نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
ہمارے تاریخ سے چھیڑ چھاڑ گی گئی ہے، اس میں ترمیم کی گئی ہے، چند افراد کی اجارہ داری قائم کی گئی ہے: نائب صدر جمہوریہ کا بیان
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’ہم نے طویل عرصے تک ان افراد کو نظرانداز کیا ہے جنہوں نے حقیقت میں اس ملک کے لیے سب سے بڑی قربانی پیش کی‘‘
نائب صدر نے مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’تاریخ کو صرف چند خوشامدیوں اور چنندہ افراد کو سراہ کر نہیں سنوارا جا سکتا؛ اس کا فرض ہے کہ ہم اصل اور بغیر کسی چمک دمک کے تاریخی حقیقتوں کو پیش کریں‘‘
نائب صدر جمہوریہ نے کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور سمجھوتے کی اپیل کی
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ’’ناقابل واپسی متصادم رویہ غیر سفارتکاری ہے‘‘
’’میرے دروازے کسانوں کے لیے 24 گھنٹے ساتوں دن کھلے ہیں‘‘ نائب صدر جمہوریہ نے کسانوں کے ساتھ مسلسل تعاون کی یقین دہانی کرائی
نائب صدر نے کہا کہ ’’ ’وِکست بھارت2047@‘ حاصل کرنے کے لیے کسانوں کا مطمئن ہونا ضروری ہے‘‘
Posted On:
01 DEC 2024 2:51PM by PIB Delhi
نائب صدر جمہوریہ، جناب جگدیپ دھنکھر نے آج کہا کہ ’’ہماری تاریخ کی کتابوں نے ہمارے ہیروز کے ساتھ ناانصافی کی ہے ۔ ہماری تاریخ کو مسخ اور اس میں ترمیم کی گئی ہے، چند افراد کی اجارہ داری قائم کر کے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ انہوں نے یی ہمیں آزادی دلوائی ۔ یہ ہمارے ضمیر کے لئے ناقابل برداشت تکلیف ہے ۔ یہ ہمارے دل و دماغ پر ایک بوجھ ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہمیں اس میں بڑی تبدیلی لانی ہوگی ۔ اس کے لیے 1915 میں پہلی بھارتی حکومت کے قیام سے بہتر موقع اور کیا ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
آج نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں راجہ مہندر پرتاپ کے 138ویں یوم پیدائش کی تقریب کے موقع پر منعقدہ پروگرام میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے، جناب دھنکھر نے اس بات پر زور دیا کہ راجہ مہندر پرتاپ پیدائشی سفارت کار، پیدائشی مدبر، ایک نظریہ ساز اور قوم پرست تھے ۔ انہوں نے کہا کہ راجہ مہندر پرتاپ نے قوم پرستی، حب الوطنی اور دور اندیشی کی مثال قائم کی اور اپنے عمل سے یہ ظاہر کیا کہ قوم کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ۔
ہمارے آزادی کی جدوجہد کے گمنام ہیروز کو تسلیم نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئےجناب دھنکھر نے کہا کہ’’یہ انصاف کی کتنی بڑی پامالی ہے، کتنی بڑی بدقسمتی ہے ۔ ہم آزادی کے 75ویں سال میں ہیں، اور ہم بری طرح ناکام رہے ہیں، بہت بری طرح ناکام رہے ہیں، کہ اس عظیم شخصیت کے ایسے کارناموں کو تسلیم کر سکیں ۔ ہماری تاریخ نے انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ حقدار ہیں ۔ اگر آپ ہماری آزادی کی بنیادوں کو دیکھیں تو ہمیں بالکل مختلف پڑھایا گیا ہے ۔ ہماری آزادی کی بنیادیں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور دیگر گمنام یا کم مشہور ہیروز کی عظیم قربانیوں پر استوار ہیں ۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’سال 1932 میں اس عظیم انسان، اس عظیم نظریہ ساز، جس نے عام چیزوں سے بلند ہو کر سوچا، کیونکہ آزادی وہ چیز ہے جس سے انسانیت محبت کرتی ہے، کو این اے نیلسن نے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا ۔ اور بنیاد کیا تھی؟ ان کا وہ کردار جس کی بدولت گاندھی جنوبی افریقہ میں مشہور ہوئے ۔ جب میں اس نامزدگی کا جائزہ لیتا ہوں تو ہر لفظ میں اس شخصیت کی عکاسی ملتی ہے ۔ میں وقت نہیں لوں گا، براہ کرم اسے پڑھیں، آپ کو اس عظیم انسان کی شخصیت کا ہر پہلو نظر آئے گا ۔ ‘‘
تاریخ نویسی کے اس انداز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جس میں بعض قومی ہیروز کو نظر انداز کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’ہم اپنی تاریخ کو اس طرح سے پروان نہیں چڑھا سکتے کہ ان لوگوں کو غیر ضروری طور پر بلند مقام دیا جائے جنہوں نے یقیناً کردار ادا کیا، لیکن وہ کردار نہیں جو دوسرے ہیروز نے ادا کیا ۔ ہم اپنے ہیروز کو کمزور ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ آج ہم ایک ایسے ہیرو پر بات کر رہے ہیں، اور ضروری ہے کہ تاریخ کے بے غرض حقائق کو پیش کیا جائے تاکہ اس نسل اور آنے والی نسلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کیا جا سکے ۔ ‘‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے ترقی یافتہ ملک کے درجے تک پہنچنے کے لیے کسانوں کی فلاح و بہبود کی ضرورت پر زور دیا ۔ جناب دھنکھر نے کہا کہ ’’ہر بار میرے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ ہمیں آزاد ہندوستان میں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہماری عوام کی کامیابیوں کو مناسب احترام اور پہچان ملے؟ موجودہ نظام ٹھیک ہے، اقتصادی ترقی شاندار ہے ۔ ہمارے یہاں معاشی ترقی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی حیرت انگیز ہے ۔ عالمی سطح پر ہماری شبیہہ بہت بلند ہے، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ 2047 تک ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہمارے کسان مطمئن ہوں ۔ ‘‘
کسان بھائیوں سے اپیل کرتے ہوئے کہ مسائل کو مکالمے اور بات چیت کے ذریعے حل کریں، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی ہی قوم کے لوگوں سے لڑائی نہیں کرتے، ہم اپنی ہی قوم کے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے، دھوکہ دشمن کو دیا جاتا ہے ۔ اپنے لوگوں کو گلے لگایا جاتا ہے ۔ جب کسانوں کے مسائل فوری طور پر حل نہ ہوں تو کوئی کیسے سکون سے سو سکتا ہے؟ میں اپنے کسان بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک میں مسائل کا حل مکالمے اور سمجھوتے کے ذریعے ممکن ہے ۔ راجہ مہندر پرتاپ اس نقطہ نظر کے لیے مشہور تھے ۔ ناقابل واپسی محاذ آرائی کا رویہ ایک کمزور سفارتکاری ہے ۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ’’ہمیں حل کے لیے کھلا ذہن رکھنا ہوگا، مکالمے کے لیے تیار رہنا ہوگا کیونکہ یہ ملک ہمارا ہے اور یہ دیہی پس منظر سے متاثر ہے ۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ میرے کسان بھائی، چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور کسی بھی تحریک میں سرگرم ہوں، میرا پیغام ان تک پہنچے گا اور وہ اس پر غور کریں گے ۔ آپ سب مجھ سے زیادہ علم اور تجربہ رکھتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ مثبت توانائی کا امتزاج کسانوں کے مسائل کے تیز ترین حل کے لیے کام کرے گا ۔ ‘‘
کسانوں کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے اور آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’ہمیں غور کرنا ہوگا ۔ جو کچھ ہوا، وہ ماضی کا حصہ ہے، لیکن آگے کا راستہ درست ہونا چاہیے ۔ ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کسانوں کی زمین سے شروع ہوتی ہے ۔ ترقی یافتہ بھارت کا راستہ کھیتوں سے ہو کر گزرتا ہے ۔ کسانوں کے مسائل کو تیزی سے حل کیا جانا چاہیے ۔ اگر کسان پریشان ہو تو قوم کی عزت اور وقار پر گہرا اثر پڑتا ہے، اور یہ زیادہ تر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اپنے دل کی باتیں اپنے تک محدود رکھتے ہیں ۔ آج کے اس بابرکت دن، میں یہ عہد کرتا ہوں کہ کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے میرے دروازے 24 گھنٹے ساتوں دن کھلے رہیں گے ۔ ایسا کر کے میں آزادی کو ایک نئی جہت دینے میں اپنا حصہ ڈالوں گا اور اس سے راجہ مہندر پرتاپ کی روح کو سکون ملے گا ۔ ‘‘
تاریخ کے کچھ اہم واقعات کو ناکافی توجہ دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’حال ہی میں کوٹڑا، اودے پور کے دورے کے دوران، میں نے برسا منڈا کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر ایک دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر سنا ۔ 1913 میں منگر ہل پر برطانوی ظلم کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ۔ اس سال، جلیانوالہ باغ سے بہت پہلے، 1913 میں، 1507 قبائلی افراد برطانوی گولیوں کا شکار بنے ۔ کیا قتل عام تھا! کیا ظلم تھا! تاریخ نے اسے زیادہ شناخت نہیں دی ۔ میں یہ اشارہ دینا چاہتا ہوں کہ برطانوی بربریت کے ایسے واقعات اور مہاراجہ سورج مل، راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی حب الوطنی کی داستانیں تاریخ میں کیوں مناسب جگہ نہیں پاتیں؟ یہ موقع ایک سنگ میل اور تبدیلی کا باعث بنے گا ۔ ‘‘
بھارت کے چند مستحق سپوتوں کو دیر سے پہچان اور بھارت رتن کے اعزاز سے نوازنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے، جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’لیکن ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو 1990 میں بھارت رتن ملا ۔ کیوں؟ اتنی دیر کیوں ہوئی؟ اس ذہنیت کا تصور کریں ۔ مجھے رکن پارلیمنٹ اور وزیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پھر ایک سیاسی تبدیلی آئی، اور حال ہی میں چودھری چرن سنگھ، کرپوری ٹھاکر ۔ وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں، ہمارے ذہنوں پر چھائے رہتے ہیں ۔ وہ کسانوں پر یقین رکھتے تھے، وہ دیہی بھارت پر یقین رکھتے تھے ۔ پھر میرا یہ بڑا اعزاز رہا کہ نائب صدر جمہوریہ اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی حیثیت سے حکومت سے منسلک رہا ۔ بھارت کے ان دو عظیم سپوتوں کو بھارت رتن دیا گیا ۔ ‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نے طویل عرصے تک ان لوگوں کو نظر انداز کیا جو ہمارے رہنما تھے ۔ حقیقی معنوں میں، انہوں نے ملک کے لیے سب سے بڑی قربانی دی ۔ اب قبائلی دن منایا جانے لگا ہے ۔ برسا منڈا کی عمر کتنی تھی؟ خیر، دیر آید درست آید ۔ پراکرام دن منایا گیا ۔ ۔ ۔ راجہ مہندر پرتاپ حقیقت میں ان سے پہلے تھے [سبھاش چندر بوس]، ایک لحاظ سے وہی تھے جنہوں نے نیتا جی کی انڈین نیشنل آرمی کی بنیاد رکھی ۔ مجھے یاد ہے کہ میں انڈمان اور نکوبار کے اس مقام پر گیا جہاں 1945 میں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے پرچم لہرایا تھا، اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ عظیم عمل تیس سال پہلے راجہ مہندر پرتاپ نے کیا تھا ۔ ‘‘
راجہ مہندر پرتاپ کی بحیثیت رکن پارلیمنٹ خدمات کو یاد کرتے ہوئے جناب دھنکھڑ نے کہا کہ ’’وہ پارلیمنٹ کے رکن تھے ۔ میں نے ان کی تمام کارروائیوں کا جائزہ لیا، اور ایک بہت خاص بات دیکھی کہ وہ کتنے دانشور تھے اور کتنی باتوں کو مدنظر رکھتے تھے ۔ 22 نومبر 1957 کو، انہوں نے لوک سبھا میں ایک تجویز پیش کی، اور تجویز کا موضوع کیا تھا؟ یہ کہ ہمیں کچھ افراد کو عزت دینا چاہیے ۔ اور کیوں دینا چاہیے؟ کیونکہ انہوں نے ملک کے معاملات میں، آزادی کی جدوجہد میں اور دیگر معاملات میں نمایاں خدمات انجام دی تھیں ۔ انہوں نے ایک تحریک پیش کی اور خاص طور پر تین شخصیات کو اعزاز دینے کی خواہش کی - ویر ساورکر، وریندر کمار گھوش (جو اروِندو جی کے بھائی تھے)، اور ڈاکٹر بھوپندر ناتھ دت (جو وویکانند جی کے بھائی تھے) ۔ کیا شاندار انتخاب تھا ان کا!‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’لیکن پھر وہی ہوا جو ہمارے ساتھ اکثر ہوتا ہے، لیکن ہم اب ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کی مخالفت کی ۔ راجہ مہندر پرتاپ اتنے دکھی ہوئے کہ انہیں کہنا پڑا: ’احتجاج کے طور پر، میں اس فیصلے کے خلاف نکل رہا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ ہر بنگالی اور ہر مراٹھا واک آؤٹ کرے گا ۔ ‘ انہوں نے اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’معزز سامعین، معزز اراکین، یہ کربناک لمحہ راجہ صاحب کے آزادی کے رہنماؤں کو علاقائی اور نظریاتی حدود سے بالاتر ہو کر عزت دینے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے ۔ ہم اس عظیم انسان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟ ہم بے بس نہیں ہیں ۔ آئیے ہم سب ملکر یہ یقینی بنائیں کہ بھارت ماتا کے اس عظیم بیٹے کو مناسب پہچان دی جائے۔‘‘‘
مکمل متن یہاں پڑھیں: https://pib.gov.in/PressReleasePage.aspx?PRID=2079506
ش ح ۔ م ع ۔ م ت
01.12.2024
U - 3248
(Release ID: 2079531)
Visitor Counter : 19