نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے ممبران سے نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 11 JUL 2024 6:53PM by PIB Delhi

آج آپ سب کے ساتھ ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔

اسمبلی کے اسپیکر راہل نارویکر جی اور کونسل کی ڈپٹی چیئرپرسن ڈاکٹر نیلم گورہے جی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک اہم موضوع پر اپنے خیالات آپ سب کے ساتھ شیئر کرنے کا یہ قیمتی موقع فراہم کیا۔

اس ایوان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک سب سے زیادہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کو برقرار رکھا ہے۔

مہاراشٹر قانون ساز کونسل اپنا صد سالہ جشن منارہی میں ہے۔ اس شاندار سنگ میل پر دونوں ایوانوں کے ممبران سے خطاب کرنا واقعی اعزاز اور افتخار  کی بات ہے۔

مہاراشٹر کی ریاست اپنی بھرپور تاریخ، متحرک ثقافت، اور متحرک معیشت کے ساتھ ایک تحریک کے طور پر کھڑی ہے۔ ریاست کو  قدرت کی طرف سےسہیادری کے دلکش مناظر اور کونکن کے قدیم ساحلوں سے نوازا گیا ہے۔ مہاراشٹر آج ایک پاور ہاؤس ہے جو ملک کو نئی بلندیوں پر لے جا رہا ہے۔

معزز ممبران، اس عظیم مقدس سرزمین پر آکر میرے ذہن میں ایک نغمہ آتا ہے۔

 ‘‘دیکھو ملک مراٹھوں کا یہ

 یہاں شیواجی ڈولا تھا

مغلوں کی طاقت کو جس نے

تلواروں پر تولاتھا

ہر  پرپت  سے آگ جلی تھی

ہر پتھر ایک شعلہ تھا

 بولی ہر ہر مہادیو کی

بچہ بچہ بولا تھا

شیر شیواجی نے رکھی تھی

 لاج ہماری شان کی

اس مٹی سے تلک  کرو

یہ  دھرتی بلیدان کی ’’

میں اس دھرتی کو نمن کرتا ہوں۔

شیواجی مہاراج کی اس عظیم سرزمین نے ہماری مادر وطن کی صدیوں سے ترقی کی راہنمائی کی ہے، قابل ذکر کارنامے انجام دیے ہیں اور ہندوستان کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بھارت کی  تاریخ شیواجی مہاراج کے بغیر ادھوری  نہیں ، خالی نظر آتی  ہے۔

مراٹھا سوراجیہ کے اصول، اس کے انتظامی ڈھانچے میں غیر ارتکاضی  سیاست،  استحقاقی نظام سیاست، قانون کی حکمرانی، اقتصادی ترقی اور عوامی بہبود کو شامل کرتے ہوئے، پوری دنیا میں عوامی خدمات کی فراہمی میں زیادہ کارکردگی، جوابدہی، اور اثر پذیری  کو متاثر کرنے کے لیے ایک نمونے کے طور پر کام کرتے ہیں۔

معزز ممبران، بہت ہی مناسب طریقے سے ہمارے آئین کے بنانے والوں نے بے خوف چھترپتی شیواجی مہاراج کی پینٹنگ کو آئین کے حصہ XV میں جگہ دے کر فخر کا مقام دیا جو ہماری جمہوریت کے دل یعنی انتخابات سے متعلق ہے۔ حصہ XV میں 22 پینٹنگز ہیں جو انتخابات سے متعلق ہیں۔ جو پینٹنگ لگائی گئی ہے وہ شیواجی مہاراج کی ہے۔

معزز اراکین- قانون ساز اور جمہوریت کے اس قابل احترام ادارے کے نگہبان کے طور پر، آپ عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کا مقدس فریضہ ادا کرتے ہیں۔

آپ کا مشن متعصبانہ مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بھارت کے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو یقینی بنانا، مشترکہ بھلائی کے اصولوں کے ساتھ قریب سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

معزز ممبران! ہماری بہت مالا مال  تاریخ ہے، جس کی تہذیبی گہرائی 5000 سال ہے۔ ہندوستان قدیم زمانے سے ہی جمہوری اقدار کے ساتھ  گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔

پھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ کل انسانی آبادی  کے چھٹے حصے کے گھر ہونے کے ناطے، ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں، اور جمہوریت کی ماں بھی ہیں، جس کی طرف دنیا بھر کے ممالک مشورے کے لئے دیکھتے  ہیں!

عصری عالمی منظر نامے میں، اس کے غیر معمولی اقتصادی عروج اور سفارتی صلاحیتوں کے ساتھ، ہندوستان کی جو اہمیت اور معنویت  آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ اور اس کا عروج مسلسل تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور اب رک نہیں سکتا۔

اس پس منظر میں، اس دن کا موضوع ‘‘ہمارے ملک میں جمہوری اقدار اور اخلاقیات کا فروغ’’ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کو پوری دنیا میں  جمہوریت کے لیے ایک رول ماڈل کی مثال پیش کرتے ہوئےابھرنا ہے۔

اخلاقیات اور اچھا برتاؤ   قدیم زمانے سے ہندوستان میں عوامی زندگی کی پہچان رہی ہیں۔ اخلاقیات اور  حسن سلوک انسانی رویے کا امرت اور جوہر ہیں۔ یہ عوامی زندگی کے ناقابل تنسیخ پہلو ہیں، اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ جمہوریت کا  قطب   ستارہ ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور مقننہ مینارہ ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے آپ کی طرف دیکھتے ہیں اور انہیں کیسے آگے بڑھنا چاہیے اور اس لیے یہ  ارکان پارلیمنٹ اور وہ لوگ  جو اس  مقننہ کا حصہ ہے ، ان کا فرض اور  ذمہ داری ہے کہ وہ قابل تقلید طرز عمل کی مثال پیش کریں۔

جمہوری اقدار باقاعدہ  نگہداشت  کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جیسا کہ سیکھنا کبھی نہیں رکتا یہاں تک کہ اگر آپ کالج چھوڑ دیتے ہیں تو آپ کو سیکھنا جاری رکھنا ہوگا۔ جمہوری اقدار ایک وقتی حالات نہیں ہیں جنہیں  7 ساتوں دن ، 24  گھنٹے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ جمہوری اقدار تبھی پھولتی ہیں جب ہر طرف تعاون ہو اور اعلیٰ اخلاقی معیارات ہوں۔

قوم بغیر کسی رکاوٹ،  خوش اسلوبی اور تیزی کے ساتھ اس وقت آگے بڑھتی ہے جب اس کے تینوں بازو، مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو اپنے اپنے علاقوں میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اختیارات کی علیحدگی کے نظریے پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ایک ادارے کی طرف سے دوسرے کے ڈومین میں مداخلت ممکنہ طور پر  پورے نظام کو  درہم برہم  کر سکتی ہے۔ مقننہ کو اس نازک توازن کو محفوظ بنانا ہوگا۔

قانون سازی مقننہ اور پارلیمنٹ کا خصوصی دائرہ کار ہے، جو آئینی ضوابط کے تابع ہے۔ ہمارے پاس واضح قانونی  ضوابط  کے مقابلہ میں ایگزیکٹو اور عدلیہ کی طرف سے ہدایات کی کافی مثالیں موجود ہیں۔ مقننہ آئینی طور پر ان خلاف ورزیوں کا متفقہ حل تلاش کرنے کی پابند ہے۔ لہٰذا، میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہماری جمہوریت کے ان ستونوں کے سب سے اوپر والوں کے درمیان بات چیت کے منظم طریقہ کار کے ارتقاء کی ضرورت ہے۔

اوریہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ان تھیٹروں کے مقدس احاطے، جمہوریت کے مندر، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے  کام  کرتے ہیں کہ ریاست کے تینوں بازؤوں  کے درمیان  مکمل تال میل کے ساتھ کام  ہو۔ یہ ہم آہنگی جمہوریت کے لیے ضروری ہے اور ایک بار جب ہم اسے حاصل کرلیں گے تو ہماری ترقی میں اضافہ ہوگا۔

یہ ظاہر ہے کہ اس وقت ہماری پارلیمنٹ اور مقننہ کے کام کاج میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ جمہوریت کے یہ مندر حکمت عملی کے تحت رکاوٹوں اور خلفشار کا شکار ہیں۔ فریقین کے درمیان مکالمہ ناپید ہے یہ ضروری ہے اور اس سے کوئی فرار نہیں ہوسکتا ہے کہ گھر کے تمام طبقوں کے درمیان دوستانہ باہمی مکالمے کو شامل کرنا ہوگا اور فریقین کے درمیان مکالمے کی سطح غائب ہے اور آپ جس انداز میں خطاب کرتے ہیں وہ منہ کے بل گرنے کے مترادف  ہے۔

میں ملک میں اپنی نوعیت کی پہلی، راجیہ سبھا کی اخلاقیات کمیٹی کے حوالے سے تفصیل  دینا چاہتا ہوں۔ پچھلی صدی کے آخر میں اس کا آئین درحقیقت ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا۔

ممتاز رہنما آنجہانی  جناب  ایس بی چوہان کی سربراہی میں پہلی اخلاقیات کمیٹی نے 1998 میں رپورٹ پیش کی جس میں ارکان پارلیمنٹ کو، دوسری ذمہ داریوں کے علاوہ، دو بنیادی ذمہ داریوں کو لازمی قرار دیا گیا:

•  اراکین کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے پارلیمنٹ کی بدنامی ہو اور ان کی ساکھ متاثر ہو۔

•  ممبران کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت سے  بطور ممبر پارلیمنٹ استفادہ  کریں تاکہ لوگوں کی عمومی بھلائی کے  مشن  کو آگے بڑھایا جا سکے۔

معزز اراکین، ان  دونوں  باہم جڑے ہوئے پہلوؤں پر  باریکی سے کی جانے والی جانچ کی رپورٹ واقعی تشویشناک حد تک  پریشان کن  ہے۔ صحت بخش ہدایات کی پابندی کی  اکثر خلاف ورزی ہوتی ہے۔

 یہ ماحول دوستانہ ہونے کے بجائے  محاذ آرائی والا ہے، دوستی کے جذبات کی جگہ  مخالفانہ موقف  نے لے لی  ہے۔ جمہوری سیاست ایک نئی پستی کا مشاہدہ کر رہی ہے اور تناؤ اور دباؤ کی  فضا پیدا ہوگئی ہے۔

اس طرح کا دھماکہ خیز اور تشویشناک منظر نامہ ہر سطح پر خاص طور پر سیاسی جماعتوں سے  خود پر غور کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

معزز اراکین، ہماری معزز مقننہ کے اراکین کے طور پر، ہم نہ صرف اپنی سرزمین کے قوانین کو برقرار رکھنے بلکہ اپنے مقننہ کے وقار اور ساکھ کو برقرار رکھنے کی بھی گہری ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے حلقے نے یہ مقدس فریضہ سونپا ہے کہ وہ اپنی آواز اور امنگوں کو دیانتداری اور خلوص کے ساتھ پیش کریں۔

یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس طریقے سے میدان عمل میں اتاریں  جو قانون سازوں کے طور پر ہمارے کردار کے مطابق ہو۔ ہمارے اعمال کو ہمیشہ اخلاقی طرز عمل اور شفافیت کے اعلیٰ ترین معیارات کی عکاسی کرنی چاہیے۔اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی  نہ صرف ہمارے ادارے کے احترام کو کم کرتی ہے بلکہ ان لوگوں کے اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے جن کی ہم خدمت کرتے ہیں۔ اخلاقیات اور حسن سلوک  میں کوئی فی صد اخلاقیات نہیں ہوسکتی ہیں اور اخلاقیات کو 100فیصد انجام دینا ہوتا ہے۔

 مہذبانہ  برتا ؤ اور ضابطے کی پابندی جمہوریت کا دل اور روح ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی رائے کے تنوع اور تعمیری  سرگرمیوں  کے ذریعے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو مکالمے، بحث،  گفتگو  اور غور و فکر سے پروان چڑھتا ہے۔

 مقننہ کے  ارکان بحث کرنے والے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ اس بحث میں شامل نہیں ہوتے کہ کون جیتتا ہے کیونکہ وہ ایک مشترکہ مقصد کی پیروی کر رہے ہیں اور اس لیے میں پارلیمنٹیرین کی پرزور تعریف کرتا ہوں اور اس بات کا قائل ہوں کہ  مقننہ کا حصہ  مانے جانے والوں کو انسانیت، عظمت اور شائستگی کے ساتھ اپنا  کردار ادا کرنا  چاہیے۔

ہمیں ہمیشہ دوسرے نقطہ نظر کے موافق ہونا چاہیے۔ دوسرے نقطہ نظر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کو بغیر غور کیے فوری طور پر رد کرنا جمہوری گفتگو کے خلاف ہے۔ ہمیں مکالمے اور بات چیت پر یقین رکھنا چاہیے۔

تاریخی طور پر، ہماری قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ نے بڑے پیمانے پر پرسکون اور مرتب طریقے سے کام کیا ہے۔ آئین ساز اسمبلی کا قابل ذکر اور موثر کام ہمارا رول ماڈل ہونا چاہیے۔ انتہائی تفرقہ انگیز، جذباتی اور متنازعہ مسائل کو متفقہ اور باہمی تعاون کے ساتھ بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ تقریباً تین سال کے عرصے کے دوران دستور ساز اسمبلی نے کوئی خلل اور مداخلت  نہیں دیکھی، بہت کم نعرے لگائے  گئے اور ایوان کے  بیجوں بیچ واقعات بھی  کم ہوئے۔

آج مقننہ میں بحث و مباحثہ، مکالمے، غور و خوض اور بحث کی اولین حیثیت خلل اور خلفشار کا باعث بنی ہے۔ ہندوستانی سیاسی نظام کے ساتھ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، یہ بہت دباؤ کے تحت کام کر رہا ہے۔

پارلیمنٹ کے کام کو روک کر سیاست کو ہتھیار بنانا ہماری سیاست کے لئے  سنگین نتائج کا حامل ہے۔

معزز اراکین، ہماری مقننہ میں جمہوری اقدار اور پارلیمانی روایات کی سختی سے پابندی برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں جس طرح کا طرز عمل دیکھنے میں آیا وہ واقعی تکلیف دہ ہے، کیونکہ یہ ہماری قانون سازی کی گفتگو میں نمایاں اخلاقی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ بات گہری تشویش کی بات ہے کہ چئیرمین یا سپیکر کو آسانی سے  تنقید کے لئے  تختہ مشق  بنا لینے کا  رجحان ہے۔ یہ نامناسب ہے۔ جب ہم کرسی سنبھالتے ہیں تو ہمیں انصاف پسند ہونا پڑتا ہے، ہمیں منصفانہ ہونا پڑتا ہے۔ کبھی موجودہ کام میں مشغول رہنا اور کبھی ناخوشگوار حالات سے نمٹنا فرض ہے لہٰذا جمہوریت کے اس مندر کی کبھی توہین نہیں ہونی چاہیے۔ کرسی کا احترام ہمیشہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے پارلیمنٹ اور مقننہ میں سینئر اراکین کو رہنمائی کرنی ہوگی۔

آرٹیکل 105 کے تحت آئینی ضابطہ  ارکان پارلیمنٹ کو ایوان میں اظہار خیال کا بے مثال موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ آئینی حق ایک شرط  کے ساتھ آتا ہے کہ ایوان میں جو کچھ بولا جائے وہ سچ کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ  ایسی معلومات کے پٹارے کھولنے کا  پلیٹ فارم نہیں ہے جس کی توثیق نہیں کی جاسکتی ہے۔

قانون سازوں کو ملک کے 1.3 بلین شہریوں کی طرف سے ایوان کے فلور پر کہی گئی کسی بھی چیز کے سلسلے میں کسی بھی دیوانی یا فوجداری کارروائی کے خلاف استثنیٰ کا استحقاق حاصل ہے۔ لیکن یہ اعزاز آپ کو ایوان میں اپنے خطاب میں مستند معلومات فراہم کرنے کی بھاری ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔  اس سے  کسی بھی طرح کا انحراف  استحقاق کی شدید خلاف ورزی ہے۔

میں 1989 میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا، مجھے وزیر بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس دوستی اور ہمدردی تھی، ہمارے پاس عقل، مزاح، طنز اور نقطہ چینی تھی ۔ یہ ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں  اسی خوشگوار ماحول میں  واپس آنے کی ضرورت ہے۔

 طنز کے بجائے، مزاح  کے بجائے ، تبقید  کے بجائے، نقطہ چینی  کے بجائے ہمارے پاس مخالفانہ منظر نامہ ہے، تصادم کا نقطہ نظر ہے۔ ہمیں تعاون کی ضرورت ہے ہمیں متفقہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ ہم  با لکل مخالف  سمت میں جارہے ہیں ۔

اب ہم اکثر  و بیشتر تصادم اور مخالف حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

عوام کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے نمائندوں کی طرف سے جن سے انہوں نے بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ کی ہیں، اس قدر افسوسناک صورت حال  کا مشاہدہ کریں۔

میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے باطن میں  اور آپس میں ایک ووسرے کے ساتھ  سنجیدگی سے غوروخوض کریں۔ مجھے اس ایوان میں  اور اپنے چیمبر  میں سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اراکین  پارلیمنٹ آئیں گے۔ وہ باصلاحیت لوگ ہیں وہ  لگن سے سرشار لوگ ہیں لیکن وہ کہیں گے کہ پارٹی کمانڈ ہے۔ اب مجھے ارکان کی مجبوری کا احساس ہوا۔ پارٹی نے اتنا حکم دیا ہے کہ شاید ہی آپ  اسپیکر کی بات سنیں لیکن میں آپ سے اور آپ کی سیاسی جماعت سے سوال کرتا ہوں کہ کوئی سیاسی جماعت کس طرح خلل ڈالنے، رکاوٹ پیدا کرنے، نعرے بازی کرنے اور ایوان کے بیچ و بیچ پہنچ جانے کے لئے  کمان دے سکتی ہے ۔

لہذا میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہم اپنی جمہوریت کے 75 ویں سال میں ہیں۔ ہم 2047 کی سمت میں سفر پر ہیں جب قوم اپنی آزادی کا  صد سالہ جشن منائے گی۔  جب ہم  وکست بھارت  ہوں گے ۔ ایک میراتھن مارچ ہے جو 2047 کے لیے جا رہا ہے۔ آپ سب اس میراتھن مارچ کے سب سے اہم حصہ دار ہیں۔ اس لیے آپ کو مثال کے طور پر قیادت کرنی ہوگی آپ کوبہترین کارکردگی پیش کرتے ہوئے  قیادت کرنی ہوگی اور مجھے یقین ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اراکین میں نظم و ضبط کا گہرا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ اس سے ان ممبران کو انعام ملے گا جن کی کارکردگی بہترین رہی ہے بجائے اس کے کہ وہ لوگ جو نعرے لگانے اور ایوان کے بیچوں وبیچ پہنچ جانے میں مصروف ہوں۔

جب ممبران میرے چیمبر میں مجھ سے ملتے ہیں تو مجھے اکثر سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ انکشاف کر رہے ہیں، وہ  کھل کر بولتے  ہیں، وہ مخلص ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سیاسی جماعت کے حکم پر عمل کرنا ہو گا جس میں ضابطہ اخلاق کی قربانی دی جائے۔

یہ صورت حال ہماری جمہوری روایات کے لیے اچھی نہیں ہے۔ آئینی طریقہ کار کے ذریعے اس طرح کے حکم پر غور نہیں کیا جاتا۔ ایوان میں خلل ڈالنے،  رکاوٹ پیدا کرنے،  ایوان کے وسط میں  جانے اور جان بوجھ کر  ایسی کارروائی میں، جس کا مقصد شہریوں کی  آواز کو اٹھانا  ہے،خلل ڈالنے کا حکم کیسے ہو سکتا ہے؟

معزز اراکین، مقننہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ایگزیکٹو کو جوابدہ بنانا، اور ممکنہ قوانین کا جائزہ لینا ہے۔ ایک غیر فعال پارلیمانی فورم اراکین کو احتساب کے نفاذ کے موقع سے محروم کر دیتا ہے۔

ہر رکن کو کمیٹی میں یا ایوان میں شرکت کرنے کا حق ہے۔ میں ممبران سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ پوری طرح تیار رہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے، کبھی ایک فریق  اقتدار میں ہوسکتا ہے، کبھی  دوسرا   فریق اقتدار میں ہوسکتا ہے، لیکن حکومتیں اکثر ترامیم لے کر آتی ہیں کیونکہ ایوان میں ایک باشعور رکن کے ذریعہ  نکتہ اٹھایا گیا ہوتا ہے۔

جب ہم کارروائی میں حصہ نہیں لیتے ہیں تو ہم قانون میں غلطی تلاش نہیں کرسکتے ہیں۔ میرے مطابق، شرکت نہ کرنے پر کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔

اور یہ کیسا ظلم ہے، یہ کیسا انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے کہ ایک طرف موقع ملنے پر کوئی شخص بحث میں شریک نہیں ہوتا،دوسری طرف، آپ اپنی غیر موجودگی سے رقم کمانا چاہتے ہیں۔

ناکامی کو کیسے فائدے میں تبدیل  کیا جا سکتا ہے؟ ڈیوٹی کی عدم کارکردگی کو کیسے  اپنے فائدے میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ ذہن میں رکھیں گے۔

اتفاق رائے اور تعاون ہمارے قانون سازی کے کام کاج کا بنیادی ستون ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں، انتظامیہ میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے مقننہ کا موثر کام کرنا ہی یقینی طریقہ ہے۔

میں ڈاکٹر بی آر کے ایک اقتباس کے ساتھ اختتام کرتا ہوں:

‘‘ذاتوں اور عقیدوں کی شکل میں ہمارے پرانے دشمنوں کے علاوہ ہمارے پاس متعدد سیاسی جماعتیں ہوں گی جن میں مختلف اور مخالف سیاسی عقائد ہوں گے۔ کیا ہندوستانی ملک کو اپنے مسلک سے اوپر رکھیں گے یا وہ مذہب کو ملک سے اوپر رکھیں گے؟

میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر جماعتیں مذہب کو ملک سے بالاتر رکھتی ہیں تو ہماری آزادی دوسری بار خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ اس واقعہ سے ہم سب کو سختی سے بچنا چاہیے۔’’

مجھے یقین ہے کہ آپ بابا صاحب کے محتاط  الفاظ پر غور کریں گے۔

میں مہاراشٹر  قانون ساز اسمبلی کے معزز ممبران اور ریاست کے تمام لوگوں کو خوشحالی اور شمولیت کی طرف ان کے جاری سفر پر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

بھارت 2047 تک ایک وکست ملک بننے کے راستے پر ہے۔ اس میراتھن مارچ میں، سب سے اہم  محرک  عناصر  ریاستی اور مرکزی سطح پر اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ  کو مثالی انداز میں  رہنمائی کرنی چاہیے۔

آپ ترقی اور لچک کا  ایسا مینار بنے رہیں، جس کی ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تقلید کرے۔

آپ کے وقت دینے اور صبر و سکون سے سننے کے لیے مشکور ہوں۔

*****

ش ح۔س ب ۔ رض

U:8270



(Release ID: 2032628) Visitor Counter : 26