نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

برلا آڈیٹوریم، جے پور میں سی اے اراکین کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں نائب صدر کے خطاب کا متن

Posted On: 15 OCT 2024 3:07PM by PIB Delhi

آپ سب کو صبح بخیر،

آپ کی برادری سے میرا ایک درینہ تعلق ہے، میں آپ ہی میں سے ایک ہوں۔

میں انتہائی خوش ہوں کہ میں آپ سب کے درمیان ہوں۔ میں ایسے کسی طاقتور گروپ سے خطاب کرنے کا موقع پاکر فخر محسوس کررہاہوں، ایسے کسی جو اس ملک کی مستقبل کو ایک روپ دینے کا کام کررہاہے۔

معزز شخصیات ،باوقار ارکان اور ہر وہ شخص جو یہاں موجود ہیں۔

اس افتتاحی جلسے میں موجود ہونا اور آپ سے تعلق رکھنا ایسا ہےجیسے ملک کی معیشت، ملک کی تجارت ، ملک کے پیشہ ور افراد اور ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی طرح اہمیت کا حامل ہے، اس کے ساتھ ایک رابطہ پیدا کرنا۔ اس نایاب موقع فراہم کرنے پر شکریہ۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس بے نام ہیرو ہیں، لیکن اس وقت ان کی موجودگی بقاعدہ طور پر محسوس کی جارہی ہے۔ ماضی کی بے نام داستانیں اب بازگست اختیار کررہی ہے اور ملک اور زیادہ فلاح وبہود کے لیے ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ آپ ہماری ترقی کی داستان کا حصہ ایسا ہیں جسے زیادہ جواز اور جواب دہی حاصل ہے ۔ تیزی سے عالمگیریت اختیار کرتے ہوئے اس دورمیں باہم اقتصادی  روابط ناگزیر ہے ۔ آپ اپنی دانش وری اور اپنے تجربات  کی بنیاد پر ، مالی دیانتداری کے نگراں اور سرپرست ہیں۔

مجھے وہ کتاب کب دی گئی جو میں نے لکھی تھی ؟ میں بعد میں بتاؤں گا۔آپ شفافیت اور جواب دہی کی علامت بن جائیں اور آپ اس میں سے ایک ہے۔یہ شفافیت محض قانونی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مذہبی رسم کی طرح بقاعدہ ہے۔ مضبوط مالی مشورہ اورحکمت عملی پر مبنی رائے فراہم کرکے ہمارے مالی نظام میں اعتماد کی ایک بنیاد ہےاور مجھے پتہ ہے کہ آپ کاروبار کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کا ہاتھ تھام کر محض اپنے بل بولتے یہ سب کرسکتے ہیں۔ آپ باخبر فیصلے کرکے اور کبھی کبھی اختراعی فیصلے کرکے کاروبار میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔آپ ان لوگوں میں مستقبل کا ایک نظریہ پیدا کرتے ہیں ،لہٰذا ترقی اوراختراع کےعمل میں تیزی لانے کا کام کرتے ہیں جو دونوں ہی حکمرانی کے اچھے ستون ہیں۔

بھارت کے قابل تحسین اقتصادی سفر نے عالمی سطح پر اثر قائم کیا ہے ۔ ہم نے غیر معمولی طور پر اقتصادی ترقی کی ہے جس سےملک پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت بن گیا ہے جو جرمنی اور جاپان سے بھی آگے بڑھ کر تیسرے نمبر پر آجانے کی راہ پر گامزن ہےلیکن ہمارا مقصد بالکل الگ ہے اور وزیر اعظم نے اس تصور کو سب سے کے سامنے پیش کردیا ہے۔ یہ تصور ہے ہمیں ایک ترقی یافتہ ملک بنناہے ، آپ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی معنی کیا ہوتے ہیں۔

یہ چیلنج ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اگر انسانی وسائل میں ہم اپنے تجربے پر نظر ڈالیں تو یہ قابل حصول ہے اور ہمیں اپنی فی کس آمدنی کو آٹھ گنا کرکے یہ سفر شروع کرنا ہوگا۔

کیونکہ پورے ملک میں ایک بہت بڑا ہون ہو رہاہے ، وہ ہوان ہے وکست بھارت کے لیے ۔ اس کا مقصد ہے 2047 میں بھارت کا ترقی یافتہ ہونا، اس ہون میں ہر کسی کے عزم کی ضرورت ہے۔ میرے دل میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اگر کوئی بھرپور عزم کرے گا تو وہ آپ کی براردری ہوگی۔

ہم نے کاروبار کو آسان بنانے کی عالمی بینک کی درجہ بندی میں ایک قابل تحسین پیش رفت کی ہے اور یہ مختلف فریقوں کی اجتماعی کوششوں کا ایک ثبوت ہے جس میں سب سے اہم ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس  کی برادری سے وابستہ ہونا ہے ۔

عزیز دوستو! ہماراملک دنیا میں واحد ملک ہے جو 5000 برس کی تاریخی اقدار سے مالا مال ہے ۔اخلاقیات ہمارے خون میں ہیں ،اخلاقیات ہمارا ڈی این اے ہیں اور آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کہ حساب کتاب میں اخلاقیات ،انتہائی اہم ہیں، نیز یہ اخلاقی طور طریقوں کے تئیں پرعزم ہونے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اس میں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں ہوتایہ سوفیصد ہوتی ہیں۔یہ محض اختیاری نہیں ہے بلکہ یہ ایک واحد راستہ ہے۔

اس ڈیجیٹل دورمیں اکاؤنٹنگ اور آڈٹننگ کا منظر نامہ تیزی سے ترقی کررہاہے جیسا کہ اشارہ دیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت ،بلاک چین ،مشین  لرننگ ،اعداد وشمار کا تجزیہ اور دیگر ایسی ٹیکنا لوجیز اپنا کرجسے ہم رخنہ انداز ٹیکنا لوجیز کہتے ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگئی کہ بھارت ایک ہندسہ والے ملکوں میں سے ایک ہے جو اس اہم پہلو پر توجہ دے رہاہے ۔

کل ہی کی بات ہے کہ بھارتیہ ریزو بینک کے گورنر نے بھی اس کے بارے میں خبردار کیا تھا ، جس کا اشارہ آج دیا گیا ہے۔ ہمیں مصنوعی ذہانت کو اپنے قابو میں رکھنا ہے بجائے اس کے کہ ہم اس کے قابو میں آجائیں۔

مصنوعی ذہانت اور جس طرح کے چیلنج اور موقع درپیش ہیں ہمیں ان چیلنجوں کو موقعوں میں بدلنا ہوگا۔ مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تنظیم اس سمت صحیح اقدام کرے گی۔

کاؤنٹنٹس کے بھارتیہ معیارات کو بین الاقوامی مالی رپورٹنگ معیارات سے ہم آہنگ کرنا ایک اہم قدم ہے ، جس کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ چارٹرڈاکاؤنٹنٹس محض کوئی گنتی نہیں ہے ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب میں وکیل تھا تو وہ کہا کرتے تھے  کہ چارٹرڈاکاؤنٹنسی میں پاس ہونا مشکل ہے اور وکالت میں فیل ہونا مشکل ہے۔ آج کل حالات بہت بدل گئے ہیں اور قانونی تعلیم بھی آپ کی طرح بہت پیشہ ورانہ اندازاختیار کرگئی ہے ۔ میں اپنے زمانے کی بات کررہاہوں ۔ چارٹرڈاکاؤنٹنٹس محض کوئی گنتی نہیں ہے اورنہ ہی وہ حکم بجالانے والے افسران۔آپ کا کام کوئی مشینی کام نہیں ہے،میں یہاں تک کہوں گا کہ آپ کا کام تحریک دینے والا کام ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کبھی کبھی صنعتی گھرانے اور ہمارے ملک میں وہ عام طور پر شراکت داری یا کنبہ پر مبنی ہیں۔ کسی نے مجھ پر یہ چھاپ لگائی تھی جب میں پیرس میں ثالثی کی بین الاقوامی عدالت کا رکن تھااس وقت مجھے بتایا گیا تھا کہ بھارت کارپوریٹ کمپنیوں کا ایک منفرد تصور ہے اور وہ ہے کنبہ پر مبنی کمپنیاں ۔ آپ کو یہ چیلنج حاصل ہے کہ آپ اسے ہم آہنگ طریقے سے برقرار رکھیں تاکہ یہ ناکارہ نہ ہو، یہ کسی رخنہ میں نہ پھنس جائے  اورمجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔

اکثر وبیشتر یہ پس وپردہ ہوتا ہے ،یہ بات اہم ہے کہ ایک مضبوط، شفاف اور متحرک معیشت تعمیر کی جائے۔ اب ہمارے لیے یہ چیلنج بہت مختلف ہے کیونکہ ہم ایک ایسی ترقی کے راستے پر گامزن ہیں جو راستہ پہلے کبھی نہیں تھا اورہماری یہ ترقی اب رکنے والی نہیں ہے۔ ہماری ترقی لگاتار آگے بڑھتا ہوا ایک سفر ہے اورجب آپ معیشت کے لیے ایک ایسی پرواز پر ہوتے ہیں تو آپ کو غیر معمولی طور پر احتیاط برتنی چاہئے اوریہ احتیاط محض آپ کی تنظیم کرسکتی ہے۔

سب سے پہلے تو میں زوردے کر کہوں گا کہ ایک اجتماعی ، وطن پرستانہ نظریہ ،معاشی خوشی کی اصل بنیاد ہوتا ہے، جس کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ آپ سبھی لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہوں گے کیونکہ اس کے لیے کوئی بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ہم تنگ نظر نہیں ہوسکتے ،بلکہ ہمیں وسعت اختیار کرنی ہے جو ہماری ثقافت ہے۔ ہم ہر ایک کو ساتھ لے کرچلتے ہیں ، اسی لئے جی 20 میں ہم نے یہ نعرہ دیا‘‘ ایک دنیا ،ایک کنبہ،ایک مستقبل،واسودھیو کٹمبکم’’ ۔

اس وطن پرستانہ نظریہ کے بارے میں ،قومی سطح پر ہماری بات چیت اور زیادہ ہونی چاہئے، کیونکہ آج ہمارے شہریوں کو اورزیادہ وطن پرست ہونا چاہئے۔ ہم اس ملک میں کیسے تصور کرسکتےہیں کہ ہمارے مفادات، ذاتی مفادات  الگ الگ ہوںاور وہ قومی مفادات سے آگے بڑھ کر ہو ں جو ہم اکثر دیکھتے ہیں ۔ آپ اس سمت کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بہت سے چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔ہم نے یہ سفر ،کھیپ پہنچنے سے لے کر پروسے جانے تک اور کچھ ہی نسلوں کی مدت میں دنیا کی سب سے تیزرفتار بننے تک طے کیا ہے ۔ اس ترقی کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی  چیلنجوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔

مجھے پارلیمنٹ  میں 1989میں منتخب کیا گیا تھا۔ میں اس وقت کی صورت حال سے واقف ہوں۔ہمارا غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ جس کے بارے میں آپ سبھی فکرمند ہیں ،محض ایک ارب امریکی ڈالرتھا۔ سونے کی چڑیا کہلانے والے ملک کا سونا ، سوئٹزرلینڈ کے دو بینکوں میں گروی رکھنا پڑا ،ہمیں اسے اپنی ایمانداری کوثابت کرنے کے لیے وہاں بھیجنا پڑا اور اِس وقت فخر کی بات یہ ہے کہ ہمارا غیرملکی مبادلہ کاذخیرہ اب 700 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

لہٰذا سب سے بڑا چیلنج ، دن بہ دن ترقی کرتے رہناہے۔ لہٰذا ہمیں ایک جذبے کے ساتھ اور ایک مشن کی طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ایک ایسےسماج کی تعمیر کی جاسکے جو وطن پرستانہ انداز میں سوچ سکتا ہواور کسی طرح کے ذات برادری ،رنگ ونسل ،ثقافت اور کھان پان کے چکرمیں نہ پھنسا ہو۔ ہم سبھی لوگ اپنے اندر  ضم کرنے والے لوگ ہیں،مجھےکہنے کی اجازت دیجئے، ایک اکثریت کے طور پر ہم سبھی کو گلے لگانے والے لوگ ہیں، ہم اکثریت کے طور پر برداشت کرنے والے لوگ ہیں، ہم ایک پرسکون نظام پیدا کرنے والے لوگ ہیں اور نہ کہ ہم ایسے اکثریت والے لوگ ہیں جو اپنی کارکردگی میں سنگ دلی کا مظاہرہ کرتی ہو۔

دوستو! جب آپ اس عظیم تہذیبی ملک بھارت کے شہری ہونے کے ناطے غور وخوض کرتے ہیں جہاں دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ بستا ہو اور جو دنیا میں ناگزیر طور پر ذہین لوگوں کا ملک مانا جاتا ہو،ہمیں تنگ نظری پر مبنی نفاق کو پیچھے چھوڑ دینا چاہئے۔ ایک شہری جس کا نظریہ وطن پرستانہ ہو اسے تنوع کو اپنانے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔ وہ خواہ عورت ہو یا مرد، اسے اپنے عقیدے سے قطع نظر  اس ملک کے شاندار ماضی کا جشن منانا ہوگا کیونکہ یہ ہمارا مشترک ثقافتی ورثہ ہے۔ ہمارے مشترک ثقافتی ورثہ پر کُٹھارا گھات ہو رہاہے ، اس کو ہماری کمزوری بتانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ اس کے تحت ملک کومنہدم کرنےکی سازش رچی ہوئی ہےایسی طاقتوں پر فکری اور ذہنی حملہ ہونا چاہئے۔

میرے سامنے جو لوگ موجود ہیں وہ بے حد اہم شخصیت ہیں اور اس پورے بیانیہ کا مرکزہیں ۔ اس طرح کا اتحاد اورہم آہنگی ہماری اقتصادی خوشحالی کی بنیاد ہے ۔ ہم غیرمعمولی طور پر ترقی کررہے ہیں اور بنیاد ڈھانچے کے شعبے میں ہماری ترقی کے سفر سے ، دنیا حیران رہ رہی ہے ۔ عالمی ادارے آئی ایم ایف ،عالمی بینک بہت سی وجوہات سے  اور خاص طور پر ڈیجٹائزیشن کی وجہ سے بھارت کی ستائش کررہے ہیں، لیکن یہ اقتصادی ترقی اس وقت نازک مور اختیار کر لیتی ہے جب سماجی اتحاد میں کوئی رخنہ آجاتا ہے ، جب وطن پرستی کے جذبے میں کمی آجاتی ہے ،جب ملک مخالف طاقتیں ملک کے اندر اور باہر نفاق پیدا کرتی ہیں ،ہمیں ان طاقتوں کے بارے میں خبردار رہنا ہوگا۔

ہمارا سماج صدیوں سے اس بات کے لیے جانا جاتا ہے کہ ہم  نے ہمیشہ ان لوگوں کا ہاتھ تھاما ہے جنہیں اپنی زندگیوں میں چیلنجوں کا سامنا تھا،جو پسماندہ تھے، حساس اورکمزورتھے۔یہ بات اطمینان بخش ہے کہ بہت سی سرکاری اسکیموں کی وجہ سے ایک ایسا ایکو نظام پیدا ہوا جس میں ہم ہرایک شخص اپنی صلاحیت کو بروکار لاسکتا ہے۔ اپنے خوابوں کو پورا  کرسکتا ہے اوراپنی امنگوں کو پورا کرسکتا ہے ،البتہ اس میں بھی آپ کا رول بہت اہم ہے اور مجھے یقین ہے کہ جیسا کہ آپ نے ابھی تک کیا ہے ، آپ مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے ۔

قانون کو ہاتھ میں لینے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہےاور یہ بات دنیا جانتی ہے کہ ایک وقت تھا جب کچھ لوگ سوچتے تھے کہ وہ قانون سے بالا تر ہیں اور انہیں خصوصی اختیارات حاصل ہیں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتے ،ان حالات میں اب تبدیلی آچکی ہے اور اب تبدیلی آگئی ہے توبھی ہم آج کے دن دیکھ رہے ہیں کہ ذمہ دار لوگ ، آئینی عہدوں پر فائزلوگ قانون کی پروا نہیں کرتے،ملک کی پروا نہیں کرتے،کچھ بھی کہہ دیتے ہیں اور وہ ایسے ہی نہیں بولتے ہیں یہ سب کچھ بد نیتی کے اندازمیں ہوتا ہے ۔ یہ سب کچھ وہ طاقتیں سوچے سمجھے اندازمیں کرتی ہیں جو بھارت کی دشمن ہے۔

توآپ جو اتنا کررہے ہیں اور جس کے نتیجے میں آج کے دن ہر بھارتیہ شہری اطمینان بخش طریقے سے کررہا ہے اس کو چکنا چور کرنے کا جو منصوبہ کچھ لوگ بنا رہے ہیں ہماری ترقی ان کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ہم سیاسی طاقت کے لیے پاگل نہیں ہوگئے ہیں۔سیاسی طاقت ، عوام کی طرف سے ظاہر  ہونی چاہئے، اسے عوام کی طرف سے ایک ایسے جمہوری عمل کے ذریعہ ظاہر ہونا چاہئےجو مقدس ہو۔

میں آپ سے خاص طور پر ایک اپیل کروں گا کیونکہ یہی وہ نچوڑ ہے جسے آپ اکیلے سنبھال سکتے ہیں اور وہ ہے معاشی قوم پرستی ہے۔ اس ملک کی قسمت کا اندازہ لگائیں، قمیض، پتلون، جوتے، قالین، فرنیچر، پتنگیں، دیا، کھلونے اور نہ جانےکیا کیا ، قابل گریز درآمدات  کے ذریعے  ہر سال اربوں کا زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے۔ ہم تین چیزوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

ہم اپنے لوگوں کو کام سے محروم کر رہے ہیں، ہم اپنا زرمبادلہ ضائع کر رہے ہیں، ہم کاروباری صلاحیت کو کند کر رہے ہیں۔ اب قابل گریز اشیاء کی درآمدات کس کے ذریعے کی جا رہی ہیں؟ ان لوگوں کے ذریعے جو اپنے مالی  فائدے  کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔

میں آپ سے اپیل کرتا ہوں، کوئی مالی فائدہ، قطع نظر مقدار کے، قابل گریز درآمدات کا جواز نہیں بن سکتا۔ آپ  کی برادری   بڑا کردار ادا کرسکتی ہے، یہ ملک کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

دوسرا،  یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ جب خام مال ملک سے باہر برآمد ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر لوہا، پارا دیپ پورٹ پر جائیں۔ ہم دنیا کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ ہم اس کی قدر میں اضافہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ہمارا خام مال ویلیو ایڈیشن کے بغیر اس ملک کے ساحلوں سے باہر کیوں جائے؟ اگر ہم قدر میں اضافہ کریں گے تو یقیناً ہم روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہوں گے، کاروبار کو فروغ ملے گا۔ آپ کو بہت اچھا کردار ادا کرنا ہے، کوئی بھی آپ سے زیادہ اس کردار کو ادا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ اس کاروباری شخص کے ہاتھ  کو روکیں گے کہ  آپ اپنے آرام دہ کمروں میں  جو کچھ بنا رہے ہیں، آپ اس سے کہیں زیادہ بنائیں گے۔ اس سے  آپ کو شاندار اطمینان حاصل ہوگا اور آپ ملک کی فلاح و بہبود میں  تعاون کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آپ اس پر غور و خوض کرکے اسے  ضرور قابو کریں گے۔

دوستو، قدرتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال، آپ جانتے ہیں، آپ کو اسے روکنا ہوگا۔ ہماری معاشی صلاحیت، ہماری مالی طاقت اس بات کا تعین کرنے والا عنصر نہیں ہو سکتی کہ وہ قدرتی وسائل کو کس طرح استعمال کرے گا یا کرے گی۔ وہ امانت دار ہیں۔ ہم  اس پر توجہ دیں۔

دوستو، مجھے خوشی ہے کہ یہ تنظیم عالمی معیارات کے مطابق  ہے اور کچھ شعبوں میں آگے ہے،تبدیلی کی بات کرتے ہوئے، ہمیں ای ایس جی آڈٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کو اپنے پیشے کے لیے ایک اہم موقع کے طور پر قبول کرنا چاہیے اور  متعلقین  ماحولیاتی پائیداری کو تیزی سے ترجیح دیتے ہوئے، آڈیٹرز کمپنی کی ای ایس جی کارکردگی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

مجھے کوئی شک نہیں  اور سب اس سے متفق ہوں گے اور نوجوان لڑکیاں، کم دور اندیش اکاؤنٹنٹس اس سے فوری اتفاق کریں گے۔ اپنے پاس رہنے کے لئے زمین کے علاوہ کوئی اور سیارہ نہیں ہے۔ ہمیں آنے والی نسلوں تک  اسے پہنچانا ہے، کم از کم کچھ حد تک  بحالی کی حالت میں ہم نے اسے کافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔

میں ایسے سامعین کے سامنے ہیں جو ایک پائیدار معیشت پیدا کرنے کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں، اسے اختراع  اور تحقیق کے ذریعے ترقی دے سکتے ہیں۔ عالمی معیشتیں  پھلی پھولی ہیں کیونکہ وہ تحقیق اور ترقی میں مصروف ہیں۔

سی ایس آر کو ایک تحریکی تسلسل میں ہونا چاہیے۔ آپ کو ایسی تحقیق کو پروان چڑھانا ہے جس سے پوری قوم کو دنیا میں زیادہ عزت ملے۔ جب تحقیق اور اختراع میں ہم دوسروں سے آگے ہوتے ہیں، تو اس سے ہماری نرم سفارت کاری کو بھی ترقی ملتی ہے۔ میں نے یہ سب اس لیے کہا ہے کہ منتظمین نے بہت سمجھداری سے، سوچ سمجھ کر، اس کانفرنس کے لیے ایک تھیم دی ہے۔

’پیشہ کی ترکیب‘ جس کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہم آہنگی میں رہنا ہے، ہمیں  تال میل کے ساتھ  رہنا ہے، ہمیں ترکیب میں رہنا ہے۔ ہمیں مل جل کر اور ایک ساتھ کام کرنا ہے۔ ہم سب شراکت دار  ہیں کیونکہ ہمیں یہ احساس ہونا چاہئے یا تو ایک ساتھ تیرتے یا ڈوبتے ہیں۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، مجھے کوئی شک نہیں، بڑی تبدیلی کے اہم مرکز  ہیں۔ آپ وہ تبدیلی لا سکتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں، کوئی قانونی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ شفافیت اور جوابدہی میں کوئی کمی نہیں آسکتی جب تک کہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ دوسری طرف نہ دیکھے۔ آپ نے چارٹرڈ اکاونٹینسی میں بڑے عالمی  قد آوروں کو کلائنٹ کے انتظام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ انتظامیہ اور  متعلقہ فریقین، شیئر ہولڈرز، فرق کو سمجھنا ہوگا۔متعلقہ فریقین، شیئر ہولڈرز کا اعتماد آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ آپ کا مینڈیٹ، آپ کا حکم، آپ کی ذمہ داری ہے کہ یہ دیکھیں کہ نظم و نسق کو اخلاقیات، بہترین استعمال اور شیئر ہولڈرز کو بہترین دینے کے قریب رکھا گیا ہے۔

بدعنوانی کا مقابلہ کرنے، خرابیوں کا پردہ فاش کرنے اور کارپوریٹ دھوکہ دہی کا پتہ لگانے میں آپ کا کردار کسی بھی تفتیشی ایجنسی سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں یہ سیکھنا ہے، آپ اسے اس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے جانتے ہیں  جیسے  پانی میں کوئی  بطخ  تیرتی ہو۔ تفتیشی ایجنسیوں کو سیکھنا ہوگا، وہ آپ کے ذریعے سیکھتے ہیں کہ ایک ایسا شعبہ ہے جس پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ٹیکس چوری اور مالی فراڈ، یہ  کچھ کی مدد کر سکتے ہیں، ان دنوں یہ کسی کی مدد نہیں کرتے۔ قانون کے لمبا  ہاتھ  ملک کی خدمت کے لیے بڑے جوش و خروش سے کام کر رہے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس قسم کے لوگ جو دھوکہ دہی، بدعنوانی، مالیاتی فائدے کے لیے گھوٹالوں سے رقم کمانا چاہتے ہیں، وہ سخت سبق  سیکھیں۔ آپ محافظ اور نگران ہیں، اس لیے آپ ایک لمحے کے لیے بھی اس فرض سے باز نہیں آسکتے ہیں۔ یہ آپ کے لئے قانون سے نکلنے والا فرض نہیں ہے، اس  کی فرض  شناسی آپ کے اس ملک کے شہری ہونے کی وجہ سے  ہے اور اس لیے براہ کرم اس شعبے میں مصروف ہوں۔

ہمارے جیسے ملک میں اخلاقیات ناقابل سمجھوتہ ہیں۔ گھر کے اندر بھی دیکھئے، بڑے بزرگ پہلے کوئی غلط کام نہیں دیتے تھے،  اچانک  گھر کے اندر زیادہ خوشحالی آگئی۔ پوچھتے تھے یہ  کیسے آگئی؟ اب ان بڑے بزرگوں  کا کام  تو آپ لوگ کرتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ یہ کریں گے۔

دوستو، میں خود اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں گا کیونکہ میں آپ کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے بالاتر سمجھتا ہوں۔ میں آپ کو اس عظیم ملک کا  بہت  ذمہ دار شہری سمجھتا ہوں۔ انڈیا، بھارت، ایک مستحکم عالمی طاقت ہے۔ اس طاقت کو ابھرنا ہے، یہ  صدی   بھارت کی صدی ہے اور یہ انسانیت کے لیے اچھی ہوگی، جو کرہ ارض پر امن اور ہم آہنگی کو فروغ دے گی۔ لہٰذا، اگر ہم نیلسن کی نظر اس ملک میں رونما ہونے والے آبادیاتی اتھل پتھل کے خطرات کی طرف موڑیں تو یہ انتہا پسندی کا قومی نقصان ہوگا۔ نامیاتی، قدرتی آبادیاتی تبدیلی کبھی پریشان کن نہیں ہوتی لیکن کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے اسٹریٹجک انداز میں لائی گئی آبادیاتی تبدیلی ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جو خوفناک ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں میں ہونے والی اس خطرناک پیش رفت کا تجزیہ آنکھیں کھولنے والا ثابت ہو گا۔ کسی بھی ریاست کو لے لیں اور آپ دیکھیں گے کہ آبادیاتی تبدیلی کا ایک نمونہ ہے۔ یہ نمونہ ہماری اقدار، ہماری تہذیبی اخلاقیات، ہماری جمہوریت کے لیے ایک چیلنج پیش کرتا ہے۔ اگر یہ چیلنج، جو کہ تشویشناک حد تک خطرناک ہے، کو منظم طریقے سے حل نہیں کیا گیا تو یہ ایک وجودی چیلنج کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ ایسا  دنیا میں ہوا ہے۔ مجھے ایسے ممالک کے نام  لینے کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے آبادی کے اس عارضے، آبادیاتی زلزلے کی وجہ سے اپنی  صد فیصد شناخت کھودی۔ آبادیاتی عدم توازن کے جوہری بم سے کم سنگین نتائج نہیں ہیں۔ یاد رکھیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خاص طور پر جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، میرا ایک معتدل بیان ہے۔ آپ عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں اور آپ کو انسانی حقوق، انسانی اقدار، جمہوریت کے آخری متبادل کے نقصان کی صورت میں تباہ کن نتائج نظر آئیں گے۔

کچھ ممالک میں، حتی کہ ترقی یافتہ دنیا بھی اس کی شدت محسوس کر رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں جب ہم اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی آوازیں آتی ہیں جو مختلف سطح پر بات کرتی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اور ہم میں سے  ہر  کسی کو ساتوں دن 24 گھنٹے بیدار رہنا چاہئے کہ ایسا  مزید نہ ہو۔ ایک کہاوت ہے کہ اگر آپ غلط لین میں جا رہے ہیں تو آپ صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ آپ کو فوری طور پر رکنا چاہیے اور پھر یو ٹرن لینے پر غور کرنا چاہیے۔ آپ یو ٹرن لینے میں جتنی تاخیر کریں گے، آپ اپنے مسائل  کو بڑھائیں گے، نہ صرف ریاضی  طور پر بلکہ ہندسی طور پر  بھی۔

ہماری ثقافت کو دیکھیں، ہماری شمولیت اور تنوع میں اتحاد مثبت، مثبت سماجی ترتیب کے پہلو ہیں، جو بہت سکون بخش ہیں۔ ہم  نےسب کے لیے اپنی باہیں کھول رکھی ہیں اور کیا ہو رہا ہے؟ اس کو ان آبادیوں کی نقل مکانی، ذات پات کی بنیاد  پر تقسیم کرنے والے خطرناک ڈیزائن اور اس طرح کی چیزوں کی وجہ سے  اسے ہلایا جارہا ہے اور اس کے ساتھ  شدید سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔

میں قدرے وضاحت کرتا چلوں، جب کچھ علاقوں میں انتخابات کی بات آتی ہے تو آبادیاتی تبدیلی جمہوریت میں سیاسی ناقابل تسخیر کا قلعہ بن رہا ہے۔ ہم نے ملک میں یہ تبدیلی دیکھی ہے کہ آبادیاتی تبدیلی اتنی ہے کہ یہ علاقہ سیاسی قلعہ بن جاتا ہے۔  جہاں جمہوریت کا کوئی مطلب نہیں رہتا، انتخابات کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ کون منتخب ہوگا یہ پہلے سے طے شدہ نتیجہ ہے اور ہمارے ملک میں بدقسمتی سے دوستو، یہ حلقہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس خطرے کے تئیں محتاط رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ  5000 سال پر محیط اس تہذیب، اس کے جوہر، اس کی عظمت، اس کی روحانیت، اس کی مذہبیت کو ہماری آنکھوں کے سامنے ختم نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ لہذا، براہ کرم اس کے بارے میں سوچیں۔

میں کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک عفریت ہے، یہ عفریت غیر منظم ہے، اس عفریت کا پروپیگنڈہ وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ہم عقلمند لوگ مانتے ہیں۔ سیاست میں کچھ لوگوں کو اگلے روز کے اخبار کی سرخی کے لیے قومی مفاد کو قربان کرنے یا کسی معمولی سے معمولی متعصبانہ مفاد کو پورا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔

دوستو، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ سب میرے ان جذبات کا اشتراک کریں گے کہ اس سرزمین کے منظر نامے کو بدلنے کے لیے ان تمام غلط مہم جوئیوں کو ہماری جڑوں اور بنیادی باتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مثال کے ذریعے بے اثر کرنا ہوگا۔ ہم چاروں طرف دیکھتے ہیں کہ  کچھ لوگ صرف  لاقانونیت کے چیمپئن ہیں۔ وہ اسے ایک ڈیزائن کے طور پر، ایک حکمت عملی کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ ایک نیریٹیو ترتیب دیتے ہیں۔ اس نیریٹیو کو  پنکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ بے قابو ہوتے ہیں۔

میں آپ سے اپیل کروں گا، وقت آگیا ہے کہ ہم سب اس سے آگاہ رہیں۔ ہندوستان کی 5 ٹریلین کی معیشت ہوگی ، ہم اس کے  قریب ہیں۔  اس قطار  میں اور بھی  بہت کچھ ہوگا جو ہم کرنے جا رہے ہیں۔

میں نے سوچا، اگر میں اپنی سوچ  کو ان لوگوں کے ساتھ شیئر نہ کروں جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور زندگی کا واحد مستقل تبدیلی ہے، تو ہمیں غیر ارادی تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، ہمیں تبدیلی کا معمار ہونا چاہیے، ہمیں تبدیلی کی اسکرپٹ  لکھنی  چاہیے۔

ہمیں وہ تبدیلی لانے دو جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ آئیے ہم ایک ایسی تبدیلی کی خواہش کریں جو ہماری تہذیبی اخلاقیات میں فٹ بیٹھتی ہو۔ میں وقت  دینے کے لئے آپ کا مشکور ہوں۔

بہت شکریہ

********

 (ش ح۔  اس ۔ ش  م۔ش ت۔ ن م)

UNO-1275


(Release ID: 2065067) Visitor Counter : 69