صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت
محترمہ انوپریہ پٹیل نے صحت عامہ کے ماہرین کے ساتھ ’’حمل کے لیے مناسب وقت اور دو حمل کے درمیان وقفہ کو یقینی بنانے کے لیے آخری میل تک پہنچنا: مسائل اور چیلنجز‘‘ پر میٹنگ کا انعقاد کیا
مناسب وقفہ کے حمل زچگی اور بچے کی صحت کے نتائج کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتے ہیں، اس سے صحت کے خطرات کم ہوتے ہیں اور خواتین اور خاندانوں کو اپنی تولیدی صحت کے بارے میں باخبر انتخاب کرنے کا اختیار ملتا ہے: محترمہ انوپریا پٹیل
’’پی ایم ایس ایم اے، توسیعی پی ایم ایس ایم اے، پی ایم ایس ایم اے میں ہائی رسک حمل کی شناخت، انیمیا مکت بھارت ابھیان، اور پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ پروگرام جیسے اقدامات کا آغاز اس مقصد کے لیے حکومت کے عزم کی کچھ مثالیں ہیں‘‘
ماہرین صحت نے نوجوانوں کو مانع حمل کے متبادل، عالمی اور ہندوستانی بہترین طریقوں، پسند کی مانع حمل طریقوں کو بڑھانے اور خاندانی منصوبہ بندی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں معلومات سے آراستہ کرنے کے واسطے اپنی تجاویز پیش کیں
Posted On:
19 JUL 2024 3:30PM by PIB Delhi
عالمی یوم آبادی منانے کے موقع پر، مرکزی وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود، محترمہ انوپریہ پٹیل نے آج صحت عامہ کے ماہرین کے ساتھ میٹنگ کی۔ اس تقریب کا موضوع تھا ’’حمل کے لیے مناسب وقت اور دو حمل کے درمیان وقفہ کو یقینی بنانے کے لیے آخری میل تک پہنچنا: مسائل اور چیلنجز‘‘۔
حمل کے لیے مناسب وقت اور دو حمل کے درمیان وقفہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، مرکزی وزیر نے کہا کہ ’’مناسب وقفہ والے حمل زچہ و بچہ کی صحت کے نتائج کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ صحت کے خطرات کو کم کرتا ہے اور خواتین اور خاندانوں کو اپنی تولیدی صحت کے بارے میں باخبر انتخاب کرنے کا اختیار دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت ہمیشہ ان مسائل سے باخبر رہی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ’’پردھان منتری سرکشت ماترتو ابھیان (پی ایم ایس ایم اے)، توسیعی پی ایم ایس ایم اے، پی ایم ایس ایم اے میں زیادہ خطرے والے حمل کی شناخت، انیمیا مکت بھارت ابھیان، اور پوسٹ پارٹم فیملی پلاننگ پروگرام (پوسٹ مارٹم آئی یو سی ڈی اور پوسٹ ایبورشن آئی یو سی ڈی) جیسے اقدامات کا آغاز اس مقصد کے لیے حکومت کی وابستگی کی کچھ مثالیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں زچگی کی شرح اموات ایک لاکھ پیدائش پر 130 سے کم ہو کر 97 ہوئی ہے۔‘‘
مرکزی وزیر نے خاندانی منصوبہ بندی میں مردوں کی شمولیت کے لیے ریاستوں کی طرف سے اپنے طور پر کی جانے والی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایک موثر مواصلاتی حکمت عملی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’2047 تک وکست بھارت کے مقصد کو حاصل کرنے کا کام ہماری خواتین کو بااختیار بنائے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ حمل کے مناسب وقت اور دو حمل کے درمیان وقفہ خواتین کی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔‘‘
صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کی ایڈیشنل سکریٹری اور مشن ڈائریکٹر (این ایچ ایم) محترمہ آرادھنا پٹنائک نے بتایا کہ ہندوستان نے پہلے ہی 31 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ 2.0 کا ٹی ایف آر حاصل کرلیا ہے۔ تاہم، انہوں نے باقی پانچ ریاستوں میں ٹی ایف آر کو متبادل سطح کے تحت لانے کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی کی ضرورت کی نشان دہی کی۔
اس تقریب میں موجود صحت عامہ کے ماہرین میں ڈاکٹر کلپنا آپٹے، سربراہ، فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن، انڈیا؛ ڈاکٹر ساسوتی داس، ماہر جنسی اور تولیدی صحت، یو این ایف پی اے انڈیا؛ ڈاکٹر چندر شیکھر، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس)، ممبئی میں فرٹیلیٹی اینڈ سوشل ڈیموگرافی کے شعبہ کے پروفیسر اور سربراہ؛ محترمہ مونی سنہا ساگر، ڈویژن چیف برائے فیملی ہیلتھ/آر ایم این سی ایچ اے ڈویژن، یو ایس اے آئی ڈی انڈیا؛ ڈاکٹر سومیش کمار، کنٹری ڈائریکٹر، جھپیگو انڈیا؛ پروفیسر سودھا پرساد، ڈائریکٹر اور چیف آف ماتریتو ایڈوانسڈ آئی وی ایف اینڈ میٹرنٹی سینٹر، گروگرام؛ اور ڈاکٹر ایس کے سکدر، سابق مشیر (فیملی پلاننگ اینڈ میٹرنل ہیلتھ)، صحت و خاندانی بہبود کی وزارت شامل تھے۔
خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات پر اثر انداز ہونے والے بے شمار موضوعات پر بات چیت کی گئی، جن میں خاندانی منصوبہ بندی میں مردوں اور عورتوں کی مساوی شرکت اور خاندانی منصوبہ بندی میں ڈیٹا کے استعمال سے لے کر عالمی بہترین طور طریقوں اور ہندوستان میں ان کے اطلاق تک شامل ہیں۔ شرکاء نے سیکھنے اور مجوزہ حکمت عملیوں، نئے مانع حمل ادویات کے مستقبل کے امکانات، اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے ساتھ اپنے تجربات بھی بیان کئے۔
پروفیسر سودھا پرساد نے زچگی کی اموات کی مختلف وجوہات، حمل کے درمیان ناکافی وقفہ کی وجہ سے غذائیت کی کمی، اور بچوں کے درمیان فاصلہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ناپسندیدہ حمل کے خطرے کو کم کرنے کے لیے خواتین اور جوڑوں کو مانع حمل طریقوں کی مکمل رینج فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر کلپنا آپٹے نے ہندوستان میں روایتی صنفی اصولوں کے بارے میں بات کی اور خاندانی منصوبہ بندی میں مرد کی شرکت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے خاندانی منصوبہ بندی پر مردوں سے بات کرنے کے لیے جوڑے کی بات چیت اور نچلی سطح پر مردوں کے تعاون کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
محترمہ مونی سنہا ساگر نے متبادل کی تعداد میں اضافہ اور ہارمونل آئی یو ڈیز اور ویجینل رنگس جیسے نئے مانع حمل طریقوں کو متعارف کرانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ این ایف ایچ ایس-5 ڈیٹا بہت سارے شعبوں میں کامیابیوں کو ظاہر کرتا ہے، تاہم نوعمروں کے حمل اور مانع حمل کے روایتی طور طریقوں کے استعمال پر چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
ڈاکٹر سومیش کمار اور ڈاکٹر ساسوتی داس نے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی رسائی کو بڑھانے کے عالمی تجربات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے تین ستونوں کی اہمیت کو اجاگر کیا: خدمات کی فراہمی، سماجی اور رویے میں تبدیلی، اور ایک قابل عمل ماحول بنانا۔ ڈاکٹر سومیش نے نئے مانع حمل ادویات کے استعمال کے لیے نوجوانوں تک پہنچنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر چندر شیکھر نے مانع حمل ادویات کے استعمال میں جغرافیائی تفاوت اور نوجوانوں کے درمیان خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ منقطع ہونے کی شرح اور جدید مانع حمل طور طریقوں کے بارے میں ناکافی معلومات خاندانی منصوبہ بندی کی کوششوں کو کم کر دیتی ہے۔
ڈاکٹر ایس کے سکدر نے فیملی پلاننگ پروگرام کے اپنے تجربات شیئر کیے، جہاں انہوں نے نیشنل فیملی پلاننگ پروگرام کی کامیابیوں اور مستقبل کی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا، جو حمل کے مناسب وقت اور دو حمل کے وقفہ کو بہتر بنانے کے لیے کی جا سکتی ہیں۔
تمام مقررین نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ نوعمروں کو مانع حمل متبادل کے بارے میں درست اور اتہام سے پاک معلومات سے آراستہ کرنا، باخبر فیصلہ سازی کو فعال کرنے اور خاندانی منصوبہ بندی اور تولیدی صحت کے انتخاب تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔
مرکزی وزیر نے اس مقصد کے لیے ماہرین کی ان کی وابستگی کے لیے تعریف کی اور کہا کہ نوجوانوں کو بااختیار بنا کر، مردوں اور عورتوں کی مساوی شرکت کے چیلنجوں سے نمٹنا، جوڑے کی بات چیت میں اضافہ، بہترین طور طریقوں سے سیکھنا، خاندانی منصوبہ بندی کے اعداد و شمار میں موجودہ اور تاریخی رجحانات سے اشارہ لینا ، اور مانع حمل طریقوں کی تعداد میں اضافہ سے، ہم آخری میل تک پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کے کم استعمال والے علاقوں، اضلاع اور بلاکوں کی شناخت اور نقشہ سازی، جدید مانع حمل ادویات کی کم مانگ، ضروریات کو بڑے پیمانے پر پورا نہ کئے جانے، اور اسی طرح کے ریاست کے لیے مناسب معیارات، اور انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی مکمل فراہمی، سماجی اور رویے میں تبدیلی سے متعلق بات چیت، اور ان کوششوں میں فرنٹ لائن کارکنوں کو شامل کرنا، کامیاب مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک ممکنہ روڈ میپ ہو سکتا ہے۔
محترمہ میرا سریواستو، جے ایس (آر سی ایچ) اور مرکزی وزارت صحت کے سینئر افسران میٹنگ میں موجود تھے۔
*************
ش ح۔ا گ۔ م ر
(U: 8451)
(Release ID: 2034400)
Visitor Counter : 68