آمیز منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مسلسل تیاری اور چوکنا حالت میں ہیں۔

اس کے علاوہ، ڈیجیٹل دور میں ہونے کی وجہ سے، جنگ روایتی میدانوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، آن لائن ایک شدید معلوماتی جنگ بھی جاری ہے۔ آپریشن سندور کے آغاز کے بعد، بھارت کو پاکستان کی جانب سے شروع کی گئی ایک جارحانہ مہم کا نشانہ بنایا گیا، جو جھوٹ اور غلط معلومات سے بھری ہوئی تھی۔ اس کا مقصد سچ کو مسخ کرنا، عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا اور غلط معلومات کے طوفان کے ذریعے کھوئی ہوئی بیانیہ کی زمین دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم، بھارت نے حقائق، شفافیت اور مضبوط ڈیجیٹل چوکسی کے ساتھ غلط معلومات کو ختم کرنے کے لیے فعال طور پر جواب دیا ہے۔ جذباتی ردعمل دینے کے بجائے، معلوماتی جنگ کے لیے ایک پرسکون اور منظم انداز اپنایا گیا:

  • آپریشن کی کامیابی کو اجاگر کرنا: آپریشن سندور کی تاثیر کو درست طریقے سے بیان کیا گیا، جس میں واہ واہی کے بجائے اسٹریٹجک نتائج پر توجہ دی گئی۔
  • ذرائع کی ساکھ کو کم کرنا: بھارتی حکام نے پاکستان سے چلنے والے اکاؤنٹس کے ہیرا پھیری کے حربوں کو بے نقاب کیا، جن میں سے کئی اب بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانچ پڑتال کے تحت ہیں۔
  • میڈیا خواندگی کو فروغ دینا: جعلی خبروں کی شناخت کے بارے میں شہریوں کو آگاہ کرنے کی مہمات نے ایک زیادہ لچکدار ڈیجیٹل ماحول بنانے میں مدد کی ہے۔

پاکستان کو فوجی اور غیر فوجی ذرائع سے سزا دی گئی

آپریشن سندور بھارت کی فوجی اور اسٹریٹجک طاقت کا ایک اہم مظاہرہ ہے، جو فوجی اور غیر فوجی ذرائع کے امتزاج کے ذریعے انجام دیا گیا۔ اس کثیر جہتی آپریشن نے دہشت گردی کے خطرات کو مؤثر طریقے سے غیر فعال کیا، پاکستانی جارحیت کو روکا، اور دہشت گردی کے خلاف بھارت کی زیرو ٹالرنس پالیسی کو مضبوطی سے نافذ کیا۔ آپریشن نے اسٹریٹجک تحمل برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی حمایت بھی حاصل کی۔

 

 

غیر فوجی اقدامات اٹھائے گئے:

 

• بھارت کی غیر فوجی کوششوں نے اسٹریٹجک ماحول کو تشکیل دینے اور عوامی و بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسٹریٹجک پالیسی سازی، معلوماتی بالادستی، اور نفسیاتی آپریشنز کے ذریعے، بھارت نے سفارتی اور معاشی طور پر پاکستان کو تنہا کردیا جبکہ ملکی تیاریوں اور عالمی حمایت کو مضبوط کیا۔


• آپریشن سندور کے تحت ایک فیصلہ کن اقدام بھارت کی جانب سے سندھو آبی سمجھوتہ کی منسوخی تھی۔ 1960 کا سندھو آبی سمجھوتہ فوری طور پر معطل کر دیا جائے گا، جب تک کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کو قابل اعتماد اور ناقابل واپسی طور پر ترک نہیں کرتا۔ اس کے پاکستان پر دور رس نتائج ہیں، جو اپنی 1.6 کروڑ ہیکٹر زرعی زمین کے 80 فیصد اور کل پانی کے استعمال کے 93 فیصد کے لیے سندھو دریا کے نظام پر انحصار کرتا ہے۔ یہ نظام 237 ملین افراد کی مدد کرتا ہے اور گندم، چاول اور کپاس جیسی فصلوں کے ذریعے پاکستان کے جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ فراہم کرتا ہے۔


• منگلا اور تربیلا ڈیموں کی صرف 10 فیصد لائیو اسٹوریج کی گنجائش (14.4 ملین ایکر فٹ) کے ساتھ، پانی کے بہاؤ میں کسی بھی رکاوٹ سے زرعی نقصانات، خوراک کی قلت، بڑے شہروں میں پانی کی راشننگ، اور بجلی کی بندش ہو سکتی ہے۔ ٹیکسٹائل اور کھاد جیسی صنعتوں کے مفلوج ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ صدمات پاکستان کی پہلے سے کمزور معیشت کو شدید متاثر کریں گے، جس سے مالیاتی اور زرمبادلہ کے بحران پیدا ہوں گے۔


• بھارت کے لیے، سندھو آبی سمجھوتہ نے جموں و کشمیر میں طویل عرصے تک بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی، جو منصوبوں کو دریا کے بہاؤ ڈیزائن تک محدود کرتی تھی۔ سمجھوتہ کی معطلی نے بھارت کو جہلم اور چناب جیسے مغربی دریاؤں پر مکمل کنٹرول دیا، جس سے جموں و کشمیر، لداخ، پنجاب، اور ہریانہ میں نئے ذخائر کی تعمیر ممکن ہوئی۔ اس سے آبپاشی اور ہائیڈرو الیکٹرک بجلی پیدا کرنےمیں فروغ ملا اور ایک سفارتی آلے کو ترقیاتی اثاثے میں تبدیل کر دیا گیا۔ سمجھوتہ معطل کر کے، بھارت نے فیصلہ کن پیغام دیا کہ "خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔"


• بھارت نے اٹاری-واگھہ سرحد بند کر دی۔ انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ اٹاری کو فوری طور پر بند کر دیا گیا۔ جن لوگوں نے درست توثیق کے ساتھ سرحد پار کی تھی، انہیں 01 مئی 2025 سے پہلے اسی راستے سے واپس جانا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تمام دو طرفہ تجارت کو بھی معطل کر دیا۔ اس نے پیاز جیسے کلیدی سامان کی برآمدات روک دیں اور سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کی درآمدات پر پابندی لگا دی۔ اس اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی زمینی تجارتی راستے کو منقطع کر دیا، جس سے معاشی تعلقات میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوئی۔

• اس معطلی نے پاکستان پر فوری معاشی دباؤ ڈالا، جو پہلے ہی مہنگائی اور قرضوں کے بحران سے نبرد آزما تھا۔ ان معاشی لائف لائنوں کو کاٹ کر، براہ راست فوجی تصادم کو بڑھاوا دیے بغیر، بھارت نےدہشت گردی کو بالکل برداشت نہ کرنے کی اپنی پالیسی کو مزید مضبوط کیا۔

• دہشت گردی کے خلاف پختہ عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بھارت نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے فوراً بعد ملک میں مقیم تمامپاکستانیوں کے ویزے منسوخ کر دیے اور انہیں فوری طور پر ملک بدر کر دیا۔ پاکستانی شہریوں کو سارک ویزا ایگزیمپشن اسکیم (ایس وی ای ایس) ویزوں کے تحت بھارت میں سفر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پاکستانی فنکاروں پرمکمل پابندی عائد کی گئی، تمام پروگراموں، اسکریننگز، میوزک ریلیزز، اور ثقافتی تبادلوں کو معطل کر دیا گیا۔ یہ پابندی سٹریمنگ پلیٹ فارمز تک بڑھائی گئی، جس سے بھارت میں پاکستان کے ثقافتی اثر و رسوخ کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا۔

• عالمی سطح پر، بھارت نے پاکستان کے دہشت گردی کے ڈھانچے کو بے نقاب کیا اور اسے سفارتی طور پر تنہا کر دیا۔

• مجموعی طور پر، ان اقدامات نے پاکستان پر شدید معاشی اور سفارتی نقصان پہنچایا۔ ان سے پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ ہوا جبکہ دہشت گردی کے خلاف بھارت کی بالکل برداشت نہ کرنے کی پالیسی کو طاقتور طریقے سے ثابت کیا گیا۔

• نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفاعی/فوجی، بحریہ اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت  قرار دیا گیا۔ ہائی کمیشنز کی مجموعی تعداد کو موجودہ 55 سے کم کر کے 30 تک لایا جائے گا، جس کے لیے مزید کمی کی جائے گی۔

عالمی سطح پر قیادت کا مظاہرہ:

اس صورتحال کے نتیجے میں، قومی بحران کے ایک لمحے نے نہ صرف عزم بلکہ غیر معمولی قیادت کا تقاضا کیا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی سامنے آئے، جن کے آپریشن سندور میں فیصلہ کن کردار نے بھارت کے حالیہ تاریخ کے سب سے جرات مندانہ فوجی ردعمل کو نشان زد کیا۔ پہلے سے طے شدہ سفارتی دورے پر بیرون ملک ہونے کے باوجود، وزیر اعظم مودی نے فوری طور پر کمان سنبھالی اور ایک ایسا ردعمل ترتیب دیا جس میں اسٹریٹجک تحمل اور جارحانہ عمل کے درمیان توازن قائم تھا۔ انہوں نے فوری ردعمل کے شدید دباؤ کے باوجود غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ سندھو آبی سمجھوتے کی معطلی سے لے کر فوجی کارروائی تک ہر قدم اچھی طرح منصوبہ بند اور درست وقت پر ہو۔

آپریشن کے ڈھانچے میں اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور ہدف پر مبنی ردعمل کو واضح کیا گیا۔ جذباتی یا ردعمل پر مبنی حملے میں جلدی کرنے کے بجائے، وزیر اعظم مودی نے اسٹریٹجک غیر یقینی صورتحال پیدا کی تاکہ پاکستان یا اس کے دہشت گرد گروپوں کو جوابی کارروائی کے لیے تیاری کا موقع نہ ملے۔ حملے دہشت گردی کے ڈھانچے پر پوری طرح مرکوز تھے، اور اس مقصد کی وضاحت کو تمام سیاسی جماعتوں نے سراہا، جس میں حزب اختلاف کے رہنما پی چدمبرم بھی شامل تھے ، جنہوں نے وزیر اعظم مودی کی تعریف کی کہ انہوں نے مکمل شہری علاقوں سے گریز کرتے ہوئے صرف دہشت گردی کے بڑے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

• پاکستان کے ساتھ پیش رفت کے دوران، دہشت گردی کے خلاف مرکوز مقصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیر اعظم مودی ایک مضبوط اور واضح ردعمل دینے پر مرکوز رہے۔ دہشت گردی، جسے عالمی خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کے خلاف ان کی مسلسل کوششوں نے ہندوستان کو وسیع تر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی ۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے اس اصول کو مضبوطی سے قائم کیا کہ دہشت گردی اور اس کے اسپانسرز کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔

• ایک نپے تلے لیکن طاقتور ردعمل کے ساتھ، یہ یقینی بنایا گیا کہ پاکستان کی بار بار اشتعال انگیزیوں کے باوجود پاکستانی شہریوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بھارت کی فوجی کارروائیاں دہشت گرد کیمپوں اور دہشت گردی کی مدد کرنے والی مخصوص فوجی تنصیبات تک محدود رہیں۔ اس احتیاط سے ہدف بنانے نے بھارت کی صلاحیت اور ذمہ دارانہ جنگ کے عزم دونوں کو ظاہر کیا۔

طویل عرصے سے جاری خدشات کو دور کرتے ہوئے، وزیر اعظم مودی کا سندھو آبی سمجھوتہ کو معطل کرنے کا فیصلہ ایک تاریخی اقدام تھا، جس نے نہ صرف پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا بلکہ بھارت کو بھی فائدہ پہنچایا۔ انہوں نے ایک نئی قومی سلامتی کا نظریہ قائم کیا: مستقبل میں کوئی بھی دہشت گرد حملہ جنگی عمل کے طور پر سمجھا جائے گا۔ اس سے دہشت گردوں اور ان کے ریاستی سرپرستوں کے درمیان جھوٹا فرق ختم ہو گیا۔

12 مئی کی شام کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح کیا کہ ’آپریشن سندور ‘صرف ایک نام نہیں بلکہ ملک کے کروڑوں لوگوں کے جذبات کی عکاسی اور انصاف کے ایک اٹوٹ عہد کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم بھارت اور اس کے عوام کے تحفظ کے لیے مضبوط اقدامات اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ میدان جنگ میں ہم نے ہمیشہ پاکستان کو شکست دی ہے، اور اس بار آپریشن سندور نے ایک نئی جہت شامل کی ہے۔‘‘

وزیر اعظم نے پاکستان اور سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے درج ذیل نکات بیان کیے:

• پہلا، اگر بھارت پر کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔

• دوسرا، بھارت کسی نیوکلیائی بلیک میل کو برداشت نہیں کرے گا۔ بھارت نیوکلیائی بلیک میل کے پردے میں تیار ہونے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر درست اور فیصلہ کن حملے کرے گا۔

• تیسرا، ہم دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی حکومت اور دہشت گردی کے  سرغناؤں کے درمیان کوئی فرق نہیں کریں گے۔ ہم بھارت اور ہمارے شہریوں کو کسی بھی خطرے سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے۔

• بھارت کا مؤقف بالکل واضح ہے... دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے... دہشت گردی اور تجارت ایک ساتھ نہیں ہو سکتے... پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔

• اگر پاکستان کے ساتھ کوئی بات چیت ہوگی تو وہ صرف دہشت گردی پر ہوگی؛ اور اگر پاکستان کے ساتھ بات چیت ہوگی تو وہ صرف پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) پر ہوگی۔

آپریشن سندور نے کیا حاصل کیا؟

آپریشن سندور کے نتائج اس کے اثرات کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں:

                                      

 

 

  1. دہشت گردی کے نو کیمپ ختم: بھارت نے پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر  (پی او جے کے) میں نو بڑے دہشت گردی کے ٹھکانوں کو کامیابی سے تباہ کر دیا، جس میں لشکر طیبہ، جیش محمد، اور حزب المجاہدین کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک سو سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
  2. سرحد پار درست حملے: بھارت نے مقابلے کے قواعد کو نئے سرے سے متعین کیا، پاکستان کے دل یعنی پنجاب صوبے اور بہاولپور تک گہرے حملے کیے، جو کبھی امریکی ڈرونز کے لیے بھی ممنوعہ سمجھے جاتے تھے۔ بھارت نے واضح کیا: اگر دہشت گردی وہاں سے شروع ہوتی ہے تو نہ LoC اور نہ ہی پاکستانی سرزمین چھوڑی جائے گی۔
  3. نئی اسٹریٹجک سرخ لکیر: آپریشن سندور نے ایک نئی سرخ لکیر کھینچی- اگر دہشت گردی ریاستی پالیسی ہے، تو اس کا جواب واضح اور زبردست ہوگا۔ اس نے روک تھام سے براہ راست عمل کی طرف تبدیلی کو نشان زد کیا۔
  4. دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے لیے برابر سزا: بھارت نے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے درمیان مصنوعی تفریق کو مسترد کر دیا، دونوں کو بیک وقت نشانہ بنایا۔ اس سے پاکستان میں موجود کئی اداکاروں کی استثنیٰ ختم ہو گئی۔
  5. پاکستان کے فضائی دفاع کی کمزوریوں کا انکشاف: بھارتی فضائیہ نے پاکستان کے چینی ساختہ فضائی دفاعی نظام کو نظرانداز اور جام کیا، صرف 23 منٹ میں رافیل جیٹس، اسکلپ میزائلوں، اور ہیمر بموں کا استعمال کرتے ہوئے مشن مکمل کیا، جو بھارت کی تکنیکی برتری کو ظاہر کرتا ہے۔
  6. بھارت کی فضائی دفاعی برتری کا مظاہرہ: بھارت کے کثیر الجہتی فضائی دفاع، بشمول دیسی آکاشتیر نظام، نے سینکڑوں ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرایا۔ اس نے بھارت کی جدید دفاعی نظام برآمد کرنے کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا۔
  7. اشتعال کے بغیر درست حملے: بھارت نے شہری یا غیر دہشت گرد فوجی اہداف سے گریز کیا، دہشت گردی کو بالکل نہ برداشت کرنے کی پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورتحال کو مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا۔
  8. اہم دہشت گرد کمانڈروں کا خاتمہ: بھارت کی مطلوبہ فہرست میں شامل متعدد نمایاں دہشت گرد ایک ہی رات میں ہلاک کر دیے گئے، جس سے کلیدی آپریشنل ماڈیولز مفلوج ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے اہم اہداف میں یوسف اظہر، عبدالمالک روؤف، اور مدثر احمد شامل ہیں، جو آئی سی-814 ہائی جیکنگ اور پلوامہ دھماکے میںملوث تھے۔
  9. پاکستانی فوجی تنصیبات پر فضائی حملے: 9-10 مئی کو، بھارت ایک ایٹمی طاقت والے ملک کے 11فضائی ٹھکانوں پر ایک ہی آپریشن میں حملہ کرنے والا پہلا ملک بن گیا، جس نے پاکستان کی فضائیہ کے 20فیصد اثاثوں کو تباہ کر دیا۔ بھولاری ایئر بیس پر بھاری جانی نقصان ہوا، جس میں اسکواڈرن لیڈر عثمان یوسف کی موت اور اہم جنگی طیاروں کی تباہی شامل ہے۔
  10. تینوں افواج کا مربوط عمل: بھارتی فوج، بحریہ، اور فضائیہ نے مکمل ہم آہنگی سے کام کیا، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی مشترکہ فوجی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔
  11. عالمی پیغام: بھارت نے دنیا کو دکھایا کہ اسے اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اس نے اس خیال کو تقویت دی کہ دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈز کہیں بھی چھپ نہیں سکتے، اور اگر پاکستان جوابی کارروائی کرتا ہے، تو بھارت فیصلہ کن جوابی حملے کے لیے تیار ہے۔
  12. وسیع عالمی حمایت: پچھلے تنازعات کے برعکس، اس بار متعدد عالمی رہنماؤں نے بھارت کی حمایت کی، بجائے اس کے کہ تحمل کی اپیل کی جائے۔ اس تبدیلی نے بھارت کی بہتر عالمی حیثیت اور بیانیہ پر کنٹرول کو ظاہر کیا۔
  13. کشمیر بیانیہ کی نئی تشکیل: پہلی بار، بھارت کے اقدامات کو خالصتاً دہشت گردی کے خلاف نظریے سے دیکھا گیا، کشمیر کے معاملے کو حملوں کے بیانیہ سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا۔ یہ آپریشن سندور کی درستگی اور وضاحت کی وجہ سے ممکن ہوا۔

نتیجہ:

پہلگام حملے کے جواب میں بھارت کا ردعمل قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم تھا۔ تاریخ اسے ایک اصولی اور متوازن جوابی کارروائی کے طور پر یاد رکھے گی، جسے قیادت، اخلاقیات، اور اسٹریٹجک درستگی نے شکل دی۔ آپریشن سندور نے جنوبی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی اور اسٹریٹجک منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دیا ہے۔ یہ محض ایک فوجی مہم نہیں، بلکہ بھارت کی خودمختاری، عزم، اور عالمی حیثیت کا کثیر جہتی اعلان ہے۔ وزیراعظم مودی کی فیصلہ کن قیادت میں، بھارت نے ایک نیا نمونہ پیش کیا، جو تحمل کو طاقت کے ساتھ اور درستگی کو مقصد کے ساتھ ملاتا ہے۔ دہشت گرد نیٹ ورکس اور ان کے ریاستی سرپرستوں کو بے مثال وضاحت کے ساتھ نشانہ بنا کر، بھارت نے ایک واضح پیغام دیا: دہشت گردی کا مقابلہ سرحدوں یا سفارتی پیچیدگیوں سے قطع نظر، فوری اور متناسب جواب سے کیا جائے گا۔ سرحدوں پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن آپریشن سندور، جو بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی علامت ہے، جاری رہے گا۔ بھارت کی مسلح افواج ہر وقت تیار اور چوکنا رہتی ہیں تاکہ سرحد پار سے کسی بھی شرارت آمیز منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔

 

ش ح۔ م د، م  ص

Uno-795

 


(Release ID: 2128794)