قانون اور انصاف کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

قانون اور انصاف کی وزارت كی طرف سے ’’فوجداری انصاف کے نظام کے نظم و نسق میں ہندوستان کے ترقی رُخی راستے‘‘ کے عنوان سے ایك کانفرنس کا اہتمام

Posted On: 21 APR 2024 8:34PM by PIB Delhi

قانون اور انصاف کی وزارت کے محکمہ قانونی امور نے سنیچر 20 اپریل 2024 کو ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سنٹر واقع جن پتھ، نئی دہلی میں 'فوجداری انصاف کے نظام کے نظم و نسق میں ہندوستان کے ترقی رُخی راستے' کے موضوع پر ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔  کانفرنس میں مختلف ہائی کورٹوں کے ججوں، صدر اور نائب صدر اور انكم ٹیكس اپیل ٹریبونل کے ممبران، وکلاء، ماہرین تعلیم، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں، پولیس حکام، پبلک وكلاء، ڈسٹرکٹ ججوں، دیگر حکام اور قانون کے طالب علموں پر مشتمل ایک بڑی تعداد میں سامعین اور نامور مہمانوں نے شرکت کی۔

یہ کانفرنس تین فوجداری قوانین، یعنی بھارتیہ نیا سنہتا 2023، بھارتیہ ناگرك سركشا سنہتا 2023 اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم 2023 کے نفاذ کے پس منظر پر رکھی گئی تھی۔ انہیں یكم جولائی 2024 سے عمل میں لایا گیا تھا۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈاکٹر جسٹس ڈی وائی  چندر چوڑ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ دیگر معززین میں ان میں جناب ارجن رام میگھوال، وزارت قانون و انصاف کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) جناب آر وینکٹ رامانی، فاضل اٹارنی جنرل فار انڈیا، جناب تشار مہتا، فاضل سالیسٹر جنرل آف انڈیا اور جناب ایس کے جی رہاتے سکریٹری، وزارت قانون و انصاف میں محکمہ انصاف شامل تھے۔

آغاز میں ڈاکٹر انجو راٹھی رانا، ایڈیشنل سیکرٹری، محکمہ قانونی امور نے کانفرنس کے مقاصد کا خاکہ پیش کیا اور تینوں قوانین کی اہمیت پر مختصراً روشنی ڈالی جو نوآبادیاتی قانونی وراثت کا سلسلہ ختم كرنے کی علامت ہیں۔

خطبہ استقبالیہ میں ڈاکٹر راجیو منی، سکریٹری، قانونی امور، وزارت قانون و انصاف، نے تین فوجداری قوانین کے نفاذ کے پس منظر پر روشنی ڈالی اور بتایا كہ كیسے یہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قانونی ڈھانچے اور فریم ورک کو بے نقاب کرتا ہے جس کا مقصد ہندوستان میں برطانوی راج کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی ظاہری بنیاد پر برقرار رکھنا تھا۔ نوآبادیاتی دور كے موجودہ فوجداری قوانین كو باہر لا كر نوآبادیاتی تعصبات اور طرز عمل پر مبنی نہیں بلكہ حكومت اور شہریوں كے تعلقات کی وضاحت  كے ساتھ انصاف تک رسائی کے اصولوں پر مرتب كرنے کی ضرورت تھی۔ ان تینوں قوانین کو اسی لیے ملک میں فوجداری انصاف کے نظام کو شہریوں پر مرکوز کرنے کی خاطر نافذ کیا گیا ہے۔

اپنے کلیدی خطبے میں چیف جسٹس آف انڈیا، ڈاکٹر جسٹس ڈی وائی۔ چندرچوڑ نے کہا کہ نئی بھارتی شہری تحفظ سنہتا (بی این ایس ایس) ڈیجیٹل دور میں جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر فراہم کرتی ہے۔ بی این ایس ایس نے یہ بھی شرط رکھی ہے کہ مجرمانہ ٹرائل تین سالوں میں مکمل ہونے چاہئیں اور فیصلے محفوظ ہونے کے 45 دنوں کے اندر سنا دیئے جائیں۔ اس سے وسیع تر پسماندگی کو دور کرنے اور انصاف کی تیز تر فراہمی میں مدد ملے گی۔ عزت مآب چیف جسٹس نے خاص طور پر ذکر کیا کہ یہ دیکھنا بہت خوشی کی بات ہے کہ بی این ایس ایس کا سیکشن 530 تمام ٹرائلز، انکوائریوں اور کارروائیوں کو الیکٹرانک موڈ میں کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کہ موجودہ وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل دور میں پرائیویسی کے تحفظ کی اہمیت پر بھی توجہ دلائی۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے مزید كہا کہ  تینوں فوجداری قوانین اب جبكہ ایسے دفعات بناتی ہیں جو ہمارے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو ان قوانین سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے مناسب انفراسٹرکچر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل کورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی تخلیق پر روشنی ڈالی تاکہ سب کے لیے موثر کیس مینجمنٹ کے لیے تکنیکی طور پر لیس عدالتی نظام بنایا جا سکے۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جناب ارجن رام میگھوال، وزیر مملکت (آزادانہ چارج)، وزارت قانون و انصاف نے فوجداری انصاف کے نظام میں تبدیلیوں کی ضرورت کی نشاندہی کی جسے ابتدائی طور پر نوآبادیاتی حکمرانوں کے نقطہ نظر سے نافذ کیا گیا تھا اور اس میں ہندوستانی جذبے اور اخلاقیات کی کمی تھی۔

کانفرنس سے خطاب کرنے والے دیگر مقررین میں جناب آر وینکٹرامانی، فاضل اٹارنی جنرل فار انڈیا اور جناب تشار مہتا، فاضل سالیسٹر جنرل آف انڈیا اور جناب ایس کے جی رہاتے، سکریٹری، محکمہ انصاف، وزارت قانون و انصاف جناب وینکٹ رامانی، ہندوستان کے فاضل اٹارنی جنرل نے ایک متحرک قانونی نظام کی تیاری کی خاطر تبدیلی کے لیے آمادگی اور عزم کی اہمیت پر زور دیا۔ جناب تشار مہتا، فاضل سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے تبدیلی کی تاریخی ضرورت اور ایسی تبدیلیوں کو سراہنے اور سامنےلانے کے لیے بصیرت والی قیادت کی ضرورت کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ انہوں نے تینوں فوجداری قوانین کی تاریخی دفعات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ کس طرح فوجداری انصاف کے نظام میں انقلاب برپا کریں گے۔

جناب ایس کے جی رہاتے، سکریٹری، محکمہ انصاف، وزارت قانون و انصاف نے کہا کہ  تین نئے فوجداری قوانین كے موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ای کورٹس پر مبنی ایک متحد انصاف کی فراہمی کے نظام کی تشکیل، مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کو اپنانے وغیرہ کی ضرورت ہے۔

کانفرنس میں بالترتیب بھارتی نیا سنہتا 2023، بھارتیہ ناگرك سركشا سنہتا 2023 اور بھارتیہ ساکشیہ ادھنیم، 2023 پر تین تکنیکی سیشن شامل تھے۔ ان سیشنوں میں نئے دور کے جرائم پر قانون سازی کے اثرات، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہونے والی طریقہ کار کی تبدیلیوں، اور قانونی عمل میں شواہد کی منظوری کے اہم کردار پر غور کیا گیا۔

پہلے تکنیکی اجلاس میں بھارتیہ نیا سنہتا 2023 (بی این ایس) کے نفاذ کا جائزہ لینے اور مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقابلی نقطہ نظر کو اپنانے پر گہرائی سے بات چیت ہوئی۔ سیشن کی صدارت عزت مآب جسٹس انوپ کمار مینڈیرٹا، جج، دہلی ہائی کورٹ نے کی۔

دوسرے تکنیکی سیشن نے بھارتی ناگرك سركشا سنہتا 2023 (بی این ایس ایس) کے ذریعہ متعارف طریقہ کار کی تبدیلیوں کے اثرات اور عدالتی اور پولیس افسران کو ان سے کیسے نمٹنا ہے اور عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام پر اس کے عملی مضمرات پر روشنی ڈالی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج عزت مآب جسٹس اشونی کمار مشرا نے اس سیشن کی صدارت کی۔

تیسرے تکنیکی اجلاس میں بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم 2023 (بی ایس اے) کے نمایاں پہلوؤں جیسے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل دستاویزات/شواہد کو پہچاننے، الیکٹرانک سمن کی سہولت فراہم کرنے وغیرہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سیشن کی صدارت دہلی ہائی کورٹ کے جج عزت مآب جسٹس سی ڈی سنگھ نے کی۔ تقریب کا اختتام ایک اختتامی سیشن کے ساتھ ہوا جس میں معزز جسٹس پی ایس نرسمہا، جج، سپریم کورٹ آف انڈیا نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس کے علاوہ معزز جسٹس سنجے کرول، جج سپریم کورٹ اور محترمہ جسٹس ریکھا پلی، جج، دہلی ہائی کورٹ، جناب چیتن شرما، ایل ڈی۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل، دہلی ہائی کورٹ اور محترمہ چھایا شرما، دہلی پولیس کی خصوصی کمشنر (ٹی آر جی) مہمان خصوصی تھیں۔ اپنے خطاب میں عزت مآب جسٹس پی ایس نرسمہا نے تینوں فوجداری قوانین کے کامیاب نفاذ کے لیے ایک ادارہ جاتی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عزت مآب جسٹس سنجے کرول نے اس امید کا اظہار کیا کہ ٹیکنالوجی پر بی این ایس کی توجہ اور اس کے شہری مرکزی نقطہ نظر سے انصاف کی بروقت اور موثر فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ محترمہ جسٹس ریکھا پلی نے کہا کہ نئے ایکٹ واضح تعریفیں فراہم کرتے ہیں، رسائی کو یقینی بناتے ہیں اور صنفی مساوات کو فروغ دیتے ہیں۔ جناب چیتن شرما، فاضل اے ایس جی نے كہا کہ نئے قوانین نوآبادیاتی وراثت سے دھرما اور بھارتی اقدار پر مبنی انصاف کے نظام کی طرف منتقلی ہیں۔ دہلی پولیس کی خصوصی کمشنر (ٹی آر جی) محترمہ چھایا شرما نے نئے قوانین کی انقلاب آفرینی اور پولیس افسران کی تربیت کے اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے کسی بھی تلاشی اور ضبطی کے دوران لازمی ویڈیو گرافی اور منظم اور غیر منظم جرائم کے درمیان فرق کے بارے میں قانون میں موجود دفعات کا خیرمقدم کیا۔

ڈاکٹر راجیو منی، سکریٹری، قانونی امور کے محکمے نے تکنیکی سیشن کے مباحث کا خلاصہ پیش کیا اور سامنے آنے والے نکات پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر انجو راٹھی رانا، ایڈیشنل سیکرٹری، محکمہ قانونی امور کے شکریہ کے ساتھ  اختتامی اجلاس ختم ہوا۔

******

U.No:6614

ش ح۔رف۔س ا


(Release ID: 2018410) Visitor Counter : 96