وزارت اطلاعات ونشریات
‘‘فلم سازی کے عمل کورازسے آزاد کرنا ضروری ہے:’’ 55 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا میں کی ماسٹر کلاس میں پرسون جوشی کا خطاب
‘‘فلم سازی مرکزیت پر مبنی نہیں رہ سکتی اور سی ایم او ٹی کہانی سنانے کے عمل کو لامرکزی کرنے کی جانب ایک قدم ہے ’’
‘‘اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے سچی کہانیاں سامنے آئے تو آپ کو فلم سازی کو ملک کے کونے -کونے میں رہنے والے لوگوں تک پہونچانا ہوگا’’
‘‘خاموشی وہ ابدی آواز ہے جو ہمیں جوڑتی ہے ۔خاموشی بہترین زبان ہے ’’
کئی دفعہ ہمارے کہانی کے خیالات قبل از وقت ختم ہو جاتے ہیں ، کیونکہ عملی اور تخلیقی پابندیوں کی وجہ سے ہم اپنے خیالات پر اعتماد کھو دیتے ہیں ۔ آج گوا میں آئی ایف ایف آئی 2024 کے دوران ‘ماسٹر کلاس دی جرنی فرام اسکرپٹ ٹو اسکرین: رائٹنگ فار فلم اینڈ بیونڈ’ سے خطاب کرتے ہوئے معروف مصنف اور نغمہ نگار پرسون جوشی نے کہا کہ اس طرح ہندوستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں کہانی سامنے آنے سے پہلے ہی مرجاتی ہے۔
جناب جوشی نے کہا کہ کسی بھی فن کی مسلسل مشق کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے ، کیونکہ جب موقع ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے، تب ہم اس پر عمل کرنا شروع نہیں کر سکتے ۔
‘‘ حقیقی کنٹینٹ زبان کا پابند نہیں ہوتا اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہترین شاعری خاموشی میں ہوتی ہے ، کیونکہ خاموشی ایک ایسی ابدی آواز ہے جو ہمیں جوڑتی ہے ۔ خاموشی بہترین زبان ہے ’’۔جناب جوشی نے مزید کہا کہ ہمیں فلم سازی کے عمل کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے ۔ فلموں میں راز ہو سکتا ہے لیکن فلم سازی کے عمل میں نہیں ۔
خیالات سے لے کر فلموں تک کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، جناب جوشی نے اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کیا ، جو فلم تارے زمین پر میں ان کے گانوں کی تحریک بنے ۔ ‘‘جب آپ کچھ بہت ذاتی کہتے ہیں تو وہ عالمگیر ہو جاتا ہے ’’۔
‘‘میری والدہ شاعری میں میرے مشکل الفاظ کے استعمال پر تبصرہ کرتی تھیں ، جس نے میرا تحریری انداز بدل دیا اور میں ایسا لکھنے کے قابل ہوا جو قارئین کو پسند آئے اور جس سے صرف مجھے ہی اطمینان نہ ہو ۔’’
تخلیقی شعبے پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نغمہ نگار نے کہا:‘‘میں مصنوعی ذہانت کو ہلکے میں نہیں لیتا ۔ یہ تخلیقی شعبوں میں سب سے پہلے اثر ڈال رہا ہے ، جبکہ اسے ان حلقوں میں بعد میں آنا چاہیے تھا ۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جو کچھ بھی ریاضی پر مرکوز ہے اسے مصنوعی ذہانت ریاضی عمل کو سمجھ سکتا ہے ، لیکن اگر کسی کی نظم یا کہانی کسی سچائی سے نکلتی ہے ، تو اے آئی وہ تجربہ پیدا نہیں کر سکتا ۔ سی بی ایف سی کے چیئرپرسن نے کہا کہ اے آئی کا غلبہ تخلیق کار کو متاثر کر رہا ہے ، تخلیق کو نہیں ۔
پرسون جوشی نے یہ بھی کہا کہ ہمیں کہانی سنانے کے عمل کو چند بڑے شہروں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے ۔ انہوں نے کریئٹو مائنڈس آف ٹومورو (سی ایم او ٹی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں ہندوستان کی حقیقی کہانیاں دکھانی ہیں تو فلم سازی کو ملک کے دور دراز علاقوں تک پہنچنا ہوگا تاکہ مفصل علاقوں سے کہانی سنانے والے ابھر سکیں ۔ جناب جوشی نے کہا کہ ہم چھوٹے قصبوں اور شہروں کی کہانیوں کو مؤثر طریقے سے تب تک نہیں بتا سکتے جب تک کہ فلم ساز ان جگہوں سے باہر نہ آئیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی سچی کہانیاں سامنے آئیں تو آپ کو فلم سازی کو ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں تک لے جانا ہوگا ۔
جناب اننت وجے نے ماسٹر کلاس کی نظامت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ س ک۔ ع ن
(U: 2786)
(Release ID: 2075900)
Visitor Counter : 3