وزیراعظم کا دفتر
مورخہ 28 جنوری 2024 کو ’من کی بات‘ کی 109 ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
28 JAN 2024 11:46AM by PIB Delhi
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ یہ 2024 کا پہلا ’من کی بات‘ پروگرام ہے۔ امرتکال میں ایک نیا جوش و خروش ہے، ایک نئی لہر ہے۔ دو دن پہلے ہم سبھی ہم وطنوں نے 75 واں یوم جمہوریہ بڑی دھوم دھام اور جوش و خروش کے ساتھ منایا تھا۔ اس سال ہمارا دستور بھی 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ اور سپریم کورٹ کو بھی 75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہماری جمہوریت کے یہ تہوار جمہوریت کی ماں بھارت کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ بھارت کا دستور اس قدر غور و فکر کے بعد وجود میں آیا ہے کہ اسے ایک زندہ دستاویز کہا جاتا ہے۔ اسی دستور کی اصل کاپی کے تیسرے حصے میں بھارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ تیسرے حصے کے آغاز میں ہمارے دستور سازوں نے بھگوان رام، ماتا سیتا اور لکشمن جی کی تصویروں کو مناسب جگہ دی تھی۔ پربھو رام کی حکم رانی ہمارے دستور سازوں کے لیے بھی ترغیب کا ذریعہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں میں نے ’دیو سے دیش‘ کے بارے میں بات کی تھی۔ میں نے ’رام سے راشٹر‘ کا ذکر کیا تھا۔
ساتھیو، ایسا لگتا ہے کہ ایودھیا میں پران پرتشٹھا کا موقع ایک مشترکہ تانے بانے میں پرویا گیا ہے، ملک کے کروڑوں لوگ ایک ساتھ ہیں۔ سب کے جذبات متفق ہیں، سب کی عقیدت یکجا ہے۔۔۔ رام سب کے الفاظ میں ہیں، رام سب کے دل میں ہیں۔ اس دوران ملک کے بہت سے لوگوں نے رام بھجن گائے اور انھیں شری رام کے چرنوں میں وقف کیا۔ 22 جنوری کی شام کو پورے ملک نے رام جیوتی جلائی اور دیوالی منائی۔ اس دوران ملک نے اتحاد کی طاقت دیکھی، جو ترقی یافتہ بھارت کے ہمارے عزم کی ایک بڑی بنیاد بھی ہے۔
میں نے ملک کے لوگوں سے درخواست کی تھی کہ وہ مکر سنکرانتی سے 22 جنوری تک صفائی مہم چلائیں۔ مجھے اچھا لگا کہ لاکھوں لوگ عقیدت کے ساتھ شامل ہوئے اور اپنے علاقے کے مذہبی مقامات کی صفائی کی۔ بہت سے لوگوں نے مجھے اس سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز بھیجی ہیں - یہ جذبہ ماند نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ مہم بند نہیں ہونی چاہیے۔ اجتماعیت کی یہ طاقت ہمارے ملک کو کام یابی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار 26 جنوری کی پریڈ شاندار تھی، لیکن سب سے زیادہ زیر بحث عنصر پریڈ میں خواتین کی طاقت کو دیکھنا تھا۔۔۔ جب مرکزی سکیورٹی فورسز اور دہلی پولیس کی خواتین دستوں نے کرتویہ پتھ پر مارچ کرنا شروع کیا تو ہر کوئی فخر سے بھر گیا۔ خواتین کے بینڈ کی مارچنگ دیکھ کر اور ان کی زبردست ہم آہنگی کو دیکھ کر ملک اور بیرون ملک کے لوگ بہت خوش ہوئے۔ اس بار پریڈ میں مارچ کرنے والے 20 دستوں میں سے 11 خواتین تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ گزرنے والی جھانکیوں میں بھی سبھی فن کار خواتین تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار بیٹیوں نے ان ثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا۔ بہت سی خواتین فن کار کونچ، نادسورم اور ناگدا جیسے بھارتی موسیقی کے آلات بجا رہی تھیں۔ ڈی آر ڈی او سے تعلق رکھنے والی جھانکی نے بھی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خواتین کی طاقت پانی، زمین، آسمان، سائبر اور خلا ہر شعبے میں ملک کی حفاظت کر رہی ہے۔ اس طرح اکیسویں صدی کا بھارت خواتین کی قیادت والی ترقی کے منتر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو، آپ نے ابھی کچھ دن پہلے ہی ارجن ایوارڈ کی تقریب دیکھی ہوگی۔ اس میں راشٹرپتی بھون میں ملک کے کئی ہونہار کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کو اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ یہاں بھی ارجن ایوارڈ یافتہ بیٹیوں اور ان کی زندگی کے سفر نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ اس بار 13 خواتین ایتھلیٹس کو ارجن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ان خواتین ایتھلیٹس نے کئی بڑے ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور بھارت کے جھنڈے کو روشن کیا۔ طبعی چیلنج، معاشی چیلنج ان بہادر اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو روک نہیں سکے۔ بدلتے ہوئے بھارت میں ہماری بیٹیاں، ملک کی عورتیں ہر میدان میں حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ایک اور شعبہ ہے جہاں خواتین نے اپنی پہچان بنائی ہے، وہ ہے سیلف ہیلپ گروپ۔ آج ملک میں خواتین سیلف ہیلپ گروپس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان کے کام کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو گیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب آپ ہر گاؤں کے کھیتوں میں ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے نمو ڈرون دیدی کو کھیتی میں مدد کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ مجھے اتر پردیش کے بہرائچ میں مقامی اجزا کا استعمال کرتے ہوئے بائیو فرٹیلائزر اور بایو پیسٹی سائیڈ تیار کرنے والی خواتین کے بارے میں پتہ چلا۔ سیلف ہیلپ گروپوں سے وابستہ نبیہ بیگم پور گاؤں کی عورتیں گائے کے گوبر، نیم کے پتے اور کئی طرح کے دواؤں کے پودوں کو ملا کر بائیو فرٹیلائزر تیار کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ خواتین ادرک، لہسن، پیاز اور مرچ کا پیسٹ تیار کرکے نامیاتی پیسٹی سائیڈ بھی تیار کرتی ہیں۔ ان خواتین نے مل کر ’اونتی جیوک اکائی‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی ہے۔ یہ تنظیم ان خواتین کو بائیو پروڈکٹس تیار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ان کے ذریعے تیار کردہ بائیو کھاد اور بائیو کیڑے مار دوا کی مانگ بھی لگاتار بڑھ رہی ہے۔ آج آس پاس کے گاؤوں کے 6 ہزار سے زیادہ کسان ان سے بائیو پروڈکٹس خرید رہے ہیں۔ اس کے ذریعے سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ ان خواتین کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، اور ان کی مالی حالت میں بھی بہتری آئی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم ان ہم وطنوں کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہیں جو سماج اور ملک کو مضبوط بنانے کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں جب ملک نے تین دن پہلے ہی پدم ایوارڈ کا اعلان کیا تو ’من کی بات‘ میں ایسے لوگوں کا چرچا ہونا فطری بات ہے۔ اس بار بھی بہت سے ہم وطنوں کو پدم اعزاز سے نوازا گیا ہے جنھوں نے نچلی سطح سے جڑ کر سماج میں بڑی تبدیلی لانے کا کام کیا ہے۔
ان متاثر کن لوگوں کی زندگی کے سفر کے بارے میں جاننے کے لیے ملک بھر میں بہت تجسس دیکھا گیا ہے۔ میڈیا کی شہ سرخیوں سے دور، اخبارات کے پہلے صفحے سے دور، یہ لوگ بغیر کسی لائم لائٹ کے سماجی خدمت میں مشغول رہے ہیں۔ ہم نے ان لوگوں کے بارے میں پہلے شاید ہی کچھ دیکھا یا سنا ہو، لیکن اب مجھے خوشی ہے کہ پدم ایوارڈ کے اعلان کے بعد، اس طرح کے لوگوں کے چرچے ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے خواہشمند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے اپنے متعلقہ شعبوں میں منفرد کام کر رہے ہیں۔ جیسے کوئی ایمبولینس سروس فراہم کر رہا ہے تو کوئی بے سہارا لوگوں کے سر پر چھت کا انتظام کر رہا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ہزاروں درخت لگا کر فطرت کے تحفظ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک ایسا بھی ہے، جس نے چاول کی 650 سے زیادہ اقسام کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔ ایک ایسا بھی ہے جو منشیات اور شراب کی لت کی روک تھام کے لیے معاشرے میں بیداری پھیلا رہا ہے۔ بہت سے لوگ لوگوں کو سیلف ہیلپ گروپس، خاص طور پر ناری شکتی مہم سے جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم وطن بھی اس بات سے بہت خوش ہیں کہ یہ اعزاز حاصل کرنے والوں میں 30 خواتین ہیں۔ یہ خواتین نچلی سطح پر اپنے کام کے ذریعے معاشرے اور ملک کو آگے لے جا رہی ہیں۔
ساتھیو، پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں سے ہر ایک کا تعاون ہم وطنوں کے لیے ایک تحریک ہے۔ اس بار اعزاز حاصل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو کلاسیکی رقص، کلاسیکی موسیقی، لوک رقص، تھیٹر اور بھجن کی دنیا میں ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ یہ اعزاز ان لوگوں کو بھی دیا گیا ہے جنھوں نے پراکرت، مالوی اور لمباڈی زبانوں میں عمدہ کام کیا ہے۔ بیرون ملک سے بھی بہت سے لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، جن کا کام بھارتی ثقافت اور ورثے کو نئی بلندیاں دے رہا ہے۔ ان میں فرانس، تائیوان، میکسیکو اور بنگلہ دیش کے شہری بھی شامل ہیں۔
ساتھیو، مجھے بہت خوشی ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں پدم ایوارڈ کا نظام پوری طرح سے بدل گیا ہے۔ اب یہ عوامی پدم بن گیا ہے۔ پدم ایوارڈ دینے کے نظام میں بہت سی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اب لوگوں کے پاس خود کو نامزد کرنے کا بھی موقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 کے مقابلے میں اس بار 28 گنا زیادہ نامزدگیاں موصول ہوئی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پدم ایوارڈ کا وقار، اس کی ساکھ اور اس کے لیے احترام ہر سال بڑھ رہا ہے۔ میں ایک بار پھر پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے سبھی لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ کہا جاتا ہے کہ ہر زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ ہر کوئی ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لوگ پوری لگن کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سماجی خدمت کے ذریعے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، کچھ فوج میں شامل ہو کر، کچھ اگلی نسل کو تعلیم دے کر، لیکن ساتھیو، ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زندگی کے خاتمے کے بعد بھی معاشرے اور زندگی کے تئیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اور اس کا ذریعہ اعضا کا عطیہ ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں ایک ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں جنھوں نے اپنی موت کے بعد اپنے اعضا کا عطیہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ آسان نہیں، لیکن یہ فیصلہ کئی زندگیاں بچانے والا ہے۔ میں ان خاندانوں کی بھی تعریف کروں گا جنھوں نے اپنے پیاروں کی آخری خواہشات کا احترام کیا۔ آج ملک کی کئی تنظیمیں بھی اس سمت میں بہت متاثر کن کوششیں کر رہی ہیں۔ کچھ تنظیمیں لوگوں کو اعضا کے عطیات کے بارے میں آگاہی دے رہی ہیں، کچھ تنظیمیں اعضا عطیہ کرنے کے خواہشمند افراد کے اندراج میں مدد کر رہی ہیں۔ اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے ملک میں اعضا کے عطیات کے حوالے سے مثبت ماحول پیدا ہو رہا ہے اور لوگوں کی زندگیاں بھی بچائی جا رہی ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، میں اب آپ کے ساتھ بھارت کی ایک کام یابی شیئر کر رہا ہوں جس سے مریضوں کی زندگی آسان ہو جائے گی اور ان کی پریشانیاں ایک حد تک کم ہو جائیں گی۔
آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے، جو علاج کے لیے آیوروید، سدھا یا یونانی طب کے نظام سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایسے مریضوں کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ اسی نظام کے کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ ان طبی طریقوں میں، بیماریوں، علاج اور ادویات کی اصطلاحات کے لیے ایک عام زبان استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ ہر ڈاکٹر بیماری کا نام اور علاج کے طریقے اپنے اپنے انداز میں لکھتا ہے۔ یہ بعض اوقات دوسرے ڈاکٹروں کے لیے سمجھنے کے لیے بہت مشکل بنا دیتا ہے۔ دہائیوں سے جاری اس مسئلے کا حل اب تلاش کر لیا گیا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ آیوش کی وزارت نے عالمی ادارہ صحت کی مدد سے آیوروید، سدھا اور یونانی طب سے متعلق اعداد و شمار اور اصطلاحات کی درجہ بندی کی ہے۔ دونوں کی کوششوں سے آیوروید، یونانی اور سدھا طب میں بیماری اور علاج سے متعلق اصطلاحات کو کوڈ کیا گیا ہے۔ اس کوڈنگ کی مدد سے اب تمام ڈاکٹر اپنے نسخوں یا پرچیوں پر ایک ہی زبان لکھیں گے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اگر آپ اس پرچی کے ساتھ کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو ڈاکٹر کو صرف اسی پرچی سے اس کے بارے میں مکمل معلومات مل جائیں گی۔ یہ پرچی کسی کی بیماری، علاج، کون سی دوائیں لے رہی ہے، کتنے عرصے سے علاج چل رہا ہے، کن چیزوں سے الرجی ہے، یہ جاننے میں مدد ملے گی۔ اس کا ایک اور فائدہ ان لوگوں کو ہوگا، جو تحقیقی کام سے وابستہ ہیں۔ دوسرے ممالک کے سائنس داں بھی اس بیماری، ادویات اور ان کے اثرات کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں گے۔ جیسے جیسے تحقیق وسیع ہوگی اور بہت سے سائنس داں اکٹھے ہوں گے، ان طبی نظاموں کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے اور لوگوں کا ان کی طرف جھکاؤ بڑھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان آیوش نظاموں سے جڑے ہمارے ڈاکٹر جلد از جلد اس کوڈنگ کو اپنائیں گے۔
میرے ساتھیو، جب میں آیوش نظام طب کا ذکر کر رہا ہوں، تو میری آنکھوں کے سامنے یانونگ جموہ لیگو کی تصاویر بھی آ رہی ہیں۔ محترمہ یانونگ اروناچل پردیش کی رہنے والی ہیں اور جڑی بوٹیوں کی ماہر ہیں۔
انھوں نے آدی قبیلے کے روایتی طبی نظام کو بحال کرنے کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس بار انھیں اس تعاون کے لیے پدم ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ اسی طرح اس بار چھتیس گڑھ کے ہیم چند مانجھی کو بھی پدم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ویدیاراج ہیم چند مانجھی آیوش نظام طب کی مدد سے بھی لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ وہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے نارائن پور، چھتیس گڑھ میں غریب مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ محترمہ یانونگ اور ہیم چند جی جیسے لوگوں کا ہمارے ملک میں چھپے آیوروید اور جڑی بوٹیوں کے خزانے کو محفوظ رکھنے میں بڑا رول ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ کے ذریعے ہمارا باہمی تعلق اب ایک دہائی پرانا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس دور میں بھی ریڈیو پورے ملک کو جوڑنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ ریڈیو کی طاقت کتنی تبدیلی لاسکتی ہے اس کی ایک انوکھی مثال چھتیس گڑھ میں دیکھی جا رہی ہے۔ گذشتہ تقریباً 7 سال سے یہاں ریڈیو پر ایک مقبول پروگرام نشر کیا جا رہا ہے جس کا نام ’ہمار ہاتھی- ہمار گوٹھ‘ ہے۔ نام سن کر آپ سوچ سکتے ہیں کہ ریڈیو اور ہاتھی کے درمیان کیا تعلق ہوسکتا ہے! لیکن یہی تو ریڈیو کی خوب صورتی ہے۔ چھتیس گڑھ میں یہ پروگرام آکاش وانی کے چار اسٹیشنوں امبیکا پور، رائے پور، بلاس پور اور رائے گڑھ سے ہر شام نشر کیا جاتا ہے اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ چھتیس گڑھ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے جنگلوں میں رہنے والے لوگ اس پروگرام کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ پروگرام ’ہمار ہاتھی - ہمار گوٹھ‘ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہاتھیوں کا ایک جھنڈ جنگل کے کس علاقے سے گزر رہا ہے۔ یہ معلومات یہاں کے لوگوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ جیسے ہی لوگوں کو ہاتھیوں کے جھنڈ کی آمد کے بارے میں ریڈیو کے ذریعے جانکاری ملتی ہے، وہ ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی جن راستوں سے گزرتے ہیں ان کو پار کرنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ ایک طرف، یہ ہاتھیوں کے ریوڑ سے ہونے والے نقصان کے امکان کو کم کرتا ہے۔ دوسری طرف، یہ ہاتھیوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس ڈیٹا کے استعمال سے مستقبل میں ہاتھیوں کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔
یہاں ہاتھیوں سے متعلق معلومات بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ اس سے جنگل کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے لیے ہاتھیوں کے ساتھ توازن قائم کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ملک کے دیگر جنگلاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی چھتیس گڑھ کی اس انوکھی پہل اور اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، اسی 25 جنوری کو ہم سبھی نے قومی یومِ رائے دہندگاں منایا ہے۔ یہ ہماری شاندار جمہوری روایات کے لیے ایک اہم دن ہے۔ آج ملک میں تقریباً 96 کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار کتنے بڑے ہیں؟ یہ امریکہ کی کل آبادی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ یہ پورے یورپ کی کل آبادی سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ اگر ہم پولنگ اسٹیشنوں کی بات کریں تو آج ملک میں ان کی تعداد تقریباً 10۔5 لاکھ ہے۔ بھارت کے ہر شہری کو اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے، ہمارا انتخابی کمیشن ان جگہوں پر بھی پولنگ بوتھ قائم کرتا ہے جہاں صرف ایک ووٹر ہوتا ہے۔ میں انتخابی کمیشن کی ستائش کرنا چاہتا ہوں جس نے ملک میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں۔
ساتھیو، آج یہ ملک کے لیے جوش و خروش کی بات ہے کہ جہاں دنیا کے کئی ممالک میں ووٹنگ فیصد کم ہو رہا ہے، وہیں بھارت میں ووٹنگ فیصد بڑھ رہا ہے۔ 1951-52 میں جب ملک میں پہلی بار انتخابات ہوئے تو صرف 45 فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ آج اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں نہ صرف رائے دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے قانون میں بھی ترامیم کی ہیں تاکہ ہمارے نوجوان ووٹروں کو رجسٹریشن کے زیادہ مواقع مل سکیں۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ رائے دہندگان میں بیداری بڑھانے کے لیے کمیونٹی کی سطح پر بہت سی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر لوگ گھر گھر جاتے ہیں اور رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کے بارے میں بتاتے ہیں۔
دوسری جگہوں پر نوجوانوں کو پینٹنگ کے ذریعے راغب کیا جا رہا ہے۔ گلیوں کے ڈراموں کے ذریعے کہیں اور۔ اس طرح کی ہر کوشش ہماری جمہوریت کے جشن میں بے شمار رنگ ڈال رہی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ذریعے میں اپنے پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں سے کہوں گا کہ وہ اپنے نام ووٹر لسٹ میں ضرور شامل کروائیں۔ وہ نیشنل ووٹر سروس پورٹل اور ووٹر ہیلپ لائن ایپ کے ذریعے اسے آسانی سے آن لائن مکمل کرسکتے ہیں۔ آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کا ایک ووٹ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 28 جنوری کو بھارت کی دو عظیم شخصیات کا یوم پیدائش بھی ہے جنھوں نے مختلف ادوار میں حب الوطنی کی مثال قائم کی ہے۔ آج ملک پنجاب کیسری لالہ لاجپت رائے جی کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہے۔ لالہ جی ایک مجاہد آزادی تھے، جنھوں نے ہمیں غیر ملکی حکم رانی سے آزاد کرانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ لالہ جی کی شخصیت صرف جدوجہد آزادی تک محدود نہیں رہ سکتی۔ وہ بے حد دور اندیش تھا۔ انھوں نے پنجاب نیشنل بینک اور کئی دیگر اداروں کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا مقصد نہ صرف غیر ملکیوں کو ملک سے بے دخل کرنا تھا بلکہ ملک کو معاشی طاقت دینے کا وژن بھی ان کی سوچ کا ایک اہم حصہ تھا۔ ان کی سوچ اور ان کی قربانی نے بھگت سنگھ کو بہت متاثر کیا۔ آج کا دن فیلڈ مارشل کے ایم کریاپا جی کو عقیدت کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی دن ہے۔ انھوں نے تاریخ کے ایک اہم دور میں ہماری فوج کی قیادت کرکے جرات اور بہادری کی مثال قائم کی۔ ہماری فوج کو مضبوط بنانے میں ان کا اہم کردار ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج بھارت کھیلوں کی دنیا میں ہر روز نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو کھیلنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں اور ملک میں اچھی طرح سے منظم کھیلوں کے ٹورنامنٹ منعقد کیے جائیں۔ اسی سوچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج بھارت میں کھیلوں کے نئے ٹورنامنٹ منعقد کیے جارہے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی چنئی میں کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اس میں ملک کے 5 ہزار سے زائد ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج بھارت میں مسلسل ایسے نئے پلیٹ فارم بنائے جا رہے ہیں، جن میں کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ایسا ہی ایک پلیٹ فارم جو بنایا گیا ہے – بیچ گیمز، دیو میں منعقد کیا گیا تھا۔ آپ یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ’دیو‘ ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے، جو سومناتھ کے بہت قریب ہے۔ ان بیچ گیمز کا انعقاد اس سال کے آغاز میں ہی دیو میں کیا گیا تھا۔ یہ بھارت کا پہلا ملٹی اسپورٹس بیچ گیمز تھا۔ ان مقابلوں میں رسا کشی، سمندری تیراکی، پینکاک سیلات، ملکھمب، بیچ والی بال، بیچ کبڈی، بیچ فٹ بال اور بیچ باکسنگ جیسے مقابلے شامل تھے۔ اس میں ہر کھلاڑی کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا کافی موقع ملا اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ٹورنامنٹ میں بہت سے کھلاڑی ان ریاستوں سے آئے تھے جن کا سمندر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش نے اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ تمغے جیتے، جہاں کوئی سمندری ساحل نہیں ہے۔ کھیلوں کے تئیں یہی مزاج کسی بھی ملک کو کھیلوں کی دنیا کا بادشاہ بناتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو،’من کی بات‘ میں آج میرے ساتھ بس اتنا ہی۔ فروری میں ایک بار پھر آپ سے بات کروں گا۔ ہماری توجہ اس بات پر ہوگی کہ ملک کے عوام کی اجتماعی اور انفرادی کوششوں سے ملک کس طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھیو، کل 29 تاریخ کو صبح 11 بجے ہم پریکشا پر چرچا بھی کریں گے۔ یہ ’پریکشا پر چرچا‘ کا ساتواں ایڈیشن ہوگا۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے، جس کا میں ہمیشہ انتظار کرتا ہوں۔ اس سے مجھے طلبہ کے ساتھ گفت و شنید کرنے کا موقع ملتا ہے، اور میں ان کے امتحان سے متعلق تناؤ کو کم کرنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ گذشتہ 7 برسوں میں ’پریکشا پر چرچا‘ تعلیم اور امتحانات سے متعلق مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک بہت اچھے ذریعہ کے طور پر ابھرا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس بار 2.25 کروڑ سے زیادہ طلبہ نے اس کے لیے اندراج کرایا ہے اور اپنی رائے بھی پیش کی ہے۔ 2018 میں جب ہم نے پہلی بار یہ پروگرام شروع کیا تھا تو یہ تعداد صرف 22 ہزار تھی۔
طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے اور امتحان سے متعلق تناؤ کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے بہت ساری اختراعی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ میں آپ سبھی، خاص طور پر نوجوانوں اور طلبہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کل ریکارڈ تعداد میں شامل ہوں۔ میں بھی آپ سے بات کرنا پسند کروں گا۔ ان الفاظ کے ساتھ میں ’من کی بات‘ کی اس قسط میں آپ سے رخصت لیتا ہوں۔ جلد ہی دوبارہ ملیں گے۔ شکریہ۔
***
(ش ح – ع ا – ع ر)
U. No. 4095
(Release ID: 2000180)
Visitor Counter : 136
Read this release in:
Gujarati
,
Kannada
,
Telugu
,
Assamese
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Odia
,
Tamil
,
Malayalam