وزارت خزانہ
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں بھارت کا مؤقف
Posted On:
09 MAY 2025 9:21PM by PIB Delhi
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے آج توسیع شدہ فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے لیے1ارب امریکی ڈالر کے قرض پروگرام کا جائزہ لیا اور ساتھ ہی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) کے تحت 1.3 ارب امریکی ڈالر کے نئے قرض پروگرام پر بھی غور کیا۔
ایک فعال اور ذمے دار رکن ملک کے طور پر، بھارت نے پاکستان کے معاملے میں آئی ایم ایف پروگراموں کی مؤثریت پر خدشات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر پاکستان کے خراب ریکارڈ اور قرض رقومات کے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی سرحد پار دہشت گردی میں ممکنہ غلط استعمال کے خدشات کے حوالے سے۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سےا ٓئی ایم ایف کا مستقل قرض لینے والا ملک رہا ہے، مگر اس کا عمل درآمد اور پروگرام کی شرائط کی پابندی کا ریکارڈ نہایت خراب رہا ہے۔ 1989 سے گزشتہ 35 برسوں میں پاکستان نے 28 سال میں آئی ایم ایف سے فنڈ حاصل کیے۔ صرف گزشتہ 5 برس (2019 تا 2024) میں پاکستان نے 4 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض پروگرام حاصل کیے۔ اگر پچھلے پروگراموں کے تحت کوئی مضبوط معاشی پالیسی ماحول قائم ہوا ہوتا، تو پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف سے مدد مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بھارت نے واضح کیا کہ ایسا ریکارڈ اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ آیا آئی ایم ایف پروگرام کی ساخت مؤثر ہے، یا ان کی نگرانی ناکافی ہے، یا پھر پاکستان خود عمل درآمد میں ناکام رہا ہے۔
پاکستانی فوج کی معیشت میں گہری مداخلت، پالیسی میں بگاڑ اور اصلاحات کی واپسی کے شدید خطرات پیدا کرتی ہے۔ گرچہ اس وقت ایک سول حکومت برسر اقتدار ہے، تاہم فوج ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور معیشت میں بھی اس کی جڑیں گہری ہیں۔ درحقیقت، اقوام متحدہ کی (2021) کی ایک رپورٹ نے فوج سے منسلک کاروباری اداروں کو پاکستان کا ’’سب سے بڑا کاروباری گروپ‘‘ قرار دیا تھا۔ صورتِ حال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہے، کیونکہ اب پاکستان آرمی براہ راست اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔
بھارت نے آئی ایم ایف کی رپورٹ ’’آئی ایم ایف وسائل کے لمبے استعمال کا جائزہ‘‘کے پاکستان سے متعلق باب کی نشاندہی کی۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو دیے جانے والے آئی ایم ایف قرضوں میں سیاسی عوامل کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بار بار دیے گئے بیل آؤٹ پیکجز کے نتیجے میں پاکستان کا قرض بوجھ بہت زیادہ ہو چکا ہے، جس کے باعث وہ آئی ایم ایف کے لیے ایک ’’ناکامی کا متحمل نہ ہونے والا قرض دار‘‘ بن چکا ہے۔
بھارت نے نشاندہی کی کہ سرحد پار دہشت گردی کی مسلسل سرپرستی کو انعام دینا عالمی برادری کو ایک خطرناک پیغام دیتا ہے، جس سے مالی امداد فراہم کرنے والے ادارے اور ڈونر ممالک بدنامی کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں اور یہ عمل عالمی اقدار کا مذاق اڑاتا ہے۔ بھارت کی یہ تشویش ، کئی رکن ممالک میں گونجی، کہ آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل ہونے والے قابلِ منتقلی فنڈز کو فوجی اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم آئی ایم ایف کا ردعمل، طریقہ کار اور تکنیکی ضوابط کی بندش کی وجہ سے محدود رہا۔ یہ ایک سنگین خلاء کی نشاندہی کرتا ہے، جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے طریقہ کار میں اخلاقی اقدار کو مناسب اہمیت دینا ضروری ہے۔
آئی ایم ایف نے بھارت کے بیانات اور ووٹنگ میں اس کی غیر حاضری کا نوٹس لیا ہے ۔
******
ش ح۔ ش ا ر۔ ول
Uno-709
(Release ID: 2128041)