نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر جمہوریہ کےتیسری جی سی ٹی سی سائبر سیکیورٹی کانفرنس سےخطاب کا متن
Posted On:
13 JUL 2024 7:53PM by PIB Delhi
آپ سب کو مبارکباد،
جنرل سنگھ نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ایک لحاظ سے یہ سچ ہے،کیونکہ اس کو داغ ملامت سمجھا جاتا ہے۔ آپ پہلے سے طے شدہ ایک مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں کہہ سکتا ہوں، آپ کی پہلی دو کانفرنسوں میں شرکت کرنے کے بعد، آپ کا ایک ایجنڈا ہے اوریہ ایجنڈا انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہے۔
ایک ایسا ایجنڈا جو ہمارے دور حاضر کی ضرورت ہے۔ ایک ایجنڈا جس کو پروان چڑھایا جانا ضروری ہے کیونکہ تکنیکی چیلنجز اور مواقع لمحہ بہ لمحہ سامنے آرہے ہیں۔ لہذا آپ کا ایجنڈاجامع، صحت مند، آرام دہ اور بھارت سمیت پوری دنیا کی مدد کرنا ہے، جسے اس قسم کے خطرناک رجحانات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایک تھنک ٹینک، اگر ہم عالمی لحاظ سے جائزہ لیں تو بہت ضروری ہے۔ یہ اس سمت کا تعین کرتا ہے جس کی طرف کوئی ملک جا رہا ہے۔ مغربی دنیا میں تھنک ٹینکس ابھرے ہیں، اور وہ تین یا چار دہائیوں پرانے بھی ہوگئے ہیں۔ جب حقیقت کی بات آتی ہے تو ان میں سے کچھ بہت مستند ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ پر تھنک ٹینک اور فیکٹ ٹینک کا لیبل لگاتے ہیں۔ لہذا، یہ اس لئے بہت اہمیت کاحامل ہے.آپ واقعی بہت ضروری ترقی اور تبدیلی کو متحرک کر سکتے ہیں۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ آپ نے اس پلیٹ فارم پر سائبر سیکیورٹی کے مختلف پہلوؤں پر غورو خوض کیا ہے، جوابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
مشکل سے تین سال۔ لیکن پھران تین برسوں میں، آپ نے اپنی موجودگی کا احساس دلادیا ہے۔ آپ کی اس سے پہلے کی دو کانفرنسوں میں، جن میں سے ایک میں ہمارے پڑوسی ملک کی ایک شخصیت کا کلیدی خطاب تھا، پر بحث ہو رہی ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ خلا کو پر کر رہے ہیں۔ ایک خلا جو وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آپ کا تھنک ٹینک ایک دن بھی جلد نہیں آیا۔
میری خواہش ہے کہ یہ سال بہ سال ایک اعلیٰ گروپ میں شامل ہو، تاکہ پہلے صورتحال کی مناسب تعریف ہو اور پھر اس کا حل ہو۔ مختلف شعبوں میں شاندار نمائش اور تجربے کے ساتھ قابل تعریف انسانی وسائل کا امتزاج اس انسٹی ٹیوٹ، اس تھنک ٹینک کو قابل ذکر اور انتہائی مفید بناتا ہے۔
آپ کی ایک ایگزیکیوٹیو کونسل ہے۔ اس لیے میں تضاد کے خوف کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ اس تھنک ٹینک میں ایک عالمی تھنک ٹینک کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت ہے جو اس مخصوص شعبے کےلئے پالیسیاں وضع کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جس پر آپ نے توجہ مرکوز کررکھی ہے۔
دوستو، ذہین لوگوں کو اکٹھا کرنا کبھی بھی آسان کام نہیں ہوتا۔ میں راجیہ سبھا پر غور نہیں کر رہا ہوں۔ اس میں ذہین لوگ ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ہر بار وہ کسی ایک معاملے پررضامند ہوجاتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار ہی کسی معاملے پر متفق ہوتے ہیں، لیکن یہاں مجھے تسلسل، تعاون اورتال میل پر مبنی نقطہ نظر نظر آتا ہے۔ آپ کسی مسئلے سے نمٹنے کے جذبے کے ساتھ مشن موڈ میں ہیں۔اور یہ مسئلہ ہم سب کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ دوستو، معاشی سرگرمی کسی قوم کی وضاحت کرتی ہے۔
ذرا سوچئے کہ 1989 میں ہمارا کیا حال تھا، جب میں پارلیمنٹ، لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا، مجھے مرکزی وزیر بن کر بھارت کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت ہندوستانی معیشت کا حجم لندن اور پیرس کی معیشت کے حجم سے چھوٹا تھا۔
صرف ایک دہائی قبل ہمیں معیشت کے حوالے سے پانچ سب سے نازک ممالک کے طور پر لیا جاتا تھا۔ ایک دہائی میں کتنی شاندار جست۔ سلاٹ نمبر 11 سے ہم اس وقت پانچویں نمبر پر ہیں۔ اور دیکھو ہم کن کن ملکوں سے آگے نکل گئے؟ برطانیہ، فرانس، کینیڈا، برازیل اور یہ کچھ وقت کی بات ہے کہ ہم جاپان اور جرمنی سے آگے ہوں گے۔ لیکن پھر، یہ ایک اشارہ ہے۔
ہمیں ایک دوسرے اشارے کی طرف جانا ہوگا جو اقتصادی ترقی کا ایک اشارہ بھی ہے جو ہر فرد سے متعلق ہے۔ کیونکہ اس وقت ہمارے سائز کو ہمارے ڈیموگرافک یعنی آبادی کے سائز کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اس لیے مجھے اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اور یہ ترقی مختلف اقدامات کی وجہ سے ہورہی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ50 کروڑ لوگوں کو بینکنگ کے نظام میں شامل کیا جائے گا۔ ہم نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا۔
ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہر گھر میں بیت الخلاء اور پانی فراہم کرکے خواتین کو بااختیار بنایا جائے گا، لیکن میں متعلقہ مسئلے کی طرف آیا ہوں۔50کروڑ بینک کھاتے اوربھی کی شمولیت والے بینکنگ نظام کی بدولت ہم نے زبردست پیش قدمی کی ہے۔
رقومات کی براہ راست منتقلی ہو رہی ہے۔ عالمی لین دین میں ہمارا حصہ تقریباً 50فیصد ہے۔ ان لین دین کی حفاظت بہت اہم ہے۔ جدید، اختراعی اور خطرناک طریقہ کار تیار کئے جارہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ فائدہ اٹھانے والا اس سے محروم رہے۔ کیونکہ ہر مثبت ٹیکنالوجی بے ایمان عناصر کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتی ہے۔ یہ بے ایمان عناصر ہمیشہ تیار رہتے ہیں اور معلومات کی کمی، تشہیر اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے لوگ آسانی سے اس قسم کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ لیکن اس قوم کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم انٹرنیٹ کواختیار کرنے اوراپنانے میں اتنی تیزی سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ ہمارے پاس 85 کروڑ صارفین ہیں۔
ہمارے پاس فی کس انٹرنیٹ کی کھپت ہے جو کہ امریکہ اور چین کو ملاکر بھی سب سے زیادہ ہے۔ کیا آپ ہمارے جیسے ملک میں کبھی سوچ سکتے ہیں کہ 10 کروڑ کسان سال میں تین بار حکومت سے مالی فائدہ حاصل کریں گے؟ اس فائدہ کا سہرا حکومت لے سکتی ہے، بجا طور پر۔ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسان اس کے لیے تیار ہے۔
میں صرف یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ڈیجیٹل ورکنگ اب ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ ڈیجیٹل کام ہر ہندوستانی کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ اس نے ہماری معیشت کو باضابطہ بنا دیا ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ ظاہر ہے کیونکہ عالمی بینک کے صدر جی 20 کے دوران یہاں موجودتھے۔ انہوں نے ایک بہت اہم تجویز پیش کی کہ ہندوستان کا ڈیجیٹلائزیشن دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔
لیکن جو کچھ ہندوستان نے صرف 6 برسوں میں حاصل کیا ہے وہ عام طور پر 4 دہائیوں میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اور ایسا ہونے کی وجہ سے، ہمیں اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے بہت اچھی طرح سے تیار رہنا ہوگا، تاکہ رفتار میں اضافہ ہو، لوگ سائبر کرائمز کے حملے سے مایوس نہ ہوں تاکہ وہ دھوکہ نہ کھائیں۔ ایک محفوظ طریقہ کار ہونا ضروری ہے اور یہ اس وقت لایا جا سکتا ہے جب آپ کی ساکھ کے لحاظ سے چیزیں حکومتی طریقہ کار کے ذریعے لوگوں تک پہنچیں، انہیں حساس بنایا جائے، معلومات کو پھیلایا جائے، تاکہ بڑے پیمانے پر لوگ اور ادارے،اس کی روک تھام، احتیاط، غیر جانبداری میں سرگرم ہوں اور بالآخر وہ چیز جو میری برادری، قانونی برادری کے سامنے درپیش ہوتی ہے، کیونکہ بڑے پیمانے پر وکلاء سہولت کار ہوتے ہیں۔
لیکن یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو قانونی برادری اور تفتیشی ایجنسیوں کے لیے بھی نیا ہے۔ شروع میں ہمیں بڑی مشکل کا سامناکرناپڑا تھا۔ لوگ نہیں جانتے تھےکہ سائبر کرائم کی رپورٹ کہاں کرنی ہے، سائبر حملے کی اطلاع کب کرنی ہے، اور پھر ایجنسی ہر سطح پر اچھی طرح سے تیار نہیں تھی، کیونکہ یہ جرائم ملک کے کونے کونے میں ہو سکتے ہیں۔
اوراس کا ماخذ ہماری جغرافیائی سرحدوں سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے پولیس کا نظام، تفتیش کار، ریگولیٹر، قانونی برادری، سب کو آپس میں تال میل قائم کرکے کام کرنا ہے۔ اور اس تناظر میں، آپ کو بہت مشکل کام کرنا پڑے گا، کیونکہ تبدیلی لانے والی جدید ترین ٹیکنالوجیز اب تک تیار کی جاچکی ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ ہوں گی۔ وہ ہمارے گھر کی جگہ پر ہیں۔ وہ ہمارے کام کی جگہ پر ہیں۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہم کس طرح کام کریں گے۔ یہ ٹیکنالوجیز اب قا ئدانہ کردار ادا کررہی ہیں۔ اب ان چیلنجوں کو ہمیں مواقع کے طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔
انٹرنیٹ آف تھنگس، مصنوعی ذہانت، بلاک چین، مشین لرننگ، بہت سے لوگوں کے لیے محض الفاظ ہوں گے۔ اگر آپ ان الفاظ اور محاورات کو لغت میں دیکھیں تو ان کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ لیکن یہ میرے لئے اس وقت ایک آنکھ کھولنے والا لمحہ تھا جب ہمیں محکمہ کی طرف سے ایک پریزنٹیشن دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں کتنی بڑی صلاحیت ہے۔ کیونکہ تھنک ٹینک اس وقت جس شعبے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے وہ ایک ایسا شعبہ ہے جو صرف معاشیات تک محدود نہیں ہے،اور یہ صرف کاروباری یا انفرادی افراد کے پہلوؤں تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق قوم کی سلامتی سے بھی ہے۔
اور اس لیے، ان تبدیلی لانے والی جدید ترین ٹکنالوجیوں کے ساتھ نظام کو اپ ڈیٹ کرنے، ان کی مثبت توانائی پیدا کرنے، مواقع کے طور پر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں کچھ کرنا ہے۔ مجھے ایک تھنک ٹینک میں حصہ لینے کا موقع ملا جو بنیادی طور پر سیکورٹی پر مرکوز تھا۔ جنگ اب روایتی طریقہ کار سے مختلف ہوگئی ہے۔
جنگ زمین، خلا اور سمندر سے ماورا ہے۔ جنگ نے مختلف جہتیں اختیار کی ہیں اور کوئی قوم ان ٹیکنالوجیز کے لیے کتنی تیار ہے اس سے اس قوم کی قابلیت ومہارت کی وضاحت ہوگی۔ نرم سفارتی قوت اور جدید ترین نیز حکمت عملی پر مبنی سفارت کاری بنیادی طور پر ان دنوں ان ٹیکنالوجیز میں ہماری طاقت پرمبنی ہے۔
مجھے آپ کے ساتھ یہ بات سا جھا کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہمارا ملک جو دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ، ان واحد ہندسے والے ممالک میں سے ہے جو کوانٹم کمپیوٹنگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ہم 6 جی کی کمرشلائزیشن پر توجہ دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال ہے، تھنک ٹینک کو صنعت اور تعلیمی اداروں کی اضافی شاخیں ملنی چاہئیں۔ اگر ہندوستان قدیم دور میں ایک پاور ہاؤس تھا، تو صدیوں پہلے، نالندہ، تکشیلا نے اس کی وضاحت کی تھی۔ ہندوستان عالمی شہرت کے حامل اداروں کی بدولت کاروبار میں ایک طاقتور ملک تھا اور اس دور میں ملک میں علم و دانش کابول بالا تھا۔
ہمارے اداروں کو ابھرنا ہے اور جب بات خلل ڈالنے والی ٹیکنالوجیز میں تعلیم کی تربیت دینے کی ہو گی تووہ اب سب سے آگے رہ کر قیادت کر سکتے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ تھنک ٹینک یقینی طور پر اس ترقی کو آسان بنانے میں دور رس نتائج کےحامل ہوں گے ۔ ہمارے ملک میں لوگ دور سے سوچتے تھے کہ ٹیکنالوجی کو اختیار کرنا مشکل ہے۔
زبان، منطق، تعلیم کی کمی، گاؤوں۔ دنیا دنگ اور حیران ہے کہ خدمات کی فراہمی میں گاؤں کی سطح پر ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
پہلےلوگوں کو بجلی کے بل، پانی کے بل سے جان چھڑانے کے لیے چھٹیاں لینا پڑتی تھیں ۔ ایسے حالات کی وجہ سے پاسپورٹ بنوانےکا عمل مشکل تھا۔ یہ سب کچھ اب بغیر کسی رکاوٹ کے، آسانی کے ساتھ لایا گیا ہے۔ اگر کسی گاؤں کا کوئی شخص اسے نہیں جانتا تو اس کے پڑوسی اسے جانتے ہوں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ تیزی سے نامیاتی ٹیکنالوجی عام آدمی کا پاس ورڈ بنتی جا رہی ہے۔ وہ اپنے لین دین کے ڈیجیٹل ہونے سے مستفیدہوتا ہے۔
ایسا ہونے کے باعث ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی چوکس رہنا ہوگا کہ عام آدمی کو چیلنجز اورچنوتیاں درپیش نہ ہوں۔ سائبر کرائمز کی نوعیت جس طرح سے ہو رہی ہے وہ لوگوں کی لاعلمی کی وجہ سے ہے۔ دن رات بینکنگ ادارے مشورہ دیتے ہیں کہ اپنا ڈیٹا کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں، اپنی معلومات شیئر نہ کریں لیکن خاص طور پر دیہاتوں میں لوگوں کو ایسی پیشکش کی طرف مائل کیا جاتا ہے جس کا اندراج کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ پیغام ملنا کہ آپ کا قرض تیار ہے، آپ اسے 24 گھنٹوں میں حاصل کر سکتے ہیں آپ کو یہ معلومات دینی ہے اور وہ دیتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت پہلے سے ایک طریقہ کار تھا اور ہم نے پچھلی بار کہا تھا کہ کوئی گاؤں میں جا کر سونا لے کر آئے گا اورلوگوں کو جال میں پھنسائے گاکہ تو اسے دگنا کر دیا جائے گا۔ میں نے اسے 60 کی دہائی میں ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر دیکھا تھا، میں نے 90 کی دہائی میں اس کا سامنا کیا تھا یہاں تک کہ اب بھی ڈیٹا کی شیئرنگ کے تناسب سے ہوتا ہے، اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔
یہ عمل ایک زمرہ کو کمزور بناتا ہے۔ اور اس لیے، اس طرح کے تھنک ٹینک کے پاس، میرے مطابق، ایسے ماڈیولز ہو سکتے ہیں جو لوگوں کو بڑے پیمانے پر روشناس کرا سکیں۔ مجھے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں اظہار خیال کرنے کا موقع ملا کہ ہمیں اس قسم کے کاموں کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کا استعمال کرنا چاہیے۔
ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے ادارے کا ایک انتظامی مرکز ہوتا ہے اور ضلع میں اس کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ جب نظم و ضبط کی بات آتی ہے، جب بات آتی ہے، جیسے کہ درخت لگانے کی، اس کے عمل کی اہمیت اس کے بارے میں بھی وہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔
اب، ہمیں ہر اسٹیبلشمنٹ اورادارے میں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں گے، ہر موبائل فون کے ساتھ، حفاظتی خصوصیات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔وہ دکھنےمیں ویسا ہی ہے لیکن اس کی خصوصیات بڑھی ہوئی ہیں۔ آپ کو ہر اسٹیبلشمنٹ ملے گی، خاص طور پر سروس سیکٹر میں، جہاں ان کے پاس بہت زیادہ ڈیٹا ہے، ان کا ڈیٹا محفوظ ہے۔ ہمیں آئے دن پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں دفاعی تنصیبات پر سائبر حملہ ہو رہا ہے۔ اب دنیا کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب قوموں، عالمی سطح پر اداروں اور ملک کے اندر اداروں کا آپس میں اتحاد ہو۔ وقت آگیا ہے جب ہمیں اپنے کارپوریٹس اور تعلیمی اداروں کو ترغیب دینے اوران کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ممتاز اداروں کو اختراعی ہونا چاہیے۔
انہیں تحقیق اور ترقی میں مشغول ہونا چاہئے۔ انہیں ایک ایسے طریقہ کار کے ساتھ سامنے آنا چاہیے جو آپ کے سسٹم کو ممکنہ حد تک ناقابل تسخیر ہونے کے قریب بنا سکے۔ اب ہم دوسری قوموں سے آگے نکل سکتے ہیں۔ پہلے ہمارے پاس پہلے ایک بہت بڑی تکنیکی کمی تھی۔ مغرب میں جو میسر تھا وہ دہائیوں بعد ہمارے پاس آتا تھا۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اس کے موجد ہوں گے۔
ہم نے سوچا کہ یہ انٹلیکچوئل پراپرٹی یعنی دانشورانہ املاک ہے، ان کا ڈومین ہے، ہمیں اس کا فائدہ ملے گا۔ اور ہمیں کتنا فائدہ ملتا ہے اس کا فیصلہ وہ کریں گے۔ ہمیں کس قیمت پر ملے گا اس کا تعین وہ کریں گے۔ اب مزید نہیں۔ کئی شعبے ایسے ہیں جن میں ہم دوسروں سے آگے ہیں۔ اور جس طرح سے ہمارا ملک ابھر رہا ہے وہ غیرمعمولی ہے اور کبھی نہ رکنے والا ہے۔
ہم نے خود فیصلہ کیا ہے کہ 2047 میں جب ہم اپنی آزادی کا صد سالہ جشن منائیں گے، بھارت ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔ یہ میراتھن مارچ جاری ہے۔ سبھی کواس میں تعاون کرنا ہے، لیکن اگر ہم اس قسم کے جرائم، اس قسم کی دراندازی کے لیے تیار نہ ہوں تو ملک کی ترقی کے سفر میں رکاوٹ پیش آسکتی ہے ۔ اس لیے سائبر سیکیورٹی سب اہم یت کی حامل ہے۔ میں سائبر سیکیورٹی کا موازنہ ریل کی پٹریوں سے کرتا ہوں۔
اگر ایک بھی ریل پٹری غلط ہو جائے تو حادثات ہوتے ہیں۔ اس لیے اس وقت بڑے پیمانے پر لوگ شکار ہوجانے کے بعد صورت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ تھنک ٹینک کا مقصد یہ ہونا ہے کہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو اس کا اثر نہیں ہونا چاہیے۔ اس پرجلد از جلدقابو پایا جانا ضروری ہے۔
مشین لرننگ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو انتہائی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان دنوں قوموں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کےبیانیے رقم کئےجاتے ہیں۔ ہمارے اداروں کو داغدار کرنا،شبیہ خراب کرنا، بدنام کرنا۔ ہم نے انہیں دیکھا ہے۔ وہ ملک کے اندر اور باہر سے سرگرم ہوتے ہیں۔ اب، ہم یہ کیسے کریں؟ بعض دفعہ کسی بیانیہ یا جعلی خبرکی تشہیر کی جاتی ہے۔ عوام کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ مشین لرننگ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو اس سے نمٹ سکتا ہے۔
یہ معیشت کے عروج میں شامل ہے۔ کیونکہ جمہوریت اور اسٹریٹجک دفاع اس وقت بہترین طریقے سے کیا جاسکتا ہے جب قوم معاشی ترقی کررہی ہو۔ اور جب ہم کافی مضبوط ہوں گے تو یہ امن کی ضمانت ہے۔ امن طاقت کے مقام سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت عالمی سطح پر وہ شہرت حاصل کر رہا ہے جو اس کی کبھی نہیں تھی۔ لیکن یہ برقرار رہے گا اور اس میں اضافہ ہو گا۔
جب اس شعبے میں بھی ہم دوسری قوموں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ اوراب ہم دوسری قوموں کو اسی طرز پر سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں جیسا کہ ہم نے کووڈعالمی وباکے دوران کیا تھا۔ اس وقت 1.3 بلین افراد پر مشتمل ایک قوم کووڈ سے نبردآزما تھی۔
اور ساتھ ہی ہم نے 100 ممالک کی کو۔ویکسین-میتری سے مدد کی۔ کئی عالمی رہنماؤں نے اس اقدام کی ستائش کی ہے اور اس طرح میرے بیرون ملک دوروں یا جب وہ مجھ سے ملاقات کرتے ہیں تو مجھ سے اس بات کا ذکر کیا ہے۔
ہم متعدد ممالک کا ہاتھ تھام سکتے ہیں۔ عالمی بینک کا مشاہدہ قابل توجہ تھا کہ ہندوستان کا ڈیجیٹل پروگرام، اس کے ڈیجیٹائزیشن کی گہرائی، جس رفتار سے یہ ہو رہا ہے، نچلی سطح پر اس کی رسائی، عالمی سطح پر اس کی پیروی کرنے کے لیے رول ماڈل ہیں۔ حکومت ہند نے اس کی اہم خصوصیت کو تسلیم کیا ہے۔
جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، یہ اس بات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے کہ ٹیکنالوجیز کے چیلنجوں سے کیسے نمٹا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی توانائی کو مثبت طریقے سے اور قوم کی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے۔ سائبر سیکیورٹی پر توجہ دی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے گروپوں اور قانون سازی کے ذریعے کئی اقدامات شروع کیے گئے ہیں۔
اس نے ہماری ڈیجیٹل سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے کئی اقدامات کا نفاذ کیا ہے۔ نیشنل سائبر سیکیورٹی پالیسی، انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی ریلیف ٹیم کا قیام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 میں تبدیلیاں، نیشنل کریٹیکل انفارمیشن انفراسٹرکچر پروٹیکشن سینٹر، ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے جیسے اقدامات اہم ہیں۔
ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 میں کئے گئے بدلاؤ بہت ہی تبدیلی آمیز ہیں۔ لیکن لوگوں کو اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔ اس وقت، موٹے طور پر، گاؤں کے لوگ سوچتے ہیں کہ ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کیا ہے؟ انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ آپ کا ڈیٹا، آپ کا بینک کارڈ، آپ کا بینک اکاؤنٹ، آپ کا پاس ورڈ، خفیہ لین دین سے مبرا ہے۔
یہ صرف آپ کے ساتھ ہوا ہے اور کسی کے ساتھ نہیں۔ اب ہمارے پاس جس قسم کی ٹیکنالوجی ہے، اس کے ساتھ چیلنجز بہت زیادہ ہیں اور اس لیے ایسے تھنک ٹینکس کی موزونیت ناگزیر ہے۔ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ سائبر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں عالمی تعاون کے ساتھ ملٹی اسٹیک ہولڈر، کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ صنعت، تعلیم، حکومت، پیشہ ورانہ ادارے، سول سوسائٹی، این جی اوز، بین الاقوامی تنظیموں، سب کو اس لعنت سے نمٹنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے اور اس کے لیے میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ سال میں ایک بار ایسی کانفرنس ضروری ہے لیکن کافی نہیں۔ آپ کو میڈیا، ماہرین تعلیم، ارکان پارلیمنٹ کو اپنے پارٹنر کے طور پر محفوظ بنانا ہوگا۔ مجھے یہ سہولت فراہم کرنے میں خوشی ہوگی کہ اس تھنک ٹینک کا اہم گروپ راجیہ سبھا کے اراکین کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ کرنے والا ثابت ہوگا۔
کیونکہ راجیہ سبھا اور لوک سبھا ایسے پلیٹ فارم ہیں جہاں سے اگر آپ وسیع تر مفاد عامہ کی کوئی بات کہتے ہیں تو وہ بہت بڑے پیمانے پر پہنچتی ہے اور یہ ملک کے کونے کونے اور اس سے باہر تک پہنچ جاتی ہے۔ دوستو، ہم اس ضرورت کے لیے کام کر رہے ہیں جسے آپ سب نے محسوس کیا ہے اور وہ ہے سائبر سیکیورٹی قیادت کے کلچر کو فروغ دینا اور ایسی قیادت سے لیس کرنا جو ابھرتے ہوئے سائبر حملوں سے نمٹنے پر مرکوز ہو۔ آپ کو روایتی تفتیشی معاملات میں پائیں گے ، اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے، اسپیشل ورکنگ گروپ (ایس او جی)، ہمیں سائبر معاملات، سائبر جرائم میں اس کی ضرورت ہے۔ایک شخص، جس نے ایسے سائبر حملہ جھیلا ہے، جس نے ایسے سائبر حالات کا سامنا کیا ہے، جس نے حقیقت میں اسے بیکار بنا دیا ہے، اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے،وہ منطقی انجام تک پہنچنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔
اس کے سارے پیسے ختم ہوسکتے ہیں اور وہ ہار مان سکتا ہے۔ اس لیے سائبر جیسے حالات میں قانونی مدد کی ضرورت ہے، تاکہ وہ شخص قابل ہو سکے اور میرے خیال میں یہ بہت کارآمد ثابت ہوگی۔سب سے پہلے، میں لوگوں کو آگے آنے کی ترغیب دے رہا ہوں اور دوسری بات ، اس طرح کے جرائم کے سلسلے میں قومی حوصلے بلند ہوں گے۔
دوستو، اس کے لیے اسٹریٹجک اور تکنیکی شعبوں میں انسانی وسائل کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ مجھے بہت سے اداروں، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم)، انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو)، سائنس کے اداروں، قومی اہمیت کے حامل اداروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اب ان کے ساتھ میری بات چیت عام بات چیت سے بہت مختلف ہے، کیونکہ وہاں موجود ہر ایک شخص، فیکلٹی اور طالب علم کے طور پر، الگ فکر رکھتے ہیں۔ وہ اختراعی ہیں۔ میں آپ سے پرزور گزارش کرتا ہوں کہ اس شعبے سے متعلق اگر آپ کے ذہن میں کوئی خیال آیا ہے تو براہ کرم اس سوچ کو اپنے ذہن میں بند نہ رہنے دیں۔ اس پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔ وہ دن گئے جب ہم مغرب کی طرف دیکھتے تھے، وہ قیادت کرتے تھے۔ اب مغرب ہماری طرف دیکھ رہا ہے، کیونکہ ہمارے انسانی وسائل کا ہنر کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دیکھیں دنیا کے کارپوریٹس اور ادارے کس طرح اس ملک کی انسانی صلاحیتوں سے چل رہے ہیں۔
سرکردہ تعلیمی اداروں کو، نیتی آیوگ جیسی سرکاری ایجنسیوں اور آپ جیسے تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر، ایسا نصاب تیار کرنا چاہیے جو طلبا کو اختراعی ہونے کے قابل بنائے۔ اس وقت ہمارا مسئلہ یہ ہے اور وہ بھی معلومات کی کمی کی وجہ سے۔ طلباء اکیلے ہیں۔ وہ مسابقتی امتحانات کے لیے بہت محنت کرتے ہیں اور اگر وہ کامیاب نہیں ہوتے تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس میدان میں ان کے لیے مواقع، نئے امکانات موجود ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔
میں سوچ رہا تھا، بجلی بھی ایسا ہی ایک شعبہ ہے۔ ذرا تصور کریں، حکومت ہند نے پہلے ہی گرین ہائیڈروجن مشن کے لیے 18000 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ سال 2030 تک ہمارے پاس 8 لاکھ نوکریاں ہوں گی اور 8 لاکھ کی سرمایہ کاری ہوگی۔ ذرا سوچئے۔ اگر آپ خلا کی بات کرتے ہیں تو میں حیران ہوں۔
میں نے اسرو کے تین دورے کیے، ان کے اساتذہ سے بات کی۔ ان میں سے کوئی بھی ان تعلیمی اداروں سے نہیں آیا جسے ہم مثالی سمجھتے ہیں۔ ہمارے لڑکے اور لڑکیاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی ایم) کے لیے دن رات تیاری کر رہے ہیں۔ ہمیں وہاں جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں دوسرے متبادل پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں اور انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ٹیلنٹ سرٹیفیکیشن ڈگری پر منحصر نہیں ہے۔
علم کو قید نہیں رکھا جا سکتا۔ آپ کو اسے آزاد کرنا ہوگا اور اسے آزاد کرنے کا ایک طریقہ ہے، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ آپ کی اہلیت کیا ہے؟ ہندوستان کی ساحلی پٹی کو دیکھیں۔ نیلی معیشت۔ آپ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یوگا کے میدان میں بھی ہمارے لیے بے پناہ عالمی صلاحیت موجود ہے۔ وہ اسے استعمال کر رہے ہیں۔
دوستو، اسے ایک سطح مرتفع ( پٹھار) کی طرح ہی سمجھنا ہوگا۔ یہ پرامڈ نما نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی صورت حال نہیں ہو سکتی کہ آپ کو ایک شعبے میں جدید ترین صورت حال ملے، جانچ ہو یا ایک شعبے میں جدید ترین صورت حال یا ایک شعبے میں جدیدیت، بیداری ہو۔ تمام پہلوؤں کی نشاندہی کرنا ہوگی اور ان کا عروج ایک سطح مرتفع کی طرح ہونا چاہیے۔ ہندوستان کی ترقی میں ایسی کیا خاص بات ہے جو لوگوں کو نظر نہیں آتی اور وہ اس پر تنقید کرنے لگتے ہیں؟ یعنی آج گاؤں میں کیا ہے؟ ہر گھر میں بیت الخلا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا؟ بس اس کے بارے میں سوچنا اپنے آپ میں ہی دماغ کو گھمانے والا تھا۔ ہر گھر میں ایل پی جی۔ جب میں پارلیمنٹ کا ممبر تھا تو ایک ایم پی کو 50 گیس کنکشن کی بڑی رعایت تھی اور اب ذرا سوچئے، 115 ملین یا اس سے زیادہ گیس کنکشن ضرورت مندوں کو مفت دیے گئے ہیں۔ سستے گھر۔ یہ سطح مرتفع جیسی چیزیں ہیں اور ہم نے اپنی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ایک چھلانگ لگائی ہے۔ خواتین کی قیادت میں ترقی ہو رہی ہے۔ خواتین پارلیمنٹ، لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین نمائندگی حاصل کر رہی ہیں۔
دوستو، ہندوستان آج اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کا کیا مطلب ہے۔ خواتین کی قیادت میں بااختیاریت کیا ہے؟ ہم نے سابقہ یوم جمہوریہ پر کرتویہ پتھ پر خواتین کی قیادت میں بااختیاریت کا مشاہدہ کیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جو کہا اس میں آپ بہت اہم چیز دیکھ سکتے ہیں، ہندوستان مواقع اور سرمایہ کاری کا ملک ہے۔ میں نے اکثر کہا ہے کہ ہم ترقی کے بغیر سیاسی پیش رفت کو نہیں جوڑ سکتے۔ کسی ملک یا پارٹی کے سیاسی سفر میں ہوا کا رخ بدل سکتا ہے، ہوا کے جھونکے بھی آسکتے ہیں، لیکن ایک بار جب آپ کی حکومت بن جاتی ہے تو یہ محفوظ اور یقینی ہے کہ ترقی کی راہ تیزی سے آگے بڑھے گی۔
مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ کی بے پناہ صلاحیتوں، ریاستی حکومتوں کے عزم، ترقی کے تئیں ہر ریاستی حکومت کی خواہش اور حکومت اور وزیر اعظم کی دور اندیش قیادت کو دیکھتے ہوئے یہ پانچ سال پوری دنیا کو دکھا دیں گے کہ یہ صدی ہندوستان کی ہے۔ دوستو، دہشت گردی نے کئی مواقع پر ہمیں لہولہان کیا ہے۔ ہمیں اس کے خلاف بہت سے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہماری ایجنسیاں بہت محنت کر رہی ہیں۔ اس کے نتائج سب کو نظر آرہے ہیں، جس میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی شامل ہے، جو کہ آئین کا ایک عارضی آرٹیکل تھا، واحد آرٹیکل جو عارضی تھا، جو آئین میں نہیں تھا۔ لیکن دہشت گردی کے لیے سائبر سیکیورٹی بھی بہت ضروری ہے۔
ہم نے دیکھا کہ تحریکیں کیسے چلتی ہیں۔ دنیا کے مختلف مراکز سے تحریکیں کس طرح قوم کو غیر مستحکم کرتی رہتی ہیں اور اس لیے ہمیں چوکنا رہنا ہوگا، سب کو چوکنا رہنا ہوگا اور اس سے سائبر سیکیورٹی پر توجہ مرکوز کرنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے، انتہائی اہم، ایک ایسا شعبہ جو بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ آپ کا مزہ خراب کر سکتا ہے اور اس لیے ہمیں اس پر 100 فیصد توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
دوستو، مقصد تو وشوبندھو بننا ہے اور کیوں نہیں؟ صدیوں پہلے ہم وشو گرو تھے۔ ہم وسودھیو کٹم بکم کی تہذیبی ثقافت پر یقین رکھتے تھے۔ یہ ہمارے جی-20 کا موضوع بھی تھا۔
ہم نے جی- 20 میں بڑی کامیابی حاصل کی کیونکہ ملک کی دور اندیش قیادت نے افریقی یونین کو جی- 20 کا رکن بنایا۔ ہم پہلی بار گلوبل ساؤتھ کی آواز بنے، ان ممالک کو دیکھیں، ان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کو دیکھیں اور اس طرح، میں درخواست کروں گا، ہمیں گلوبل ساؤتھ میں سائبر کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے جو پائیدار ترقی کے لیے ایک محفوظ اور جامع سائبر اسپیس کو فروغ دے گی۔ ترقی اہم ہے، لیکن پہم ترقی خوش کن ہے، صحت مند، سبھی کے درد کو کم کرتی ہے۔ ہندوستان دنیا میں امن، استحکام اور ہم آہنگی کے لیے کھڑا ہے۔
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہندوستان کا جو موقف پیش کیا ہے اس کے لیے جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت سے، سفارت کاری سے امن قائم کرنا ہوگا۔ دوستو، سائبر اسپیس میں تکنیکی اور پالیسی جاتی دونوں ہی طرح کے کئی مسائل پر ہندوستان بین الاقوامی تعاون کے لیے ایک سرکردہ آواز رہا ہے۔ اب ان مسائل کو پیش قیاسی کے انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم اسے دوسری صورت میں نہیں سنبھال سکتے۔
پچھلے مہینے مجھے باولیانوالہ کی سرحدی چوکی کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس وقت تھا جب سورج اپنے عروج پر تھا۔ میں نے جس وقت کا انتخاب کیا وہ عقلی نقطہ نظر کے مطابق تھا۔ مجھے وہاں جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ میں اس وقت وہاں جا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر کوئی چوکنا تھا، یہ ایک چیلنجنگ ماحول تھا۔ ہمارے پاس باڑ لگی ہوئی تھی، اونٹ چل رہے تھے۔ ہمارے لوگ چوکس تھے۔ دوسری طرف کوئی نہیں تھا۔ انہیں محتاط رہنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم کبھی اس پار نہیں جائین گے۔ لیکن وہ ایسا اچانک کر سکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہمیں چوبیس گھنٹے تیار رہنا ہوگا۔ مجھے ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی بات سائبر کرائم پر زیادہ شدت سے لاگو ہوتی ہے۔یہ آپ کو تب پکڑے گا جب آپ بے خبر ہوں۔
ہندوستان سال 2047 تک ایک بڑا ترقی یافتہ ملک بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ آپ سبھی اہم متعلقین ہیں کیونکہ سائبر سیکیورٹی ایک ایسا عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول کے فوائد یہ ہیں کہ یہ اختراعات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے اور بلا تعطل معاشی ترقی اور سرگرمی کو سہولت فراہم کرتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس کانفرنس میں روشن اور روشن خیال ذہن نتائج پر پہنچنے کے لئے جامع طریقے پر غور و خیال کریں گے جن کو کانفرنس سے باہر زمین پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل مشق ہونی چاہئے۔ آپ اپنا پلیٹ فارم منتخب کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے خیال میں کچھ تجاویز ہیں جن پر پارلیمنٹرینز کو غور کرنا چاہیے تو آپ مجھے اس منصوبے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ چونکہ ہم ایک نئے ڈیجیٹل دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں، ہم واقعی چوتھے صنعتی انقلاب کے مرحلے میں ہیں۔
یہ تبدیلی بہت واضح ہے۔ آئیے ہم ہندوستان کو نہ صرف ڈیجیٹل سپر پاور بنانے کے لئے پابند عہد ہوں بلکہ ایک سائبر سکیور ملک بھی بنائیں۔ محفوظ ڈیجیٹل مستقبل کی طرف ہمارا سفر ایک اجتماعی کوشش ہے۔
آیئے، دوستو، ہم مل کر ایک ایسا ڈیجیٹل انڈیا بنائیں جو اختراعی، جامع اور سب سے بڑھ کر محفوظ ہو۔ میں تیسری عالمی انسداد دہشت گردی کونسل (جی سی ٹی سی) سائبر سیکیورٹی کانفرنس کے منتظمین کی ستائش کرتا ہوں جنہوں نے ان اہم امور پر صلاح و مشورہ کرنے، غور و فکر کرنے اور ان کے حل تلاش کرنے کے لیے ایک قابل قدر پلیٹ فارم فراہم کیا۔ آئیے اس موقع کا استعمال خیالات کا تبادلہ کرنے، بہترین طور طریقوں کا اشتراک کرنے اور ایک محفوظ ڈیجیٹل مستقبل کی تعمیر کے لیے اپنے اجتماعی عزم کو مضبوط کرنے کے واسطے کریں۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ ع م ۔م م ۔ ف ر ۔ن ا۔
U-8326
(Release ID: 2033234)
Visitor Counter : 102