قانون اور انصاف کی وزارت
لاء اسکولز اور کالجز
Posted On:
06 DEC 2024 3:37PM by PIB Delhi
قانون اور انصاف کی وزارت کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) جناب ارجن رام میگھوال نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں گزشتہ دس سالوں کے دوران ملک میں بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) کے ذریعہ منظور شدہ سی ایل ای (قانونی تعلیم کے مراکز) کی کل تعداد بتائی جو ضمیمہ اے کے طور پر منسلک کی گئی ہے۔
بی سی آئی نے مطلع کیا ہے کہ 18 دسمبر 2023 کے سرکلر کے ذریعے، اس نے آن لائن پورٹل، https://www.barcouncilofindia.org/user/login کے ذریعے اپنے رجسٹریشن کے لیے موجودہ اور نئے سی ایل ای/انسٹی ٹیوشنز سے درخواستیں لینا شروع کر دی ہیں۔ یہ بھی نوٹیفائی کیا گیا ہے کہ تمام زیر التواء ہارڈ کاپی درخواستیں غیر متعلقہ ہوگئی ہیں اور درخواست دہندہ سی ایل ای کو نامزد پورٹل کے ذریعے نئے سرے سے درخواست دینا ہوگی۔ بی سی آئی نے مزید بتایا ہے کہ رجسٹریشن کے لیے پورٹل پر سال 2023-2024 میں کل 436 تازہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور فی الحال ایسی رجسٹریشن کے لیے بی سی آئی کے پاس کوئی درخواست زیر التوا نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ ایکٹس 1961 کے سیکشن 7(1)(ایچ) کے مطابق، بی سی آئی کو قانونی تعلیم کو فروغ دینے اور اس طرح کی تعلیم کے معیارات مرتب کرنے کا اختیاردیا گیا ہے۔ بی سی آئی نے مطلع کیا ہے کہ اس نے یہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں کہ ملک بھر میں سی ایل ایز کی بڑھتی ہوئی لعنت کو کم کیا جا سکے۔ سال 2015 میں، بی سی آئی نے مورخہ 6 جون 2015 کی قرارداد کے ذریعے ریاستی حکومتوں اور یونیورسٹیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اگلے تین سالوں کے لیے لاء کالجوں کے لیے نو آبجیکشن سرٹی فکیٹ (این او سی) اور الحاق کے اجراء پر پابندی لگائیں۔ قرارداد کے باوجود، 300 سی ایل ای کو این او سی اور الحاق مل گئے لیکن بی سی آئی نے دیئے گئے الحاق کو منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں، عدالتی مداخلت کے بعد، سی بی آئی کو ان سی ایل ای کو دی گئی الحاق کی منظوری کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑا۔ بی سی آئی نے 11 اگست 2019 کی قرارداد کے ذریعے نئے سی ایل ای اور یہاں تک کہ نئے سیکشنز کھولنے پر تین سال کی مدت کے لیے ایک نئی پابندی عائد کی تھی لیکن عزت مآب پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی جانب سے بی سی آئی کی قرارداد کو روک دینے کے بعد 16 جون 2021 کی پریس ریلیز کے ذریعے پابندی اٹھا لی گئی تھی۔
ضمیمہ-اے
نمبر شمار
|
ریاست
|
ریاست کی تعداد
|
1
|
انڈمان اور نکوبار جزائر
|
01
|
2
|
آندھرا پردیش
|
05
|
3
|
اروناچل پردیش
|
05
|
4
|
آسام
|
03
|
5
|
بہار
|
10
|
6
|
چنڈی گڑھ
|
01
|
7
|
چھتیس گڑھ
|
11
|
8
|
دادرہ اور نگر حویلی
|
01
|
9
|
دہلی
|
10
|
10
|
گجرات
|
64
|
11
|
ہریانہ
|
30
|
12
|
ہماچل پردیش
|
08
|
13
|
جموں و کشمیر
|
01
|
14
|
جھارکھنڈ
|
15
|
15
|
کرناٹک
|
32
|
16
|
کیرالہ
|
18
|
17
|
مدھیہ پردیش
|
82
|
18
|
مہاراشٹر
|
78
|
19
|
منی پور
|
01
|
20
|
میگھالیہ
|
02
|
21
|
اڈیشہ
|
08
|
22
|
پڈوچیری
|
01
|
23
|
پنجاب
|
29
|
24
|
راجستھان
|
55
|
25
|
سکم
|
02
|
26
|
تمل ناڈو
|
23
|
27
|
تلنگانہ
|
16
|
28
|
تریپورہ
|
01
|
29
|
اتر پردیش
|
319
|
30
|
اتراکھنڈ
|
14
|
31
|
مغربی بنگال
|
22
|
|
کل میزان
|
868
|
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ ض ر ۔ن م۔
U- 3569
(Release ID: 2081547)
Visitor Counter : 23