نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
عدلیہ تک رسائی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جو ہماری حکمرانی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے : نائب صدر جمہوریہ ہند
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ادارے مصلحت کے تحت دوسرے اداروں کے سامنے جھک رہے ہیں، مفاہمت کے ایسے طریقہ ٔکار ناقابلِ تلافی نقصان کا سبب بن سکتے ہیں
وہپ کیوں ہونا چاہیے؟ وہپ کا مطلب ہے کہ آپ اپنے نمائندے کو غلامی پر مجبور کر رہے ہیں : نائب صدر جمہوریہ
ایوان میں افراتفری، رکاوٹ اور بد نظمی دور سے کنٹرول کی جا رہی ہے : نائب صدر جمہوریہ
کبھی جمہوریت کا مندر کہلانے والی جگہ اب کشتی کا میدان اور جنگ کا اکھاڑا بن چکی ہے؛ اب عزت اور وقار کا کوئی تصور باقی نہیں رہا : نائب صدر
Posted On:
22 JAN 2025 2:51PM by PIB Delhi
نائب صدر جمہوریہ ہند جناب جگدیپ دھنکھڑ نے آج کہا کہ حالیہ برسوں میں عدلیہ تک رسائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ ہماری حکمرانی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آج نائب صدر کی رہائش گاہ پر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈیموکریٹک لیڈرشپ ( آئی آئی ڈی ایل ) کے شرکاء کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ ہمارے ملک میں ایک بنیادی حق موجود ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ہم عدلیہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی حق ہے لیکن پچھلی چند دہائیوں میں عدلیہ تک رسائی کو ہتھیار بنا دیا گیا ہے! اسے ایک اور سطح تک ہتھیار بنایا گیا ہے اور یہ ہماری حکمرانی اور ہمارے جمہوری اقدار کے لیے ایک بڑا چیلنج بن رہا ہے۔ ‘‘
موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ہر روز آپ دیکھیں گے کہ ہدایات جاری کی جا رہی ہیں اور ایسے ادارے انتظامی کام انجام دے رہے ہیں ، جن کے پاس نہ تو کوئی قانونی دائرہ اختیار ہے اور نہ ہی کوئی لیگل اتھارٹی یا قابلیت کہ وہ یہ اقدامات کر سکیں۔ عام فہم زبان میں کہا جائے تو ایک تحصیل دار کبھی ایف آئی آر درج نہیں کر سکتا، چاہے وہ اس پر کتنے ہی مضبوط جذبات رکھتا ہو کیونکہ ہمارا آئین یہ حکم دیتا ہے کہ ادارے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں۔ کیا وہ ایسا کر رہے ہیں؟ میں آپ کے لیے جواب دیتا ہوں: نہیں۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ادارے دوسرے اداروں کے سامنے جھک رہے ہیں اور یہ سب مصلحت کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یہ مفاہمتی طریقہ ٔکار وقتی فائدہ دے سکتے ہیں لیکن طویل مدت میں یہ ناقابل اندازہ بنیادی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ سوچیں۔ جب آپ سوچیں گے تو عوام سے جڑیں گے۔ انہیں آگاہ کریں کہ کوئی قوم انسانی وسائل کے اعتبار سے بھارت جیسی مالا مال نہیں ہے لیکن ہمیں اپنی خود جانچ کرنی ہوگی۔ ہم ان کامیابیوں پر ٹھہر نہیں سکتے، جو سطحی ہیں۔ ‘‘
پارلیمنٹ میں وہپ کے قانون پر شرکاء سے سوال کرتے ہوئے ، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’ وہپ کیوں ہونا چاہیے؟ وہپ کا مطلب ہے کہ آپ اظہار رائے کو محدود کر رہے ہیں، آزادی کو کم کر رہے ہیں اور اپنے نمائندے کو غلامی میں دھکیل رہے ہیں۔ آپ ایسے شخص کو اپنے ذہن کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس بات کی جانچ کریں کہ آیا امریکہ میں وہپ موجود ہے یا نہیں اور پچھلے دس سالوں میں دیکھیں کہ سینیٹ کے فیصلے کس طرح بحث و مباحثے کے ذریعے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن جب آپ وہپ جاری کرتے ہیں، تو بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ کسے قائل کریں؟ ......سیاسی جماعتوں کا کام جمہوریت کو فروغ دینا ہے لیکن کیا منتخب نمائندوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے؟ وہپ اس راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ‘‘
پارلیمنٹ میں ہونے والی رخنہ اندازی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ کبھی جمہوریت کا مندر کہلانے والی جگہ اب کشتی کا میدان اور جنگ کا اکھاڑا بن چکی ہے۔ کیا کچھ دیکھنے کے لیے باقی رہ گیا ہے؟ کیا کچھ سننے کے لیے باقی رہ گیا ہے؟ لوگوں نے ’وقار ‘ کا لفظ بھلا دیا ہے، اور اب عزت و وقار کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ایوان میں افراتفری، خلل اور بدنظمی جیسے حالات دور سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ وہ اس مندر میں پختہ عزم کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تاکہ ایک حکم کو پورا کیا جا سکے کہ یہ دن پارلیمنٹ یا مقننہ میں بے کار دن ہے۔ اس کا جائزہ لیں! ‘‘
نوجوان ذہنوں کو عوامی نمائندوں کو جوابدہ بنانے کی ترغیب دیتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے زور دے کر کہا کہ ’’ آپ ایک طاقتور دباؤ گروپ ہیں۔ سوشل میڈیا نے آپ کو طاقت دی ہے۔ آپ پارلیمنٹ کے اداروں، ان کے کام اور ارکانِ پارلیمنٹ کی کارکردگی کا آڈٹ کرنے کے قابل ہیں۔ آپ ان لوگوں کو آئینہ دکھا سکتے ہیں ، جو اپنے سنجیدہ آئینی فرائض کو پورا کرنے کے بجائے ایسے معاملات میں مشغول ہیں ، جس میں والدین اپنے بچے کو کبھی دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ اس صورتحال کو بدلنا ہوگا۔ ‘‘
سیاست میں باصلاحیت افراد کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے ، نائب صدر جمہوریہ نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ ہمیں پالیسی سازی میں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے ، جو سیاست کو سمجھتے ہوں۔ حکومت کو جوابدہ بنانا آسان نہیں ہے۔ حکومت کو جوابدہ بنانے کا واحد طریقہ مقننہ کے پلیٹ فارم سے ہے اور ذہن میں رکھیں، جب آپ حکومت کو جوابدہ بناتے ہیں، تو آپ حکومت کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی بہتری چاہے گا لیکن کسی کو اسے بتانا ہوگا کہ یہ وہ شعبے ہیں ، جہاں آپ کو بہتری کی ضرورت ہے۔‘‘
اظہار رائے اور بات چیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارا ملک مادرِ جمہوریت ہے ۔ ہم سب جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن کیا ہم اس دعوے کو صحیح ثابت کر رہے ہیں؟ اگر میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں ... تو مجھے فکر ہوتی ہے ۔ ملک میں سیاسی ماحول انتہائی تشویش ناک ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی معقول بات چیت نہیں ہو رہی۔ وہ نیشنل ازم ، سلامتی یا ترقی کے مسائل پر غور و فکر نہیں کرتے۔ آپ کو تصادم کی حالت میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ خلل کو ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر ہتھیار بنا لیا گیا ہے اور دیکھیں ہر طرف سے استعمال ہونے والی زبان کو — دائیں، بائیں اور مرکز سے — جو نہ صرف بھارتی ذہن کو کم تر کرتی ہے بلکہ ہماری تہذیب کو بھی داغ دار کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میں ملک کے نائب صدر کے طور پر فکر مند ہوں کہ اظہار رائے اور گفت و شنید ، یہ دونوں جو کسی بھی جمہوری قدر کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، تیزی سے پس منظر میں چلے جا رہے ہیں۔ لوگ فیصلہ کن ہو گئے ہیں۔ بغیر دوسرے نقطہ نظر کو سنے ،ان کا ایک نقطہ نظر ہے۔ ’میں صحیح ہوں، باقی سب غلط ہیں‘۔ ‘‘
عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو جوابدہ بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ عوامی املاک کی تباہی، ٹرینوں پر پتھراؤ، سرکاری عمارتوں میں آگ لگانا، ہم کہاں جا رہے ہیں؟ معاشرے کو ایک آواز میں اٹھنا ہوگا تاکہ ان لوگوں کو بے نقاب اور شرمندہ کیا جا سکے۔ نظام کو اس طرح کام کرنا ہوگا کہ ان کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے اور مالی طور پر بھی ان کو سزا دی جا سکے۔ ‘‘
قانون کی خلاف ورزی اور عوامی بد نظمی کی منصوبہ بندی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ ہمیں عوامی نظم و ضبط کی خلل اندازی کو کیوں برداشت کرنا چاہیے؟ کسی کو کسی قانونی اتھارٹی سے نوٹس ملتا ہے۔ وہ شخص ایک سیاستدان ہوتا ہے۔ لوگ سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ یہ درندگی ہے۔ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہ جمہوری اصولوں کی بے حرمتی ہے اور بڑی حیثیت رکھنے والے افراد یہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ برداشت کیا جا سکتا ہے؟ جمہوری معاملات میں عوامی نظم و ضبط کو اہمیت دینی ہو گی لیکن جب عوامی بد نظمی سیاسی فائدے کے لیے یا کسی فرد کی طاقت کو بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے... یا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ ٹریفک کو روک سکتا ہے، روزمرہ کی زندگی کو مفلوج کر سکتا ہے، عوامی نظم و ضبط کو تباہ کر سکتا ہے، تو ہم ردعمل ظاہر نہیں کرتے ۔ ‘‘
………………………………………
( ش ح ۔ا گ ۔ ع ا )
U.No. 5496
(Release ID: 2095136)
Visitor Counter : 24