وزارت اطلاعات ونشریات
اٹھارویں ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹول (ایم آئی ایف ایف) کے اوپن فورم میں دستاویزی فلموں کی مالی استحکام کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا
دستاویزی فلموں کی مالی استحکام کے لیے ادائیگی کرنے والے سامعین کی تعمیر سازی لازمی ہے: سنجیت نارویکر
ہندوستان میں دستاویزی فلم دیکھنے کا کلچر بنانا ضروری ہے: پریمندر مزمدار
جدید ٹیکنالوجی نے دستاویزی فلم بنانے کی لاگت کو کم کر دیا ہے: دھرم گلاٹی
لوگ بامعاوضہ متن کی قدر کرتے ہیں: اتپل دتا
ٹیکنالوجی اور شائقین سے جمع ہونے والی رقم، دستاویزی فلم سازی کو فروغ دے سکتا ہے: ڈاکٹر دیو کنیا ٹھاکر
Posted On:
20 JUN 2024 4:16PM by PIB Delhi
ممبئی میں جاری 18ویں ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے موقع پر، انڈین ڈاکیومینٹری پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (آئی ڈی پی اے) نے ’دستاویزی فلموں کے لیے فنڈنگ کے نئے مواقع پیدا کرنا‘ کے موضوع پر ایک اوپن فورم کا اہتمام کیا۔ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے معزز مقررین نے ہندوستان میں دستاویزی فلموں کی مالی استحکام کے لیے چیلنجوں اور ممکنہ حل کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی باریک بینی معلومات کا اظہار کیا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے، وی شانتارام ایوارڈ یافتہ اور قومی ایوارڈ یافتہ شری سنجیت نارویکر نے ہندوستان میں دستاویزی فلموں کے لیے ادائیگی کرنے والے سامعین تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایسا کلچر سامنے نہیں ابھرتا، دستاویزی فلموں کو مالی اعتبار سے مستحکم نہیں بنایا جاسکتا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ جب لوگ فکشن فلموں کی مالی اعانت کرنے کے لیے تیار ہیں، مالئے کی کمی سے دستاویزی فلموں کے لیے مالی اعتبار سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ "کچھ فلم ساز اپنی ہی فلموں کی مالی اعانت کرتے ہیں، جو انہیں فنی طور پر آزادی فراہم کرتا ہے۔ لیکن کسی نے بھی دستاویزی فلموں، ان لوگوں نے کے لیے کبھی بھی کام نہیں کیا جنہوں نے ہمیشہ سرمایہ خرچ کیا اور ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ کچھ تار جڑے ہوتے ہیں۔
سرکردہ فلم ساز نے یہ بھی کہا کہ نئی ٹیکنالوجی اور قومی دھارا پلیٹ جیسے ایم یو بی آئی دستاویزی فلموں کے لیے مزید اسکریننگ کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہندوستانی دستاویزی فلم ساز موجودہ مالی مجبوریوں کے پیش نظر 'کمانڈنٹ کے شیڈو' جیسے پروجیکٹ کا تصور کرسکتے ہیں۔
(تصویر میں دائیں سے بائیں: ڈاکٹر دیو کنیا ٹھاکر، جناب دھرم گلاٹی، جناب سنجیت نارویکر، جناب پریمندر مزومدار، جناب اُتپل دتا اور محترمہ مایا چندرا 18ویں ایم آئی ایف ایف میں ایک اوپن فورم مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے)
ایک فلمی نقاد، مصنف، اور منتظم، جناب پریمندر مزومدار نے یہ کہتے ہوئے اس جذبات کی بازگشت کی کہ ہندوستانی سامعین کے پاس دستاویزی فلمیں دیکھنے کا ایک مقبول کلچر نہیں ہے اور سب سے پہلے ادائیگی کرنے والے سامعین کی بنیاد قائم کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایم آئی ایف ایف جیسے فلم فیسٹول اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جناب مزومدار نے دستاویزی فلم انڈسٹری کے عالمی پیمانے پر روشنی ڈالی، جس کی مالیت تقریباً 12 ارب امریکی ڈالر ہے، لیکن انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستان کا حصہ بہت کم ہے۔ "بھارت میں تقریباً 18000سے 20000 فلموں کو سالانہ سرٹیفکٹس ملتے ہیں، صرف 2000 کے قریب فیچر فلمیں ہیں،باقی دستاویزی فلمیں ہیں۔ لیکن ہمیں فلموں کا یہ پورا حصہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایف ڈی سی جیسی تنظیموں کو نئی دستاویزی فلم سازوں کے کام کو فروغ دینے میں طویل سفر طے کرنا ہے"۔
پروڈیوسر، ڈائریکٹر، فوٹوگرافی کے ڈائریکٹر اور ماہر تعلیم جناب دھرم گلاٹی نے دستاویزی فلموں کے لیے وقف او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی ضرورت کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی نے دستاویزی فلم سازی کی لاگت کو کم کر دیا ہے، جس سے فلم ساز اپنے پروجیکٹس کے لیے خود فنڈز فراہم کر سکتے ہیں۔ جناب گلاٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دستاویزی فلم سازوں کے لیے صرف مالی فائدہ ہی نہیں، عزم بہت اہم ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت دستاویزی فلموں کے لیے سی ایس آرفنڈز استعمال کرنے والے کارپوریٹس کو ٹیکس میں کٹوتی فراہم کرے اور ٹیکس فوائد کے بدلے میں دستاویزی فلموں کی نمائش کے لیے ملٹی پلیکسز فراہم کرے۔
ایک مختلف نقطہ نظر کومشترک کرتے ہوئے، مصنف اور آسام ڈاون ٹاؤن یونیورسٹی میں پریکٹس کے پروفیسر جناب اتپل دتانے حکومتی فنڈنگ حاصل کرنے میں پیچیدہ افسر شاہی کے عمل کے چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ جناب دتا نے اس بات پر زور دیا کہ لوگ مفت پیشکشوں کے مقابلے ادا شدہ مواد کو اہمیت دیتے ہیں اور تجویز پیش کی کہ دستاویزی فلم فیسٹیول میں حاضری کے لیے ہمیشہ فیس لینا چاہیے۔
ایک آزاد فلم ساز اور آزاد مصنف ڈاکٹر دیو کنیا ٹھاکر نے دستاویزی فلم سازوں کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ یوٹیوب اور او ٹی ٹی سروسز جیسے ابھرتے ہوئے پلیٹ فارمز کو تیار کریں اور انہیں تلاش کریں۔ انہوں نے مخصوص موضوعات کے ساتھ تنظیموں سے فنڈ حاصل کرنے اور کارپوریٹ فنڈ استعمال کرنے کی تجویز پیش کی۔ ڈاکٹر ٹھاکر نے فنڈنگ کو راغب کرنے کے لیے دستاویزی فلم سازی کو ادارہ جاتی بنانے کی تجویز پیش کی اور اسبات کی سفارش کی کہ مختلف شراکت داروں ، جیسے آئی ڈی پی اے اور بِٹ چترا کلکٹیو، دستاویزی فلموں کی مالی اعانت کے لیے تعاون کریں اور خواہشمند فلم سازوں کے لیے فیلو شپس قائم کریں۔ انہوں نے کراؤڈ فنڈنگ کی صلاحیت اور ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے زبردست متن تخلیق کرنے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ جناب ٹھاکر نے خواتین کی دستاویزی فلم سازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکر کیا، جس سے صنعت میں صنفی فرق کو ختم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔
اس سیشن کی نظامت فلم پروڈکشن کی ایک کاروباری خاتون محترمہ مایا چندرا نے کی، جنہوں نے کہا کہ نوجوان فیچر فلموں کے مقابلے دستاویزی فلموں کے بارے میں کم پرجوش نظر آتے ہیں۔ انہوں نے دستاویزی فلم کی تشہیر کے لیے علیحدہ باڈی یا بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے پر بات چیت کی ضرورت پر زور دیا۔ محترمہ چندرا نے کہا کہ کارپوریٹ فنڈز حال ہی میں کرناٹک جیسی ریاستوں میں دستاویزی فلموں میں آنا شروع ہوئے ہیں اور یہ تجویز بھی پیش کی کہ آئی ڈی پی اے دستاویزی فلموں کی نمائش کے لیے آئی این او ایکس اور پی وی آرجیسے تھیٹر چینز کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے، اس طرح سامعین کی ثقافت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
************
ش ح۔ح ا۔ق ر
U.No:7632
(Release ID: 2027099)
Visitor Counter : 86