وزیراعظم کا دفتر
پوڈ کاسٹ میں لیکس فریڈمین کے ساتھ وزیر اعظم کی گفتگو کا متن
Posted On:
16 MAR 2025 11:47PM by PIB Delhi
وزیر اعظم - میری جو طاقت ہے ، وہ مودی نہیں، بلکہ 140 کروڑ ہم وطنوں، ہزاروں سال کی عظیم ثقافت اور روایت ہے، یہی میری طاقت ہے۔ اس لیے میں جہاں بھی جاتا ہوں، مودی نہیں جاتا، میں ویدوں سے لے کر وویکانند تک ہزاروں سال کی عظیم روایت کو لے کر جاتا ہوں، 140 کروڑ لوگوں کے خواب، ان کی امنگوں کو لے کر جاتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ جب میں دنیا کے کسی بھی لیڈر سے ہاتھ ملاتا ہوں تو وہ مودی نہیں ہوتا جو ہاتھ ملاتا ہے، یہ 140 کروڑ لوگوں کا ہاتھ ہے۔ تو طاقت مودی کی نہیں، طاقت ہندوستان کی ہے۔ ہم جب بھی امن کی بات کرتے ہیں تو دنیا ہماری سنتی ہے۔ کیونکہ یہ مہاتما بدھ کی سرزمین ہے، یہ مہاتما گاندھی کی سرزمین ہے، دنیا ہماری سنتی ہے اور ہم تنازعات کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم ہم آہنگی کے حق میں ہیں۔ نہ ہم فطرت سے تصادم چاہتے ہیں اور نہ ہی قوموں کے درمیان اختلافات چاہتے ہیں، ہم وہ لوگ ہیں جو ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ اور اگر ہم اس میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو ہم نے اسے ادا کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ میری زندگی انتہائی غربت سے شروع ہوئی۔ لیکن ہم نے کبھی غربت کا بوجھ محسوس نہیں کیا، کیونکہ جو آدمی اچھے جوتے پہنتا ہے اور اگر اس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ سوچتا ہے کہ یہ ہے۔
اب ہم نے زندگی میں کبھی جوتے نہیں پہنے تھے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ جوتے پہننا بھی بڑی بات ہے۔ لہٰذا ہم کبھی موازنہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، ہم نے اپنی زندگی ایسی ہی گزاری ہے۔ میں نے وزیراعظم بننے کے بعد اپنی تقریب حلف برداری میں پاکستان کو خصوصی طور پر مدعو کیا تاکہ یہ ایک اچھی شروعات ہو۔ لیکن ہر بار ہر اچھی کوشش کا نتیجہ منفی نکلا۔ ہمیں امید ہے کہ انہیں یہ بات سمجھ میں آئے گی اور وہ خوشی اور امن کی راہ پر گامزن ہوں گے اور وہاں کے لوگ بھی ناخوش ہوں گے، میرا یہی یقین ہے۔ایسا میں مانتا ہوں ۔ دیکھیے، آپ نے جو کہا، تنقید اور آپ اس سے کیسے نمٹتے ہیں۔ لہذا اگر مجھے اسے ایک جملے میں رکھنا پڑا تو میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا یقین ہے کہ تنقید جمہوریت کی روح ہے۔ میں تمام نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا کہ زندگی میں رات چاہے کتنی ہی اندھیری کیوں نہ ہو، ابھی بھی رات ہے، صبح ضرور آئے گی۔
لیکس فریڈمین - اب آپ نریندر مودی کے ساتھ میری گفتگو سننے جا رہے ہیں، وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ میری زندگی کی ایک بات چیت ہے جو الفاظ سے باہر ہے اور اس نے مجھے گہرا اثر کیا ہے۔ میں آپ سے اس بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔ اگر آپ چاہیں تو ویڈیو کو تیزی سے آگے بھیج کر براہ راست ہماری گفتگو سن سکتے ہیں۔ نریندر مودی کی زندگی کی کہانی حیرت انگیز رہی ہے۔ اس نے غربت کے خلاف جنگ لڑی ہے اور 1.4 بلین لوگوں کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما بننے کے لیے اٹھے ہیں۔ جہاں وہ ایک بار نہیں بلکہ تین مرتبہ شاندار جیت کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم بنے۔ ایک لیڈر کے طور پر، انہوں نے ہندوستان کو متحد رکھنے کے لیےمختلف مواقع پر کافی جدوجہد کی ہے۔ بہت سی ثقافتوں اور بہت سی برادریوں والا ملک۔ ایک ایسا ملک جس کی تاریخ میں مذہبی، سماجی اور سیاسی کشیدگی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وہ سخت اور بعض اوقات قدرے متنازعہ فیصلے کرنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے کروڑوں لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ان تمام موضوعات پر ہم نے طویل بحث کی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے رہنما ان کی عزت کرتے ہیں اور انہیں امن کے سپاہی اور دوست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ جن ممالک میں جنگیں ہو رہی ہیں وہاں کے لیڈر بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے وہ امریکہ، چین، یوکرین، روس، اسرائیل، فلسطین یا مشرق وسطیٰ کا معاملہ ہو۔ ہر جگہ اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ کم از کم آج کے دور میں میں نے محسوس کیا ہے کہ انسانیت اور انسانوں کا مستقبل ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، کئی جگہ جنگیں ہو سکتی ہیں۔ یہ جنگیں ملکوں سے دنیا تک پھیل سکتی ہیں۔ جوہری طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اے آئی سے نیوکلیئر فیوژن تک تکنیکی ترقی کا مقصد ایسی تبدیلیاں لانا ہے جو معاشرے اور جغرافیائی سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کر سکیں۔یہ سیاسی اور ثقافتی انتشار کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں اچھے لیڈروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ہمیں ایسےرہنما کی ضرورت ہے جو امن لا سکے، اور دنیا کو متحد کر سکے، اسے تقسیم سے بچاسکے۔ جو اپنے ملک کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت اور دنیا کی بھلائی کا بھی سوچنے کی کوشش کرتاہو۔ انہی باتوں کی وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ یہ بات چیت اب تک کی سب سے خاص بات چیت میں سے ایک ہے۔ ہماری گفتگو میں کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں سن کر آپ محسوس کریں گے کہ میں طاقت سے متاثر ہوں۔ ایسا نہیں ہے، نہ ایسا ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔ میں کبھی کسی کی پوجا نہیں کرتا، خاص طور پر اقتدار میں رہنے والے لوگوں کی۔ میں طاقت، پیسہ اور شہرت پر یقین نہیں رکھتا، کیونکہ یہ چیزیں کسی کے دل، دماغ اور روح کو خراب کر سکتی ہیں۔ گفتگو چاہے آن کیمرہ ہو یا آف کیمرہ، میں ہمیشہ انسانی ذہن کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اچھا یا برا، میں سب کچھ جاننا اور سمجھنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ہی ہیں۔ ہم سب میں کچھ اچھا اور کچھ برا ہوتا ہے۔ ہم سب کی جدوجہد اور امید کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ چاہے آپ دنیا کے عظیم لیڈر ہوں، یا بھارت کے مزدور، یا آپ امریکہ میں کام کرنے والے مزدور یا کسان ہیں۔ ویسے، اس سے مجھے یاد آیا کہ میں ایسے بہت سے امریکی کارکنوں اور کسانوں سے بغیر کیمرے کے، یا شاید کیمرے کے سامنے بات کروں گا کیونکہ میں اس وقت پوری دنیا اور امریکہ کا سفر کر رہا ہوں۔ یہاں، میں نے نریندر مودی کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں یا کہنے جا رہا ہوں، ان کا تعلق صرف ان کے لیڈر ہونے سے نہیں بلکہ ان کی شخصیت سے بھی ہے۔ جتنا وقت میں نے اس کے ساتھ کیمرے کے سامنے اور کیمرے کے پیچھے گزارا، ہماری گفتگو بہت گہری تھی۔ اس میں گرمجوشی، ہمدردی اور مزاح بھی ہو گا۔ داخلی اور بیرونی امن کا معاملہ بھی نظر آئے گا۔ ہم نے اپنی بہت زیادہ توجہ اس گفتگو میں ڈالی ہے۔ ایک ایسی گفتگو جو وقت کی حدود سے باہر ہو۔ میں نے سنا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے یکساں ہمدردی اور شفقت سے ملتے ہیں۔ وہ معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگوں سے اس انداز میں ملتے اور بات کرتے ہیں۔ اور ان تمام چیزوں نے اسے ایک شاندار تجربہ بنا دیا، جسے میں شاید کبھی نہیں بھولوں گا۔
ویسے میں آپ کو ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں، آپ اس گفتگو کے کیپشن انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں پڑھ سکتے ہیں، اور اس ویڈیو کو انہی زبانوں میں بھی سن سکتے ہیں۔ آپ اسے دونوں زبانوں میں بھی سن سکتے ہیں، جہاں مجھے انگریزی میں بات کرتے ہوئے سنا جائے گا، اور پی ایم مودی کو ہندی میں بات کرتے ہوئے سنا جائے گا۔ اگر آپ چاہیں تو اس ویڈیو کے سب ٹائٹلز کو اپنی پسند کی زبان میں دیکھ سکتے ہیں۔ یوٹیوب میں، آپ "سیٹنگز" آئیکن پر کلک کر کے گفتگو کی زبان تبدیل کر سکتے ہیں۔ پھر "آڈیو ٹریک" پر کلک کریں، اور اپنی پسند کی زبان میں ہماری گفتگو سننے کے لیے زبان کا انتخاب کریں۔ انگریزی میں پوری گفتگو سننے کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کریں اور اسے ہندی میں سننے کے لیے ہندی زبان کا انتخاب کریں۔ گفتگو کو سننے کے لیے جیسا کہ یہ ہوا، یعنی مودی جی کو ہندی میں اور مجھے انگریزی میں سننے کے لیے، براہ کرم آڈیو ٹریک آپشن "ہندی (لاطینی)" کو منتخب کریں۔ آپ اس پوری گفتگو کو یا تو ایک زبان میں، یا ہندی اور انگریزی دونوں میں سن سکتے ہیں۔ آپ کی پسندیدہ زبان میں سب ٹائٹلز کے ساتھ بھی۔ ویڈیو کی ڈیفالٹ زبان انگریزی ہے۔ میں اس کے لیے‘الیون لبس’ اور شاندار مترجمین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔
ہم نےپوری کوشش کی ہے کہ وزیراعظم مودی کی آواز اے آئی کلوننگ کے ذریعے انگریزی میں حقیقت سے مماثلت بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی بھی زبانوں کی وجہ سے ہمارے درمیان فاصلے پیدا نہیں ہوں گے، اور میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کروں گا کہ یہ گفتگو دنیا کے ہرگوشے میں ،ہرزبان میں سنی جائے۔میں اپنے دل کی گہرائیوں سے ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ یہ میرے لیے ایک شاندار سفر رہا ہے اور یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ ہوں۔ میں آپ سب کو اپنے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا ہوں۔آپ‘‘ لیکس فریڈم پوسٹ کاسٹ ’’دیکھ رہے ہیں۔ تو دوستو، وہ وقت آگیا ہے جب آپ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میری گفتگو سنیں گے۔
لیکس فریڈمین - میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میں نے اپواس رکھا ہوا ہے۔ اب پینتالیس گھنٹے یعنی تقریباً دو دن ہو چکے ہیں۔ میں صرف پانی پی رہا ہوں، کچھ نہیں کھا رہا۔ میں نے یہ بات احترام گفتگو اور اس گفتگو کی تیاری کے لیے کی۔ تاکہ ہم روحانی انداز میں بات کر سکیں۔ سنا ہے آپ بھی بہت اپواس رکھتے ہیں، کیا آپ اپواس رکھنے کی وجہ بتانا پسند کریں گے؟ اور اس وقت آپ کے دماغ کی کیا حالت ہے؟
وزیر اعظم - سب سے پہلے تو یہ میرے لیے بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ نے اپواس رکھا اور وہ بھی اس طرح کہ جیسے میرے اعزاز میں کیا جا رہا ہو، میں اس کے لیے آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہندوستان میں مذہبی روایات دراصل زندگی کا ایک طریقہ ہے اور ہمارے سپریم کورٹ نے ہندو مت کی بہت اچھی تشریح کی ہے۔ ہمارے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہندومت میں پوجا پاٹھ (پوجا) کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، زندگی گزارنے کا طریقہ ہے اور ہمارے صحیفوں میں ان تمام موضوعات پر بحث ہے کہ جسم، دماغ، عقل، روح اور انسانیت کو کیسے بلندیوں تک لے جانا ہے اور اس کے لیے کچھ راستے، کچھ روایات اور نظام ہیں۔ اس میں اپواس بھی ہے، اپواس ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اور ہندوستان میں، خواہ میں ثقافتی یا فلسفیانہ بات کروں، بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ نظم و ضبط کی خاطر، اگر میں سادہ زبان میں بات کروں، یا اگر میں ان سامعین کے لیے کہوں جو بھارت کو نہیں جانتے، تو یہ اندرونی اور بیرونی زندگی کے دونوں طرح کے نظم و ضبط کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ یہ کسی کی زندگی کی تشکیل میں بھی مدد کرتا ہے۔ جب آپ اپواس رہتے ہیں، تو آپ نے محسوس کیا ہوگا جیسا کہ آپ نے کہا تھا کہ آپ دو دن سے صرف پانی پی رہے ہیں وہ تمام حواس جو آپ کے پاس ہیں، خاص طور پر چاہے وہ قوت شامہ ہو،قوت لامسہ ہو،یاقوت ذائقہ ہو یہ اتنی حواس میں آگئی ہو کہ شاید آپ پانی کو سونگھنے کے قابل بھی ہو جائیں۔ اگر آپ نے پہلے کبھی پانی پیا ہے تو شاید آپ نے بو کا تجربہ نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آپ کے پاس سے چائے لے کر گزرے تو اسے چائے اور کافی کی خوشبو آئے گی۔ آپ نے ایک چھوٹا سا پھول پہلے یا آج بھی دیکھا ہو گا، آپ اسے بہت واضح طور پر پہچان سکتے ہیں۔یعنی آپ کی ساری حِسّیں جو ہیں، اچانک بہت زیادہ سرگرم ہو جاتی ہیں اور ان کی جو صلاحیت ہے، چیزوں کو جذب کرنے اور جواب دینے کی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے، اور میں تو اس کا تجربہ گزر چکا ہوں۔ دوسرا میرا تجربہ ہے کہ آپ کے خیالات کی تاثیر آپ کو بہت زیادہ تیز کرتی ہے، نیاپن دیتی ہے، آپ یکدم "آؤٹ آف دا باکس" ہو جاتے ہیں، مجھے نہیں معلوم دوسرے لوگوں کا کیا تجربہ ہوگا، مگر میرا یہی ہے۔ دوسروں کو اکثر یہ لگتا ہے کہ اپواس یعنی کھانا چھوڑ دینا۔ کھانا نہ کھانا۔ یہ تو صرف جسمانی عمل ہو گیا، اگر کسی شخص کو کسی مشکل کی وجہ سے کھانا نہیں مل رہا، پیٹ میں کچھ نہیں گیا، تو کیا اس کو ہم اپواس کہہ سکتے ہیں؟ یہ ایک سائنسی عمل ہے۔ جیسے میں نے بہت وقت تک اپواس رکھا ہے۔ تو اپواس رکھنے سے پہلے بھی میں پانچ سات دن اپنی جسمانی صفائی کے لیے جتنی بھی آیورویدک یا یوگا کی مشقیں ہیں، یا ہماری روایتی مشقیں ہیں، وہ کرتا ہوں۔ پھر میں کوشش کرتا ہوں کہ اپواس شروع کرنے سے پہلے بہت زیادہ پانی پیوں، یعنی جتنا ہو سکے زیادہ پانی پیوں۔ تاکہ ڈی ٹاکسفیکیشن، جسے کہا جائے، کے لیے میرا جسم ایک طرح سے تیار ہو جائے۔ اور پھر جب میں اپواس رکھتا ہوں، تو میرے لیے اپواس ایک عقیدہ ہوتا ہے، ایک نظم و ضبط ہوتا ہے اور میں اپواس رکھتے وقت جتنی بھی بیرونی سرگرمیاں کرتا ہوں، لیکن میرا دل اندر کی حالت میں ہوتا ہے۔ میں اندر کی دنیا میں گم ہو جاتا ہوں۔ اور یہ میرا تجربہ ایک عجیب و غریب کیفیت ہوتی ہے۔ اور یہ اپواس کسی کتاب سے پڑھ کر یا کسی کی نصیحت یا میرے خاندان میں اگر کسی وجہ سے اپواس رکھا جا رہا ہو، ان چیزوں سے نہیں ہوا ہے۔ یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ تھا۔ اسکول کے زمانے میں، ہمارے یہاں مہاتما گاندھی کی جو خواہش تھی، گائے کے تحفظ کے بارے میں۔ اس کو لے کر ایک تحریک چل رہی تھی، حکومت کوئی قانون نہیں بنا رہی تھی۔ اس وقت پورے ملک میں ایک دن کا اپواس رکھنے کا عوامی مقام پر بیٹھ کر کرنے کا پروگرام تھا۔ ہم تو بچے تھے، ابھی ابھی پرائمری اسکول سے نکلے تھے۔ میرا دل چاہا کہ مجھے اس میں بیٹھنا چاہیے۔ اور میری زندگی کا وہ پہلا تجربہ تھا۔ اتنی چھوٹی عمر میں، نہ مجھے بھوک لگ رہی تھی، نہ کچھ کھانے کی خواہش تھی۔ جیسے کچھ نیا شعور حاصل کر رہا ہوں، نئی توانائی مل رہی ہے۔ تو میں نے اپنے دل میں یہ پختہ عقیدہ بنا لیا کہ یہ کوئی سائنسی عمل ہے۔ یہ صرف کھانا نہ کھانے کی بات نہیں ہے، یہ اس سے کہیں باہر کی چیزیں ہیں۔ پھر میں نے دھیرے دھیرے خود کو کئی تجربات سے اپنے جسم اور دماغ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔ کیونکہ میں نے یہ لمبی پروسیس سے اپواس کا تجربہ کیا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میری سرگرمیاں کبھی بھی رکتی نہیں ہیں۔ میں اتنا ہی کام کرتا ہوں، کبھی کبھار تو لگتا ہے زیادہ کرتا ہوں۔ اور دوسرا، میں نے دیکھا ہے کہ اپواس کے دوران اگر مجھے اپنے خیالات کو بیان کرنا ہو، تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ خیالات کہاں سے آتے ہیں، کیسے نکلتے ہیں۔ ہاں، میں بہت عجیب تجربہ کرتا ہوں۔
لیکس فریڈمین: تو آپ اپواس کے دوران بھی دنیا کے بڑے لوگوں سے ملتے ہیں۔ آپ اپنا وزیرِ اعظم والا کام بھی کرتے ہیں۔ آپ اپواس میں اور کبھی کبھار نو دن کے اپواس میں بھی دنیا کے ایک بڑے رہنما کے طور پر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
وزیرِ اعظم: ایسا ہے کہ اس کا ایک طویل تاریخ ہے۔ شاید سننے والے تھک جائیں گے۔ ہمارے یہاں چاتُرماس کی ایک روایت ہے۔ جب بارش کا موسم ہوتا ہے، تو ہم جانتے ہیں کہ ہاضمہ کی طاقت کافی کم ہو جاتی ہے۔ اور بارش کے موسم میں ایک خاص وقت پر کھانا کھانا ہوتا ہے، یعنی 24 گھنٹوں میں ایک وقت۔ یہ میری روایت جون کے وسط سے شروع ہوتی ہے، اور دیوالی کے بعد، تقریباً نومبر تک جاتی ہے۔ یہ تقریباً چار مہینے سے، ساڑھے چار مہینے کا عرصہ ہوتا ہے، جس میں میں 24 گھنٹے میں ایک بار کھاتا ہوں۔ پھر نوراتری آتی ہے جو عام طورپر بھارت میں ستمبر، اکتوبر میں ہوتا ہے۔ اور پورے ملک میں اس دوران درگا پوجا کا جشن منایا جاتا ہے،شکتی اپواس کا یہ جشن نو دنوں کا ہوتا ہے۔ تو ان نو دنوں میں میں صرف گرم پانی پیتا ہوں۔ ویسے، گرم پانی تو میری روٹین ہے، میں ہمیشہ گرم پانی پیتا ہوں۔ میر ی پوری طرز زندگی ایسی تھی کہ جس کی وجہ سے یہ عادت بن گئی۔ دوسرا، مارچ اپریل کے مہینے میں ، جسے ہمارے یہاں "چتر نوارتری" کہتے ہیں، جو شاید اس سال 31 مارچ سے شروع ہو رہا ہے۔ تو ان نو دنوں میں میں اپواس رکھتا ہوں، ان نو دنوں میں میں ایک پھل ایک بار دن میں کھاتا ہوں، یعنی نو دن کے لیے فرض کریں، میں نے پپیتا منتخب کیا، تو میں نو دن تک پپیتا کے علاوہ کچھ نہیں کھاؤں گا اور صرف ایک بار کھاؤں گا۔ تو یہ میری نو دنوں کی روایت ہوتی ہے۔ تو سال بھر میں اس طرح سے یہ جو روایت میری زندگی کا حصہ بن چکی ہے، شاید میں کہہ سکتا ہوں کہ 50-55 سال سے میں یہ سب کر رہا ہوں۔
لیکس فریڈمین: کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ دنیا کے بڑے رہنماؤں سے ملے ہوں اور اور مکمل طورپر اپواس رہے ہوں؟ ان کا کیا ردعمل تھا؟ آپ بھوکے رہ سکتے ہیں، یہ دیکھ کر انہیں کیسا لگتا ہے؟ اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آپ بالکل صحیح ہیں۔ میرے دو دن کے اپواس کی وجہ سے، میری چاق و چوبند رہنے کی صلاحیت، چیزوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت، اور میرے تجربات میں کافی بہت اضافہ ہوا ہے۔ میں پوچھ رہا تھا کہ کیا آپ کو کسی رہنما کی کہانی یاد ہے، جب آپ نے ان کے سامنےاپواس رکھا ہو؟
وزیرِ اعظم: ایسا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو میں اس کے بارے میں نہیں بتاتا۔ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، تو میں اس کی کوئی پبلسٹی وغیرہ نہیں کرتا، یہ لوگوں کو تھوڑا بہت اس وقت پتہ چلا جب میں وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم بنا۔ ورنہ یہ میرا بالکل ذاتی معاملہ تھا۔ لیکن اب جب یہ بات سامنے آ گئی ہے، تو میں اسے اچھی طرح سے لوگوں کو بتاتا ہوں، اگر کوئی پوچھتا ہے تو، تاکہ کسی کو فائدہ ہو سکے کیونکہ میری ذاتی ملکیت تو یہ نہیں ہے۔ میرا تجربہ ہے، کسی کے کام آ سکتا ہے۔ میری تو زندگی ہی لوگوں کے لیے وقف ہے۔ جیسے جب میں وزیرِ اعظم بنا، تو اُس وقت امریکہ کے صدر اوباما کے ساتھ میری وائٹ ہاؤس میں دوطرفہ میٹنگ تھی اور انہوں نے عشائیہ بھی رکھا تھا، تو تب دونوں حکومتوں کے درمیان بات چیت ہوئی، اور جب کہا گیا کہ "بھئی عشائیہ تو ضرور کیجیے، لیکن وزیرِ اعظم کچھ کھاتے نہیں ہیں"۔ تو وہ بہت پریشان تھے، کہ اب یہ کیسے، اتنے بڑے ملک کے وزیرِ اعظم آ رہے ہیں، وائٹ ہاؤس آرہے ہیں، اور ان کی خاطر مدارات کیسے کی جائے۔ جب ہم بیٹھے تو میرے لیے گرم پانی آیا۔ تو میں نے اوباما جی سے بڑے مزاح میں کہا، "دیکھو بھائی، میرا ڈنر بالکل آ گیا ہے"۔ ایسا کہہ کر میں نے گلاس ان کے سامنے رکھا۔ پھر بعد میں جب میں دوبارہ گیا، تو انہیں یاد تھا۔ انہوں نے کہا، "دیکھیں، پچھلی بار تو آپ اپواس پر تھے، اس بار آپ۔۔۔" اُس وقت دوسرا موقع تھا جب میں نے ان سے کہا تھا کہ "ظہرانہ ہے"، تو کہا، "اس بار اپواس نہیں ہے تو آپ کو ڈبل کھانا پڑے گا"۔
لیکس فریڈمین: آپ کے بچپن کی بات کرتے ہیں۔ آپ ایک متوسط خاندان سے آتے ہیں، پھر سب سے بڑے جمہوریت کے وزیرِ اعظم بن جاتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں کے لیے ایک حوصلہ افزا کہانی ہو سکتی ہے۔ آپ کا خاندان بھی زیادہ خوشحال نہیں تھا اور آپ بچپن میں ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے۔ آپ کا مٹی کا گھر تھا اور وہاں پورا خاندان رہتا تھا۔ اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کم سہولتوں نے کس طرح آپ کی شخصیت کو بہتر بنایا؟
وزیرِ اعظم: میرا جنم گجرات میں ہوا اور گجرات کے شمالی علاقے میں مہسانہ ضلع کے وڈنگر نام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں۔ ویسے وہ مقام بہت تاریخی ہے، اور وہیں میری جائےپیدائش ہے، وہیں میری تعلیم ہوئی۔ اب اگر ہم آج کی دنیا کو دیکھیں تو جب تک میں گاؤں میں رہتا تھا، جس ماحول میں رہتا تھا، تو میرے گاؤں کی کچھ خاص باتیں تھیں جو شاید دنیا میں بہت کم جگہوں پر ہوں۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا، تو میرے گاؤں کے ایک بزرگ شخصیت تھے، وہ ہمیں ہمیشہ اسکول میں بچوں کو کہتے تھے کہ دیکھو بھائی، اگر تم کہیں جاؤ اور وہاں کوئی نقش و نگار والا پتھر ملے، یا کسی پر کچھ لکھا ہوا پتھر ملے، یا کوئی نقش ونگار کی ہوئی چیز ملے، تو اسے اسکول کے اس کونے میں جمع کردو۔ تو مجھے اس میں کچھ تجسس ہوا، میں نے سمجھنا شروع کیا اور پھر پتہ چلا کہ ہمارا گاؤں بہت قدیم ہے، تاریخی ہے۔ پھر کبھی اسکول میں جب بحث ہوتی تھی تو ان چیزوں کا علم ہونے لگا۔ بعد میں شاید چین نے ایک فلم بنائی تھی اور میں نے اس کے بارے میں کہیں اخبار میں پڑھا تھا کہ چینی فلسفی ہوانسانگ میرے گاؤں میں کافی وقت رہے تھے، وہ کئی صدیوں پہلے آئے تھے۔ وہ بدھ مت کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز تھا۔ تو میں نے اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں۔ اور شاید 1400 میں ایک بدھ مت کا تعلیمی مرکز تھا، بارہویں صدی کا ایک فتح کا یادگار، سترہویں صدی کا ایک مندر، سولہویں صدی میں دو بہنیں تانہ-ریری جو موسیقی میں ماہر تھیں ، یعنی اتنی چیزیں سامنے آنے لگیں، تو میں دیکھ رہا تھا کہ جب میں وزیرِ اعلیٰ بنا تو میں نے بڑی کھدائی (ایکسکیویشن) کا کام شروع کیا۔ کھدائی کا کام شروع کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اس وقت یہاں ہزاروں بدھ بھکشوؤں کی تعلیم کا مرکز تھا۔ اور بدھ، جین اور ہندو تینوں روایات کا یہاں اثر تھا، اور ہمارے لیے تاریخ صرف کتابوں تک محدود نہیں تھی۔ ہر پتھر بول رہا تھا، ہر دیوار بتا رہی تھی کہ میں کیا ہوں۔ اور جب ہم نے یہ کھدائی کا کام شروع کیا تو جو چیزیں سامنے آئیں، وہ تاریخ کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اب تک وہاں 2,800 سال کے ثبوت ملے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ شہر 2,800 سالوں سے آباد رہا ہے، انسانوں کا یہاں رہنا جاری رہا ہے اور اس کی مکمل ارتقا کے شواہد منظر عام پر آچکے ہیں۔اب وہاں ایک بین الاقوامی سطح کا میوزیم بھی بنایا گیا ہے، جو خاص طور پر آرکیالوجی کے طالب علموں کے لیے بڑا مطالعے کا مرکز بن چکا ہے۔ تو میرا جہاں جنم ہوا، وہ اپنی ایک خاصیت رکھتا ہے۔ اور میری خوش قسمتی دیکھیں، شاید کچھ چیزیں کیسے ہوتی ہیں، مجھے نہیں پتا۔ کاشی میری کرم بھومی بن گئی۔ اب کاشی بھی ابدی ہے۔ کاشی، بنارس، وارانسی جسے ہم کہتے ہیں، وہ بھی ہزاروں سالوں سے ایک زندہ شہر ہے۔
تو شاید یہ کچھ خدا کی طرف سے انتظام ہوگا کہ میں، جو وڈنگر میں پیدا ہوا تھا، آج کاشی جا کر اپنی کرم بھومی بنا کر ماں گنگا کے قدموں میں زندگی گزار رہا ہوں۔ جب میں اپنے خاندان میں تھا، میرے والد صاحب، میری والدہ، ہم بھائی بہن، میرے چچا، چچی، دادا، دادی، سب لوگ بچپن میں، ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے، شاید یہ جگہ بہت بڑی ہو جہاں ہم بیٹھے ہیں، جہاں نہ کوئی کھڑکی تھی، نہ کوئی خاص دروازہ تھا۔ وہیں ہمارا جنم ہوا، وہیں پلے بڑھے۔ اب بات آتی ہے غربت کی، وہ آج قدرتی طور پر ہے کہ جیسے لوگ عوامی زندگی میں آتے ہیں، اس کے حساب سے میرا زندگی بہت غربت میں گزرا تھا۔ لیکن ہم نے کبھی غربت کا بوجھ محسوس نہیں کیا، کیونکہ جو شخص اچھے جوتے پہنتا ہے اور اگر اس کے پاس جوتے نہ ہوں، تو اسے لگتا ہے کہ یار یہ چیز بڑی ہے۔ لیکن ہم نے زندگی میں کبھی جوتے نہیں پہنے تھے، تو ہمیں کیا معلوم تھا کہ جوتے پہننا بھی ایک بڑی چیز ہوتی ہے۔ ہم اس حالت میں تھے کہ زندگی ایسے ہی گزارتے تھے۔ اور ہماری ماں بہت محنت کرتی تھیں، میرے والد بھی بہت محنت کرتے تھے۔ میرے والد کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اتنے ڈسپلن والے تھے کہ صبح 4:00-4:30 بجے گھر سے نکل جاتے تھے، کافی دور تک پیدل چل کر کئی مندر جاتے تھے، پھر دکان تک پہنچتے تھے۔ جو جوتے وہ پہنتے تھے، وہ چمڑے کے ہوتے تھے، جو گاؤں میں بنائے جاتے تھے، بہت سخت ہوتے تھے، اور ان کی آواز آتی تھی، ٹک ٹک ٹک۔ جب وہ دکان جاتے تھے، تو لوگ کہتے تھے کہ ہم گھڑی ملا لیتے تھے کہ ہاں داؤ مودر بھائی جا رہے ہیں۔ یعنی ان کی زندگی اتنی ڈسپلنڈ تھی، بہت محنت کرتے تھے، رات دیر تک کام کرتے تھے۔ ویسے ہماری ماں بھی گھر کی حالات میں کوئی مشکل محسوس نہ ہو، اس کے لیے بہت محنت کرتی تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیں کبھی بھی ان حالات نے ہمارے ذہن پر اثر نہیں ڈالا۔
مجھے یاد ہے، میں نے کبھی بھی اسکول میں جوتے پہنے کا سوال ہی نہیں کیا تھا۔ ایک دن میں اسکول جا رہا تھا، تو میرے ماموں مجھے راستے میں ملے۔ انہوں نے دیکھا، "ارے! تُو ایسے اسکول جاتا ہے، جوتے کیوں نہیں پہنتا؟" تو اس وقت انہوں نے کینوس کے جوتے خرید کر مجھے پہنا دیے۔ اب اس وقت وہ شاید 10-12 روپے میں ملتے ہوں گے، اور وہ کینوس کے تھے، جن پر داغ لگ جاتے تھے، تو سفید کینوس کے جوتے تھے۔ تو میں کیا کرتا تھا، اسکول میں جب شام کو اسکول کی چھٹی ہو جاتی تھی، تو میں تھوڑی دیر اسکول میں رک جاتا تھا اور جو ٹیچر نے چاک اسٹک کا استعمال کیا تھا اور جو اس کے ٹکڑے پھینکے ہوئے ہوتے تھے، وہ تین چار کمروں میں جا کر اکٹھا کرتا تھا۔ اور وہ چاک اسٹک کے ٹکڑے گھر لے آتا تھا، اور اس کو بھگو کر، پالش بنا کر، اپنے کینوس کے جوتوں پر لگا کر، چمکدار سفید بنا کر اسکول جاتا تھا۔ میرے لیے وہ ایک قیمتی چیز تھی، بہت بڑی دولت کا احساس ہوتا تھا۔
اب مجھے نہیں پتا کیوں، بچپن سے ہماری ماں صفائی کے بارے میں بہت زیادہ آگاہ تھیں۔ تو ہمیں بھی شاید وہ ہی اقدار سیکھنے کو ملی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ کپڑے ٹھیک سے پہننے کی عادت مجھے بچپن سے ہی تھی۔ جو بھی ہو، میں اس کو اچھی طرح سے پہننے کی کوشش کرتا تھا۔ اور اگر کپڑے استری کرنے کے لیے کسی کے پاس انتظام نہیں تھا تو میں خود اپنے کپڑے تانبے کے لوٹے میں پانی بھر کر گرم کر کے، چمٹے سے پکڑ کر استری کرتا تھا اور اسکول چلا جاتا تھا۔ یہ زندگی تھی، یہ زندگی کا ایک لطف تھا۔
ہم کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ہم غریب ہیں یا کیا ہے، کیسے جیتے ہیں، کیسے لوگ جیتے ہیں۔ یہ سب باتیں کبھی ہمارے ذہن میں نہیں آئیں۔ جو کچھ تھا، اسی میں خوش رہنا، کام کرتے رہنا، کبھی ان چیزوں کے بارے میں رونا نہیں تھا۔ اور میری زندگی کے یہ تمام تجربات، چاہے وہ خوش قسمتی ہو یا بدقسمتی، سیاست میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ یہ سب باتیں سامنے آئیں۔ کیونکہ جب میں وزیراعلیٰ بن رہا تھا تو ٹی وی والے میرے گاؤں پہنچ گئے، میرے دوستوں سے پوچھنے لگے، میرے گھر کا ویڈیو بنانے کے لیے گئے۔ تب لوگوں کو پتا چلا کہ یہ کہاں سے آ رہا ہے۔ اس سے پہلے لوگوں کو میرے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ تو میری زندگی ایسی ہی رہی۔
اور ہماری والدہ کا ایک مزاج تھا، کہ خدمت کا جذبہ ان کی فطرت میں تھا اور انہیں کچھ روایتی علاج کے طریقے آتے تھے، تو بچوں کو وہ علاج دیتی تھیں۔ صبح پانچ بجے سورج نکلنے سے پہلے بچوں کا علاج ہوتا تھا۔ تو ہمارے گھر پر سب لوگ آ جاتے تھے، چھوٹے بچے روتے رہتے تھے۔ تو ہمیں بھی جلدی اٹھنا پڑتا تھا ان کے کام کے سبب۔ اور ماں پھر ان بچوں کا علاج کرتی رہتی تھیں۔ تو یہ خدمت کا جذبہ، یہ اسی چیزوں سے پروان چڑھا تھا۔ معاشرتی حساسیت، دوسروں کے لیے کچھ اچھا کرنے کی خواہش، تو ایسے ہی ایک خاندان سے میں سمجھتا ہوں کہ، والدین، میرے اساتذہ، جو بھی ماحول مجھے ملا، اس سے میری زندگی کا راستہ طے ہوا۔
لیکس فریڈمین: بہت سارے نوجوان ہیں جو اسے سن رہے ہیں جو واقعی آپ کی کہانی سے متاثر ہیں۔ انتہائی سادہ ہ آغاز سے لے کر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا رہنما بننے تک۔ تو آپ ان نوجوانوں کو کیا کہیں گے جو جدوجہد کر رہے ہیں، دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ انہیں کیا مشورہ دے سکتے ہیں؟
وزیراعظم : میں تمام نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ زندگی میں رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، لیکن وہ رات ہی ہے، صبح کا ہونا طے ہوتا ہے۔ اور اس لیے ہمیں صبر اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ یہ حالات ہیں اور میں حالات کی وجہ سے نہیں ہوں۔ خدا نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا ہے، یہ احساس ہونا چاہیے۔ اور میں اکیلا نہیں ہوں، جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے۔ اس بات پر پختہ ایمان ویقین ہونا چاہیے۔ مشکلات بھی آزمائش کے لیے ہوتی ہیں، مشکلات مجھے ناکام کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ مصیبتیں مجھے مضبوط بنانے کے لیے ہیں، مصیبتیں مجھے مایوس کرنے کے لیے نہیں ہیں۔ اور میں ہر بحران، ہر مشکل کو ہمیشہ ایک موقع سمجھتا ہوں۔ تو میں نوجوانوں سے کہوں گا کہ دوسری بات اآپ میں صبر ضروری ہے، شارٹ کٹ کام نہیں آتا۔ ہمارے یہاں ریلوے اسٹیشن پر لکھا رہتا ہے، کچھ لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ پل سے ریلوے پٹری کو پار کرنے کے بجائے پٹری پرنیچے سے گزرنے کی ، تو وہاں لکھا ہوتا ہے، " شارٹ کٹ ویل کٹ یو شارٹ "۔ تو میں نوجوانوں کو بھی کہوں گا، " شارٹ کٹ ویل کٹ یو شارٹ "، کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، ایک صبر ہونا چاہیے، حوصلہ ہونا چاہیے۔ اور جو بھی ذمہ داری ہمیں ملتی ہے، اس کام کو دل وجان سے کرنا چاہیے۔ اسے خوشی سے جینا چاہیے، اس کا لطف اٹھانا چاہیے۔ اور میں اس بات پر یقین کرتا ہوں کہ اگر یہ انسان کی زندگی میں آ جائے، تو بہت کچھ ممکن ہے۔ عیش و عشرت ہی شان وشوکت ہے، کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ وہ بھی اگر کمبل اوڑھ کر سوتا رہے گا تو وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ اس نے فیصلہ کیا ہے نا، یہ چاہے میرے ارد گرد ہو، لیکن مجھے اپنی صلاحیت سے اس میں اضافہ کرنا چاہیے۔ مجھے اپنی صلاحیت سے معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یعنی میں اچھی حالت میں ہوں تو بھی کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، اور اگر اچھی حالت میں نہیں ہوں تو بھی کرنے کے لیے بہت کام ہے، یہ میں چاہوں گا۔ دوسری بات میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں، "چلو یار، اتنا سیکھ لیا، بہت ہوگیا۔" زندگی میں اندر کے طالب علم کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہیے، مسلسل سیکھتے رہنا چاہیے۔ ہر چیز سیکھنے کا جو جذبہ ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔ اب، مجھے شاید یہ سوچنا پڑے گا کہ میں کسی مقصد کے لیے ہی تو جینا ہوگا، تو، اب میں تو گجراتی زبان ہماری اپنی مادری زبان ہیں اور ہم ہندی زبان نہیں جانتے تھے۔گفتگو کا سلیقہ کیا ہونا چاہیے،ایک دوسرے سے کس طرح ہمکلام ہونا چاہیے؟بات کیسے کرنی چاہیے؟ تو میں والد صاحب کے ساتھ چائے کی دکان پر بیٹھتے تھے۔ تو اتنی چھوٹی عمر میں اتنے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا تھا اور مجھے ہر بار ان ملاقاتوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ کچھ سلیقہ، ان لوگوں کے بات کرنے کا انداز گفتگو، تو ان چیزوں سے میں سیکھتا تھا کہ ہاں، یہ چیزیں ہم بھی سیکھ سکتے ہیں، چاہے آج ہماری حالت ایسی نہیں ہے، لیکن کبھی اگر ہو تو ہم ایسا کیوں نہ کریں؟ ہم اس طرح کیوں نہ رہیں؟ تو سیکھنے کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔دوسری بات میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے ذہن میں کچھ پانے اور بننے کے خواب ہوتے ہیں، کچھ اہداف ہوتے ہیں، اور جب وہ نہیں ہوتے تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور اسی لیے میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے جب بھی بات کرتا ہوں تو کہتا ہوں، "بھائی دیکھو، پانے اور بننے کے خوابوں کی جگہ، کچھ کرنے کا خواب دیکھو۔"جب آپ کرنے کا خواب دیکھتے ہو، اور فرض کرو آپ نے دس تک پہنچنے کا ارادہ کیا تھا اور آٹھ تک پہنچے، تو آپ مایوس نہیں ہوں گے۔ آپ دس کے لیے محنت کریں گے۔ لیکن اگر آپ نے کچھ بننے کا خواب دیکھا تھا اور وہ نہیں ہوا، تو جو کچھ بھی آپ نے حاصل کیا، وہ بھی آپ کے لیے بوجھ بن جائے گا۔ اور اسی لیے زندگی میں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیا حاصل ہوا اور کیا نہیں ہوا، اس کے بجائے یہ سوچیں، "میں کیا دوں گا؟" دیکھو، سکون جو ہے نا، وہ اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کیا دیا۔
لیکس فریڈمین - اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میرا بچپن سے ہی یہی کرنے کا خواب تھا، جو میں ابھی کر رہا ہوں۔ تو میرے لیے یہ ایک بہت خاص لمحہ ہے۔ 17 سال کی عمر میں ایک اور دلچسپ مرحلہ آتا ہے، جب آپ گھر چھوڑ کر دو سال تک ہمالیہ میں گھومتے رہے، آپ اپنے مقصد، سچ اور خدا کی تلاش میں تھے۔ ویسے آپ کے اُس وقت کے بارے میں لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ آپ کا کوئی گھر نہیں تھا، آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ آپ کی زندگی بالکل سنّیاسی جیسی تھی۔ آپ کے سر کے اوپر چھت بھی نہیں تھا۔ کیا آپ اس وقت کے کچھ روحانی لمحات، طریقہ کار یا تجربات کے بارے میں بات کرنا چاہیں گے؟
وزیراعظم : آپ کو مجھے لگتا ہے کہ میں نے کافی محنت کی ہے۔ دیکھیں، میں اس موضوع پر زیادہ باتیں نہیں کرتا، لیکن کچھ باتیں میں آپ کو ضرور کہہ سکتا ہوں۔ اب دیکھیں، میں ایک چھوٹے سے مقام پر رہا۔ ہماری زندگی ایک اجتماعی نوعیت کی تھی، کیونکہ لوگوں کے درمیان رہنا، ان کے ساتھ جینا ہی وہ تھا، اور گاؤں میں ایک لائبریری تھی، تو وہاں جاکر کتابیں پڑھنا۔ اب ان کتابوں میں جو میں پڑھتا تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ مجھے اپنی زندگی کو، ہم بھی کیوں نہ ایسی تربیت دیں ، ایسی خواہش ہوتی تھی۔ جب میں سوامی وویکانند جی کے بارے میں پڑھتا تھا، چھترپتی شیواجی مہاراج کے بارے میں پڑھتا تھا، یہ کیسے کرتے تھے؟ کیسے اپنی زندگی کو گزارتے تھے؟ اور اس کے لیے میں بھی اپنے ساتھ کئی تجربے کرتا رہتا تھا۔ میرے ان تجربات کی سطح ایسی تھی کہ یہ ایک دوسرے سے منسلک تھا جس طرح ایک جسمانی اعضادوسرے اعضا سے منسلک ہے۔ جیسے، یہاں اتنی سردی نہیں ہوتی لیکن دسمبر کے مہینے میں کبھی کبھی سردی ہوتی ہے ، لیکن پھر بھی رات کو سردی لگتی ہے، یہ قدرتی ہے۔ تو میں کبھی یہ فیصلہ کرتا تھا کہ آج میں کھلے میدان میں باہر سو جاؤں گا اور جسم پر کچھ نہیں ڈالوں گا۔ دیکھتا ہوں کہ سردی کیا کرتی ہے۔ تو میں کبھی کبھی جسم کے ساتھ ایسے تجربے بہت کم عمری میں کرتا تھا، اور وہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا تھا،اور میرے لیے لائبریری میں جانا اور باقی چیزیں پڑھنا، تالاب جانا، خاندان کے تمام افراد کے کپڑے دھونا، سوئمنگ کا کام میرا ہوتا تھا۔ میری جسمانی سرگرمی سوئمنگ ہوا کرتی تھی۔ تو یہ ساری چیزیں میری زندگی سے جڑی ہوئی تھیں۔اس کے بعد جب میں وویکانند جی کو پڑھنے لگا، تو میرے اندر اور زیادہ جستجو ہونے لگی۔ ایک بار میں نے سوامی وویکانند جی کے بارے میں پڑھا۔ ان کی ماں بیمار تھیں اور وہ انہیں رامکشن پرمہانس جی کے پاس لے گئے ، وہ ان سے لڑتے تھے، ان سے بحث کرتے تھے۔ اپنے ابتدائی دنوں میں وہ جتنی ذہنی طاقت استعمال کر سکتے تھے، کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ میری ماں بیمار ہے، اگر میں پیسے کماتا تو آج اپنی ماں کی کتنی خدمت کرتا، وغیرہ وغیرہ۔ تو رامکشن دیو نے کہا، "بھائی، میرے سر کو کیوں کھا رہے ہو؟ جاؤ، ماں کالی کے پاس جاؤ۔ ماں کالی ہیں، ان سے مانگو، جو تمہیں چاہیے وہ تمہیں مل جائے گا۔" تو وویکانند جی گئے۔ ماں کالی کی مورتی کے سامنے گھنٹوں بیٹھے، عبادت کی، بیٹھے رہے۔ کئی گھنٹوں کے بعد واپس آئے، تو رامکشن دیو نے پوچھا، "اچھا بھائی، کیا تم نے ماں سے مانگا؟" وہ نہیں بولے، "میں نے تو نہیں مانگا۔" تو رامکشن دیو نے کہا، "دوبارہ جانا کل تمہارا کام ماں کریں گی۔ ماں سے مانگو۔" دوسرے دن گئے، تیسرے دن گئے، اور وہ دیکھتے ہیں کہ بھائی، میں کچھ کیوں نہیں مانگ سکتا تھا؟ میری ماں بیمار تھی، مجھے ضرورت تھی، لیکن میں ماں کے سامنے بیٹھا ہوں، میں سچ میں ماں میں کھو چکا ہوں، لیکن کچھ بھی مانگ نہیں پاتا ہوں ماں سے، اسی طرح خالی ہاتھ واپس آ جاتا ہوں۔ اور رامکشن دیو جی کو کہتا ہوں، "میں تو خالی ہاتھ آ گیا، میں نے کچھ نہیں مانگا۔" دیوی کے پاس جانا اور کچھ نہ مانگ پانا، اس ایک بات نے ان کے اندر ایک روشنی جلا دی۔ ایک چمک تھی ان کی زندگی میں، اور اسی میں سے دینے کا جذبہ پیدا ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ شاید، وویکانند جی کا یہ چھوٹا سا واقعہ میرے دل میں کچھ اثر کر گیا کہ دنیا کو کیا دوں گا؟ شاید سکون اسی سے پیدا ہوگا۔ دنیا سے کچھ حاصل کرنے کے لئے، تو میرے دل میں حاصل کرنے کی بھوک ہی پیدا ہو جائے گی۔زندگی اور موت کے درمیان رابطے کا تجربہ کریں ۔حقیقی زندگی اسی میں ہیں کہ اپنی زندگی اسی کے نام وقف کردی جائے۔ تو میں ایسے ہی خیالوں میں گم رہتا تھا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ تھوڑا سا اس سمت جانا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے، ہم جس محلے میں رہتے تھے اس کے باہر ایک مہادیو جی کا مندر تھا، تو وہاں ایک سنت آئے تھے، تو وہ سنت کچھ نہ کچھ سادھنا کرتے رہتے تھے، مجھے ان کی طرف تھوڑی دلچسپی ہو رہی تھی کہ یہ کچھ روحانی طاقت رکھتے ہوں گے، کیونکہ وویکانند جی کو تو پڑھتا تھا، لیکن ان لوگوں کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تو نوراتری کا برت رکھ رہے تھے، اس دوران انہوں نے اپنے ہاتھ پر، ہمارے یہاں جو جوار ہوتا ہے، وہ اگاتے ہیں، ایک قسم کی گھاس ہاتھ پر اگانا اور ایسے ہی سو جانا، نو دس دن تک۔ ایسا ایک برت ہوتا ہے۔ تو وہ مہاتما جی کر رہے تھے۔ اب انہی دنوں میں میرے ماموں کے خاندان میں ہماری خالہ کی شادی تھی۔ پورا خاندان ماموں کے گھر جا رہا تھا۔ اب ماموں کے گھر جانا کسی بھی بچے کے لیے خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ میں نے گھر والوں سے کہا، "نہیں، میں تو نہیں آؤں گا، میں تو یہی رہوں گا، میں سوامی جی کی خدمت کروں گا۔" "ان کے ہاتھ پر یہ رکھا ہوا ہے، تو وہ تو کھا پی نہیں سکتے، تو میں ہی کروں گا ان کا"، تو بچپن میں میں شادی میں نہیں گیا، میں ان کے پاس رہا اور سوامی جی کی خدمت کرتا رہا۔ تو شاید میرا کچھ اسی سمت میں دل لگ گیا تھا۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ ہمارے گاؤں میں کچھ لوگ جو فوج میں کام کرتے تھے، چھٹیوں میں گھر آتے تھے تو یونیفارم پہنے ہوتے تھے، تو میں بھی دن بھر ان کے پیچھے پیچھے دوڑتا تھا، کہ یہ دیکھو، کتنی بڑے ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ تو اس طرح، لیکن کچھ میرے لیے نہیں ، کچھ کرنا ہے بس یہی دل میں خیال رہتا تھا۔ تو زیادہ سمجھداری نہیں تھی، کوئی روڈ میپ بھی نہیں تھا، مجھے کچھ اس زندگی کو جاننے کی، پہچاننے کی بھوک تھی۔ تو میں چلا گیا، نکل پڑا۔ تو رامکشن مشن میں میرا رابطہ ہوا، وہاں کے سنتوں نے مجھے بہت پیار دیا، مجھے بہت دعائیں دیں۔ سوامی آتماستانند جی کے ساتھ میری بہت زیادہ نزدیکیاں بڑھ گئی۔ وہ 100 سال تک قریب قریب زندہ رہے۔ اور ان کی زندگی کے آخری لمحوں میں میری بڑی خواہش تھی کہ وہ میرے پی ایم ہاؤس میں تشریف لائیں اور کچھ دن یہیں رہیں، لیکن ان کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ تھیں کہ وہ نہیں آپائے۔ جب میں وزیراعلیٰ تھا، تب وہ آتے تھے۔ مجھے ان کا بہت آشیرواد ملتا تھا۔ لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ بھائی "تم کیوں یہاں آئے ہو؟ تمہیں جو کرنا ہے، کچھ اور کام کرنا ہے۔ خود کی بھلا ئی کے لئے تمہاری ترجیح یہ ہے کہ سماج کی بھلا ئی کے لئے ہے، وویکانند جی نے جو کچھ کہا، وہ سماج کی بھلا ئی کے لئے ہے، تم تو خدمت کے لئے بنے ہو۔" تو میں، ایک طرح سے وہاں تھوڑا مایوس بھی ہوا، کیونکہ صرف نصیحت ہی ملی، مدد نہیں ملی۔ پھر میں اپنے راستے پر چلتا رہا، کئی جگہوں پر ہمالیائی زندگی میں رہا، بہت کچھ تجربہ کیا، دیکھا، بہت سارے زندگی کے تجربات ہوئے، کئی لوگوں سے ملا، بڑے بڑے سوامی لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ لیکن میرا دل سکون نہیں تھا۔ عمر شاید ایسی تھی، جس میں جستجو بہت تھی، جاننے اور سمجھنے کی خواہش تھی، ایک نیا تجربہ تھا، وہاں کے موسم کی دنیا بھی الگ تھی، پہاڑوں میں، برفیلی پہاڑوں کے درمیان رہنا ہوتا تھا۔ لیکن ان سب نے مجھے بنانے میں بڑی مدد کی۔ میرے اندر کی طاقت کو، اس سے طاقت ملی۔ عبادت کرنا، صبح سویرے اٹھنا، نہانا، لوگوں کی خدمت کرنا۔ خاص طور پر جو بزرگ سنت ہوتے تھے،عبادت گزار سنتوں کی خدمت کرنا۔ ایک بار وہاں پر قدرتی آفات آئی تھی، تو میں کافی گاؤں والوں کی مدد میں لگ گیا۔ تو یہ میرے، جو سنت مہاتما جو بھی، جن کے پاس کبھی نہ کبھی میں رہتا تھا، زیادہ دن ایک جگہ پر نہیں رہتا تھا میں، زیادہ تربھٹکتا ہی رہتا تھا۔ ایک طرح سے اسی طرح کی زندگی تھی۔
لیکس فریڈمین- اور جو لوگ نہیں جانتے، انہیں بتانا ہے کہ آپ نے رامکشن مشن آشرم میں سوامی آتماستھانند کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ابھی بتایا، انہوں نے آپ کو مخلوق خدا کی خدمت کرنے کے لیے ترغیب دی اور رہنمائی فرمائی۔ تو ایک اور امکان تھا کہ آپ سب کچھ چھوڑ کر سنت بن جاتے، اور زندگی کو ترک کر کے صرف روحانی راستے پر چلتے۔ تو آپ یا تو سنت نریندر مودی کی حیثیت سے یا پھر وزیراعظم کی حیثیت سے آج ہمارے سامنے ہوتے۔ اور انہوں نے ہر سطح پر عوامی خدمت کے تئیں زندگی کو اپنانے کے فیصلے میں آپ کی مدد کی۔
وزیراعظم - ایسا ہے کہ باہر سے اگر آپ دیکھیں تو لوگ مجھے لیڈر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کہہ سکتے ہیں، لیکن میری جو اندرونی زندگی ہے،لیکن میری اندرونی زندگی صرف جہد تسلسل ہے۔ جو بچپن میں میری والدہ بچوں کا علاج کرتی تھیں، ان بچوں کو سنبھالنے والا مودی، جو ہمالیہ میں بھٹک رہا مودی تھا، یا جو آج اس مقام پر بیٹھ کر کام کر رہا ہے، ان سب میں ایک تسلسل ہے۔ ہر پل دوسروں کے لیے جینا ہے۔ اور اسی تسلسل کی وجہ سے مجھے اپنے آپ کو سادھو اور لیڈر میں کوئی بہت بڑا فرق محسوس نہیں ہوتا۔ دنیا کی نظر میں ظاہر ہے، کپڑے مختلف ہوتے ہیں، زندگی مختلف ہوتی ہے، دن بھر کی زبان مختلف ہوتی ہے، اور یہاں کا کام بھی مختلف ہے۔ لیکن میرے اندر کی جو شخصیت ہے، وہ اسی تنہائی اور لاتعلقی کے ساتھ ذمہ داری کو سنبھال رہا ہے۔
لیکس فریڈمین - آپ کی زندگی کا ایک اور اہم حصہ یہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے ملک بھارت کو سب سے اوپر رکھنے کی بات کی ہے۔ جب آپ آٹھ سال کے تھے، تو آپ نے آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی۔ جو ہندو قوم پرستی کے خیالات کی حمایت کرتا ہے۔ کیا آپ آر ایس ایس کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور اس کا آپ پر کیا اثر پڑا؟ آپ جو آج ہیں اور آپ کے سیاسی خیالات کی ترقی پر اس کا کیا اثر پڑا؟
وزیراعظم دیکھیں، بچپن میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنا، یہ میری فطرت تھی۔ مجھے یاد ہے، میرے یہاں ایک ماکوسی تھے، مجھے ان کا نام کچھ یاد نہیں آ رہا، وہ شاید سیوا دل سے وابستہ تھے۔ وہ ہاتھ میں ایک ڈھول جیسے ساز رکھتے تھے، اور وہ وطن پرستی کے گانے گاتے تھے، اور ان کی آواز بھی بہت اچھی تھی۔ تو وہ ہمارے گاؤں میں آتے تھے۔ مختلف جگہوں پر ان کے پروگرام ہوتے تھے، تو میں پاگلوں کی طرح ان کو سننے جاتا تھا۔ رات رات بھر ان کے وطن پرستی کے گانے سنتا تھا۔ مجھے بہت مزہ آتا تھا، کیوں آتا تھا، یہ مجھے نہیں پتا۔ اسی طرح میرےگاوں میں قومی سویم سیوک سنگھ کی شاخ چلتی تھی، شاخ میں کھیل کود ہوتے تھے، لیکن وطن پرستی کے گانے بھی ہوتے تھے۔ تو دل کو بہت اچھا لگتا تھا، ایک دل کو چھو جاتا تھا، بہت اچھا لگتا تھا۔ تو اسی طرح ہم سنگھ میں آ گئے۔ تو سنگھ سے ایک اصول یہ سیکھا کہ آپ جو بھی سوچیں، کریں، اگر آپ پڑھ رہے ہیں تو اتنا پڑھیں کہ آپ اپنے ملک کے کام آسکیں۔ اگر ورزش کر رہے ہیں تو ایسی ورزش کریں کہ آپ کا جسم ملک کے کام آئے۔ یہ چیزیں سنگھ کے لوگ سکھاتے رہتے ہیں۔ اب سنگھ ایک بہت بڑی تنظیم ہے، شاید اب اس کے سو سال ہو گئے ہیں، یہ سوواں سال ہے۔ اور دنیا میں اتنا بڑا خود سیوا تنظیم کہیں بھی نہیں ہوگا، ایسا میں نے نہیں سنا۔ کروڑوں لوگ اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن سنگھ کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔ سنگھ کے کام کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور سنگھ زندگی کا مقصد بتانے میں ایک اچھا راستہ دیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہےکہ، ملک ہی سب کچھ ہے اور عوام کی خدمت ہی خدا کی عبادت ہے۔ یہ جو ہمارے ویدوں میں کہا گیا ہے، جو ہمارے رشیوں نے کہا، جو سوامی وِویکانند نے کہا، وہی باتیں سنگھ کے لوگ کرتے ہیں۔ تو سویم سیوک کو کہتے ہیں کہ تمہیں سنگھ سے جو تحریک ملی، وہ ایک گھنٹے کی شاخ نہیں ہے، وہ یونیفارم پہننا، وہ سویم سیوک سنگھ نہیں ہے۔ تم نے سماج کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ اور اسی تحریک سے آج یہ کام ہو رہاہیں، جیسے کچھ سویم سیوکوں نے "سیوا بھارتی" نام کی تنظیم بنایا ہے۔ یہ سیوا بھارتی جو غریب بستیوں میں، جھگی جھوپڑیوں میں غریب لوگ رہتے ہیں، انہیں وہ "سیوا بستی" کہتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق، یہ تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار سیوا منصوبے چلاتے ہیں۔ اور کسی حکومت کی مدد کے بغیر، سماج کی مدد سے، وہاں جانا، وقت دینا، بچوں کو پڑھانا، ان کی صحت کا خیال رکھنا، ایسے کام کرتے ہیں۔ ان کے اندر صحیح اخلاقی اقدار پیدا کرنا، اس علاقے میں صفائی کا کام کرنا۔ یعنی، ایک لاکھ پچاس ہزار کا نمبر چھوٹا نہیں ہے۔ کچھ سویم سیوک ہیں، جو سنگھ سے نکل کر "ونواسے کلیان آشرم" چلاتے ہیں۔ اور جنگلوں میں قبائلیوں کے بیچ رہ کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ستر ہزار سے زیادہ 'ون ٹیچر ون اسکول' ایکل اسکول چلاتے ہیں۔ اور امریکہ میں بھی کچھ لوگ ہیں جو ان کے لیے شاید 10 یا 15 ڈالر کا عطیہ دیتے ہیں، اس کام کے لیے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اس مہینے "کوکا کولا" نہ پیو، "کوکا کولا" نہ پیو، اور اتنا پیسہ یہ ایکل اسکول کو دو۔ اب ستر ہزار ایکل اسکول، قبائلی بچوں کو پڑھانے کے لیے چلانا، کچھ سویم سیوکوں نے تعلیم میں انقلاب لانے کے لیے "وِدیا بھارتی" نام کی تنظیم بنایا ہے۔ تقریباً پچیس ہزار اسکول ان کے ملک میں چلتے ہیں۔ اور تیس لاکھ سے زیادہ طلباء ایک وقت میں ہوتے ہیں، اور میں مانتا ہوں اب تک کروڑوں طلباء کی تعلیم ہوئی ہے اور بہت کم قیمت پر تعلیم دی جاتی ہے، اور اخلاقی اقدار کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، زمین سے جڑے ہوئے لوگ ہوتے ہیں، کچھ نہ کچھ ہنر سیکھتے ہیں، سماج پر بوجھ نہیں بنتے۔ یعنی زندگی کے ہر میدان میں، چاہے وہ خواتین ہوں، نوجوان ہوں، حتیٰ کہ مزدور ہوں، شاید ممبرشپ کے لحاظ سے میں کہوں تو، "بھارتی مزدور سنگھ" ہے۔ شاید اس کے پچاس ہزار کے قریب یونینز ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں ان کے ممبران ہیں۔ شاید دنیا میں اتنا بڑا مزدور یونین کچھ نہیں ہوگا۔ اور یہ کیسے سکھایا جاتا ہے؟ بائیں بازو کے لوگ مزدوروں کی تحریکوں کو بڑا زور دیتے ہیں۔ مزدور تحریک جو ہوتی ہیں، ان کا نعرہ کیا ہوتا ہے؟ " دنیا کے مزدور متحد ہو جائیں " "دنیا کے مزدوروں، ایک ہو جاؤ")، پھر دیکھ لیں گے، یہ جذبات ہوتا ہے۔ یہ مزدور سنگھ والے کیا کہتے ہیں، جو آر ایس ایس کی شاخ سے نکلے سویم سیوک مزدور سنگھ چلاتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں، " مزدور دنیا کو متحد کریں۔ "۔ یہ کتنا بڑا فرق ہے، دو الفاظ کے اندر یہ فرق چھپاہوا ہے، لیکن کتنا بڑا نظریاتی تبدیلی ہے۔ یہ شاخ سے نکلے ہوئے لوگ، اپنی دلچسپی، فطرت، اور رجحان کے مطابق جب کام کرتے ہیں، تو اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اور جب آپ ان کاموں کو دیکھیں گے، تو آپ کو 100 سال میں قومی سویم سیوک سنگھ نے، بھارت کی ساری چمک دمک دنیا سے دور رہتے ہوئے، ایک روحانی راستے پر، اپنے کام کو کیا۔ تو میری یہ خوش نصیبی تھی کہ ایسے مقدس تنظیم سے مجھے زندگی کے اصول ملے، ایک مقصد والی زندگی ملی۔ پھر میری خوش نصیبی تھی کہ میں کچھ وقت کے لیے، کچھ لمحوں کے لیے سنتوں کے بیچ گیا، تو وہاں مجھے ایک روحانی جگہ ملی۔ سکون ملا، مقصد والی زندگی ملی، سنتوں کے پاس روحانی جگہ ملی۔ سوامی آتم سثانند جی جیسے لوگوں نے زندگی بھر میرا ہاتھ پکڑ کر رکھا، ہر لمحے میری رہنمائی کرتے رہے، تو رامکرشن مشن، سوامی وِویکانند جی کے خیالات، سنگھ کے خدمت کے جذبے، ان سب نے مجھے ڈھالنے میں ایک بہت بڑاکردار ادا کیا ہے۔
لیکس فریڈمین - لیکن انہوں نے بھارت کے نظریے کو آگے بڑھانے میں بھی مدد کی ہے۔ وہ کون سا نظریہ ہے جو بھارت کو ایک ساتھ کرتا ہے؟ ایک قوم کے طور پر بھارت کیا ہے؟ وہ کون سا بنیادی خیال ہے جو ان تمام مختلف سماجوں، کمیونٹیز اور ثقافتوں کو ایک ساتھ کرتا ہے؟ آپ کو کیا لگتا ہے؟
وزیرِ اعظم - دیکھئے، ایک بھارت ، ایک ثقافتی شناخت ہے، ایک ثقافتی، ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے۔ بھارت کی وسعت کو دیکھو، سو سے زیادہ زبانیں، ہزاروں بولیاں، آپ بھارت میں کہیں بھی جائیں، ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ بیس میل پر جانے پر بولی بدل جاتی ہے، رسم و رواج بدل جاتے ہیں، کھانا بدل جاتا ہے، لباس بدل جاتا ہے۔ جنوبی بھارت سے لے کر شمالی بھارت تک، پورے ملک میں تنوع نظر آئے گا۔ لیکن جب آپ تھوڑا اور گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو ایک رشتہ ملے گا، جیسے میں کہوں، ہمارے یہاں ہر زبان میں، ہر منہ سے، رام کا نام سنا جائے گا، رام کی کہانی ہر جگہ سنی جائے گی۔ لیکن آپ دیکھیں گے، تمل نادو سے شروع کریں، کشمیر تک جائیں گے، آپ کو کوئی نہ کوئی شخص ایسا ملے گا، جس کے نام میں کہیں نہ کہیں رام ہوگا۔
گجرات میں جائیں تو 'رام بھائی' کہے گا، تمل نادو میں جائیں تو 'رام چندرن' کہے گا، مہاراشٹر میں جائیں تو 'رام بھاؤ' کہے گا۔ تو، یہ خصوصیت بھارت کو ثقافت کے ذریعے جوڑ رہی ہے۔ اب جیسے، آپ نہاتے ہیں ہمارے ملک میں، تو کیا کرتے ہیں؟ نہانے کے لئے وہ بالٹی والے پانی سے نہیں، بلکہ 'گنگے چ یمونے چیو گو داوری سرسوتی،' یعنی بھارت کے ہر کونے کی ندیوں کا ذکر کر کے، "نرمادہ، سندھ، کاویری جلےسمن سنبدھی کرُو" یعنی تمام ندیوں کے پانی سے میں نہا رہا ہوں، پورے ملک کا وہاں۔ ہمارے یہاں حلف پر ایک روایت ہوتی ہے۔ کوئی بھی کام کریں، پوجا ہو یا کچھ بھی، تو حلف ہوتا ہے۔ اور اب حلف پر بڑی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔ یعنی کس طرح سے ڈیٹا کلیکشن ہمارے ملک میں ہوتا تھا، شاستر کیسے کام کرتے تھے، یہ ایک منفرد طریقہ تھا۔ کوئی حلف لیتا ہے یا پوجا کرتا ہے یا مان لیجئے شادی ہو رہی ہے، تو پورے پہلے برہمانڈ سے شروع کرتے ہیں، جمبو دیوے، بھارت کھنڈے، آریہ ورتھ سے شروع کرتے کرتے، گاؤں تک آئیں گے، پھر اس خاندان تک آئیں گے، پھر اس خاندان کے جو دیوتا ہوں گے، ان کا ذکر کریں گے۔
یعنی، یہ بھارت میں، اور آج بھی ہندوستان کے ہر کونے میں ہو رہا ہے یہ۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی ماڈل کیا تھا، دنیا کے اور ماڈل کیا رہے، وہ حکومتی نظام کے تحت تلاشنے لگے۔ بھارت میں حکومتی نظام بھی کئی قسم کے رہے ہیں۔ کئی ٹکڑوں میں بکھری ہوئی، کئی حصوں میں نظر آئیں گی، راجہ مہاراجوں کی تعداد دکھے گی۔ لیکن بھارت کی یکجہتی، ان ثقافتی رشتہ داریوں سے، ہمارے یہاں تیرتھ یاترا کی روایت رہی، چار دھام کی شینکر آچاریہ نے اس کی بنیاد رکھی۔ آج بھی لاکھوں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ تیرتھ یاترا کریں گے۔ ہمارے یہاں کاشی میں لوگ آئیں گے، رامیشورم کا پانی، کاشی-کاشی کا پانی رامیشورم کرنے والے، مختلف قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے۔ یعنی، ایک طرح سے، ہمارے پنجانگ بھی دیکھیں گے، تو آپ کو ملک میں اتنی چیزیں ملیں گی، جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
لیکس فریڈمین - اگر ہم جدید بھارت کی بنیاد کے تاریخ پر نظر ڈالیں، تو مہاتما گاندھی اور آپ، سب سے اہم شخصیات میں سے ایک ہیں، تاریخ کے سب سے اہم لوگوں میں سے ایک ہیں اور یقیناً بھارت کی تاریخ کے سب سے اہم افراد میں سے ایک ہیں۔ آپ کو مہاتما گاندھی کی سب سے بہترین باتیں کیا لگتی ہیں؟
وزیراعظم - آپ جانتے ہیں کہ میرا جنم گجرات میں ہوا، میری مادری زبان گجراتی ہے۔ مہاتما گاندھی کا جنم بھی گجرات میں ہوا، ان کی مادری زبان بھی گجراتی تھی۔ وہ بیرسٹر بنے، غیر ممالک میں رہے، ان کے پاس کئی مواقع تھے، لیکن جو اندرونی جذبہ تھا، جو خاندان سے انہیں سرپرستی ملی تھی، وہ سب کچھ چھوڑ کر بھارت کے لوگوں کی خدمت کے لیے واپس آئے۔ بھارت کی آزادی کی جنگ میں وہ شامل ہوئے۔ اور مہاتما گاندھی کا اثر آج بھی بھارتی زندگی پر کسی نہ کسی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ اور مہاتما گاندھی جی نے جو باتیں کہیں، انہیں جینے کی کوشش کی۔ جیسے صفائی، وہ صفائی کے بڑے حامی تھے، لیکن وہ خود بھی صفائی کرتے تھے۔ اور جہاں بھی جاتے، صفائی کی بات کرتے۔ دوسرا، بھارت میں آزادی کی تحریک دیکھیں۔ بھارت چاہے مغلوں کے زیر اثر رہا ہو، انگریزوں کے یا کسی اور کے، ہندوستان میں کئی صدیوں کی غلامی کے باوجود کبھی ایسا وقت نہیں آیا ہوگا، کبھی ایسا علاقہ نہیں ہوگا جہاں آزادی کی شمع نہ جلی ہو۔ مختلف لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں، لاکھوں لوگوں نے قربانی دی، آزادی کے لیے جان دے دی، نوجوانوں نے جیلوں میں اپنی جوانی گزار دی۔ مہاتما گاندھی نے بھی آزادی کے لیے کام کیا، لیکن فرق یہ تھا کہ وہ ایک دیہاتی انسان تھے، وہ بہادر لوگ تھے، وہ اپنے ملک کے لیے مرنے اور قربانی دینے والے لوگ تھے۔ وہ آتے تھے، اور ملک کے لیے شہید ہو جاتے تھے۔یہ روایت بہت مضبوط بنی، اس نے ایک ماحول بنایا، لیکن گاندھی جی نے ایک عوامی تحریک شروع کی، اور عام انسان کو بھی اس میں شامل کیا۔ وہ کہتے تھے، جو جھاڑو لگا رہا ہے، وہ بھی آزادی کے لیے کام کر رہا ہے۔ جو کسی کو پڑھا رہا ہے، وہ بھی آزادی کے لیے کام کر رہا ہے۔ جو چرخا کات رہا ہے، وہ بھی آزادی کے لیے کام کر رہا ہے، جو لیپروسی کے مریضوں کی خدمت کر رہا ہے، وہ بھی آزادی کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے ہر کام کو آزادی کے رنگ میں رنگ دیا۔ اور اس کے نتیجے میں بھارت کے عام آدمی کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہاں، میں بھی آزادی کا سپاہی بن گیا ہوں۔یہ عوامی تحریک اتنی بڑی تھی کہ گاندھی جی نے اسے اتنا طاقتور بنایا، جسے انگریز کبھی سمجھ ہی نہیں سکے۔ انگریزوں کو کبھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک چٹکی نمک کی داندی یاترا اتنی بڑی تبدیلی پیدا کر سکتی ہے، اور وہ دکھا دیا۔ ان کی زندگی، ان کا رویہ، ان کا دکھنا، بیٹھنا، اٹھنا، ان سب کا ایک اثر تھا، اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کے کئی مشہور قصے ہیں۔ وہ ایک دفعہ گول میز کانفرنس میں تھے، ایک انگریز نے انہیں گول میز کانفرنس میں بکنگھم پیلس میں کنگ جارج سے ملاقات کے لیے کہا۔ اب گاندھی جی اپنا دھوتی اور ایک چادر لگا کر وہاں پہنچے۔ اس پر بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس لباس میں وہ بادشاہ سے ملنے جا رہے ہیں؟ گاندھی جی نے کہا کہ بھائی، مجھے کپڑے پہننے کی کیا ضرورت ہے، جتنے کپڑے آپ کے بادشاہ کے جسم پر ہیں، وہ دونوں کے لیے کافی ہیں۔ تو یہ ان کا مزاحیہ انداز تھا۔ تو مہاتما گاندھی کی کئی خصوصیات تھیں اور مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے جو اجتماعی احساس پیدا کیا، عوامی طاقت کو پہچانا، وہ آج بھی میرے لیے بہت اہم ہے۔ میں جو بھی کام کرتا ہوں، میری کوشش رہتی ہے کہ میں عوام کو شامل کر کے کام کروں۔ یہ احساس کہ حکومت سب کچھ کرے گی، میرے ذہن میں نہیں آتا۔ معاشرتی طاقت بے انتہا ہوتی ہے، یہ میرا ماننا ہے۔
لیکس فریڈمین - تو گاندھی جی شاید بیسویں صدی کے سب سے عظیم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ آپ بھی اکیسویں صدی کے سب سے عظیم رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ یہ دونوں ادوار مختلف تھے۔ اور آپ جیوپولیٹکس کے کھیل اور فن میں ماہر رہے ہیں۔ تو میں جاننا چاہوں گا کہ آپ چیزوں کو صحیح طریقے سے کیسے سنبھال رہے ہیں؟ مطلب آپ بڑے ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کرکے راستہ نکال لیتے ہیں۔ تو بہتر کیا ہے؟ لوگوں کا آپ سے محبت کرنا یا آپ سے ڈرنا؟ ایسا لگتا ہے کہ آپ کو سب محبت کرتے ہیں، مگر ان کو آپ کی طاقت کا بھی پتہ ہے۔ آپ یہ توازن کیسے ڈھونڈتے ہیں؟ اس پر کچھ بتائیں گے؟
وزیرِ اعظم - پہلی بات یہ ہے کہ یہ موازنہ کرنا مناسب نہیں ہوگا کہ 20ویں صدی کے عظیم رہنما گاندھی تھے۔ چاہے 20ویں صدی ہو، 21ویں ہو یا 22ویں ہو، گاندھی عظیم رہنما ہر صدی کے لیے ہیں۔ آنے والی صدیوں تک مہاتما گاندھی رہنے والے ہیں کیونکہ میں انہیں اسی انداز میں دیکھتا ہوں اور آج بھی انہیں متعلقہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک مودی کا سوال ہے، میرے پاس ایک ذمہ داری ہے، لیکن وہ ذمہ داری اتنی بڑی نہیں ہے جتنا میرا ملک بڑا ہے۔ فرد اتنا عظیم نہیں ہے جتنا میرا ملک عظیم ہے۔ اور میری جو طاقت ہے، وہ مودی کی طاقت نہیں ہے، وہ 140 کروڑ ہندوستانیوں کی طاقت ہے، ہزاروں سال کی عظیم ثقافت اور روایت ہے، یہی میری صلاحیت ہے۔ اس لیے میں جہاں بھی جاتا ہوں، تو مودی نہیں جاتا، ہزاروں سال کی ویدوں سے لے کر وِویکانند کی عظیم روایت کو 140 کروڑ لوگوں کے خوابوں اور آرزؤں کو لے کر نکلتا ہوں۔ اور اس لیے جب میں دنیا کے کسی رہنما سے ہاتھ ملاتا ہوں، تو مودی کا ہاتھ نہیں مل رہا ہوتا، وہ 140 کروڑ لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تو صلاحیت مودی کی نہیں ہے، صلاحیت بھارت کی ہے۔اور مجھے یاد ہے، میں 2013 میں جب میری پارٹی نے فیصلہ کیا کہ میں وزیراعظم کا امیدوار رہوں گا، تو میری جو تنقید ہوتی تھی وہ ایک ہی تنقید ہوتی تھی اور وہ وسیع پیمانے پر بات چیت کا موضوع تھی... مودی تو ایک ریاست کا لیڈر ہے، ایک ریاست کو چلایا ہے، اسے خارجہ پالیسی کیا سمجھ آئے گی؟ وہ غیر ممالک میں جا کر کیا کرے گا؟ ایسی تمام باتیں کی جاتی تھیں۔ اور جب بھی میرے انٹرویوز ہوتے تھے، تو یہ سوال مجھ سے پوچھا جاتا تھا۔ پھر میں نے ایک جواب دیا تھا۔ میں نے کہا کہ دیکھیں بھائی، ایک پریس انٹرویو میں تو پوری خارجہ پالیسی کو میں نہیں سمجھا سکتا اور نہ ہی یہ ضروری ہے۔ لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان نہ آنکھ جھکا کر بات کرے گا، نہ آنکھ اٹھا کر بات کرے گا، لیکن اب ہندوستان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا۔ تو، میں 2013 میں اس طرح کے خیالات کے ساتھ، آج بھی ان خیالات کے ساتھ قائم ہوں، میرے لیے میرا ملک سب سے اہم ہے، لیکن کسی کو نیچا دکھانا، کسی کو برا بھلا کہنا، یہ نہ میری ثقافت کے اصول ہیں، نہ میری ثقافتی روایت ہے۔ اور ہم تو مانتے ہیں کہ بھائی پوری انسانیت کا بھلا ہو، بھارت میں تو "جئے جگت" کا تصور رہا ہے، عالمی بھائی چارے کا تصور رہا ہے، "وسودھائیو کٹمبکم" کے خیالات لے کر ہم صدیوں سے پہلے سے پوری زمین، پورے کائنات کی بھلائی کا تصور کرنے والے لوگ رہے ہیں۔
اور اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہماری بات چیت بھی کیسی ہوتی ہے، میں نے دنیا کے سامنے جو مختلف خیالات رکھے ہیں، ان خیالات کو اگر آپ تجزیہ کریں گے، جیسے میں نے ایک موضوع پیش کیا، ماحولیاتی تحفظ پر بہت بحث ہوتی تھی، تو میرے ایک خطاب میں میں نے کہا، "ون سن، ون ورلڈ، ون گریڈ" تو یہ پورا، پھر جب کووڈ چل رہا تھا، تو جی20 میں ہی میرا ایک خطاب تھا، میں نے کہا بھائی ہمارا "ون ہیلتھ" کا تصور، ہمیں اس کو ڈیولپ کرنا چاہیے۔ یعنی ہمیشہ میری کوشش یہ رہی ہے، جیسے ہم نے جی20 کا ہمارا لوگو رکھا تھا کہ "ون ارتھ، ون فیملی، ون فیچر"۔ ہر چیز میں ہم اسی سوچ سے پروان چڑھے ہیں۔ اب دنیا کو یہ چیزیں، اب جیسے میں نے رینیوایبل انرجی کا مہم چلایا ہے، بھائی، انٹرنیشنل سولر الائنس کو ہم نے جنم دیا ہے۔ اور "ون سن، ون ورلڈ، ون گریڈ" اس جذبے اور دنیا کو، گلوبل ہیلتھ کی جب بات آئی، تو میں نے کووڈ میں کہا تھا "ون ارتھ، ون ہیلتھ"۔ اب جب "ون ارتھ، ون ہیلتھ" کہتا ہوں، تو جیو مٹری، چاہے وہ نباتات ہوں، جانور ہوں یا انسان کا زندگی ہو، یعنی میری ہمیشہ کوشش یہ رہی ہے کہ دنیا کی بھلائی کرنے والی بنیادی چیزوں کی طرف ہم کوشش کریں۔ اگر ہم سب مل کر کے، اور دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا آپس میں جڑی ہوئی ہے، تنہائی میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ آج دنیا آپس میں منحصر ہے۔ تنہائی میں آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ اور اس لیے آپ کو سب کے ساتھ تال میل کرنے کی عادت بھی بنانی ہوگی اور سب کو سب کے ساتھ تال میل کرنے کی عادت بنانی پڑے گی۔ تو ہم اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز جیسی تنظیموں کا قیام عالمی جنگ کے بعد ہوا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جو اصلاحات ان میں ہونی چاہیے تھیں، وہ نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ سے آج کتنا اس کا اثر ہے، کتنا نہیں، اس پر بحث ہو رہی ہے۔
لیکس فریڈمین - آپ نے اس بارے میں بات کی ہے کہ آپ کے پاس دنیا میں امن قائم کرنے کا ہنر ہے، تجربہ ہے، جیوپولیٹیکل کا دبدبہ ہے۔ آج دنیا میں اور عالمی سطح پر، سب سے بڑا پیس میکر بننے کے لیے جبکہ کئی جنگیں ہو رہی ہیں، آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ آپ امن کا قیام کیسے کریں گے؟ دو ممالک کے درمیان جنگ کے دوران امن معاہدہ کرانے میں مدد کر سکتے ہیں، جیسے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی مثال۔
وزیراعظم - آپ دیکھیں، میں اس ملک کی نمائندگی کررہا ہوں جو بھگوان بدھ کی سرزمین ہے۔ میں اس ملک کا نمائندہ ہوں جو مہاتما گاندھی کی زمین ہےاور یہ ایسے عظیم انسان ہیں جن کی تعلیمات، گفتگو، طرز عمل اور سلوک مکمل طور پر امن کے لیے وقف ہیں اور اسی لیے ثقافتی طور پر، تاریخی طور پر، ہمارا پس منظر اتنا مضبوط ہے کہ جب بھی ہم امن کی بات کرتے ہیں، تو دنیا ہمیں سنتی ہے۔ کیونکہ یہ بدھ کی زمین ہے، یہ مہاتما گاندھی کی زمین ہے، تو دنیا ہمیں سنتی ہے اور ہم آپسی تنازع کے حق میں نہیں ہیں، ہم ہم آہنگی کے حق میں ہیں۔ نہ ہم فطرت سے تصادم چاہتے ہیں، نہ ہم قوموں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں، ہم ہم آہنگی کے خواہاں لوگ ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی کردار ہم ادا کر سکتے ہیں، تو ہم نے مسلسل کوشش کی ہے۔ اب جیسے میرا روس کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے، یوکرین کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔ میں صدر پوتن کے سامنے بیٹھ کر میڈیا کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنگ کا وقت نہیں ہے اور میں زیلنسکی کو بھی ایک دوست کے طور پر کہتا ہوں کہ بھائی، دنیا چاہے جتنی بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو جائے، جنگی میدان میں کبھی بھی نتیجہ نہیں نکلنے والا ہے۔ نتیجہ تو صرف میز پر ہی نکلے گا اور میز پر نتیجہ تب نکلے گا، جب اس میز پر یوکرین اور روس دونوں موجود ہوں گے۔ پوری دنیا یوکرین کے ساتھ بیٹھ کر جتنی بھی مشاورت کر لے، اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ دونوں فریقین کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اور شروع میں میں سمجھا نہیں پا رہا تھا، لیکن آج جو ماحول بنا ہے، اس سے مجھے لگتا ہے کہ اب روس اور یوکرین میں، میں پرامید ہوں کہ انہوں نے خود بہت کچھ کھویا ہے، دنیا کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اب عالمی جنوب کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ پورے دنیا میں خوراک، ایندھن اور کھاد کا بحران رہا ہے۔ تو پوری دنیا چاہتی ہے کہ جلد سے جلد امن ہو۔ اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میں امن کے حق میں ہوں۔ میں نیوٹرل نہیں ہوں، میں امن کے حق میں ہوں اور میرا ایک مؤقف ہے، اور میں اس کے لیے کوشش کر رہا ہوں۔
لیکس فریڈمین - ایک اور بہت ہی تاریخی اور پیچیدہ تنازع رہاہے، وہ ہے بھارت اور پاکستان کا تنازع ہے۔ یہ دنیا کے سب سے خطرناک تنازعوں میں سے ایک ہے۔ دونوں ہی کے پاس جوہری طاقتیں ہیں، دونوں کے نظریات کافی مختلف ہیں۔ آپ امن چاہتے ہیں، آپ دور اندیش رہنما ہیں۔ آپ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوستی اور امن کا کیا راستہ دیکھتے ہیں؟
وزیراعظم - ایک تو، کچھ تاریخ کی وہ باتیں ہیں جو شاید دنیا کے بہت سے لوگوں کو نہیں پتا ہیں۔ 1947 سے پہلے آزادی کی لڑائی سب لوگ کندھے سے کندھا ملا کر لڑ رہے تھے۔ اور ملک آزادی کے لیے، آزادی کا جشن منانے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسی وقت، کیا مجبوریاں ہوں گی، اس کے کئی پہلو ہیں، اس پر طویل گفتگو ہو سکتی ہے، لیکن اس وقت جو بھی پالیسی ساز لوگ تھے، انہوں نے بھارت کے تقسیم کو تسلیم کیا۔ اور مسلمانوں کو اپنا الگ ملک چاہیے ، تو بھائی دے دو۔ اور بھارت کے لوگوں نے سینے پر پتھر رکھ کر بڑی تکلیف کے ساتھ، اسے بھی تسلیم کرلیا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے نتائج اسی وقت یہ آیا کہ لاکھوں لوگ قتل عام کا شکار ہوئے۔ پاکستان سے ٹرینیں بھر بھر کے لہولہان لوگ اور لاشیں آنے لگیں، ایک ڈراونامنظر تھا۔ انہوں نے اپنا پانا کے بعد، ان کو یہ لگنا چاہیے تھا کہ چلو بھائی، ہمیں ہمارا مل گیا، بھارت کے لوگوں نے دے دیا ہے، بھارت کا شکریہ کریں، ہم خوشی سے جئیں۔ اس کے بجائے انہوں نے مسلسل بھارت سے تنازع کا راستہ اختیار کیا۔ اب پراکسی وار چل رہا ہے۔ اب یہ کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے، آئیڈیالوجی ایسی نہیں ہوتی کہ لوگوں کو مارو، کاٹو، دہشت گردوں کو تلاش کرنے کا کام چل رہا ہے اور صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں، اب دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، تو کہیں نہ کہیں اس کا تعلق پاکستان سے جڑ جاتا ہے۔ اب دیکھیں، 9/11 کی اتنا بڑا واقعہ امریکہ میں ہوا، اس کا مرکزی منصوبہ ساز اسامہ بن لادن، وہ آخرکار کہاں سے ملا؟ پاکستان میں ہی پناہ لے کر بیٹھا تھا۔ تو دنیا نے یہ پہچان لیا ہے کہ ایک طرح سے دہشت گردی کی روش، دہشت گردی کی ذہنیت اور وہ صرف بھارت کے لیے نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر کے لیے پریشانی کا مرکز بن چکا ہے۔ اور ہم مسلسل انہیں کہتے رہے ہیں کہ اس راستے سے کس کا بھلا ہوگا؟ آپ دہشت گردی کے راستے کو چھوڑ دیں، یہ اسٹیٹ اسپانسر ٹریررزم جو ہے، وہ بند ہونا چاہیے۔ نان اسٹیٹ ایکٹروں کے ہاتھ میں سب کچھ چھوڑ دیا ہے، کیا ہوگا فائدہ؟ اور اس امن کی کوششوں کے لیے میں خود لاہور گیا تھا۔ میرے وزیراعظم بننے کے بعد، میں نے اپنے حلف برداری کے پروگرام میں پاکستان کو خاص طور پر دعوت دی تھی تاکہ ایک خوشگوارماحول کا آغاز ہو۔ لیکن ہر بار، ہر اچھے اقدام کا نتیجہ منفی نکلا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انہیں عقل سلیم عطا فرمائے اور وہ سکون اور امن کے راستے پر جائیں گے اور وہاں کی عوام بھی غمگین ہوگی، ایسا میں مانتا ہوں، کیونکہ وہاں کی عوام بھی یہ نہیں چاہتی ہوگی کہ روزمرہ کی زندگی گزارے، اس قسم کی خونریزی، قتل و غارت گری، بچے مر رہے ہیں، جو دہشت گرد بن کر آتے ہیں، ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔
لیکس فریڈمین - کیا کوئی ایسی کہانی ہے، جس میں آپ نے کوشش کی ہو، پاکستان کے ساتھ سب کچھ ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہو، جو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں سے جڑی ہو، جو مستقبل میں آگے کا راستہ دکھا سکے؟
وزیراعظم - پہلی بات یہ ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کا سب سے بڑا بریک تھرو تھا، وزیراعظم بنتے ہی حلف برداری تقریب میں ان کو مدعو کرنا۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات تھی۔ اور کئی دہائیوں کے بعد یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اور شاید جو لوگ مجھے 2013 میں سوال پوچھتے تھے کہ مودی کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی، جب ان سب نے یہ سنا کہ مودی نے سارک ممالک کے تمام رہنماؤں کو حلف برداری تقریب میں مدعو کیا ہے، تو وہ چونک گئے تھے اور اس فیصلے کی عمل جو ہوا تھا اس کے معاملے میں ہمارے اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی صاحب نے اپنی کتاب میں جو یادداشتیں لکھی ہیں، اس میں اس واقعے کا بہت اچھے طریقے سے ذکر کیا ہے۔ اور حقیقت میں بھارت کی خارجہ پالیسی کتنی واضح ہے اور کتنی اعتماد سے بھری ہوئی ہے، اس کا نظارہ ہو چکا تھا اور بھارت امن کے لیے کتنا پختہ عزم رکھتا ہے، اس کا پیغام دنیا کے سامنے صاف اور واضح گیا تھا، لیکن نتائج صحیح نہیں ملے۔
لیکس فریڈمین - ویسے آپ سے ایک تھوڑا سا دلچسپ سوال پوچھنا ہے۔ بھارت یا پاکستان میں سے کس کی کرکٹ ٹیم بہتر ہے؟ دونوں ٹیموں کی پچ پر دشمنی کی باتیں بھی سب نے سنی ہیں۔ اور دونوں میں جیوپولیٹیکل کشیدگی بھی ہے، جس کا آپ نے ابھی ذکر کیا۔ کھیل، خاص طور پر کرکٹ اور فٹ بال، ممالک کے درمیان بہتر تعلقات بنانے اور آپسی تعاون بڑھانے میں کس طرح کا کردار ادا کرتے ہیں؟
وزیراعظم - ویسے، جو کھیل ہیں، وہ پوری دنیا میں توانائی بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ اسپورٹس مین اسپرٹ دنیا میں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ تو میں اسپورٹس کو بدنام ہوتے دیکھنا نہیں چاہوں گا۔ اسپورٹس کو میں ہمیشہ انسان کی ترقی کا سفر خود اعتمادی اور کھیل دل ایک شکل میں ہمیشہ سمجھتا ہوں۔ دوسری بات ہے کہ کون اچھا، کون برا۔ اگر کھیل کی ٹیکنیک کے حوالے سے بات کریں، تو میں اس کا ماہر نہیں ہوں۔ تو ٹیکنیک جو لوگ جانتے ہوں گے، وہ ہی بتا سکتے ہیں، کہ کس کا کھیل اچھا ہے اور کون کھلاڑی اچھے ہیں۔ لیکن کچھ نتائج سے پتا چلتا ہے، جیسے ابھی کچھ دن پہلے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک میچ ہوا۔ تو جو نتیجہ آیا ہے، اس سے پتا چلے گا کہ کون بہتر ٹیم ہے، فطری طور پر پتا چلے گا۔
لیکس فریڈمین - ہاں، میں نے بھی "دی گریٹیسٹ رائیولری، انڈیا ورسز پاکستان" نام کی سیریز دیکھی ہے، جس میں کئی بہترین کھلاڑیوں اور میچوں کی بات کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایسا تناو اور مقابلہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ آپ نے فٹ بال کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ بھارت میں فٹ بال بہت مقبول ہے۔ تو ایک اور مشکل سوال، آپ کا فٹ بال کا سب سے پسندیدہ کھلاڑی کون ہے؟ ہمارے پاس میسی، پیلے، میراڈونا، کرسٹیانو رونالڈو، زیدان جیسے نام ہیں۔ آپ کو آج تک کا سب سے عظیم فٹ بال کھلاڑی کون لگتا ہے؟
وزیراعظم - یہ بات صحیح ہے کہ بھارت کا بہت بڑا علاقہ ایسا ہے، جہاں فٹ بال اچھی طرح کھیلا جاتا ہے اور فٹ بال کی ہماری خواتین کی ٹیم بھی اچھا کام کر رہی ہے، مردوں کی ٹیم بھی اچھا کام کر رہی ہے۔ لیکن اگر پرانی باتیں ہم کریں، 80 کی دہائی کی، تو میراڈونا کا نام ہمیشہ ابھر کر سامنےآتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس نسل کے لیے وہ ایک ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہوں اور آج کی نسل سے پوچھیں تو وہ میسی کی بات بتائیں گے۔ لیکن مجھے ایک اور دلچسپ واقعہ آج یاد آ رہا ہے، آپ نے پوچھا تو۔ ہمارے یہاں مدھیہ پردیش نام کی ایک ریاست ہے، سینٹرل پارٹ آف انڈیا میں، وہاں شہڈول نام کا ایک ضلع ہے۔ وہاں ساری قبائلی آبادی ہے، کافی لوگ قبائلی ہیں۔ تو میں وہاں قبائلی خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ سے بات کرنے گیا تھا، مجھے ایسے لوگوں سے بات کرنا بہت پسند آتا ہے، تو میں ملنے گیا تھا۔ لیکن وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ اسپورٹس کی ڈریس میں پہنے ہوئے، 80-100 نوجوان، چھوٹے بچے، تھوڑے نوجوان، تھوڑے بڑی عمر کے، سب لوگ ایک ہی طرح... تو میں فطری طور پر ان کے پاس گیا۔ تو میں نے کہا "آپ لوگ سب کہاں سے ہیں؟" تو انہوں نے کہا ہم منی برازیل سے ہیں۔ میں نے کہا یہ منی برازیل کیا ہے بھائی تیرا؟ نہیں، بولے ہمارے گاؤں کو لوگ منی برازیل کہتے ہیں۔ میں نے کہا کیسے منی برازیل کہتے ہیں؟ بولے ہمارے گاؤں میں سے ہر خاندان میں چار چار نسلوں سے لوگ فٹ بال کھیلتے ہیں۔ نیشنل کھلاڑی 80 کے قریب ہمارے گاؤں سے نکلے ہیں، پورا گاؤں فٹ بال کے لیے وقف ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کا اینول میچ جب ہوتا ہے، تو 20-25 ہزار تماشائی قرب وجوارکے گاؤں سے آتے ہیں۔ تو بھارت میں فٹ بال کا جو ان دنوں دلچسپی بڑھ رہی ہے، میں اسے اچھا اشارہ سمجھتا ہوں۔ کیونکہ وہ ٹیم اسپرٹ بھی پیدا کرتا ہے۔
لیکس فریڈمین - ہاں، فٹ بال ان بہترین کھیلوں میں سے ایک ہے جو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کو یکجا کرتا ہے، اور اس سے کسی بھی کھیل کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی دوستی کو دوبارہ مضبوط کیا۔ ایک دوست اور رہنما کے طور پرآپ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا پسند ہے؟
وزیراعظم - میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا، شاید آپ اس سے فیصلہ کر سکیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔اب جیسے ہمارا ہیوسٹن میں ایک پروگرام تھا، 'ہاؤڈی مودی'، میں اور صدر ٹرمپ دونوں وہاں تھے اور پورا اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اتنے لوگوں کا ہونا امریکہ کی زندگی میں ایک بہت بڑی بات ہے، کھیلوں کے میدان میں یا سیاسی جلسے میں اتنے بڑے لوگ ہونا ایک بڑی بات ہے۔ تو انڈین ڈائسپورا کے لوگ وہاں اکٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نے تقریر کی، وہ نیچے بیٹھ کر مجھے سن رہے تھے۔اب یہ ان کا بڑاپن ہے جی، امریکی صدر اسٹیڈیم میں نیچے بیٹھ کر سن رہے ہیں اور میں اسٹیج پر تقریر کر رہا تھا، یہ ان کا بڑاپن تھا۔ میں خطاب کے بعد نیچے گیا اور ہم سب کو معلوم ہے کہ امریکہ کی سیکیورٹی کتنی سخت ہوتی ہے، کتنی قسم کی سیکیورٹی ہوتی ہے۔ میں اتر کر ان کا شکریہ ادا کرنے گیا، تو میں نے ان کو ایسے ہی کہا، "اگر میں نے کہا، آپ کو اعتراض نہ ہو، تو آئیے ہم ذرا اس پورے اسٹیڈیم کا چکر لگا کر آتے ہیں۔" اتنے لوگ ہیں تو ہاتھ اٹھا کر، نمستے کر کے آ جاتے ہیں۔ آپ کے امریکہ کی زندگی میں ناممکن ہے کہ ہزاروں لوگوں کے درمیان امریکی صدر چل کر آ جائیں۔ ایک لمحے کی دیر کیے بغیر، وہ میرے ساتھ چل پڑے، بھیڑ میں۔ امریکہ کا جو سیکیورٹی نظام تھا، وہ بالکل بے ترتیبی کا شکار ہو گیا تھا۔ میرے لیے یہ ایک بہت بڑی بات تھی کہ اس شخص میں ہمت ہے، یہ خود فیصلہ لیتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اگر مودی لے جا رہا ہے تو چلئے چلتے ہیں۔ تو یہ آپسی اعتماد کا جذبہ، یہ ہماری بہت مضبوطی ، میں نے اسی دن محسوس کیا۔ اور میں نے صدر ٹرمپ کو جس شکل میں اُس دن محسوس کیا، کہ سیکیورٹی والوں سے پوچھے بغیر میرے ساتھ چل دینا، ہزاروں لوگوں کے درمیان، اب اگر آپ اس کا ویڈیو دیکھیں گے تو آپ کو حیرانی ہوگی۔ اور جب ان پر گولی چلی، اب اس انتخابی مہم میں، تو مجھے صدر ٹرمپ ایک ہی نظر آئے۔ اس اسٹیڈیم میں جہاں وہ میرا ہاتھ پکڑ کر چل رہے تھے اور گولی لگنے کے بعد بھی امریکہ کے لیے جینا، امریکہ کے لیے زندگی گزارنا، یہ ان کا عکس تھا۔ کیونکہ میں 'نیشن فرسٹ' والا ہوں، وہ 'امریکن فرسٹ' والے ہیں، میں 'بھارت فرسٹ' والا ہوں۔ تو ہماری جوڑی برابر فٹ ہو جاتی ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں جو اپیل کرتی ہیں، اور میں مانتا ہوں کہ دنیا میں زیادہ تر سیاستدانوں کے بارے میں میڈیا میں اتنی رپورٹس چھپتی ہیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو میڈیا کے ذریعے ہی پرکھتا ہے، خود زیادہ ایک دوسرے سے مل کر نہیں جانتےاور شاید یہ تیسرے فریق کی مداخلت بھی تناؤ کی وجہ ہے۔ جب میں پہلی بار وائٹ ہاؤس گیا، تو صدر ٹرمپ کے بارے میں بہت کچھ میڈیا میں چھپ رہا تھا، اُس وقت وہ نئے نئے آئے تھے، دنیا انہیں تھوڑا مختلف انداز میں دیکھ رہی تھی۔ مجھے بھی مختلف طرح کی بریفنگ دی گئی تھی۔ جب میں وائٹ ہاؤس پہنچا، پہلی منٹ میں انہوں نے تمام پروٹوکول کی دیواریں توڑ دیں، اور پھر جب مجھے پورے وائٹ ہاؤس میں گھمانے لے گئے، اور مجھے دکھا رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ ان کے ہاتھ میں کوئی کاغذ نہیں تھا، کوئی پرچی نہیں تھی، کوئی ان کے ساتھ شخص نہیں تھا۔ وہ مجھے دکھا رہے تھے کہ یہ ابراہم لنکن یہاں رہتے تھے، یہ کورٹ اتنا لمبا کیوں ہے؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ یہ ٹیبل پر کس صدر نے دستخط کیے تھے؟ تاریخ کے لحاظ سے بتا رہے تھے۔ میرے لیے یہ بہت متاثر کن تھا کہ یہ ادارے کوکتنا عزت دیتے ہیں، امریکہ کی تاریخ سے کتنا تعلق ہے اور کتنی عزت ہے۔ میں یہ تجربہ کر رہا تھا اور کھل کر بہت سی باتیں میرے ساتھ کر رہے تھے۔ یہ میری پہلی ملاقات کا تجربہ تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ جب وہ، پہلی مدت کے بعد وہ انتخابات بائیڈن نے جیتے، تو یہ چار سال کا وقت گزرا۔ میرا اور ان کے درمیان جو جاننے والا شخص ان سے ملتا تھا، تو ان چار سالوں میں کئی بار، انہوں نے کہا ہوگا، "مودی میرا دوست ہے، اس کا پیغام پہنچا دو"۔ عام طور پر یہ بہت کم ہوتا ہے۔ یعنی ہم جسمانی طور پر ملے نہ ہوں، لیکن ہمارے درمیان کا ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ رابطہ، یا نزدیکی، یا اعتماد، وہ اٹوٹ رہا۔
لیکس فریڈمین - انہوں نے کہا کہ آپ ان سے کہیں زیادہ اچھے اور بہتر موافقت رکھتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے حال ہی میں آپ کے دورے کے دوران کہی۔ ایک بات چیت کرنے والے کے طور پر آپ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ اور آپ کے مطابق ان کے کہنے کا کیا مطلب تھا کہ آپ موافقت میں اچھے ہیں؟
وزیراعظم - اب یہ تو میں کہہ نہیں سکتا کیونکہ ان کا یہ بڑاپن ہے کہ وہ میرے جیسے، عمر میں بھی ان سے چھوٹا ہوں، وہ میری عوامی طور پر تعریف کرتے ہیں، مختلف موضوعات پر تعریف کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ میں اپنے ملک کے مفادات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ اور اسی لئے میں بھارت کے مفادات کے حوالے سے ہر فورم پر اپنی بات رکھتا ہوں، کسی کا نقصان کرنے کے لیے نہیں بلکہ مثبت طور پر رکھتا ہوں، تو کسی کو برا بھی نہیں لگتا۔ لیکن میری درخواست کو سب جانتے ہیں کہ بھائی مودی ہیں تو ان چیزوں کا مطالبہ کرے گا، اور وہ تو میرے ملک کے لوگوں نے مجھے وہ کام دیا ہے، تو میں تو اپنے ملک کی ہی خدمت کروں گا، یہ میرا ہائی کمانڈ ہے، میں تو ان کی خواہش کے مطابق ہی کام کروں گا۔
لیکس فریڈمین - آپ نے امریکہ کے اپنے دورے پر کئی دیگر لوگوں کے ساتھ بھی اہم ملاقاتیں کیں، ایلون مسک، جے ڈی وینس، تلسی گیببرڈ، وویک راماسوامی۔ ان ملاقاتوں میں سے کچھ اہم باتیں کیا رہیں، جو خاص تھیں؟ کوئی اہم فیصلے یا خاص یادیں؟
وزیراعظم - دیکھیں، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کو میں نے پہلے مرحلے میں بھی دیکھا ہے، اور دوسرے مرحلے میں بھی۔ اس بار وہ پہلے سے بہت زیادہ تیار ہیں۔ انہیں بہت واضح طور پر پتا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے، ان کے دماغ میں سٹیپس کا روڈ میپ بہت کلئیر ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میں ان کی ٹیم کے لوگوں سے ملا۔ میں مانتا ہوں کہ انہوں نے بہت اچھی ٹیم منتخب کی ہے، اور اتنی اچھی ٹیم ہے تو صدر ٹرمپ کے جو بھی ویژن ہیں، ان کو نافذ کرنے کی صلاحیت ان کی ٹیم میں موجود ہے، جیسا کہ میں نے ان سے بات چیت کی ہے۔ جن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی، چاہے وہ تلسی جی ہوں، یا وویک جی ہوں، یا ایلون مسک ہوں، ایک فیملی کی طرح ماحول تھا۔ سب اپنے خاندان کے ساتھ ملنے آئے تھے۔میں ایلون مسک کو جانتا ہوں، جب میں وزیراعلیٰ تھا، تب میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ، بچوں کے ساتھ آئے تھے، تو وہ ماحول بہت اچھا تھا۔ باتیں تو ہوتی ہیں، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ اب ان کا جو "ڈوز" والا مشن چل رہا ہے، وہ بڑے پرجوش ہیں کہ وہ کس طرح سے یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن میرے لیے بھی خوشی کی بات ہے، کیونکہ جب میں 2014 میں آیا تھا، تو میں چاہتا تھا کہ میرے ملک میں ،پرانی بیماریاں جوداخل ہوگئیں ہیں میں اپنے ملک کو ان بیماریوں سے ،غلط عادتوں سے جتنی زیادہ ہوسکے نجات دلاسکوں۔میں نے دیکھا 2014 میں آنے کے بعد، میں نے دیکھا کہ ہماری کوئی عالمی سطح پر اتنی بات نہیں ہو رہی تھی، جتنی صدر ٹرمپ اور "ڈوز" کی بات ہو رہی ہے۔میں مثال دوں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح سے کام ہوا ہے؟ میں نے دیکھا کہ جو سرکار کی کچھ اسکیموں کے فائدے ہوتے ہیں ، خاص طور پر عوامی فلاوبہبود کے کام کچھ ایسے لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے تھے جن کا کبھی وجود ہی نہیں ہوا تھا۔لیکن "گھوسٹ" نام، شادی ہو جاتی تھی، بیوہ ہو جاتی ہیں، اور پینشن ملنا شروع ہو جاتا تھا، معذوری ہو جاتی تھی، پھر پینشن ملنا شروع ہو جاتی تھا۔ پھر میں نے اس کی جانچ شروع کی۔ آپ جان کر حیران ہوں گے، 100 ملین لوگ، 10 کروڑ ایسے نام، جعلی نام، نقلی نام ، ان کو میں نے نظام سے باہر نکالا۔ اور اس کے نتیجے میں جو پیسہ بچا، وہ میں نے براہ راست فائدہ کی منتقلی (ڈی بی ٹی) شروع کی۔ جو پیسہ دہلی سے نکلے گا، اتنا ہی پیسہ ان کے جیب میں جانا چاہیے۔ اس کی وجہ سے میرے ملک کا تقریباً تین لاکھ کروڑ روپے کا پیسہ جو غلط ہاتھوں میں جا رہا تھا، وہ بچا ہے۔ براہ راست فائدہ کی منتقلی کے ذریعے ٹیکنالوجی کا میں بھرپور استعمال کرتا ہوں، اس کی وجہ سے بیچ والے لوگ نہیں رہے۔ حکومت میں میں نے خریدار کے لیے جیم پورٹل بنایا، ٹیکنالوجی کا تو اس سے حکومت کی خریداری میں بھی پیسہ بچ رہا ہے، وقت بچ رہا ہے، اور اچھا کمپٹیشن اچھامل رہا ہے، اچھی چیزیں مل رہی ہیں۔ ہمارے یہاں کمپلائنس کا بوجھ بھی بہت تھا، میں نے 40 ہزار کمپلائنسز ختم کیے۔ پرانے قانونوں کا ایک ڈھیر تھا، جن کا کوئی فائدہ نہیں تھا، تقریباً پندرہ سو قانون میں نے ختم کیے۔ تو میں بھی حکومت میں ایسی چیزوں سے نجات دلانے کا کام کر رہا ہوں، اس لیے یہ چیزیں ایسی ہیں جو "ڈوز" کے کام سے جڑی ہوئی ہیں، اور اس قسم کی باتوں کا ہونا بہت معمولی بات ہے۔
لیکس فریڈمین - آپ اور شی جن پنگ ایک دوسرے کو دوست مانتے ہیں۔ حالیہ تنازعات کو کم کرنے اور چین کے ساتھ بات چیت اور تعاون کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد دینے کے لیے، آپ اس دوستی کو کیسے مزید مضبوط بنا سکتے ہیں؟
وزیراعظم - دیکھیے، بھارت اور چین کے تعلقات کوئی آج کے نہیں ہیں، دونوں قدیم ثقافتیں ہیں، قدیم تہذیبیں ہیں۔ اور جدید دنیا میں بھی ان کی ایک اہمیت ہے۔ اگر آپ پرانے ریکارڈ دیکھیں گے، تو کئی صدیوں تک بھارت اور چین ایک دوسرے سے سیکھتے رہے ہیں، اور دونوں نے مل کر دنیا کی بھلا ئی کے لیے کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا۔ جو عالمی ریکارڈ ہیں، ان کے مطابق دنیا کا جو جی ڈی پی تھا، اس کا 50فیصد سے زیادہ حصہ صرف بھارت اور چین کا تھا، اتنا بڑاتعاون بھارت کا تھا۔ اور میں مانتا ہوں کہ اتنے مضبوط تعلقات رہے ہیں، اتنے گہرے ثقافتی تعلقات رہے ہیں اور پچھلی صدیوں میں ہمارے درمیان کوئی بھی تنازعہ کی تاریخ نہیں ملتی۔ ہمیشہ ایک دوسرے سے سیکھنا، ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش رہی ہے۔ اور بدھ کا اثر کسی وقت چین میں بہت زیادہ تھا، اور یہ نظریہ وہیں سے وہاں گیا تھا۔ہم مستقبل میں بھی ان تعلقات کو مضبوط رکھنا چاہتے ہیں، یہ ہمارا مقصد ہے کہ یہ تعلقات ایسے ہی جاری رہیں۔ جہاں تک اختلافات کی بات ہے تو دو پڑوسی ملک ہونے کے ناطے کچھ نہ کچھ اختلافات تو ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار کچھ عدم اتفاق ہونا بھی بہت فطری بات ہے، ایسا تو ہر چیز میں ہوتا ہے، وہ تو ایک خاندان میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہ رہتی ہے کہ ہمارے جو اختلافات ہیں، وہ تنازعہ میں نہ بدلیں، اس سمت میں ہماری کوشش رہتی ہے۔ ہم ہمیشہ بات چیت پر زور دیتے ہیں، نہ کہ تنازعہ پر۔ تب ہی جا کر ایک مستحکم، تعاون پر مبنی تعلقات بن سکتے ہیں جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہمارا سرحدی تنازعہ جاری رہتا ہے، اور 2020 میں سرحد پر جو واقعات پیش آئے، ان کی وجہ سے ہمارے تعلقات میں خاصی دوری آ گئی تھی۔ لیکن حالیہ ملاقات میں، صدر شی کے ساتھ میری بات چیت کے بعد، جو سرحدی مسائل تھے، ان میں معمول کی حالت واپس آ چکی ہے، اور ہم 2020 سے پہلے کی صورتحال پر کام کر رہے ہیں۔ اب آہستہ آہستہ وہ اعتماد اور جوش و خروش دوبارہ آ جائے گا، اس میں تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ درمیان میں پانچ سال کا وقفہ گزر چکا ہے۔ ہمارا ایک ساتھ ہونا نہ صرف فائدے کا ہے، بلکہ عالمی استحکام اور خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اور جب 21ویں صدی ایشیا کی صدی ہے، تو ہم چاہیں گے کہ بھارت اور چین کے درمیان مسابقت کوئی غلط بات نہیں ہے، لیکن تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔
لیکس فریڈمین - دنیا ایک اُبھرتے ہوئے عالمی جنگ کے بارے میں فکر مند ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی، یوکرین اور روس میں کشیدگی ، یورپ میں کشیدگی، اسرائیل اور مشرق وسطی میں کشیدگی۔ آپ اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں کہ 21ویں صدی میں ہم عالمی جنگ کو کیسے ٹال سکتے ہیں؟ مزید تنازعات اور جنگ کی طرف بڑھنے سے ہم کس طرح بچ سکتے ہیں؟
وزیراعظم - دیکھیے، کووڈ نے ہم سب کی حدود کو ظاہر کر دیا۔ ہم چاہے جتنا بھی خود کو عظیم ملک سمجھیں، جتنا بھی ہم ترقی یافتہ، سائنسی طور پر جدید مانیں، لیکن کووڈ کے دوران دنیا کا ہر ملک زمینی سطح پر آگئے ۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ دنیا کچھ سیکھے گی اور ہم ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھیں گے، جیسے دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک عالمی نظام قائم ہوا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے، ایسا نہیں ہوا، اور دنیا امن کی طرف جانے کے بجائے منتشر ہو گئی، ایک عدم یقین کا دور شروع ہو گیا، اور جنگ نے اسے مزید مشکلات میں ڈال دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ جدید جنگیں صرف وسائل یا مفادات کے لیے نہیں ہو رہی ہیں، آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف نوعیت کے تنازعات ہو رہے ہیں۔ جہاں جسمانی جنگوں کی بات ہوتی ہے، وہیں دوسرے میدانوں میں بھی لڑائیاں چل رہی ہیں۔ جو بین الاقوامی تنظیمیں قائم ہوئیں، وہ تقریباً غیر متعلق ہو چکی ہیں، ان میں کوئی اصلاح نہیں ہو رہی۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ دنیا میں جو لوگ قانون اور اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے، وہ سب کچھ کر رہے ہیں، اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں حکمت یہی ہوگی کہ تمام ممالک جنگ کی راہ چھوڑ کر ہم آہنگی کے راستے پر آئیں۔ ترقی پسند راستہ ہی صحیح ہے، توسیع پسندی کا راستہ کامیاب نہیں ہوگا۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا، دنیا آپس میں جڑی ہوئی ہے، ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے، ہر کسی کو کسی نہ کسی کی ضرورت ہے، کوئی بھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ جتنے مختلف فورمز میں مجھے جانا پڑتا ہے، وہاں سب کو تنازعات کی فکر لاحق ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بہت جلد اس سے نجات ملے۔
لیکس فریڈمین - میں ابھی بھی سیکھ رہا ہوں۔
وزیراعظم - آپ گھڑی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
لیکس فریڈمین: نہیں نہیں، میں ابھی یہ کام سیکھ رہا ہوں، وزیراعظم جی۔ میں اس میں زیادہ اچھا نہیں ہوں، ٹھیک ہے۔ اپنے کیریئر اور زندگی میں آپ نے بھارت کی تاریخ کے کئی مشکل حالات دیکھے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات ان میں سے ایک ہے۔ وہ بھارت کی حالیہ تاریخ کے سب سے مشکل وقتوں میں سے ایک تھا۔ جب گجرات میں ہندو اور مسلمان لوگوں کے درمیان تشدد ہوا تھا۔ جس میں ایک ہزار سے زیادہ جانیں گئیں۔ اس سے وہاں کے مذہبی کشیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے بتایا اُس وقت آپ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ تو اُس وقت کی بات کریں تو اُس وقت سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟ میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے دو بار فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے 2012 اور 2022 میں کہا کہ آپ کا اس تشدد میں کوئی کردار نہیں تھا۔ 2002 کے گجرات فسادات کے تشدد میں۔ لیکن میں جاننا چاہتا تھا کہ آپ نے اُس وقت سے سب سے بڑی باتیں کیا سیکھیں؟
وزیراعظم : دیکھیے، میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے جو آپ نے کہا کہ میں اس موضوع میں ماہر نہیں ہوں، میں اب انٹرویو ٹھیک کر رہا ہوں یا نہیں، جو آپ کے ذہن میں جو الجھن پیدا ہوئی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے کافی محنت کی ہے، کافی تحقیق کی ہے اور آپ نے ہر چیز کی باریکیوں میں جانے کی کوشش کی ہے۔ تو میں یہ نہیں مانتا کہ آپ کے لیے کوئی مشکل کام ہے۔ اور آپ نے جتنے پوڈکاسٹ کیے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ آپ مسلسل اچھا ہی پرفارم کر رہے ہیں۔ اور آپ نے مودی کو سوال کرنے کے بجائے، آپ نے بھارت کے ماحول کو جاننے کی بھرپور کوشش کی ہے، ایسا میں محسوس کر رہا ہوں۔ اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سچائی تک پہنچنے کی آپ کی کوشش میں ایمانداری نظر آتی ہے۔ اور اس کوشش کے لیے میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
لیکس فریڈمین - شکریہ۔
وزیراعظم - جہاں تک آپ نے ان پرانی چیزوں کی بات کی، لیکن آپ 2002 اور گجرات کے فسادات کی بات کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کے کچھ دنوں کا میں آپ کو ایک 12-15 مہینے کی منظر کشی کرنا چاہوں گا، تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ کیا صورتحال تھی۔ جیسے 24 دسمبر 1999، یعنی تین سال پہلے کی بات ہے۔ کاٹھمنڈو سے دہلی جو فلائٹ آرہی تھی، وہ ہائی جیک کر کے افغانستان لے جایا گیا، کندھار میں لے گئے۔ اور بھارت کے سیکڑوں مسافروں کو اغواکرلیا گیا۔ پورے بھارت میں ایک بہت بڑا طوفان تھا، لوگوں کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اب سال 2000 کے اندر، ہمارے یہاں لال قلعہ میں دہشت گردوں کا حملہ ہوا، دہلی میں۔ ایک نیا اور اس کے ساتھ طوفان جڑ گیا۔ 11 ستمبر سال2001، امریکہ میں ٹوئن ٹاور پر بہت بڑا دہشت گردی کا حملہ ہوا، جس نے پھر ایک بار دنیا کو پریشان کر دیا، کیونکہ یہ سب جگہ پر کرنے والے ایک ہی طرح کے لوگ ہیں۔ اکتوبر 2001 میں جموں و کشمیر اسمبلی پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ 13 دسمبر 2001 کو بھارت کی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ یعنی آپ اُس وقت کی ایک 8-10 مہینے کے واقعات دیکھیں، عالمی سطح کی دہشت گردی کے واقعات، خونریزی کے واقعات، بے گناہ لوگوں کی موت کے واقعات۔ تو کوئی بھی بدامنی کے لیے ایک چنگاری کافی ہوتی ہے، یہ صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔ ایسے وقت میں، اچانک، 7 اکتوبر 2001 کو، میرےوزیراعلیٰ بننے کی ذمہ داری میرے سر پر آ گئی اور وہ بھی میری سب سے بڑی ذمہ داری تھی، گجرات میں جو زلزلہ آیا تھا، اُس زلزلے کی بحالی کے لئے بہت بڑا کام تھا اور پچھلی صدی کا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ تو ایک کام کے لئے میں، میرے لئے وزیراعلیٰ کا کام میرے ذمہ آ گیا۔ بہت اہم کام تھا اور میں حلف لینے کے بعد پہلے ہی دن سے اس کام میں جڑ گیا تھا۔ میں ایک ایسا شخص ہوں، جو کبھی حکومتی کام کاج سے میرا رشتہ نہیں رہا۔میں حکومت میں کبھی نہیں رہا، میں حکومت کیا ہوتی ہے، مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں کبھی ایم ایل اے نہیں بنا، میں نے کبھی انتخاب نہیں لڑا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار انتخاب لڑنا پڑا۔ 24 فروری 2002، میں پہلی بار ایم ایل اے بنا، ایک منتخب عوامی نمائندہ بنا۔ اور میں پہلی بار 24 تاریخ کو یا 25 تاریخ کو یا 26 تاریخ کو گجرات اسمبلی میں میں نے قدم رکھا۔ 27 فروری 2002، اسمبلی میں میرا بجٹ سیشن تھا، ہم ہاؤس میں بیٹھے تھے، اور اسی دن، یعنی ابھی مجھے ایم ایل اے بنے تین دن ہوئے تھے، اور گودھرا کا واقعہ ہو گیا اور وہ ایک ہولناک واقعہ تھا، لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جو کندھار کے طیارے کے اغوا کو، یا پارلیمنٹ پر حملے کو کہیں، یا 9/11 کو کہیں، یہ ساری واقعات کا پس منظر ہو اور اس میں ایک اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا مر جانا، زندہ جلا دینا، آپ تصور کر سکتے ہیں کہ صورتحال کیسی ہوگی۔ کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے، ہم بھی چاہتے ہیں، کوئی بھی چاہے گا، امن ہی رہنی چاہیے۔ دوسرا، جو کہتے ہیں یہ بہت بڑے فسادات ہوئے، تو یہ افواہ پھیلائی گئی۔ اگر 2002 کے پہلے کا ڈیٹا دیکھیں، تو پتہ چلتا ہے کہ گجرات میں کتنے فسادات ہوتے تھے۔ ہمیشہ کہیں نہ کہیں کرفیو لگارہتا تھا۔ پتنگ کے اندر کمیونل تشدد ہو جاتی تھی، سائیکل ٹکرا جانے پر کمیونل تشدد ہو جاتا تھا۔ 2002 سے پہلے گجرات میں 250 سے زیادہ بڑے فسادات ہوئے تھے۔ اور 1969 میں جو فسادات ہوئے تھے، وہ تو تقریباً 6 مہینے تک چلے تھے۔ یعنی تب تو ہم کہیں تھے ہی نہیں دنیا کے اُس منظر میں، اُس وقت کی میں بات کر رہا ہوں۔ اور اتنی بڑی واردات ایک ایسا چنگاری کا سبب بن گیا کہ کچھ لوگ تشدد کے شکار ہوگئے، لیکن عدلیہ نے اس کو بہت تفصیل سے دیکھا ہے۔ طویل، اور اُس وقت ہمارے جو مخالف لوگ تھے، وہ حکومت میں تھے۔ اور وہ تو چاہتے تھے کہ ہم پر جتنے الزامات لگے تھے، ہمیں سزا ہو جائے۔ لیکن ان کی لاکھوں کوششوں کے بعد بھی عدلیہ نے پورے طور پر تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا، 2-2 بار کیا اور ہم بالکل بے گناہ نکلے۔ جن لوگوں نے جرم کیا تھا، ان کے لئے عدلیہ نے اپنا کام کیا ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس گجرات میں سال میں کہیں نہ کہیں فسادات ہوتے تھے، 2002 کے بعد، آج 2025 ہے، گجرات میں 20-22 سالوں میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا، مکمل طور پر امن ہے، اور ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ ہم ووٹ بینک کی سیاست نہیں کرتے، ہم سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس، اسی منتر کو لے کر کے چلتے ہیں۔ خوشامد کی سیاست سے ہم، خواہشات کی سیاست کی طرف گئے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جس کو بھی کچھ کرنا ہے، وہ ہمارے ساتھ جڑ جاتے ہیں، اور ایک اچھے طریقے سے گجرات ترقی یافتہ ریاست بنی، اُس سمت میں ہم مسلسل کوشش کرتے رہے ہیں، اب ترقی یافتہ بھارت کے لئے کام کر رہے ہیں، اس میں بھی گجرات اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔
لیکس فریڈمین: بہت سے لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے یہ کئی لوگوں سے سنا ہے، لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ کی تنقید کرتے ہیں، میڈیا سمیت، اور میڈیا کے لوگوں نے 2002 کے گجرات فسادات پر آپ کی تنقید کی ہے۔ تو آپ کا تنقید کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ آپ تنقید کرنے والوں سے کس طرح نمٹتے ہیں، آپ اس تنقید سے کس طرح نمٹتے ہیں جو میڈیا یا آپ کےآس پاس یا آپ کی زندگی میں کہیں سے بھی آ سکتی ہے؟
وزیراعظم - دیکھیے، آپ نے جو کہا، تنقید اور اس سے کیسے نمٹتے ہیں۔ تو اگر مجھے ایک جملے میں کہنا ہو، تو میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ کیونکہ میرا ایک عقیدہ ہے کہ تنقید، یہ جمہوریت کی روح ہے۔ اگر آپ زیادہ جمہوریت پسند ہیں، آپ کے خون میں جمہوریت ہے، تو ہمارے یہاں تو کہا جاتا ہے شاستروں میں- 'نندک نیارے راکھیے'، جو آپ کی تنقید کرنے والے ہوتے ہیں، وہ سب سے قریب ہونے چاہیے، آپ کے پاس۔ تو آپ جمہوری طریقے سے، اچھے انداز میں، اچھی معلومات کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ اور میں مانتا ہوں کہ تنقید ہونی چاہیے اور زیادہ ہونی چاہیے اور بہت شدید تنقید ہونی چاہیے۔ لیکن میری شکایت یہ ہے کہ آج کل تنقید نہیں ہو رہی ہے، تنقید کرنے کے لیے بہت مطالعہ کرنا پڑتا ہے، موضوع کی باریکی میں جانا پڑتا ہے، سچ اور جھوٹ تلاش کر کے نکالنا پڑتا ہے۔ آج کل لوگ شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی عادت کی وجہ سے کوئی اسٹڈی نہیں کرتے، ریسرچ نہیں کرتے، کمزوریوں کو ڈھونڈ کر نکالتے نہیں ہیں اور الزام لگانے میں لگ جاتے ہیں۔ الزام اور تنقید میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ جن لوگوں کا حوالہ دے رہے ہیں، وہ الزام ہیں، وہ تنقید نہیں ہے۔ اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے تنقید چاہیے۔ الزام سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے۔ تُو تُو میں میں چلتا ہے۔ اور اس لیے میں تنقید کو ہمیشہ خوش آمدید کہتا ہوں اور جب الزامات جھوٹے ہوتے ہیں، تو میں بہت صحت مند طریقے سے اپنے عزم کے ساتھ اپنے ملک کی خدمت میں لگا رہتا ہوں۔
لیکس فریڈمین - ہاں، آپ جس چیز کی بات کر رہے ہیں، وہ میرے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ میں اچھی صحافت کی تعریف کرتا ہوں۔ اور بدقسمتی سے، جدید دور میں بہت سے صحافی فوری سرخیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ انہیں سرخیاں چاہیے، سستی مقبولیت چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ عظیم صحافی بننے کے لیے خواہش اور بھوک ہونی چاہیے۔ اور اس کے لیے گہری سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کتنی بار ایسا ہوا ہے۔ ہماری بات کرنے کا بھی یہی وجہ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں اس میں بہت اچھا ہوں، لیکن میں یہی وجہ ہے کہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لوگ زیادہ کوشش نہیں کرتے اور زیادہ تحقیق بھی نہیں کرتے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں۔ میں نے صرف تجربہ کرنے، صرف سمجھنے کی کوشش کی تیاری میں بہت کچھ پڑھا ہے۔ اس میں بہت تیاری، بہت محنت لگتی ہے۔ اور میں چاہوں گا کہ بڑے صحافی ایسا ہی کریں۔ اسی بنیاد سے آپ تنقید کر سکتے ہیں، گہرائی سے تفتیش کر سکتے ہیں، آپ واقعی میں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی صورتحال کا تجزیہ کر سکتے ہیں، ان کی طاقت، ان کی کمزوریاں، اور ان کی غلطیاں بھی جو انہوں نے کی ہیں، لیکن اس کے لیے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔ کاش ایسے عظیم صحافی اس طرح کے اور کام کریں۔
وزیراعظم - دیکھیے، میں بتاتا ہوں، اچھے طریقے سے کی گئی اور مخصوص تنقید حقیقت میں پالیسی بنانے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔ اس سے ایک صاف پالیسی ویژن نکلتا ہے۔ اور میں خاص طور پر ایسی چیزوں پر توجہ دیتا ہوں کہ جو تنقید ہوتی ہے، اس کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ دیکھیے، آپ نے جو کہا، جرنلزم کے حوالے سے، اگر سرخیاں بنانے کا شوق ہو، اور شاید کچھ الفاظ کا کھیل کھیلا جائے، میں اسے بہت برا نہیں مانتا۔ ایجنڈا لے کر جو کام کیا جاتا ہے، سچ کو رد کیا جاتا ہے، تب وہ آنے والے دہائیوں تک تباہی کرتا ہے۔ اگر کسی کو اچھے الفاظ کا شوق ہو، کوئی اپنے قارئین یا ناظرین کے لیے ایسا کرے، تو چلیے، اتنا سا ہم سمجھوتہ کر لیں۔ لیکن اگر ارادہ غلط ہو، ایجنڈا طے کر کے چیزوں کو سیٹ کرنا ہو، تو وہ تشویش کا باعث ہوتا ہے۔
لیکس فریڈمین: اور اس میں سچائی متاثر ہوتی ہے میرا یہ خیال ہے۔
وزیراعظم: مجھے یاد ہے، میرا ایک بار، لندن میں ایک خطاب ہوا تھا۔ وہاں کا ایک اخبار ہے، لندن میں گجراتی اخبار ہے، تو ان کا ایک پروگرام تھا، اس میں مجھے مدعو کیا گیا تھا… تو میں نے ایسے ہی اپنے خطاب میں کہا، میں نے کہا، دیکھیے، کیونکہ وہ صحافی تھے، صحافت کا پروگرام تھا، تو میں نے کہا، دیکھیے بھائی، صحافت کیسی ہونی چاہیے؟ مکھی جیسی یا مدھو مکھی جیسی؟ تو میں نے کہا کہ مکھی جو ہوتی ہے، وہ گند گی پر بیٹھتی ہے اور گند گی ہی اُٹھا کر پھیلاتی ہے۔ شہد کی مکھی ہے، جو پھول پر بیٹھتی ہے اور شہد لے کر شہد دیتی ہے۔ لیکن، اگر کوئی غلط کرے، تو مدھو مکھی ایسا حملہ کرتی ہے، کہ تین دن تک آپ اپنا چہرہ کسی کو نہیں دکھا سکتے۔ تو میں نے کہا اب میں… میری اس آدھی بات کو کسی نے اُٹھا لیا اور اس پر اتنا تنازعہ کھڑا کر دیا۔ تو میں بہت ایمانداری سے کسی کے بارے میں منفی بات نہیں کر رہا تھا، بلکہ میں تو طاقت کی بات کر رہا تھا کہ مدھو مکھّی کی طاقت یہ ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا ڈنک ماردے، تو آپ تین دن تک منہ چھپائے رہیں گے۔ یہ طاقت ہونی چاہیے صحافت کی۔ لیکن، کچھ لوگوں کو مکھی والا طریقہ پسند آتا ہے۔
لیکس فریڈمین: اب میری زندگی کا نیا مقصد ہے، شہد کی مکھّی کی طرح بننا۔ آپ نے جمہوریت کا ذکر کیا، تو… اور 2002 تک آپ کو حکومت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ لیکن 2002 سے لے کر آج تک، میری گنتی میں آپ نے آٹھ انتخابات جیتے ہیں۔ تو، بھارت میں کئی انتخابات میں 80 کروڑ سے زیادہ لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ اتنے بڑے انتخابات جیتنے کے لیے اور 1.4 ارب لوگوں کے ملک میں انتخابات جیتنے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے، جہاں آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ان لوگوں کی نمائندگی کرنے کا موقع ملتا ہے؟
وزیراعظم: ایسا ہے کہ جب سے میں سیاست میں آیا ہوں، میں بہت دیر سے سیاست میں آیا اور میں اس سے پہلے تنظیم کا کام کرتا تھا، تو میرے پاس تنظیم کا کام رہتا تھا، تو الیکشن مینجمنٹ کا بھی کام رہتا تھا۔ تو میرا وقت اسی میں گزرتا تھا اور میں پچھلے 24 سال سے حکومت کے سربراہ کے طور پر ملک کے لوگوں اور گجرات کے لوگوں نے مجھے کام کرنے کا موقع دیا ہے، ایک سرشار جذبے کے ساتھ، میں لوگوں کو خدا سمجھتا ہوں، جو ذمہ داری اس نے مجھے دی ہے۔ میں اسے مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں کبھی بھی ان کے اعتماد کو ٹوٹنے نہیں دیتا ہوں اور وہ بھی میں جیسا ہوں، وہ دیکھتے ہیں۔ میری حکومت کی جو پالیسیاں رہتی ہیں، وہ جیسے میں ابھی کہہ رہا ہوں، سیچوریشن کی پالیسی، جو بھی اسکیمیں ہوںگی، سو فیصد لاگو کرنی چاہیے۔ اس کے جو فائدہ اٹھانے والے ہیں، ان میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ذات، نہ مذہب، نہ آستھا، نہ پیسہ، نہ سیاست، کچھ نہیں، ہم نے جو سب کے لیے، سب کو کرنا چاہیے اور اس کے سبب اگر کسی کا کام نہیں بھی ہوا ہے، تو اسے یہ نہیں لگتا کہ بھائی میرے سے غلط وجوہات سے روکا گیا ہے، اسے لگتا ہے کہ چلیے ابھی نہیں ہوا، کل ہو جائے گا۔ تو اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ایک تو میرے گورننس کے ماڈل میں اعتماد بہت بڑی طاقت ہے۔ دوسرا، میں انتخابی مرکوز گورننس نہیں چلاتا ہوں، میں لوگوں مرکوز گورننس چلاتا ہوں۔ میرے ملک کے لوگوں کا بھلا کیسے ہو؟ میرے ملک کے لیے اچھا کیا ہو؟ اور میں روحانی سفر پر نکلا تھا۔، تو اب، میں نے ملک کو ہی دیو مان لیا ہے۔ اور میں نے عوام کو خدا کی شکل مان لیا ہے۔ تو ایک پجاری کی طرح، میں اس عوام کی خدمت کرتا رہوں، یہی میرا جذبہ رہا ہے۔ تو دوسرا، میں عوام سے کٹتا نہیں ہوں، ان کے درمیان رہتا ہوں، ان کے جیسا رہتا ہوں اور میں عوامی طورپر کہتا ہوں کہ آپ اگر 11 گھنٹے کام کرو گے، تو میں 12 گھنٹے کام کروں گا۔ اور لوگ دیکھتے بھی ہیں، تو ان کو اعتماد ہے۔ دوسرا، میرا اپنا کوئی انٹرسٹ نہیں ہے، نہ میرے کوئی میرے اگلے-پیچھے کوئی میرا رشتہ دار نظر آتا ہے، میرا کوئی پہچان والا دکھتا ہے، تو عام آدمی ان چیزوں کو پسند کرتا ہے اور شاید ایسے کئی وجوہات ہوں گے۔ دوسرا، میں جس پارٹی سے ہوں، وہاں لاکھوں خود کو پارٹی کے لیے وقف کردہ کارکن ہیں، صرف اور صرف بھارت کابھلا ہو،ملک کے باشندوں کا بھلا ہو، اس کے لیے جینے والے جنہوں نے سیاست میں کچھ نہیں پایا ہے، نہ کچھ بنے ہیں، نہ کبھی اقتدار کے اس گلیارے میں کبھی آئے ہیں۔ ایسے لاکھوں کارکن ہیں، جو دن رات کام کرتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے میری، اس پارٹی کا میں ممبر ہوں، مجھے فخر ہے۔ اور عمر بھی میری پارٹی کی بہت چھوٹی ہے، پھر بھی… تو لاکھوں کارکنوں کے محنت کا ثمرہ ہے، ان کارکنوں کو لوگ دیکھتے ہیں کہ بھائی بغیر فائدے کے یہ اتنی محنت کرتا ہے، اس کے سبب بھارتی جنتا پارٹی کے تئیں لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور اس کے سبب انتخابات جیتتے ہیں۔ میں نے تو گنا نہیں، کتنے انتخابات جیتے، لیکن عوام کے آشیرواد لگاتار ہمیں ملتے رہے ہیں۔
لیکس فریڈمین: میں آپ کی رائے جاننا چاہ رہا تھا کہ آپ اس ناقابلِ یقین انتخابی نظام اور طریقہ کار کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ بھارت میں جیسے انتخابات ہوتے ہیں، وہ مجھے حیران کن لگے۔ بہت ساری دلچسپ کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کوئی بھی ووٹر ووٹنگ مرکز سے دو کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں ہونا چاہیے۔ اس وجہ سے بھارت کے دور دراز علاقوں میں، ووٹنگ مشینیں لے جانے کی کئی کہانیاں ہیں۔ یہ واقعی ناقابلِ یقین ہے۔ بس ہر ایک ووٹر کا شمار اہم ہے۔ اور 60 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا طریقہ، کیا کوئی ایسی کہانی ہے جس کے بارے میں آپ بات کر سکتے ہیں، جو آپ کو خاص طور پر متاثر کن لگے یا شاید آپ عموماً اتنے بڑے انتخابات کرانے کے نظام کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، وہ بھی اتنے بڑے جمہوریت میں؟
وزیراعظم: ایک تو میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے، جو دنیا میں جمہوریت پر یقین رکھنے والے لوگوں کو ضرور اس جواب کو سننا چاہیے۔ کبھی کبھار انتخابات کی جیت یا ہار کی بات ہوتی ہے، لیکن کتنے بڑے پیمانے پر کیا کام ہوتا ہے، اس پر بات نہیں ہوتی ہے۔ اب دیکھیے، جیسے 2024 کا انتخاب، ابھی جو لوک سبھا کا ہوا، 980 ملین رجسٹرڈ ووٹرز اور ہر ایک کا فوٹو ہے، ہر ایک کا مکمل بایوڈیٹا ہے۔ اتنے بڑے ڈیٹا اور یہ تعداد شمالی امریکہ کی آبادی سے دوگنی ہے۔ یہ پورے یورپی یونین کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ 980 ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 646 ملین لوگوں نے اپنے گھروں سے باہر نکل کر، اور مئی کے مہینے میں میرے ملک میں بہت شدت کی گرمی ہوتی ہے، کچھ جگہوں پر 40 ڈگری تک درجہ حرارت ہوتا ہے، انہوں نے ووٹ ڈالا۔ اور یہ ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد امریکہ کی کل آبادی سے دوگنی ہے۔ 1 ملین سے زیادہ پولنگ بوتھ جہاں پر ووٹنگ ہوئی، 1 ملین سے زیادہ پولنگ بوتھ، اس میں کتنے لوگ لگتے ہیں۔ میرے ملک میں 2500 سے زیادہ سیاسی پارٹیاں ہیں، یہ اعداد و شمار سن کر دنیا کے ممالک کے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ایسا ملک جہاں 2500 سیاسی رجسٹرڈ پارٹیاں ہوں۔ میرے ملک میں 900 سے زیادہ 24×7 ٹی وی چینلز ہیں، 5000 سے زیادہ روزنامہ اخبار نکلتے ہیں۔ یہ جو جمہوریت کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ نہ کچھ ہو اور ہمارے یہاں کوئی بھی غریب سے غریب شخص، گاؤں کا آدمی، وہ ٹیکنالوجی کو بہت تیزی سے اپناتا ہے۔ ای وی ایم مشین سے ووٹ دیتا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں انتخابی نتائج مہینوں تک نہیں آتے، میرے یہاں ایک دن میں نتائج آ جاتے ہیں، اتنے لوگوں کی گنتی ہو جاتی ہے اور آپ نے بالکل صحیح کہا کہ کچھ دور دراز علاقوں میں پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں، ہیلی کاپٹر سے ہمیں بھیجنا پڑتا ہے۔ اروناچل پردیش میں ایک پولنگ بوتھ، وہ شاید دنیا کا سب سے اوپر والا پولنگ بوتھ ہوگا۔ میرے یہاں گجرات میں گر فورسٹ میں ایک پولنگ بوتھ تھا، جہاں ایک ہی ووٹر تھا، اس کے لیے ایک پولنگ بوتھ تھا، گر فورسٹ میں جہاں گر لینڈز ہیں۔ تو ہمارے یہاں کئی قسم کے یعنی کوشش رہتی ہے کہ جمہوریت کے کام کے لیے، جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جتنے بھی طریقے ہو سکیں، ان کو اپنایاجائے، اور ہم نے ووٹنگ کے لیے مکمل انتظامات کیے ہیں اور اس لیے میں تو کہتا ہوں کہ دنیا میں بھارت کا ایک غیرجانبدار آزاد انتخابی کمیشن ہی انتخابات کرواتا ہے، سارے فیصلے وہ کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں کتنی بڑی روشن کہانی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز نے اس کا کیس اسٹڈی کرنا چاہیے۔ اس کے مینجمنٹ کا کیس اسٹڈی کرنا چاہیے۔ یہ تحریک کا، اتنے لوگ ووٹ کرتے ہیں، کتنی بڑی سیاسی چوکسی ہوگی۔ ان ساری باتوں کا ایک بہت بڑا کیس اسٹڈی کرکے دنیا کی نئی نسل کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
لیکس فریڈمین: مجھے جمہوریت سے محبت ہے۔ یہی کچھ وجوہات ہیں کہ مجھے امریکہ سے محبت ہے۔ لیکن جیسے بھارت میں جمہوریت کام کرتی ہے، ویسا کچھ بھی خوبصورت نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا، 90 کروڑ لوگ ووٹنگ کے لیے رجسٹرڈ ہیں! یہ واقعی ایک کیس اسٹڈی ہے۔ یہ دیکھنا بہت خوبصورت ہے کہ اتنے سارے لوگ اپنی مرضی سے، جوش و جذبے سے، ایک ساتھ آتے ہیں، کسی ایسے شخص کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے جو ان کی نمائندگی کرے گا، اور وہ اس میں بہت جوش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ کسی شخص کے لیے یہ محسوس کرنا واقعی اہم ہوتا ہے کہ ان کی آواز سنی جائے گی۔ یہ بہت خوبصورت ہے۔ جیسے کہ بات نکلی، آپ کو بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔ آپ دنیا کے سب سے طاقتور لوگوں میں سے ایک ہیں۔ کیا آپ کبھی اس بارے میں سوچتے ہیں کہ اتنی طاقت کا آپ پر الگ اثر پڑ سکتا ہے؟ خاص طور پر اتنے سالوں سے اقتدار میں رہنے کے بعد؟
وزیراعظم: ایک تو شاید میرے لیے لفظ ہی میرے زندگی سے میل نہیں کھاتا۔ میں طاقتور ہوں، ایسا دعویٰ میں نہیں کر سکتا اور نہ ہی کر سکتا ہوں کیونکہ میں ایک خادم ہوں۔ اور میں تو اپنی شناخت بھی پردھان سیوک کے طور پر کرتا ہوں۔ اور خدمت کے منتر کے ساتھ میں نکلا ہوں۔ جہاں تک طاقت کی بات ہے، میں نے کبھی بھی طاقت کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں سیاست میں کبھی بھی طاقت کا کھیلنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ اور میں تو طاقتور ہونے کے بجائے کہوں گا کہ میں 'پرو ورک فل' ہونے کا حوصلہ رکھوں۔ طاقتور نہیں ہوں، پرو ورک فل ہوں۔ اور میرا مقصد ہمیشہ لوگوں کی خدمت کرنا رہا ہے، ان کی زندگی میں کچھ بھی مثبت کردار ادا کر سکوں تو وہ کرنے کا رہا ہے، یہ میرا...
لیکس فریڈمین - جیسا کہ آپ نے ذکر کیا، آپ بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ آپ پورے دل سے کام کرتے ہیں۔ کیا آپ کبھی تنہائی محسوس کرتے ہیں؟
وزیر اعظم: دیکھئے، میں کبھی بھی تنہا محسوس نہیں کرتا ہوں۔ اس لیے، کیونکہ میں ہمیشہ 1+1 کے نظریہ پر یقین رکھتا ہوں اور میرا 1+1 کا نظریہ میری اچھائی کی حمایت کرتا ہے اور یہ 1+1، اگر کوئی پوچھے کہ 1+1 کون ہے، تو میں کہتا ہوں، پہلا 1 مودی ہے اور +1 بھگوان ہے۔ میں کبھی تنہا نہیں ہوتاہوں، وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتاہے۔ اس لیے میں ہمیشہ اسی جذبے میں رہتا تھا اور جیسا کہ میں نے کہا، وویکانند جی کے اصول کہ انسان کی خدمت ہی خدا کی خدمت ہے۔۔ میرے لیے ملک ہی بھگوان ہے، انسان ہی بھگوان ہے۔ اس لیے عوامی خدمت خدا کی خدمت ہے، میں اسی احساس کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ہوں اور اس لیے مجھے تنہائی وغیرہ کو سنبھالنے کی کسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب جیسے کووِڈ کے دوران تمام پابندیاں لگی ہوئی تھیں، سفر پر روک لگا ہوا تھا۔ تو وقت کا استعمال کیسے کرنا، لاک ڈاؤن تھا۔ تو میں نے کیا کیا، میں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گورننس کا ایک ماڈل تیار کیا اور گھر سے کام اور میٹنگ کو عملی طور پر کرنا شروع کیا۔ میں نے اپنے آپ کو مصروف رکھا۔ دوسری بات یہ کہ میں نے ان لوگوں کو یاد کرتے ہوئے فیصلہ کیا جن کے ساتھ میں ساری زندگی کام کرتا رہا ہوں، پورے ملک میں میرے کارکنان ہیں ، اس میں جو 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگ ہیں،نا کو یاد کرکے کووِڈ کے زمانے میں چھوٹے کارکنان کو بھی ، یعنی فیملی بیک گراؤنڈ بہت نارمل ہو گا ایسے بھی .....+70 ہیں ۔ان کو فون کرتا تھا اور ان سے پوچھتا تھا کہ کووِڈ کے زمانے میں انکی طبیعت ٹھیک ہے کیا ، ان کی فیملیز ٹھیک ہیں، ان کے علاقوں میں انتظامات کیسے ہو رہے ہیں؟ یہ ساری باتیں ان کے ساتھ کرلیتا تھا ۔ تو ایک طرح سے میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتا تھا۔ پرانی یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔ ان کو بھی لگتا تھا کہ وہ وہاں پہنچ گئے، یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے، لیکن آج وہ بیماری کے وقت مجھے فون کرتے ہیں۔ اور میں روزانہ قریب 30-40 کال کرتا تھا۔روزانہ اور پورے کووڈ کے دوران کرتا رہا۔تو مجھے خود پرانے پرانے لوگوں سے بات کرنے کا لطف ملتا تھا۔ تو یہ تنہائی نہیں تھی، میں خود کو مصروف رکھنے کے طریقے تلاش کرتا رہتا ہوں۔ اور میں اپنے آپ سے بات کرنے کا بہت عادی ہوں۔ میری ہمالیائی زندگی مجھے بہت مدد دے رہی ہے۔
لیکس فریڈمین - میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہےجتنے لوگوں کو جانتے ہیں کہ آپ سب سے زیادہ محنت کرنے والے شخص ہیں ۔ اس کے پیچھے آپ کی کیا سوچ ہے؟ آپ ہر روز کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ کیا آپ کبھی تھکتے نہیں ہیں؟ ان تمام چیزوں کے دوران آپ کی طاقت اور صبر کا ذریعہ کیا ہے؟
وزیر اعظم - دیکھئے، سب سے پہلے، تومیں یہ نہیں مانتا کہ میں ہی کام کرتا ہوں. میں اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھتا ہوں اور میں ہمیشہ سوچتا ہوں، وہ مجھ سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ جب میں کسان کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ وہ کتنی محنت کرتا ہے۔ کھلے آسمان تلے کتنا پسینہ بہاتا ہے۔ جب میں اپنے ملک کے سپاہیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے ، ارے کتنے گھنٹے، کوئی برف میں، کوئی صحرا میں، کوئی پانی میں، دن رات کام کر رہا ہے۔ جب میں کسی مزدور کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ کتنی محنت کر رہا ہے۔ یعنی میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ ہر خاندان میں میری مائیں بہنیں کتنی محنت کرتی ہیں، خاندان کی خوشی کے لیے ۔ صبح سب سے پہلے اٹھ جائیں، رات کو سب سے بعد میں سو جائیں، خاندان کے ہر فرد کا خیال رکھیں اور سماجی تعلقات بھی برقرار رکھیں۔ تو جیسے میں اس بارے میں سوچتا ہوں، تومجھے لگتا ہے کہ ، ارے، لوگ کتنا کام کرتے ہیں؟ میں کیسے سو سکتا ہوں؟ میں کیسے آرام کر سکتا ہوں؟ لہٰذا، میری فطری ترغیب، جو چیزیں میری آنکھوں کے سامنے ہیں، وہی مجھے متحرک رکھتی ہیں۔ دوسری بات، میری ذمہ داریاں مجھے دوڑنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اہل وطن نے مجھے جو بھی ذمہ داری سونپی ہے، میں ہمیشہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اس عہدے پر لطف اندوزہونے نہیں آیا ہوں۔ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا۔ میں شاید دو کام نہ کر پاؤں۔ لیکن میری کوششوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ میری محنت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اور جب میں 2014 میں الیکشن لڑ رہا تھا، تب بھی میں نے یہ بات لوگوں کے سامنے رکھی تھی اور جب میں یہاں آیا تھا، تو میں نے یہاں بھی کہا تھا، میں ہم وطنوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں محنت کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہوں گا۔ دوسری بات میں کہتا تھا کہ میں غلط ارادے سے کچھ نہیں کروں گا۔ اور تیسرا میں کہتا تھا کہ میں اپنے لیے کچھ نہیں کروں گا۔ آج مجھے 24 سال ہوگئے ۔ میرے ملک کے لوگوں نے مجھے اتنی طویل مدت تک سربراہ حکومت کے طور پر کام دیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ان تین معیاروں پر ناپا ہے اور میں ان پر عمل کرتا ہوں۔ لہذا میرا حوصلہ 1.4 بلین لوگوں کی خدمت،ان کی خواہشات، ان کی ضروریات؛ جتنی محنت کر سکوں اور جتنا کر سکتا ہوں کرنے کے موڈ میں ہوں۔ آج بھی میری توانائی وہی ہے جی۔
لیکس فریڈمین - ایک انجینئر اور ریاضی سے محبت کرنے والے ہونے کے ناطے، مجھے پوچھنا ہوگا، سری نواس رامانوجن ایک صدی قبل ہندوستانی ریاضی داں تھے۔ انہیں تاریخ کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سب کچھ خود سیکھا، غربت میں پلے بڑھے۔ آپ نے اکثر ان کے بارے میں بات کی ہے۔ آپ کو ان کی کیا چیز متاثر کرتی ہے؟
وزیر اعظم - دیکھئے، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں اور میرے ملک میں ہر کوئی ان کا احترام کرتا ہے کیونکہ،سائنس اور روحانیت کا بہت بڑا تعلق ہے ایسا میرا ماننا ہے۔ بہت سے سائنسی ترقی یافتہ دماغ، اگر تھوڑا سا مشاہدہ کریں تو وہ روحانی طور پر ترقی یافتہ ہیں، وہ اس سے کٹے ہوئے نہیں ہیں۔ سری نواس رامانوج کہتے تھے کہ ان کے ریاضیاتی خیالات اس دیوی سے آئے ہیں جس کی وہ پوجا کرتے تھے۔ یعنی خیالات توبہ سے آتے ہیں۔ اور تپسیا صرف محنت نہیں ہے۔ ایک طرح سے اپنے آپ کو کسی خاص کام کے لیے وقف کر دینا، خود کو وقف کر دینا، گویا یہ خود ایک کام بن جاتا ہے۔ اور علم کے جتنے زیادہ ذرائع ہمارے لیے کھلے رہیں گے، اتنے ہی زیادہ خیالات آئیں گے۔ ہمیں معلومات اور علم میں فرق کو بھی سمجھنا چاہیے۔ کچھ لوگ معلومات کو علم سمجھتے ہیں۔ اور وہ بہت زیادہ معلومات کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں۔ میں نہیں مانتا کہ معلومات کا مطلب علم حاصل کرنا ہے۔ علم ایک نظم و ضبط ہے، جو ایک پروسیسنگ کے بعد آہستہ آہستہ تیار ہوتا ہے۔ اور ہمیں اس فرق کو سمجھ کر ہینڈل کرنا چاہیے۔
لیکس فریڈمین - آپ کی پہچان ایک فیصلہ کن رہنما کے طور پر ہے۔ تو کیا آپ مجھے خیالات کے اس موضوع کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ آپ فیصلے کیسے کرتے ہیں؟ آپ کا عمل کیا ہے؟ جیسے فیصلے کرنا جب بڑے داؤ لگے ہوں، جہاں واضح مثالیں نہ ہوں، بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال ہو، توازن برقرار کھنا ہو،تو آپ فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟
وزیراعظم: اس کے پیچھے بہت سی باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میں ہندوستان کا شاید واحد سیاست دان ہوں جس نے اپنے ملک کے 85 سے 90 فیصد اضلاع میں رات گزاری ہے۔ میں اپنی پچھلی زندگی کی بات کرتا ہوں، میں سفر کرتا تھا۔ میں نے اس سے کیا حاصل کیا ہے، میں نے جوسیکھا ہے، میرے پاس بہت سی چیزوں کے بارے میں، نچلی سطح پر حالات کے بارے میں میری فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے۔ مجھے کتابوں سے نہیں ملا کسی سے پوچھ کر معلوم ہوا ہے۔ دوسری بات، حکمرانی کے نقطہ نظر سے، میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے جس سامان کولیکر مجھے دبے رہنا ہے۔اس کے تحت مجھے چلناہے وہ نہیں ہے؛ تیسرا، فیصلہ سازی میں میرے پاس ایک پیمانہ ہے، میرا ملک پہلے آتا ہے۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں اس سے میرے ملک کو کوئی نقصان تو نہیں ہو رہا ہے نا؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے کہ بھائی کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت تم کو کوئی الجھن ہو تو کسی غریب کا چہرہ دیکھو، اسے یاد کرو۔ اور سوچو، یہ اس کے کام آئیگا کیا؟ پھر آپ کا فیصلہ درست ہو گا۔ وہ منتر میرے لیے بہت مفید ہے کہ بھائی آپ کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے یاد رکھنا چاہیے کہ بھائی میں جو کچھ کر رہا ہوں، جہاں تک دوسرے عمل کا تعلق ہے تو میں بہت اچھی طرح سے جڑا ہوا ہوں۔ میری حکومت میں میرے افسران مجھ سے حسد کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ میرے بارے میں برا محسوس کر رہے ہوں۔ اور وہ یہ کہ میرے پاس بہت سے انفارمیشن چینلز ہیں اور بہت سے لائیو ہیں اور اس لیے مجھے کئی جگہوں سے بہت سی چیزوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں، اس لیے اگر کوئی آ کر مجھے بریف کرے تو یہ صرف معلومات نہیں ہے۔ میرے پاس ایک دوسرے پہلو بھی ہوتے ہیں۔ تو میں… دوسرا، میں ایک ہوں، میرے اندر طالب علمی کا جذبہ ہے۔ فرض کیجئے کوئی چیز نہیں آئی۔ کسی افسر نے مجھے کچھ بتایا۔ تو میں طالب علمی کی حیثیت سے اس سے پوچھتا کہ بھائی، اچھا مجھے بتاؤ ،بھائی کیسے ہے؟ پھر کیا ہے؟ کیسے ہے؟ اور بعض اوقات جب میرے پاس دوسری معلومات ہوتی ہیں تو میں Devil Advocate بن جاتا ہوں اور جوابی سوالات کرتا ہوں۔ اس کو بہت باریک بینی سے اور کئی طریقوں سے منتھنا پڑتا ہے۔ تو ایسا کرنے سے امرت نکلتا ہے، اس طرح کی میری کوشش رہتی ہے ،میں بتاتا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ جب میں کوئی فیصلہ لیتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہاں یہ کام کرنے کے لائق ہے، پھر میں اپنے خیالات اپنے جیسے لوگوں سے شیئر کرتا ہوں اور انہیں ہلکے پھلکے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ میں ان کا ردعمل بھی دیکھتا ہوں کہ اس فیصلے کا کیا ہوگا۔ اور جب مجھے یقین ہو جائے کہ ہاں، میں صحیح کام کر رہا ہوں، تو میرا پورا عمل اور حقیقت یہ ہے کہ میں اتنی باتیں کرتا ہوں، اس میں اتنا وقت نہیں لگتا۔ میری رفتار بہت ہے۔ اب میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ کورونا کے دور میں فیصلے کیسے ہوئے؟ اب مجھے نوبل انعام یافتہ لوگ ملتے ہیں، وہ مجھے معاشیات میں مختلف مثالیں دیتے ہیں۔ فلاں ملک نے یہ کیا، فلاں ملک نے وہ کیا، تم بھی کرو، تم بھی کرو۔ بڑے بڑے ماہر معاشیات آکر مجھے پریشان کرتے تھے۔ سیاسی جماعتیں مجھ پر دباؤ ڈالتی تھیں کہ مجھے اتنا پیسہ دو، اتنے پیسے دو۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں سوچتا تھا، کیا کروں؟ اور پھر میں نے اپنے ملک کے حالات کے مطابق وہ فیصلے لیے۔ غریب کو بھوکا نہیں سونے دوں گا۔ میں روزمرہ کی ضرورت پر سماجی تناؤ پیدا نہیں ہونے دوں گا۔ ایسے ہی کچھ خیالات میرے ذہن میں جم گئے۔ پوری دنیا لاک ڈاؤن میں تھی۔ پوری دنیا کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ دنیا مجھ پر دباؤ ڈالتی تھی کہ خزانہ خالی کروں، نوٹ چھاپوں اور نوٹ دیتے رہو۔ معیشت کیسی ہے وہ؟ میں اس راستے پر نہیں جانا چاہتا تھا۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ میں نے جو بھی راستہ اختیار کیا، میں نے ماہرین کی رائے سنی، سمجھنے کی کوشش کی اور اس کی مخالفت بھی نہیں کی۔ لیکن ان چیزوں کی وجہ سے جو میں نے تیار کیں اور جو نظام میں نے اپنے ملک کے حالات اور اپنے تجربات کو ملا کر بنائے، میرے ملک کو مہنگائی کے اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا سامنا دنیا کو کووِڈ کے فوراً بعد کرنا پڑا۔ آج میرا ملک دنیا کی بڑی معیشتوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بحران کے اس دور میں بڑے صبر کے ساتھ، دنیا بھر سے کسی بھی تھیوری کو لاگو کرنے کی لالچ میں پڑے بغیر، اخبار والوں کو پسند آئے گا یا نہیں، اچھا شائع ہوگا یا نہیں، تنقید ہوگی یا نہیں، ان سب باتوں سے دور درکنار، میں نے بنیادی باتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کام کیا اور میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا۔ تو میری معیشت کو بھی فائدہ ہوا۔ اس لیے میری کوشش رہی ہے کہ ان چیزوں کو آگے بڑھایا جائے۔ دوم، میری Risk Taking Capacity بہت ہے۔ میں یہ نہیں سوچتا کہ میرا کیا نقصان ہو گا۔ اگر یہ میرے ملک کے لیے درست ہے، میرے ملک کے لوگوں کے لیے درست ہے تو میں خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوں۔ اور دوسرا، میں ملکیت لیتا ہوں۔ یہاں تک کہ اگر کچھ غلط ہوتا ہے، تو کسی کے سر پر ڈالنے نہیں دیتا. میں خود ذمہ داری لیتا ہوں کہ ہاں، میں خود کھڑا ہوں۔ اور جب آپ ملکیت لیتے ہیں تو آپ کے شراکت دار بھی آپ کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ آدمی ہمیں نہیں ڈبوئے گا، ہمیں مارے نہیں گا۔ یہ خود ہمارے ساتھ کھڑا رہے گا کیونکہ میں ایمانداری سے فیصلہ کر رہا ہوں۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں کر رہاہوں۔ ہم وطنوں سے کہا، غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ میں نے اپنے ہم وطنوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میں ایک انسان ہوں اور مجھ سے غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ میں بری نیت سے کام نہیں کروں گا۔ لہٰذا، ہر کوئی ان باتوں کو فوراً دیکھتا ہے جو مودی نے 2013 میں کہا تھا، اب یہ ہوگیا ہے۔ لیکن اس کی نیت غلط نہیں ہوگی۔ وہ شاید کچھ اچھا کرنا چاہتا تھا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ تو معاشرہ مجھے دیکھتا ہے اور مجھے ویسا ہی قبول کرتا ہے جیسا میں ہوں۔
لیکس فریڈمین - آپ نے چند ہفتے قبل فرانس میں AI سمٹ میں AI پر ایک زبردست تقریر کی تھی۔ اس میں آپ نے ہندوستان میں اے آئی انجینئروں کی بڑی تعداد کے بارے میں بات کی۔ میرے خیال میں یہ شاید دنیا کے باصلاحیت انجینئروں کی سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔ تو ہندوستان AI کے ایک شعبے میں عالمی قیادت کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ اس وقت یہ امریکہ کے پیچھے ہے۔ ہندوستان کو AI میں دنیا کو پیچھے چھوڑنے اور پھر بہترین بننے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
وزیر اعظم ۔ ایک بات آپ کوشاید زیادہ لگے گی اورہوسکتا ہے کسی کو بری بھی لگے۔ لیکن جب سے آپ نے پوچھاہے ، تو ابھی میرے دماغ سے نکل رہا ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دنیا AI کے لیے کیا کرتی ہے، AI ہندوستان کے بغیر ادھورا ہے۔ میں بہت ذمہ دارانہ بیان دے رہا ہوں۔ دیکھئے، AI کے ساتھ آپ کے اپنے تجربات کیا ہیں؟ میں نے خود، آپ نے پیرس والی میری تقریر توسنی اوراسکو by and large… کیا کوئی اکیلا AI تیار کر سکتا ہے؟ آپ کا اپنا تجربہ کیا ہے؟
لیکس فریڈمین - دراصل آپ نے اپنی تقریر میں AI کے مثبت اثرات اور AI کی حدود کی ایک بہترین مثال دی۔ میرے خیال میں آپ نے جو مثال دی ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ اسے کسی ایسے شخص کی تصویر بنانے کو کہتے ہیں جو اپنے...
وزیراعظم- لیفٹ ہینڈ
لیکس فریڈمین - بائیں ہاتھ سے، تو یہ ہمیشہ ایک ایسے شخص کی تصویر بناتا ہے جو دائیں ہاتھ سے لکھتا ہے۔ اس طرح، مغربی ممالک کی طرف سے ایک AI نظام بنانا، جس میں ہندوستان اس عمل کا حصہ نہیں ہے، وہ ہمیشہ دائیں ہاتھ والے شخص کی تصویر بنائے گا۔ لہذا یہ تاریخی طور پر دنیا کا ایک اہم حصہ ہے، اور خاص طور پر 21ویں صدی میں۔
وزیر اعظم: مجھے لگتا ہے، دیکھئے، اے آئی کی ترقی ایک collaboration ہے۔ یہاں ہر کوئی اپنے تجربات اور سیکھنے کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دے سکتا ہے۔ اور ہندوستان نہ صرف اپنا ماڈل بنا رہا ہے بلکہ مخصوص استعمال کے معاملات کے مطابق AI پر مبنی ایپلی کیشنز بھی تیار کر رہا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی ایک منفرد مارکیٹ پلیس پر مبنی ماڈل ہے جس سے GPU کی رسائی معاشرے کے تمام طبقات تک قابل رسائی ہے۔ بھارت میں مائنڈ سیٹ کی تبدیلی تاریخی عوامل، حکومت کے کام کرنے کے انداز یا اچھے سپورٹ سسٹم کی کمی کی وجہ سے ہو رہی ہے، یہ سچ ہے کہ دوسروں کی نظر میں اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ جب مجھے 5جی ملا۔ دنیا نے سوچا کہ ہم 5جی میں بہت پیچھے ہیں۔ لیکن ایک بار شروع کرنے کے بعد، ہم آج دنیا میں 5جی فراہم کرنے والا تیز ترین ملک بن گئے ہیں۔ ایک امریکی کمپنی کا مالک میرے پاس آیے تھے۔ وہ اپنا تجربہ بتا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں اشتہار دوں ،انجینئر کی ضرورت ہے۔ لہذا میرے پاس جو انجینئر آئیں گے، وہ زیادہ سے زیادہ ایک کمرہ بھرجائے۔ اور اگر انڈیا میں اشتہار دوں تو فٹ بال کا ایک میدان بھی کافی نہیں ہوگا، اتنے انجینئر یہاں آتے ہیں۔یعنی اتنی بڑی تعداد میں ہندوستان کے پاس ٹیلنٹ پول ہے۔ یہ اس کی سب سے بڑی طاقت ہے اور مصنوعی ذہانت بھی حقیقی ذہانت کی مدد سے زندہ رہتی ہے۔ حقیقی ذہانت کے بغیر مصنوعی ذہانت کا مستقبل نہیں ہو سکتا۔ اور وہ حقیقی ذہانت ہندوستان کے نوجوانوں کے ٹیلنٹ پول میں موجود ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس کی اپنی ایک بڑی طاقت ہے۔
لیکس فریڈمین - لیکن، اگر آپ دیکھیں، تو بہت سے اعلیٰ ٹیک لیڈر، سب سے پہلے، ٹیک ٹیلنٹ، لیکن امریکہ میں ٹیک لیڈران ہندوستانی نژاد ہیں۔ سندر پچائی، ستیہ نڈیلا، اروند سری نواس، آپ ان میں سے کچھ سے ملے ہیں، ان کے ہندوستانی پس منظر کے بارے میں ایسی کون سی بات ہے جوانھیں اتنا کامیاب بناتی ہے؟
وزیر اعظم - دیکھئے، ہندوستان کے جو سنسکار ہیں وہ ایسے ہیں کہ پیدائش کی زمین اور کام کی زمین دونوں کے احترام میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ جتنی عقیدت سرزمین پیدائش(جنم بھومی) کے لیے ہے اتنی ہی عقیدت(کرم بھومی) کام کی زمین کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ اور آپ کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس کلچر کی وجہ سے ہر ہندوستانی جہاں بھی ہے اپنا بیسٹ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ کام صرف اس صورت میں کرے گا جب وہ کسی اعلیٰ عہدے پر ہو تب کرےگا، نچلے عہدے پربھی۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہوتا۔ زیادہ تر وہ اچھے کام کے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اس کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ سب کے ساتھ مل جاتا ہے۔ بالآخر، کامیابی کے لیے صرف علم ہی کافی نہیں ہے۔ آپ میں ٹیم ورک کی بڑی طاقت ہے، ہر شخص کو سمجھنے اور ان سے کام کروانے کی صلاحیت بہت بڑی چیز ہے۔ مجموعی طور پر، ہندوستان میں پروان چڑھنے والے، مشترکہ خاندانوں سے آنے والے، کھلے معاشرے سے آنے والے لوگوں کے لیے یہ بہت آسان ہے، وہ ایسے بڑے کاموں کو آسانی سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ اور صرف یہ بڑی کمپنیاں ہی نہیں، ہندوستانی آج دنیا کے کئی ممالک میں اچھے اور اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ اور ہندوستانی پیشہ ور افراد کی مسئلہ حل کرنے کی مہارت اور تجزیاتی سوچ، مجھے یقین ہے کہ یہ صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ ان کی شخصیت عالمی سطح پر مسابقتی بن جاتی ہے اور بہت فائدہ مند ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جدت طرازی، انٹرپرینیورشپ، اسٹارٹ اپ، بورڈ روم، جہاں بھی آپ دیکھیں گے، آپ کو ہندوستان کے لوگ Extraordinary کرتے ہیں۔ اب یہاں خلائی شعبے کو دیکھ لیجئے آپ ۔ ہماری جگہ پہلے ہی حکومت کے پاس تھی۔ میں نے آکر اسے 1-2 سال پہلے کھولا تھا۔ اتنے کم وقت میں خلا میں 200 سٹارٹ اپس بنائے گئے ہیں اور ہمارا چندریان وغیرہ کا سفر اتنی کم قیمت پر کیا گیا ہے کہ میرا چندریان کا سفر ایک امریکی ہالی ووڈ فلم کی لاگت سے بھی کم خرچ پر کیا گیا ہے۔ تو دنیا دیکھتی ہے کہ یہ بہت سستا ہے، تو کیوں نہ ہم اس میں شامل ہوں۔ تو اس ہنر کا احترام خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ لہذا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری تہذیبی اخلاقیات کی پہچان ہے۔
لیکس فریڈمین - تو آپ نے انسانی ذہانت کے بارے میں بات کی۔ تو کیا آپ پریشان ہیں کہ AI، مصنوعی ذہانت، ہم انسانوں کی جگہ لے لے گی؟
وزیر اعظم – ایسا ہے کہ ہر دور میں کچھ عرصے کے لیے ٹیکنالوجی اور انسانوں کے درمیان مقابلے کا ماحول بنایا گیا۔ یا ان کے درمیان تصادم کی فضا پیدا کر دی گئی۔ یہ نسل انسانی کو ہی چیلنج کرے گا، ایسا ماحول بنایا گیا۔ لیکن ہر بار ٹیکنالوجی بڑھتی رہی اور انسان اس سے ایک قدم آگے بڑھتا رہا، ہر بار ایسا ہی ہوا۔ اور یہ انسان ہی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کو بہترین طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ AI کی وجہ سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے، یہیں پر AI نے اپنی طاقت دکھائی ہے۔ کیونکہ اس کے کام کرنے کے طریقے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ لیکن انسان کے پاس جو بھی تخیل ہے، وہ AI جیسی بہت سی چیزیں پیدا کر سکتا ہے۔ شاید وہ آنے والے دنوں میں اس سے بھی زیادہ کام کرے گا اور اس لیے میں نہیں مانتا ہوں کہ کوئی اس تخیل کی جگہ لے سکے گا۔
لیکس فریڈمین - میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، یہ مجھے اور بہت سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان کو کیا خاص بناتا ہے، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس میں بہت کچھ ہے۔ جیسے تخیل، تخلیق، شعور، خوف کی صلاحیت، محبت کرنے، خواب دیکھنے کی صلاحیت، سوچنے کی صلاحیت سب سے مختلف، اس سے مختلف، اس سے مختلف! خطرہ مول لینے کی ، یہ سب چیزیں۔
وزیر اعظم - اب دیکھو، دیکھ بھال کرنے کی برقرار صلاحیت، جس طرح سے انسان ایک دوسرے کی فکر کرتے ہیں۔ اب کوئی مجھے بتایئے صاحب AI یہ کر سکتا ہے کیا؟
لیکس فریڈمین - یہ 21ویں صدی کا ایک بڑا حل طلب سوال ہے۔ ہر سال آپ "پریکشا پہ چرچا" کے نام سے ایک پروگرام منعقد کرتے ہیں جہاں آپ نوجوان طلباء سے براہ راست بات چیت کرتے ہیں اور انہیں امتحانات کی تیاری کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔ میں نے ان میں سے بہت سے پروگرام دیکھے ہیں، آپ امتحانات میں کامیاب ہونے کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں، تناؤ سے کیسے نمٹا جائے، اور دیگر چیزیں۔ کیا آپ مختصراً بتا سکتے ہیں کہ ہندوستان میں طلباء کو اپنے تعلیمی سفر میں کون سے امتحانات دینے پڑتے ہیں، اور وہ اتنے دباؤ کا شکار کیوں ہیں؟
وزیر اعظم - مجموعی طور پر معاشرے میں ایک عجیب قسم کی ذہنیت پروان چڑھی ہے۔ سکولوں میں بھی اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہمارے کتنے بچے کس رینک میں آئے۔ خاندان میں یہ ماحول بھی بنایا گیا کہ اگر میرا بچہ اس رینک میں آتا ہے تو میرا خاندان تعلیم کے لحاظ سے معاشرے میں اچھے مقام پر ہے۔ تو ایسی سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں پر دباؤ بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ بچوں کو بھی لگنے لگا کہ یہ دسویں اور بارہویں کے امتحان ہی زندگی کا سب کچھ ہیں۔ اس لیے اس میں تبدیلی لانے کے لیے ہم نے اپنی نئی تعلیمی پالیسی میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ لیکن جب تک وہ چیزیں زمین پر نہیں آتیں، میرا دوسرا فرض بھی باقی ہے کہ اگر ان کی زندگی میں کوئی مشکل ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ ان سے بات کروں، انہیں سمجھنے کی کوشش کروں۔ لہذا، ایک طرح سے، جب میں "امتحان پر بحث" کرتا ہوں، تو مجھے ان بچوں سے سمجھ آتی ہے۔ ہمیں ان کے والدین کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان میں لوگوں کی ذہنیت کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لہذا امتحان پر یہ بحث نہ صرف ان کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ اس سے مجھے بھی فائدہ ہوتا ہے اور امتحان ایک خاص مخصوص ڈومین میں خود کو جانچنا اچھا ہے۔ لیکن یہ مجموعی صلاحیت کا اندازہ لگانے کا پیمانہ نہیں ہو سکتا۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پڑھائی میں اچھے نمبر نہیں بنائے ہوں گے لیکن وہ کرکٹ میں سنچریاں اس لیے بناتے ہیں کیونکہ ان میں یہ طاقت ہے۔ اور جب توجہ سیکھنے پر ہوتی ہے، تو اسکور اکثر خود ہی بہتر ہونے لگتے ہیں۔ اب مجھے یاد ہے کہ جب میں پڑھتا تھا تو میرے ایک استاد تھے۔ اس کی سیکھنے کی تکنیک آج بھی مجھے متاثر کرتی ہے۔ وہ ہم بچوں سے کہتا تھا، ان میں سے ایک سے کہتا تھا، ایسا ہے بھائی تم گھر جاؤ اور گھر سے دس گرام بیج لے آؤ۔ آپ کو دوسروں سے چاول کے 15 دانے لانے کو کہا جائے گا۔ تیسرے کو 21 دانے سبز چنے لانے کو کہا گیا۔ اس طرح مختلف اعداد و شمار اور ورائٹی بھی مختلف ہوتی ہے، تو بچہ سوچے گا، مجھے 10 حاصل کرنے ہیں، پھر وہ گھر جا کر شمار کرے گا اور اسے 10 سے آگے کا نمبر یاد ہوگا۔ پھر اسے پتا چلا کہ اسے چنا کہتے ہیں، پھر وہ سکول جاتا، سب کچھ جمع کرتا، پھر بچوں سے کہتا، چلو بھائی، اس میں سے 10 گرام نکالو، 3 گرام نکالو، 2 سبز چنے نکالو، اس میں سے 5 نکالو۔ تو ہم ریاضی سیکھتے تھے، چنے کی پہچان کرتے تھے، ہم پہچانتے تھے کہ مونگ کسے کہتے ہیں، میں بچپن کی بہت باتیں کرتا ہوں۔ لہٰذا بچوں کو بغیر کسی بوجھ کے پڑھانے کی یہ سیکھنے کی تکنیک ہماری نئی تعلیمی پالیسی میں ایک کوشش ہے۔ جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو دیکھا کہ میرے ایک ٹیچر نے بہت اختراعی آئیڈیا دیا تھا وہ پہلے ہی دن کہتا تھا کہ بھائی دیکھو میں یہ ڈائری یہاں رکھتا ہوں اور جو صبح سویرے آئے گا وہ ڈائری میں ایک جملہ لکھے گا اور اپنا نام بھی لکھے گا۔ پھر جو آگے آئے گا اس کے مطابق دوسرا جملہ لکھنا پڑے گا۔ تو میں بہت جلدی سکول بھاگتا تھا، کیوں؟ تو مجھے پہلا جملہ لکھنے دو۔ اور میں نے لکھا کہ آج کا طلوع آفتاب بہت خوبصورت تھا، طلوع آفتاب نے مجھے بہت توانائی بخشی۔ میں نے ایسا جملہ لکھا، اپنا نام لکھا، پھر جو میرے بعد آئے، طلوع آفتاب کے وقت کچھ نہ کچھ لکھنا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری تخلیقی صلاحیتوں کو اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ میں سوچنے کے عمل سے شروع ہوتا ہوں اور میں جا کر اسے لکھتا ہوں۔ تو پھر میں نے فیصلہ کیا کہ نہیں، میں آخری بار جاؤں گا۔ تو ہوا یہ کہ دوسروں کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھتا تھا اور پھر اپنا بہترین دینے کی کوشش کرتا تھا۔ تو میری تخلیقی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ بعض اوقات کچھ اساتذہ ایسے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں جو آپ کی زندگی میں بہت مفید ہوتے ہیں۔ تو یہ میرے تجربات ہیں اور میں خود ایک طرح سے تنظیمی کام کرتا رہا ہوں۔ اس کی وجہ سے ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ میں میرا ایک خاص شعبہ تھا، اس لیے میں ان بچوں کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار پروگرام منعقد کرتا ہوں، اب یہ کرتے کرتے ایک کتاب بھی بن گئی ہے، جو لاکھوں کی تعداد میں بچوں کو کام آتی ہے reference کے لئے۔
لیکس فریڈمین - کیا آپ طلباء کو ان کے کیریئر میں کامیاب ہونے کے بارے میں کچھ اور مشورہ دے سکتے ہیں، اپنے کیریئر کو کیسے تلاش کریں، کامیابی کیسے حاصل کی جائے، آپ ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کے لیے کیا مشورہ دیں گے، جو آپ کے الفاظ سے متاثر ہیں؟
وزیر اعظم - میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص جو کام اسے ملتا ہے وہ پوری لگن کے ساتھ کرتا ہے تو یقیناً آج نہیں تو کل وہ ماہر ہو جاتا ہے اور اس کی جو بھی صلاحیت ہوتی ہے، اس سے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان کو کام کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اور آپ کی سیکھنے کی صلاحیت کو کبھی بھی کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ جب انسان سیکھنے کی صلاحیت کو مسلسل اہمیت دیتا ہے، ہر چیز میں سیکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے علاوہ دوسروں کے کام بھی دیکھیں گے، پھر اس کی صلاحیت دوگنی اور تین گنا بڑھ جاتی ہے۔ میں نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ بھائی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس دنیا میں کوئی نہ کوئی کام بھگوان نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، فکر نہ کرو۔ آپ اپنی ایک صلاحیت کو بڑھاؤ، تاکہ آپ کوالیفائی کر سکو۔ میں نے توسوچا تھا کہ ڈاکٹر بنوں، اب ڈاکٹر نہیں بنا، میں ٹیچر بن گیا، میری زندگی بے کار ہوگئی۔ ایسے کرے بیٹھوگے تو نہیں چلے گا، ٹھیک ہے تم ڈاکٹر نہیں بنے، لیکن اب استاد بن کر سو ڈاکٹر بنا سکتے ہو۔ ڈاکٹر بنتے تب مریضوں کی بھلائی کرتے ، اب استاد بن کر آپ ایسے طلباء کو تیار کریں تاکہ ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب پورے ہوں، تاکہ آپ اور وہ لاکھوں مریضوں کی خدمت کر سکیں۔ اس لیے اسے جینے کے لیے ایک اور نیا زاویہ ملتا ہے۔ اوہ یار میں ڈاکٹر نہ بن سکا اور رو رہا تھا۔ میں ٹیچر بن گیا، مجھے اس بات کا دکھ تھا، لیکن میں استاد بن کر ڈاکٹر بھی بن سکتا ہوں۔ لہذا اگر ہم اسے زندگی کی بڑی چیزوں سے جوڑتے ہیں، تو اس سے ایک حوصلہ ملتا ہے۔ اور میں ہمیشہ یہ مانتا ہوں کہ بھگوان نے ہر کسی کو طاقت دی ہے۔ آپ کو اپنی صلاحیتوں پر کبھی بھی اعتماد نہیں کھونا چاہیے۔ آپ کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اور یہ یقین ہونا چاہیے کہ جب بھی موقع ملے گا، یہ کرکے دکھاؤں گا، میں کروں گا، میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ وہ شخص کرکے دیتا ہے۔
لیکس فریڈمین: طالب علم اس دباؤ سے، کشمکش سے، اور ان راستوں پر آنے والی مشکلات سے کیسے نمٹیں؟
وزیرِ اعظم - انہیں ایک بار تو یہ سمجھنا چاہیے کہ امتحان ہی زندگی نہیں ہے۔ خاندان کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو سماج میں ایک قسم کی نمائش کے طور پر نہیں پیش کرنا ہے، یہ میرا بچہ، دیکھیں یہ کتنے نمبر لاتا ہے، یہ میرا بچہ۔ والدین کو بچوں کو نمونہ کے طور پر پیش کرنا بند کر دینا چاہیے۔ اور دوسرا مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے، تب جا کر وہ امتحان کو بغیر کسی دباؤ کے دے سکتے ہیں، انہیں اعتماد ہونا چاہیے اور انہیں پورا اندازہ ہونا چاہیے۔ اور کبھی کبھی تو میں کہتا ہوں کہ بھائی تم کبھی کیا کہہ جاتے ہو، وہ پیپر لے لیا، یہ لیا، اور کبھی پین نہیں چلتا تو فوراً مایوس ہو جاتے ہیں۔ پھر کبھی اسے لگتا ہے کہ یار یہ جو ساتھ بیٹھا ہے، اس سے مجھے کیا فرق پڑے گا۔ بنچ ہلتی ہے، اسی میں اس کا دماغ لگا رہتا ہے، اپنے آپ پر یقین ہی نہیں ہے۔ جو اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ نئی نئی چیزیں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں اور محنت کی ہے، تو ایک دو منٹ لگتے ہیں، آپ آرام سے ایک گہری سانس لے لیجیے، آرام سے توجہ مرکوز کیجیے۔ پھر آہستہ آہستہ پڑھ کر کہیے اور پھر وقت کو مقرر کر دیجیے کہ میرے پاس اتنا وقت ہے، میں ایک سوال اتنے منٹ میں لکھوں گا۔ میں مانتا ہوں کہ جس نے پیپر لکھنے کی پریکٹس کی ہو، وہ بچہ بغیر کسی مسئلے کے ان چیزوں کو اچھے سے پار کر لیتا ہے۔
لیکس فریڈمین - اور آپ نے کہا کہ ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کوئی چیز کیسے سیکھتے ہیں؟ کوئی بھی سب سے بہترین طریقے سے کیسے سیکھ سکتا ہے، اس پر آپ کیا مشورہ دیں گے، صرف جوانی میں نہیں، بلکہ پوری زندگی میں؟
وزیرِ اعظم – دیکھیے، میں نے پہلے ہی کہا، جیسے میرے زندگی میں پہلے تو مجھے پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ بعد میں تو میری ایسی حالت ہے کہ میں پڑھ نہیں پاتا ہوں، لیکن میں بہت سننے والا ہوں۔ میں حال میں رہتا ہوں۔ جب بھی میں کسی سے ملتا ہوں، تو میں پوری طرح حال میں رہتا ہوں۔ تو میری توجہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ میں چیزوں کو بہت جلدی سمجھ سکتا ہوں۔ ابھی میں آپ کے ساتھ ہوں، میں آپ کے ساتھ ہی ہوں، پھر میں کہیں اور نہیں ہوں۔ نہ کوئی موبائل فون ہے، نہ ٹیلیفون ہے، نہ کوئی پیغام آ رہا ہے، بیٹھا ہوں۔ میں ہر چیز پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں اور اس لیے میں ہمیشہ کہوں گا کہ یہ عادت ڈالنی چاہیے۔ آپ کی سیکھنے کی صلاحیت بڑھ جائے گی اور دوسرا، صرف علم سے کچھ نہیں ہوتا، آپ کو خود کو عملی زندگی میں لاناچاہیے۔ آپ اچھے ڈرائیوروں کی آب بیتی پڑھ کر اچھے ڈرائیور نہیں بن سکتے، مطلب گاڑی میں بیٹھنا پڑتا ہے اور اسٹیرنگ پکڑنا پڑتا ہے۔ سیکھنا پڑتا ہے، خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ حادثے ہوں گے، تو کیا ہوگا؟ مر جاؤں گا تو کیا ہوگا؟ ایسا نہیں چلتا اور یہ میرا ماننا ہے، جو حال میں جیتا ہے، اس کی زندگی میں ایک منتر کام آتا ہے کہ جو وقت ہم نے جیا، وہ ہمارا ماضی بن چکا ہے۔ تم حال میں جیو، اس لمحے کو ماضی نہ بننے دو، ورنہ تم مستقبل کی تلاش میں حال کو ماضی بنا دو گے، تو تمہارا وہ معاملہ نقصان میں جائے گا اور زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو مستقبل کے بارے میں سوچنے میں اتنا وقت ضائع کرتے ہیں کہ ان کا حال یونہی گزر جاتا ہے اور حال گزر جانے کی وجہ سے وہ ماضی میں چلے جاتے ہیں۔
لیکس فریڈمین :ہاں، میں نے لوگوں سے آپ کی ملاقاتوں کے بارے میں بہت ساری کہانیاں سنی ہیں، اور یہ عام طور پر ہوتا ہے کہ لوگوں کا دھیان بھٹک جاتا ہے۔ ابھی کوئی دھیان نہیں بھٹک رہا، اس لمحے میں ہم دونوں بات کر رہے ہیں۔ بس اس لمحے اور بات چیت پر دھیان مرکوز ہے، اور یہ واقعی ایک خوبصورت چیز ہے۔ اور آپ نے آج پورا دھیان مجھ پر دیا، میرے لیے یہ کسی تحفے سے کم نہیں۔ آپ کا شکریہ! اب میں آپ سے تھوڑا مشکل اور سب سے جڑا ہوا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ اپنی موت کے بارے میں سوچتے ہیں؟ کیا آپ کو موت سے ڈر لگتا ہے؟
وزیرِ اعظم - میں آپ سے ایک سوال پوچھوں؟
لیکس فریڈمین :پوچھئے۔
وزیرِ اعظم - پیدائش کے بعد، آپ مجھے بتائیے، زندگی ہے، موت ہے۔ ان دونوں میں سے سب سے زیادہ یقین کس پرہے؟
لیکس فریڈمین - موت!
وزیرِ اعظم - موت! اب، مجھے بتائیے، آپ نے مجھے صحیح جواب دیا کہ پیدائش کے ساتھ جو پیدا ہوتا ہے، وہ موت ہے۔ زندگی تو پروان چڑھتی ہے جی۔ زندگی اور موت میں موت ہی یقینی ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ یقینی ہے اور جو یقینی ہے، اس سے ڈرنے کا کیا؟ تو پھر طاقت، وقت زندگی پر لگاؤ، دماغ موت پر مت لگاؤ۔ تو زندگی پروان چڑھے گی، جو غیر یقینی ہے، وہ زندگی ہے۔ پھر اس کے لیے محنت کرنی چاہیے، اس کو ترتیب دینا چاہیے، مرحلہ بہ مرحلہ اس کو اپ گریڈ کرتے جانا چاہیے۔ تاکہ آپ موت آنے تک، آپ زندگی کا پھول باہر کھلا سکیں اور اس لیے دماغ سے موت نکال دینی چاہیے۔ وہ تو یقینی ہے، وہ تو لکھا ہوا ہے، آنے والا ہے۔ کب آئے گا، کب آئے گا، وہ جانے، جب آنا ہے، تب آئے گا۔ اسے جب فرصت ملے گی، تب آئے گا۔
لیکس فریڈمین - آپ کے مطابق، آپ کے خیال میں مستقبل کے بارے میں کیا امید ہے، صرف بھارت کا ہی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا، ہم سب انسانوں کا یہاں زمین پر مستقبل؟
وزیرِ اعظم - میں فطرتاً بہت پرامید شخص ہوں۔ میں مایوسی، منفی سوچ، یہ میری یعنی میرے شاید سافٹ ویئر میں ہے ہی نہیں وہ چپ۔ اس لئے میرا دماغ اُس طرف جاتا ہی نہیں ہے۔ میں مانتا ہوں کہ انسانیت کی تاریخ کو دیکھیں، تو بڑے بحرانوں کو پار کرتے ہوئے انسانیت آگے بڑھی ہے۔ اور وقت کی ضرورت کے مطابق اس نے کتنی بڑے تبدیلیاں قبول کی ہیں اور مسلسل اُس نے کتنی نئی چیزوں کو قبول کیا ہے۔ دوسرا، میں نے دیکھا ہے کہ انسانیت میں ہو سکتا ہے ترقی میں اتار چڑھاؤ آئیں، لیکن جو چیزیں ماضی کا حصہ ہو چکی ہیں، اُنہیں چھوڑنے کی طاقت رکھتی ہے، اور وہ سب سے تیزی سے بوجھ سے آزاد ہو کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ ماضی کی چیزیں ہیں، ان سے آزاد ہونے کی طاقت اور میں دیکھتا ہوں آج جس معاشرے سے میں زیادہ جڑا ہوں، میں اُس کو زیادہ سمجھ سکتا ہوں۔ اور میں مانتا ہوں کہ ماضی کی چیزوں سے آزاد ہو کر نئی چیزوں کو اپنانا یہ انسان کر سکتا ہے۔
لیکس فریڈمین - میں ابھی سوچ رہا تھا کہ کیا آپ مجھے ہندو پوجا یا دھیان لگانا سکھا سکتے ہیں، تھوڑی دیر کے لیے؟ میں کوشش کر رہا تھا، میں گائیتری منتر سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور اپنے اپواس میں، میں منتر کا جاپ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید میں جاپ کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں اور آپ مجھے اس منتر اور باقی منتر کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور ان کا آپ کی زندگی اور آپ کی روحانیت پر کیا اثر پڑا؟ کیا میں کوشش کر سکتا ہوں؟
وزیرِ اعظم - ہاں، کیجئے!
لیکس فریڈمین – ॐ भूर् भुवः स्वः तत् सवितुर्वरेण्यं। भर्गो देवस्य धीमहि धियो यो नः प्रचोदयात्।।۔ میں نے یہ کیسے کہا؟
وزیرِ اعظم - کافی اچھا کیا آپ نے، "ॐ भूर् भुवः स्वः तत् सवितुर्वरेण्यं। भर्गो देवस्य धीमहि धियो यो नः प्रचोदयात्।।" یعنی یہ دراصل سورج کی عبادت سے جڑا ہوا ہے، اور سورج کی طاقت کا اس زمانے میں کتنا اہمیت تھا، وہ ہندو فلسفہ میں جو منتر ہے، اس کا سائنس سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔ اور سائنس ہوگا، فطرت ہوگی، ان سے کہیں نہ کہیں وہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ یہ جڑا ہوتا ہے۔ اور منتر کا جاپ اس کو ایک باقاعدہ سے کرنے میں لانے کی وجہ سے بہت بڑا فائدہ دیتا ہے۔
لیکس فریڈمین - اپنی روحانیت میں، اپنے سکون کے لمحوں میں جب آپ خدا کے ساتھ ہوتے ہیں، تو آپ کا ذہن کہاں جاتا ہے؟ منتر اس میں کس طرح مدد کرتا ہے، جب آپ اپواس رکھ رہے ہوتے ہیں، جب آپ بس اپنے آپ میں اکیلے ہوتے ہیں؟
وزیرِ اعظم - دیکھیے، کبھی ہم لوگوں کو کہتے ہیں نا میڈیٹیشن! تو وہ ایک بڑا بھاری لفظ بن گیا ہے۔ ہمارے یہاں زبان میں ایک سادہ لفظ ہے "دھیان"، اب اگر کسی کو میں کہوں کہ بھئی میڈیٹیشن کے تناظر میں دھیان کی بات کروں تو سب کو لگے گا کہ بہت بڑا بوجھل ہے۔ یہ تو ہم کر ہی نہیں سکتے، کیسے کر سکتے ہیں ہم؟ ہم کوئی روحانی شخص تو ہیں نہیں۔ پھر میں انہیں سمجھاتا ہوں، بھئی تمہیں جو بے دھیانی کی عادت ہے نا، اس سے نجات لو۔ جیسے کہ تم کلاس میں بیٹھے ہو، لیکن اُس وقت تمہارا دماغ چل رہا ہوتا ہے کہ کھیل کا پیریڈ کب آئے گا، میدان میں کب جاؤں گا، یعنی تمہارا دھیان نہیں ہے۔ اگر تم یہاں اپنا دماغ لگا دو، تو وہ میڈیٹیشن ہے۔مجھے یاد ہے جب میں اپنی ہمالیائی زندگی میں تھا، تو مجھے ایک سنت ملے تھے۔ انہوں نے مجھے بہت اچھا ایک تکنیک سکھایا، وہ تکنیک کوئی روحانی دنیا کی نہیں تھی، وہ بس ایک تکنیک تھی۔ ہمالیہ میں چھوٹے چھوٹے چشمے بہتے رہتے ہیں، تو انہوں نے مجھے یہ جو سوکھے پتے ہوتے ہیں، ان کا ایک ٹکڑا لے کرجھرنے کے اندر ایسے لگادیا اور نیچے جو برتن تھا، اسے الٹا کر دیا، تو اس میں سے ٹپک ٹپک کے پانی گرتا تھا۔ تو انہوں نے مجھے سکھایا کہ دیکھو تم کچھ نہیں کرو، بس اس کی آواز سنو، کوئی اور آواز تمہیں نہیں سنائی دینی چاہیے۔ چاہے کتنے ہی پرندے بول رہے ہوں، ہوا کی آواز آ رہی ہو، کچھ بھی ہو، تمہیں بس اس پانی کی جو بوند گرتی ہے، اس کی آواز سننی ہے۔وہ مجھے وہ سیٹ کر کے دیتے تھے، تو میں بیٹھتا تھا۔ میرا تجربہ تھا کہ اُس پانی کی بوند کی آواز، جو برتن پر گرتی تھی، وہ آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ میرا دماغ ٹریننگ کرتا گیا، بہت آرام سے ٹریننگ ہوتی گئی۔ کوئی منتر نہیں تھا، کوئی پرماتما نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کو میں کہہ سکتا ہوں "ناد -برہما"، اُس ناد -برہما سے رشتہ جوڑنا، مجھے ارتکاز سکھایا گیا۔ میرا وہ آہستہ آہستہ میڈیٹیشن بن گیا۔ یعنی ایک جانب اور کبھی کبھی دیکھیے، آپ کا بہت ہی اچھا فائیو اسٹار ہوٹل ہے، بہت ہی طمطراق آپ کو چاہیے ویسا کمرہ ہے، سارا سجاوٹ بہت بڑھیا ہے اور آپ بھی ایک من سے وہ اپواس کیے ہوئے ہیں، لیکن باتھروم میں پانی ٹپک رہا ہے۔ وہ چھوٹی سی آواز آپ کا ہزاروں روپوں کا کرایہ والا باتھروم آپ کے لیے بیکار بنا دیتی ہے۔تو کبھی کبھی ہم زندگی میں اندر کی سیر کو قریب سے دیکھتے ہیں، تو اس کی قیمت سمجھ میں آتی ہے کہ کتنا بڑا تبدیلی ہو سکتا ہے، اگر ہم... اب جیسے ہمارے شاستروں میں، ایک جو ہم لوگ زندگی اور زندگی اور موت کے بارے میں آپ نے بات کی، ایک منتر ہے ہمارے یہاں، "ॐ पूर्णमदः पूर्णमिदम पूर्णात्पूर्णमुदच्यते"۔ یعنی پورے زندگی کو ایک سرکل کے اندر اُس نے رکھا ہوا ہے مکمل ہی ہے، تکمیل کو حاصل کرنے کا موضوع ہے اسی طرح ہم یہاں فلاح و بہبود کی بات کیسے کرتے ہیں، "सर्वे भवन्तु सुखिनः सर्वे सन्तु निरामयाः"۔ یعنی سب کا بھلا ہو، سب کو سکون ملے، "सर्वे भद्राणि पश्यन्तु मा कश्चिद् दुःख भाग भवेत्"۔ اب یہ منتر میں بھی لوگوں کی سکون کی بات ہے، لوگوں کے علاج کی بات ہے، اور پھر کیا کریں؟ "ॐ शान्तिः शान्तिः शान्तिः"۔ ہمارے ہر منتر کے بعد آئے گا " امن, امن, امن"۔ یعنی یہ جو رسومات بھارت میں تیار ہوئیں ہیں، وہ ہزاروں سالوں کی سنتوں کی عبادت سے نکلی ہوئی ہیں، لیکن وہ زندگی کے عنصر سے جڑی ہوئی ہیں۔ سائنسی طریقے سے رکھے ہوئے ہیں۔
لیکس فریڈمین - शांतिः, शांतिः, शांतिः۔ اس عزت کے لیے شکریہ، اس شاندار بات چیت کے لیے شکریہ۔ بھارت میں میرا خیرمقدم کرنے کے لیے شکریہ، اور اب مجھے کل بھارتی کھانے کے ساتھ اپنا اپواس توڑنے کا انتظار ہے۔ بہت شکریہ، وزیرِ اعظم جی۔ میرے لیے یہ ایک بڑا اعزاز تھا۔
وزیرِ اعظم - مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ سے بات کرنے کا موقع ملا۔ آپ نے دو دن اپواس رکھا ہے، تو براہ کرم ایک دم سے کھانا شروع نہ کریں۔ پہلے دن تھوڑا سے پانی سے شروع کریں، اس سے آپ کو ایک منظم فائدہ ملے گا۔ میرے لیے بھی، شاید میں نے کئی موضوعات ایسے چھیڑے ہیں جنہیں میں نے پہلی بار چھوا ہے، کیونکہ میں ان چیزوں کو بہت اپنے تک ہی محدود رکھتا تھا۔ لیکن آج کچھ چیزیں آپ نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ ہو سکتا ہے کہ...
لیکس فریڈمین - شکریہ۔
وزیرِ اعظم - آپ کے ناظرین کو اچھا لگے گا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میری طرف سے آپ کو بہت سی نیک خواہشات۔ شکریہ!
لیکس فریڈمین - شکریہ! وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اس بات چیت کو سننے کے لیے آپ کا شکریہ۔ اب میں کچھ سوالات کے جوابات دینا چاہتا ہوں اور کچھ باتیں ظاہر کرنا چاہتا ہوں جو میرے دماغ میں چل رہی ہیں۔ اگر آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں، یا کسی بھی وجہ سے مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں، تو lexfridman.com/contact پر جائیں۔ سب سے پہلے، میں وزیراعظم کے ساتھ جڑی ٹیم کو بہت ساری مبارکباد دینا چاہوں گا۔ بہت ہی شاندار ٹیم تھی! وہ لوگ بہت اچھے، اپنے کام میں ماہر، تیز رفتار کام کرنے والے، اور بات کرنے میں بہترین تھے۔ مجموعی طور پر وہ ایک شاندار ٹیم تھی۔ اور چونکہ میں نے انگریزی میں بات کی اور وزیراعظم مودی جی نے ہندی میں، تو مجھے اس مترجم کے بارے میں کچھ ضرور کہنا ہے جو ہماری دونوں کی باتوں کا ترجمہ کر رہی تھیں۔ وہ واقعی بہترین تھیں۔ جتنی تعریف کروں کم ہے۔ سامان سے لے کر ترجمے کے معیار تک، ان کا پورا کام بہت شاندار تھا۔ اور ویسے بھی دہلی اور بھارت میں گھومنے کے دوران، مجھے کچھ ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں جو باقی دنیا سے کافی مختلف تھیں۔ وہاں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی دوسری دنیا میں آ گیا ہوں۔ ثقافت کے حوالے سے مجھے ایسا پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا ایک الگ ہی منظر تھا، وہاں، بڑے زبردست اور دلچسپ لوگ دیکھنے کو ملے۔ ظاہر ہے، بھارت مختلف قسم کی ثقافتوں کا مجموعہ ہے اور دہلی تو بس اس کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ جیسے نیو یارک، ٹیکساس، یا آئیووا صرف پورے امریکہ کو نہیں دکھاتے، ویسے ہی دہلی بھارت کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ میں اس سفر میں رکشے میں ہر جگہ گھومتا رہا اور بس گلیوں میں گھومتا رہا۔ لوگوں سے ان کی زندگیوں کے بارے میں بات کرتا تھا۔ ہاں، دنیا کے باقی حصوں کی طرح یہاں بھی آپ کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو آپ کو کچھ نہ کچھ بیچنا چاہتے ہیں، جنہوں نے مجھے پہلی بار ایک سیاح سمجھا، ایک غیر ملکی مسافر جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے تھوڑے پیسے ہوں گے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح، میں نے ایسی چھوٹی باتوں سے پرہیز کیا۔ میں ان باتوں کو چھوڑ کر، سیدھے دل کی باتیں کرنے لگا جیسے کہ انہیں کیا پسند ہے، کس سے ڈرتے ہیں، اور زندگی میں انہوں نے کیا مشکلات اور خوشیاں دیکھی ہیں۔ لوگوں کے بارے میں سب سے اچھی بات یہی ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں، وہ بہت جلد آپ کو پہچان جاتے ہیں، اس دکھاوے سے ہٹ کر جو اجنبی ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر آپ اتنے کھلے اور سچے ہوں کہ انہیں اپنی حقیقت دکھا سکیں اور میں یہی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ زیادہ تر، ہر کوئی بہت مہربان تھا، سب میں انسانیت تھی۔ چاہے وہ انگریزی نہ بول پاتے ہوں، پھر بھی سمجھنا ہمیشہ آسان رہا۔ شاید میں آج تک جن لوگوں سے ملا ہوں، ان سے کہیں زیادہ آسان بھارت میں، لوگوں کی آنکھیں، چہرے، بات کرنے کا سلیقہ، سب کچھ بہت کچھ بتا دیتی تھی۔ سب کچھ صاف دکھتا ہے، جذبات بھی کھل کر ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسے کہ جب میں ایسٹرن یورپ میں گھومتا ہوں، اس کے مقابلے میں کسی کو سمجھنا یہاں کہیں زیادہ آسان ہے۔ وہ جو میم آپ دیکھتے ہیں، اس میں تھوڑی سچائی تو ہے۔ عموماً انسان اپنے دل کی بات کو دنیا تک کھل کر نہیں آنے دیتا۔ لیکن، بھارت میں ہر کوئی کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ تو کئی ہفتے دہلی میں گھومتے ہوئے، لوگوں سے ملتے ہوئے، بہت ساری شاندار باتیں ہوئیں، اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ عام طور پر، جب بات لوگوں کو پڑھنے کی آتی ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ آنکھیں اکثر الفاظ سے زیادہ بول سکتی ہیں۔ ہم انسان بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ حقیقت میں، اوپر سے پرسکون دکھنے والی لہروں کے نیچے ایک گہرا، طوفانی سمندر چھپا ہوتا ہے۔ ایک طرح سے، میں بات چیت میں جو کرنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے وہ آن کیمرہ ہو یا آف کیمرہ، وہ اس گہرائی تک پہنچنا ہوتا ہے۔
خیر، بھارت میں جو کچھ ہفتے میں نے گزارے، وہ ایک جادوی تجربہ تھا۔ یہاں کا ٹریفک اپنے آپ میں ایک شاندار تجربہ تھا، جیسے کسی سیلف ڈرائیونگ گاڑیوں کے لیے دنیا کا سب سے مشکل ٹیسٹ ہو۔ اس سے مجھے نیچر ڈاکیومنٹری ویڈیوز یاد آ گئیں، مچھلیوں والی ویڈیوز۔ جہاں ہزاروں مچھلیاں بہت تیز رفتار میں تیر رہی ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے سب تتر بتر ہو گئی ہوں، اور پھر بھی، جب آپ اسے ایک بڑے زاویے سے دیکھتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے یہ سب ایک ہی تال اور لہر میں ہوں۔ میں پکا اپنے دوست پال روزلی کے ساتھ اور شاید کچھ اور دوستوں کے ساتھ بھی، بہت جلد گھومنے جاؤں گا۔ پورے بھارت میں شمال سے جنوب تک گھوموں گا۔
اب میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں، اُس کتاب کے بارے میں جس نے پہلی بار مجھے بھارت کی طرف کھینچا اور اس کے گہرے فلسفیانہ اور روحانی خیالات کی طرف بھی۔ وہ کتاب ہے ہرمن ہیسے کی "سدھارتھ"۔ میں نے ہیسے کی زیادہ تر مشہور کتابیں ٹین ایج میں ہی پڑھ لی تھیں، لیکن پھر برسوں کے بعد انہیں دوبارہ پڑھا۔ سدھارتھ نام کی کتاب مجھے اُس وقت ملی جب میں بالکل مختلف قسم کے ادب میں ڈوبا ہوا تھا، جیسے داستیسکی، کمو، کافکا، اورویل، ہیمنگ وے، کیرواک، اسٹین بیک وغیرہ۔ ایسی بہت ساری کتابیں انسان کی وہ الجھن دکھاتی ہیں، جو مجھے جوانی میں اکثر سمجھ نہیں آتی تھی اور آج بھی یہ مجھے پہلے سے زیادہ حیران کن لگتی ہے۔ مگر "سدھارتھ" سے ہی مجھے سمجھ آیا کہ مشرقی نقطہ نظر سے ان الجھنوں کو کیسے دیکھتے ہیں۔ اسے ہرمن ہیسے نے لکھا، اور ہاں، براہ کرم، مجھے ان کا نام ایسے ہی بولنے دیجئے گا۔ سنا ہے کچھ لوگ "ہیسے" کہتے ہیں، لیکن میں نے ہمیشہ "ہیسے" ہی کہا ہے، ہمیشہ سے۔ تو ہاں، ہرمن ہیسے نے لکھا تھا، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے نوبل انعام یافتہ مصنف۔ وہ بھی اپنی زندگی کے سب سے مشکل دور میں۔ ان کی شادی ٹوٹ رہی تھی، پہلی عالمی جنگ نے ان کے امن کے خواب توڑ دیے تھے۔ اور انہیں شدید سر درد، نیند نہ آنے اور ڈپریشن کی شکایت تھی۔ اس دوران انہوں نے کارل یونگ سے سائیکو اینالسس شروع کیا، جس سے وہ مشرقی فلسفے کو سمجھنے کی طرف رجحان ہوا، اپنے پریشان ذہن کو پرسکون کرنے کے لیے۔ ہیسے نے پرانی ہندو مت کی کتابوں کے ترجمے پڑھے، بدھ مت کی کتابیں پڑھیں، اپنشدھوں کو پڑھا، اور بھگوت گیتا کو بھی۔ اور "سدھارتھ" کو لکھنا، خود میں، ان کے لیے ایک سفر تھا، جو اُس کتاب کے مین کردار کی طرح تھا۔ ہیسے نے یہ کتاب 1919 میں لکھنا شروع کی اور تین سال میں مکمل کی، اور درمیان میں انہیں ایک بڑی ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کتاب سدھارتھ کی کہانی ہے، قدیم بھارت کے ایک نوجوان کی کہانی، جو دولت اور آرام چھوڑ کر، سچ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ آپ ہر صفحے پر اس کے ذاتی جدوجہد کو محسوس کر سکتے ہیں اور سدھارتھ کی بے چینی، دنیا داری سے ان کا تھک کر اکتا جانا، سچ کو اپنے آپ جاننے کی ان کی خواہش بھی اس میں نظر آتی ہے۔ پھر سے بتانا چاہوں گا، یہ کتاب صرف ہیسے کے لیے فلسفے کی بات نہیں تھی، بلکہ ان کی ذہنی پریشانی سے بچنے کا راستہ تھا۔ وہ دکھ سے باہر نکلنے کے لیے لکھ رہے تھے اور اپنے اندر کے علم کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں یہاں کتاب پر زیادہ بات نہیں کروں گا، مگر دو خاص باتیں ضرور بتانا چاہوں گا جو میں نے اس سے سیکھی ہیں اور آج تک یاد ہیں۔ پہلی بات کتاب کے اُس منظر سے ہے، جو میرے لیے اس کتاب کے سب سے شاندار مناظرات میں سے ایک ہے۔ سدھارتھ دریا کے کنارے بیٹھ کر دھیان سے سن رہے ہیں اور اُس دریا میں انہیں زندگی کی ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں، وقت کی ہر قسم کی آوازیں۔ گزرا وقت، حال اور مستقبل، سب ایک ساتھ بہ رہے ہیں۔ اُس منظر سے مجھے یہ احساس ہوا اور سمجھ آیا کہ عام انسانوں کی طرح سوچیں تو وقت سیدھی دھارے کی طرح بہتا ہے، لیکن دوسری نظر سے دیکھیں تو وقت ایک دھوکہ ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ سب کچھ ایک ساتھ، ایک وقت میں ہی موجود ہے۔ تو اس طرح ہماری زندگی بھی پل دو پل کی ہے اور ساتھ ہی یہ لامتناہی بھی ہے۔ ان باتوں کو لفظوں میں بتانا مشکل ہے، مجھے لگتا ہے، یہ تو بس اپنے تجربے سے سمجھ میں آتی ہیں۔
مجھے ڈیوڈ فوسٹر والیس کی وہ مچھلی والی کہانی یاد آتی ہے۔ وہ میرے ایک اور پسندیدہ مصنف ہیں، جو انہوں نے 20 سال پہلے ایک کنووکیشن اسپیچ میں سنائی تھی۔ کہانی یہ ہے کہ، دو جوان مچھلیاں پانی میں تیر رہی تھیں۔ تب وہ ایک بوڑھی مچھلی سے ملتی ہیں، جو دوسری سمت جا رہی تھی۔ بوڑھی مچھلی سر ہلاتے ہوئے کہتی ہے، "گڈ مارننگ بچوں، پانی کیسا ہے؟" جوان مچھلیاں آگے تیرتی ہیں اور پھر ایک دوسرے سے مڑ کر پوچھتی ہیں، "یہ پانی کیا ہوتا ہے؟" جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، اس کا دھوکہ وہ اس کہانی میں پانی ہے۔ ہم انسان اس میں مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں۔ مگر علم کا مطلب ہے، تھوڑا پیچھے ہٹ کر، حقیقت کو ایک گہرے زاویے سے دیکھنا، جہاں سب کچھ آپس میں جڑا ہوا ہے، مکمل طور پر۔ یہ سب وقت اور دنیا سے پرے ہے۔ اس ناول سے ایک اور ضروری سبق، جس کا مجھ پر بہت اثر ہوا جب میں جوان تھا، وہ یہ ہے کہ کسی کو بھی آنکھ بند کر کے پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ یا صرف کتابوں سے ہی دنیا کے بارے میں نہیں سیکھنا چاہیے۔ بلکہ اپنا راستہ خود بنانا چاہیے اور خود کو دنیا میں جھونک دینا چاہیے، جہاں زندگی کے سبق صرف تب سیکھے جا سکتے ہیں، جب ان کا براہ راست تجربہ کیا ہو۔ اور ہر تجربہ، چاہے اچھا ہو یا برا، غلطیاں، دکھ، اور وہ وقت بھی جو آپ کو لگے کہ آپ نے ضائع کر دیا، یہ سب آپ کی ترقی کا ضروری حصہ ہیں۔ اسی بات پر، ہیسے علم اور فہم میں فرق بتاتے ہیں۔ علم تو کوئی بھی سکھا سکتا ہے، لیکن فہم تو بس تب ملتی ہے، جب آپ زندگی کے اتھل پتھل کا سامنا کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہوں تو، فہم کا راستہ دنیا داری کو ٹھکرانے سے نہیں، بلکہ اس میں پوری طرح ڈوب جانے سے ملتا ہے۔ تو میں نے اس مشرقی فلسفے کے نظرئیے سے دنیا کو دیکھنا شروع کیا۔ مگر ہیسے کی کئی کتابوں نے مجھ پر اثر ڈالا۔ تو میری یہ صلاح ہے کہ "ڈیمین" تب پڑھیں جب آپ جوان ہوں، "اسٹیپن والف" جب تھوڑا بڑا ہو جائیں، "سدھارتھ" کسی بھی عمر میں، خاص طور پر مشکل وقت میں۔ اور "دی گلاس بیڈ گیم" اگر آپ ہیسے کی سب سے عمدہ تحریر پڑھنا چاہیں، جو ہمیں گہرائی سے یہ بتاتی ہے کہ انسان کا دماغ، اور انسان کی تہذیب، کس طرح علم، فہم اور سچائی کی تلاش میں لگ سکتے ہیں۔ مگر "سدھارتھ" ہی ایک ایسی کتاب ہے، جسے میں نے دو سے زیادہ بار پڑھا ہے۔ میری اپنی زندگی میں، جب بھی کوئی مشکل آتی ہے، تو مجھے اس کتاب کا وہ لمحہ یاد آتا ہے، جب سدھارتھ سے پوچھا جاتا ہے کہ ان میں کیا خوبیاں ہیں، ان کا جواب بس یہ ہوتا ہے، "میں سوچ سکتا ہوں، میں انتظار کر سکتا ہوں اور میں اپواس رکھ سکتا ہوں۔" چلیے، اسے تھوڑا سمجھاتا ہوں۔ حقیقت میں، پہلے حصے میں، "میں سوچ سکتا ہوں" کی بات ہے۔ جیسا کہ مارکس آریلیس نے کہا، "آپ کی زندگی کا معیار، آپ کے خیالات کے معیار سے طے ہوتا ہے۔" دوسرا حصہ ہے، "میں انتظار کر سکتا ہوں"، صبر اور انتظار کرنا اکثر، حقیقت میں، کسی مسئلے کا سامنا کرنے کا صحیح طریقہ ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ، فہم اور گہرائی بھی آتی ہے۔ تیسرا حصہ ہے، "میں اپواس رکھ سکتا ہوں"، ضرورت پڑنے پر، کم میں بھی جینا اور خوش رہنا، آزاد ہونے کی پہلی شرط ہے۔ جہاں ذہن، جسم اور معاشرہ، آپ کو بندھن میں رکھنا چاہتے ہیں۔ تو ٹھیک ہے، دوستوں! برا لگ رہا ہے، مگر اس ایپیسوڈ میں ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔ ہمیشہ کی طرح، آپ کا شکریہ اور برسوں سے اسپورٹ کرنے کے لیے بھی آپ کا بہت شکریہ۔ بھگوت گیتا کے کچھ الفاظ کے ساتھ، میں آپ سے وداع لیتا ہوں۔ "جو زندگی کی وحدت کا تجربہ کرتا ہے، وہ ہر مخلوق میں اپنی روح کو دیکھتا ہے اور تمام مخلوقوں میں اپنی روح کو، اور وہ سب کو بغیر کسی تفریق کے دیکھتا ہے۔" سننے کے لیے شکریہ۔ اگلی بار آپ سے پھر ملوں گا۔
********
(ش ح۔ س ک۔م ذ-ع ن-س ا)
U.N. 8778
(Release ID: 2114379)