قانون اور انصاف کی وزارت
ایک ملک، ایک انتخاب
Posted On:
17 DEC 2024 10:42AM by PIB Delhi
تعارف
بھارت کا جمہوری تانہ بانہ اس کے انتخابی عمل کی فعالیت پر منحصر ہے، جس کے توسط سے شہری سرگرمی کے ساتھ ہر سطح پر حکمرانی کا تعین کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی مدت میں 400 سے زائد انتخابات لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے منعقد ہو چکے ہیں جن سے بھارت کے انتخابی کمیشن کے سلسلے میں اس کی ایمانداری اور شفافیت کی عہد بندگی ظاہر ہوئی ہے۔ تاہم، منتشر اور اکثر و بیشتر منعقد ہونے والے انتخابات کی نوعیت نے ایک مزید اثر انگیز نظام کی ضرورت کے موضوع پر تبادلہ خیالات کا راستہ ہموار کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ’’ایک ملک، ایک انتخاب‘‘ کے نظریے کے تئیں ازسر نو دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔
یہ نظریہ جسے شانہ بہ شانہ انتخابات کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، اس کے تحت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب کے ادوار کو باہم مربوط کرنے کی تجویز شامل ہے۔ یہ ووٹروں کو اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں اسی دن دونوں سطح کی حکومت کے لیے اپنے ووٹ ڈالنے کی آسانی فراہم کرے گا اگرچہ ملک بھر میں ووٹنگ کا عمل اس کے باوجود کئی مرحلوں میں منعقد ہو سکتا ہے۔ انتخابات سے متعلق وقت کی ان حدود میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لاجسٹکس سے متعلق چنوتیوں کا حل نکالا جائے، لاگت میں تخفیف لائی جائے اور اکثر و بیشتر منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پڑنے والے خلل کو کم سے کم کیا جائے۔
بھارت میں ہمہ وقت انتخابات منعقد کرانے کے موضوع پر تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ، جو 2024 میں جاری کی گئی ہے اس میں اس تصوریت کے نفاذ کا جامع لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔ اس کی سفارشات کو 18 ستمبر 2024 کو مرکزی کابینہ نے تسلیم کر لیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں یہ ایک اہم قدم کہا جا سکتا ہے۔ حامیان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح کا ایک نظام انتظامی اثرانگیزی میں اضافہ لا سکتا ہے، انتخابات سے متعلق اخراجات میں تخفیف، اور پالیسی جاری رکھنے کے عمل کو فروغ دینے کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔ چونکہ بھارت حکمرانی کو منظم بنانے کا آرزومند ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جمہوری عمل کو بھی زیادہ سے زیادہ افادیت کا حامل بنانے کا خواستگار ہے، لہٰذا ’’ ایک ملک، ایک انتخاب ‘‘ کا نظریہ ایک ایسی کلیدی اصلاح بن کر ابھرا ہے جس کے سلسلے میں دانش مندانہ گفت و شنید اور اتفاق رائے درکار ہے۔
تاریخی پس منظر
شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کا نظریہ بھارت میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئین کو اختیار کیے جانے کے بعد لوک سبھا اور تمام تر ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے انتخابات 1951 سے لے کر 1967 کے درمیان شانہ بہ شانہ منعقد ہوئے تھے۔ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے اولین عام انتخاب کا اہتمام 1951-52 میں ایک ساتھ کیا گیا تھا، اور یہ طریقہ 1957،1962 اور 1967 کے بعد کے تین عام انتخابات میں بھی جاری رہا۔
تاہم، ہم آہنگی پر مبنی انتخابات کے اس دور میں 1968 اور 1969 میں چند ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے وقت سے پہلے تحلیل ہو جانے کے نتیجے میں خلل انداز ہو گیا تھا۔ چوتھی لوک سبھا بھی 1970 میں معینہ مدت سے قبل تحلیل ہو گئی تھی۔ 1971 میں نئے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ پہلی دوسری، اور تیسری لوک سبھا کے برعکس جس نے اپنی کلی پانچ سالہ مدت کار مکمل کی تھی، پانچویں لوک سبھا کی مدت کار کی توسیع ایمرجنسی نافذ کیے جانے کی وجہ سے آرٹیکل 352 کے تحت 1977 تک کے لیے کر دی گئی تھی۔ تب سے محض معدود چند لوک سبھا مدت ہائے کار کلی پانچ برسوں تک پایہ تکمیل تک پہنچی ہے، مثلاً آٹھویں، دسویں، چودہویں اور پندرہویں۔ دیگر میں چھٹویں ، ساتویں، نویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں لوک سبھا شامل ہیں جو معینہ مدت سے قبل تحلیل ہوگئی تھیں۔
ریاستی اسمبلیاں گذشتہ برسوں کے دوران مماثل خلل اندازیوں کا شکار رہی ہیں۔ معینہ مدت سے قبل تحلیل ہونا اور مدت کار میں کی جانے والی توسیعات بار بار درپیش ہونے والی چنوتیاں بن گئی ہیں۔ ان پیش رفتوں نے بڑی مضبوطی کے ساتھ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں خلل پیدا کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں موجودہ الگ الگ وقتوں میں منعقد ہونے والا انتخابی عمل کا طرز شروع ہوا ہے۔
مختلف النوع لوک سبھاؤں کے کلیدی سنگ ہائے میل کی معینہ مدتیں

*وسط مدتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ انتخابات سے قبل تحلیل عمل میں آئی تھی۔
** ایمرجنسی کے اعلان کے بعد رونما ہونے والی توسیع
ہمہ وقت انتخابات کے انعقاد کے موضوع پر تشکیل کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی
ہمہ وقت انتخابات کے انعقاد سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیٹی، جس کی سربراہی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووِند کے ذمے تھی، کی تشکیل حکومت ہند کی جانب سے 2 ستمبر 2023 میں عمل میں آئی۔اس کا بنیادی مقصد لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے لیے شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کی افادیت کے پہلوؤں کی تلاش تھی۔ اس کمیٹی نے وسیع پیمانے پر عوام الناس اور سیاسی ردعمل بہم پہنچایا اور مضمراتی فوائد اور مجوزہ انتخابی اصلاحات سے وابستہ چنوتیوں کا تجزیہ کرنے کی غرض سے ماہرین کے ساتھ مشاورت کا عمل انجام دیا۔ رپورٹ میں کمیٹی کے انکشافات کا تفصیلی تجزیہ، آئینی ترامیم کے لیے اس کی سفارشات اور حکمرانی، وسائل اور عوامی تاثر کے موضوع پر شانہ بہ شانہ منعقد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ہونے والے متوقع اثرات کی تفصیلات بھی اس میں شامل ہے۔
منتخبہ کلیدی نکات:
- عوامی ردعمل: کمیٹی کو 21500 سے زائد تاثرات حاصل ہوئے، 80 فیصد سے زائد لوگ شانہ بہ شانہ انتخابات کے حق میں ہیں۔ یہ تاثر ملک کے تمام تر گوشوں سے حاصل ہوا، جن میں لکشدیپ، انڈمان اور نکوبار، ناگالینڈ، دادرا، اور ناگر حویلی بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تاثرات تمل ناڈو، مہاراشٹر، کرناٹک، کیرالہ، مغربی بنگال، گجرات اور اترپردیش سے حاصل ہوئے۔
- سیاسی جماعتوں کی جانب سے حاصل ہوئے ردعمل: 47 سیاسی جماعتوں نے اپنے نظریات اور خیالات داخل کیے، ان میں سے 32 جماعتوں نے شانہ بہ شانہ انتخابات کے نظریے کی حمایت کی، وسائل کے زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال اور سماجی ہم آہنگی جیسے فوائد گنائے۔ 15 جماعتوں نے مضمراتی طور پر مانع جمہوری اثرات اور علاقائی جماعتوں کے حاشیے پر چلے جانے کے سلسلے میں اپنی تشویشات کا اظہار کیا۔
- ماہرین کے ساتھ مشاورت: کمیٹی نے بھارت کے چیف جسٹس، سابق الیکشن کمشنر حضرات اور قانون کے ماہرین سے مشاورت کی۔ بیشتر افراد نے شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے نظریے کی حمایت کی، وسائل کے زیاں او ربار بار انتخابات کے انعقاد کے نتیجے میں رونما ہونے والے سماجی-اقتصادی خلل کا حوالہ دیا۔
- اقتصادی اثرات: کاروباری تنظیموں مثلاً سی آئی آئی، فکی، اور ایسوچیم نے خلل میں تخفیف اور انتخابی ادوار سے مربوط لاگتوں میں تخفیف جیسے پہلوؤں پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات اجاگر کرتے ہوئے اس تجویز کی حمایت کی۔
- قانونی اور آئینی تجزیہ : کمیٹی نے بھارتی آئینی کے آرٹیکل 82اے اور 324 اے میں ترامیم کی تجاویز پیش کی ہیں تاکہ لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں اور مقامی بلدیاتی اداروں کے لیے شانہ بہ شانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔
- نفاذ کے لیے مرحلہ وار طریقہ کار: کمیٹی نے شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کو دو مراحل میں انجام دینے کی سفارش کی ہے۔
- پہلا دور: لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کو ہم آہنگ کیا جائے۔
- دوسرا دور: میونسپل اداروں اور پنچایتوں کے انتخابات کو 100 دنوں کے اندر لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات سے مربوط کیا جائے۔
- انتخابی فہرستیں اور ای پی آئی سی میں ہم آہنگی: کمیٹی نے ریاستی انتخابی کمیشنوں کے ذریعہ انتخابی فہرستیں تیار کرنے کے عمل میں درپیش عدم اثر انگیزیوں کو اجاگر کیا ہے اور حکومت کی تمام تر تین سطحوں کے لیے ایک واحد انتخابی فہرست اور واحد ای پی آئی سی تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔ اس کے نتیجے میں غلطیوں کو دوہرانے یا غلطیاں ہونے کے معاملات میں تخفیف ہوگی اور ووٹ دہندگان کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو سکے گی۔
- اکثر و بیشتر منعقد ہونے والے انتخابات کےبارے میں عوامی تاثرات: اکثر و بیشتر منعقد ہونے والے انتخابات کے منفی اثرات کے سلسلے میں عوام الناس کی جانب سے اہم تشویش ظاہر کی گئی ہے، مثال کے طور پر ووٹروں کو ہونے والی تکان اور حکمرانی سے متعلق خلل اندازیاں جو بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے ذریعہ متوقع طو رپر کم ہو جائیں گی۔
شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کا جواز
درج ذیل نکات اس رپورٹ کے انکشافات پر مبنی ہیں جو سابق صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووِند کی سربراہی میں تشکیل کردہ شانہ بہ شانہ انتخابات سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ میں جاری کیے گئے ہیں:
- حکمرانی میں پیہم عمل کو فروغ دے گی: ملک کے مختلف حصوں میں انتخابات کے جاری عمل کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں، ان کے قائدین، قانون ساز افراد، اور دونوں یعنی ریاستی و مرکزی حکومتیں اکثر اپنی کوششوں کی توجہ حکمرانی کو ترجیح دینے کی بجائے عنقریب منعقد ہونے والے انتخابات پر ہی مرتکز رکھتی ہیں۔ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کا طریقہ کار اپنانے سے وہ حکومت کی توجہ ترقیاتی سرگرمیوں اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے مقصد سے وضع کی گئی پالیسیوں کے نفاذ پر مرکوز کر سکیں گی۔
- پالیسی انجماد سے احتراز ممکن ہو سکے گا: انتخابات کے دوران مثالی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے نتیجے میں روزمرہ کی انتظامی سرگرمیوں اور ترقیاتی پہل قدمیوں میں خلل واقع ہوتا ہے۔یہ خلل اندازی نہ صرف یہ کہ اہم بہبودی اسکیموں کی پیش رفت پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ حکمرانی کو بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیتی ہے۔ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد سے ایم سی سی کے التوائی نفاذ میں تخفیف ہوگی، جس کے نتیجے میں پالیسی انجماد میں تخفیف ہوگی اور حکمرانی کا عمل پیہم طور پر جاری رہ سکے گا۔
- وسائل کے دوسری سمت میں منتقل ہونے کے عمل میں تخفیف رونما ہوگی: مثلاً پولنگ افسران اور سول ملازمین کی قابل ذکر تعداد میں انتخابی ڈیوٹیوں کے لیے عملے کی تعیناتی، کے نتیجے میں وسائل قابل ذکر طور پر اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بجائے دوسری جانب منتقل ہو جاتے ہیں۔ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے ساتھ، اکثر و بیشتر ہونے والی تعیناتی میں تخفیف رونما ہوگی، سرکاری افسران اور عوامی ادارے اپنے بنیادی کرداروں پر انتخابات سے متعلق امور کی انجام دہی کے مقابلے میں کہیں زیادہ توجہ مرکوز کر سکیں گے۔
- علاقائی پارٹیوں کی موزونیت کا تحفظ ممکن ہوگا: شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد سے علاقائی جماعتوں کے کردار پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ درحقیقت، اس کے ذریعہ انتخابات کے دوران پہلے سے کہیں زیادہ مقامی توجہ مرکوز ہو سکے گی، علاقائی جماعتیں اپنی منفرد تشویشات اور امنگوں کو بہتر انداز میں اجاگر کر سکیں گی۔ یہ انتظام ایک ایسا سیاسی ماحول پروان چڑھائے گا جہاں مقامی مسائل پر قومی انتخابی مہمات حاوی نہیں ہو سکیں گی۔ اس طرح علاقائی آوازوں کی موزونیت کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔
- سیاسی مواقع میں اضافہ رونما ہوگا: شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی مواقع کی مساویانہ تخصیص اور سیاسی جماعتوں کے اندر ذمہ داریوں کی تخصیص عمل میں آسکے گی۔ فی الحال، ایک جماعت کے اندر چند قائدین کے لیے یہ چیز تقریباً کوئی غیر معروف چیز نہیں ہے کہ وہ انتخابی پیش منظر پر غلبہ قائم رکھے، کثیر سطحوں پر انتخابات لڑنا اور کلیدی عہدوں پر اجارہ داری قائم رکھنا جیسے معاملات عام ہیں۔ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے منظرنامے کے تحت سیاسی کارکنان کے مابین تنوع اور شمولیت کے زیادہ امکانات موجود ہوں گے جو مختلف النوع سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، برے پیمانے پر قائدین جمہوری عمل میں اپنا تعاون دینے کے لیے ابھر کر سامنے آسکیں گے۔
- حکمرانی پر توجہ : ملک بھر میں جاری انتخابات کا موجودہ سائیکل اچھی حکمرانی پر مرکوز توجہ دوسری جانب منتقل کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے طور پر فتوحات حاصل کرنے کے لیے انتخابات سے متعلق سرگرمیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہیں، اس کے نتیجے میں ترقی اور لازمی حکمرانی کے لیے بہت کم گنجائش باقی رہتی ہے۔ہم آہنگی پر مبنی انتخابات جماعتوں کو ووٹروں کی ضروریات اور مسائل کا حل نکالنے کے سلسلے میں اپنی کوششیں وقف کرنے کا موقع فراہم کریں گے، مناقشوں کی مثالیں اور پوری شدت کے ساتھ چلائی جانے والی مہم میں بھی تخفیف رونما ہوگی۔
- مالی بوجھ میں تخفیف رونما ہوگی: شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد سے کثیر تعداد میں انتخابی ادوار سے وابستہ مالی لاگتیں قابل ذکر طو رپر تخفیف سے ہمکنار ہوں گی۔ یہ ماڈل ہر انفرادی انتخاب کی صورت میں افرادی قوت، سازو سامان اور سلامتی سے متعلق اخراجات میں تخفیف کا باعث ثابت ہوگا۔ حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد میں، وسائل کی مزید اثر انگیز تخصیص اور بہتر مالی انتظام، اقتصادی نمو اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے ایک مناسبت پر مبنی ماحول کو پروان چڑھانا جیسے پہلو شامل ہیں۔
نتیجہ
سابق صدر رام ناتھ کووِند کی قیادت میں شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تشکیل کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے بھارت کے انتخابی عمل میں ایک تغیراتی تبدیلی کے لیے بنیادی عمل انجام دیا ہے۔ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابی ادوار کو باہم مربوط کرکے، کمیٹی کی سفارشات میں اس بات کے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اکثر و بیشتر منعقد ہونے والے انتخابات سے وابستہ طویل المدت چنوتیوں مثلاً حکمرانی میں پڑنے والا خلل اور وسائل کا زیاں روکا جا سکے گا۔ شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کے نفاذ کے سلسلے میں مجوزہ مرحلہ وار طریقہ کار، ساتھ ہی ساتھ عمل میں لائی جانے والی آئینی ترامیم، بھارت میں مزید اثر انگیز اور مستحکم انتخابی ماحول کے لیے راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔ بڑے پیمانے پر عوامی اور سیاسی حمایت کے سات، شانہ بہ شانہ انتخابات کے انعقاد کا نظریہ بھارت کے جمہوری عمل کو منظم بنانے اور حکمرانی کی اثرانگیزی کو پروان چڑھانے کے لیے کمربستہ ہے۔
حوالہ جات:
- https://onoe.gov.in/HLC-Report-en
- https://legalaffairs.gov.in/sites/default/files/simultaneous_elections/79th_Report.pdf
- https://legalaffairs.gov.in/sites/default/files/simultaneous_elections/NITI_AYOG_REPORT_2017.pdf
ایک ملک، ایک انتخاب
**************
ش ح ۔ م ن۔ ا ب ن
U. No.4128
(Release ID: 2085094)
Visitor Counter : 226