بجلی کی وزارت
حکومت نے بجلی کے سیکٹر میں درپیش چیلنجوں پر غور و خوض کرنے کے لیے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے نئے اور قابل تجدید توانائی کے وزراء کی دو روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا
’’بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے، تمام ریاستوں کو بجلی کے تمام پلانٹس کو پوری صلاحیت کے ساتھ چلانے کی ضرورت ہے‘‘:توانائی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر آر کے سنگھ کا بیان
’’تمام ریاستوں کو کوئلے کی آمیزش کرنی چاہئے‘‘: بجلی او ر این آر ای کے مرکزی وزیر کا بیان
’’فاسٹ ٹریک آر ڈی ایس ایس، زراعت کو طاقت دینے کے لیے قابل تجدید ذرائع کا استعمال کریں‘‘: بجلی اور این آر ای کے وزیر آر کے سنگھ نے ریاستوں کوتلقین کی
Posted On:
06 NOV 2023 4:03PM by PIB Delhi
بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر جناب آر کے سنگھ نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی اور ملک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں اپنے خیالات سے آگاہ کیا ۔ جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ہندوستانی معیشت کی تیز رفتار ترقی کی ایک علامت ہے۔ 6اور7 نومبر 2023 کے دوران نئی دہلی کے بھارت منڈپم میں منعقد ہونے والی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے وزراء کی قومی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ اگر ہم اگر ہم بجلی کے شعبہ میں میں تبدیلی نہ لاتے تو ہندوستان دنیا کی سب سے تیز ابھرتی ہوئی بڑی معیشت نہیں بنتا۔انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی کا انحصار بجلی کے شعبہ پر ہے،بجلی کا شعبہ ملک کی ترقی میں ایک بنیادی محرک ہے۔
’’ترقی کے لیے ضروری بجلی پر کوئی سمجھوتہ نہیں، چاہے اس کا مطلب کوئلے پر مبنی صلاحیت میں اضافہ ہو‘‘
درپیش چیلنجوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ جہاں کوپ-28 کے آئندہ اجلاس میں کوئلے کے استعمال کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی امید ہے توایسے میں ہندوستان اپنی ترقی کے لیے بجلی کی فراہمی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ کوپ-28 متحدہ عرب امارات میں ہونے جا رہا ہے۔ کوپ میں شامل ممالک پر کوئلے کے استعمال کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ ہمارا نقطہ نظر واضح ہے، کہ ہم اپنی ترقی کے لیے بجلی کی دستیابی پرسمجھوتہ نہ کریں ، چاہے اس کے لیے ہمیں کوئلے پر مبنی صلاحیت کو شامل کرنے کی ضرورت ہو۔ ایک ہی وقت میں، ہمیں ضرورت ہے اور ہم ان اہداف کو حاصل کریں گے جو ہم نےکوپ میں اپنے لیے مقرر کیے تھے۔
’’بجلی کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری معیشت کتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے‘‘
بجلی کےمرکزی وزیر نے واضح کیا کہ دوسرا چیلنج بجلی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنا ہے لیکن حکومت اس سے نمٹنے کے تئیں پرعزم ہے تاکہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔اگست، ستمبر اور اکتوبر 2023 میں پچھلے سال کے مقابلے میں مانگ میں 20 فیصدکا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہماری معیشت کتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، ہم نے حال ہی میں 2.41 لاکھ میگاواٹ کی سب سے زیادہ مانگ کو پورا کیا جبکہ 18-2017میں سب سے زیادہ مانگ 1.9 لاکھ میگاواٹ تھی۔ اگر بجلی کی مانگ بہت زیادہ بڑھ بھی جاتی ہے، تو ہو سکتا ہے کہ ہم اسے پورا نہ کر سکیں۔ یہ ایک چیلنج ہے جس سے ہمیں نمٹنے کی ضرورت ہے۔
’’بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے، تمام ریاستوں کو بجلی کے سبھی پلانٹس کو پوری صلاحیت کے ساتھ چلانے کی ضرورت ہے‘‘
جناب سنگھ نے کہا کہ حکومت نے بڑھتی ہوئی مانگ کے چیلنج سے نمٹنے کا ایک طریقہ سوچ لیا ہے کہ بجلی کے تمام پلانٹس (بجلی گھروں)کو پوری صلاحیت کے ساتھ چلانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ کچھ ریاستیں اپنے بجلی کے پلانٹس کو زیادہ صلاحیت کے ساتھ نہیں چلا پاتی ہیں اور اس کے بجائے مرکز کے پول سے بجلی مانگتی ہیں۔ اگر کچھ ریاستیں اپنے پلانٹس کو زیادہ مانگ کے مطابق نہیں چلا پارہی ہیں اور مانگ پوری نہیں کرپارہی ہیں تو ہم مرکزی پول سے بجلی نہیں لے سکیں گے ۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کہ ہمارے تمام پلانٹس چلیں اور ہمارے تمام بجلی گھر پوری صلاحیت کے ساتھ چلیں۔
’’بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 80,000 میگاواٹ تھرمل بجلی کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے ‘‘
وزیرموصوف نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمیں بجلی کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل تقریباً 25,000 میگاواٹ بجلی تیار کی جاتی تھی اور بجلی زیادہ تر پبلک سیکٹر میں تیار کی جاتی تھی لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ لہٰذا، ہم نے 25,000 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے اضافے پر کام شروع کیا، لیکن ہمیں مزید 30،000 میگاواٹ پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔یعنی ہمیں تقریباً 80,000 میگاواٹ تھرمل صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ان تمام صلاحیتوں میں اضافہ پبلک سیکٹر کے ذریعے کیا جا رہا ہے، پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری آنا شروع نہیں ہوئی، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ بجلی کےلئے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری آئے گی، کیونکہ ہم نے سسٹم کو قابل عمل بنایا ہے اور یہ شعبہ منافع دیتا ہے۔
’’تمام ریاستوں کو چاہئے کہ وہ کوئلے کی آمیزش کریں تاکہ سپلائی اور مانگ کے درمیان فرق کو دورکیا جاسکے ‘‘
وزیرموصوف نے بتایا کہ گھریلو کوئلے کی کھپت اور گھریلو کوئلے کی آمد کے درمیان فرق ایک اور چیلنج ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کول انڈیا نے پیداوار میں اضافہ کیا ہوگا، لیکن ہماری مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے قلت پیدا ہوئی ہے اور اسی لیے ہمیں 6 فیصد آمیزش کرنے کی ضرورت ہے۔ این ٹی پی سی اور ڈی وی سی آمیزش کر رہے ہیں، ریاستوں کو بھی کوئلے کی کمی کے لحاظ سے آمیزش کرنا چاہیے۔
وزیرموصوف نے اس بات پر زور دیا کہ دستیاب کوئلے کو ریاستوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرنا ہوگا، جو کہ ضروریات پر منحصر ہے۔ ہم بجلی پر سیاست نہیں کرتے۔ یہ ایک مکمل مربوط نظام ہے؛ بجلی کسی بھی ریاست میں پیدا ہوتی ہے اور 3-4 مختلف ریاستوں میں اس کی کھپت ہوتی ہے۔ کہیں کوئلہ، کہیں ہوا اورکہیں شمسی پیدا ہوتی ہے۔ ہم کسی کی طرفداری نہیں کرنے والے ہیں۔ کمی کو سب کو بانٹنا ہوگا اور سب کو پورا کرنا ہوگا۔
وزیر موصوف نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہ کوئلے کی پٹی کے قریب نئے پاور پلانٹس لگائیں تاکہ کوئلے کی طویل فاصلے تک نقل و حمل اور ریک کی دستیابی سے متعلق مسائل پیدا نہ ہوں۔
بجلی کی تقسیم کے شعبے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے آر ڈی ایس ایس کے نفاذ میں تیز تر پیش رفت کی ضرورت ہے
وزیر موصوف نے آر ڈی ایس ایس کے تحت پروجیکٹوں اور فنڈز کے استعمال کی رفتار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
’’زراعت کو بجلی سپلائی کرنے کے لیے قابل تجدید ذرائع کا استعمال کریں، غیر شمسی گھنٹوں کے لیے کوئلے پر مبنی صلاحیت کو بچائیں‘‘
جناب آر کے سنگھ نے ریاستوں سے کہا کہ وہ زرعی بوجھ کو قابل تجدید ذرائع میں تبدیل کرنے اور کوئلے پر مبنی پیداوار کو رات کے لیے محفوظ کرنے کی غرض سے پی ایم-کسم سے فائدہ اٹھائیں، کیونکہ یہ چیلنج غیر شمسی اوقات کے دوران پیدا ہوتا ہے۔
’’مالی سال24-2023 میں 10,000 میگاواٹ تھرمل صلاحیت اور 21,000 میگاواٹ قابل تجدید توانائی کی گنجائش شامل کی جائے گی‘‘
کانفرنس کے تمام شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے،بجلی کے سکریٹری پنکج اگروال نے بتایا کہ ہم ملک میں اس مالی سال کے دوران تقریباً 10,000 میگاواٹ تھرمل صلاحیت اور 21,000 میگاواٹ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کا اضافہ کرنے کے راستے پرگامزن ہیں۔ہم32-2032 تک 900 گیگا واٹ کی کل صلاحیت کی طرف بڑھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔
جناب اگروال نے کہا کہ ٹرانسمیشن کے محاذ پر، ملک یکم اکتوبر 2023 سے جنرل نیٹ ورک تک رسائی پر چلا گیا ہے اور نئی اسکیموں کو باقاعدگی سے منظوری دی جارہی ہے۔حکومت ہند نے 21,000 کروڑ روپےکے پروجیکٹ کی منظوری دی ہےتاکہ لداخ سے 5,000 میگاواٹ قابل تجدید بجلی پیدا کی جاسکے۔ ڈسٹری بیوشن سیکٹر پر، ہم نے دیر سے ادائیگی سرچارج رولز کے نفاذ کے بعد سے اہم نتائج دیکھے ہیں۔ واجب الادا رقم 1,39,000 کروڑ روپے سے کم ہوکر 67,000 کروڑروپے رہ گئی ہے۔ ڈسٹری بیوشن یوٹیلٹیز کے اے ٹی اینڈ سی نقصانات کم ہو رہے ہیں۔آر ڈی ایس ایس کے تحت، ریاستوں نے پہلے ہی ۔ نقصان میں کمی کے کام کاج کے لیے کل 1,21,000 کروڑ روپے کے برعکس 81,000 کروڑ روپے کام کاج کے لئے پہلے ہی منظور کردئے ہیں۔
سکریٹری نے کہا کہ توانائی کی کارکردگی کے محاذ پر ملک نے کاربن مارکیٹ کا آغاز کیا ہے۔ہم نے مینڈیٹ پر مبنی مارکیٹ کے ساتھ شروعات کی ہے اور ہم جلد ہی آفسیٹ میکانزم کی طرف بڑھیں گے۔ ہم نے شمسی پی وی سیلز اور پینلز کے لیے اسٹار لیبلنگ اسکیم شروع کی ہے۔وزیر موصوف نے انڈکشن کک اسٹووز اور کارآمد پنکھوں کی مانگ کو جمع کرنے کا ایک بڑا پروگرام شروع کیا ہے۔
قابل تجدید توانائی کے محاذ پر، جناب اگروال نے بتایا کہ بیٹری انرجی سٹوریج وی جی ایف اسکیم کو 4,000 میگاواٹ گھنٹہ کی صلاحیت کے لیے منظوری دی گئی ہے۔ آر پی اوز کو انرجی کنزرویشن ایکٹ کے تحت مطلع کیا گیا ہے۔ ہم نے پہلے ہی کیپٹیو پاور پلانٹ کے نظام کو آسان بنا دیا ہے اور ہم نظام میں قابل تجدید توانائی کے انضمام کو فروغ دینے کے لیے کھلی رسائی کے نظام کو آسان بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
’’آر ای کی کھپت کے کم از کم حصہ پر نوٹیفکیشن آر ای کی کھپت کے لیے ایک واضح راستہ متعین کرتا ہے‘‘
نئی اور قابل تجدید توانائی کے سکریٹری جناب بھوپندر سنگھ بھلا نے کہا کہ قابل تجدید توانائی کی نصب صلاحیت میں پچھلے 9 سالوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔حکومت ہند نے 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر جیواشم ایندھن کی توانائی کی صلاحیت کو نصب کرنے کا ایک مہتواکانکشی ہدف مقرر کیا ہے۔ 30 ستمبر 2023 تک، ہم نے غیر جیواشم ذرائع سے 186 گیگا واٹ صلاحیت نصب کی ہے، جو کہ تقریباً 43.75 فیصد ہے۔ ہماری کل نصب صلاحیت گزشتہ نو سالوں میں تمام بڑی معیشتوں کے درمیان قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سب سے تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ نصب شدہ صلاحیت دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے 80 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے جس میں خاطر خواہ ایف ڈی آئی بھی شامل ہے۔
جناب بھلا نے کہا کہ اس پیش رفت کے لیے ریاستی حکومتوں کی فعال نقطہ نظر اور تبدیلی کی پالیسیاں بہت اہم ہیں۔ریاستیں 2030 کے لیے ہمارے ہدف کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی رہیں گی۔ مرکز کے پالیسی اقدامات جیسے مسابقتی بولی کا فریم ورک، ٹرانسمیشن چارجز پر رعایتیں، اور مختلف ترغیبی پروگراموں نے نجی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے اور صلاحیت میں اضافہ کو قابل بنایا ہے۔ انرجی کنزرویشن ایکٹ 2001 کی حالیہ ترمیم، مرکزی حکومت کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال میں کم از کم حصہ بتانے کا اختیار دینا اس سمت میں ایک اور قدم ہے۔ وزارت بجلی کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن یکم اپریل 2024 سے نافذ العمل ہو گا، جو قابل تجدید توانائی کے استعمال کے لیے واضح راستہ طے کرے گا۔
نئی اور قابل تجدید توانائی کے سکریٹری نے ریاستوں سے کہا کہ وہ شمسی توانائی کو اپنانے کے لیے پی ایم کسم اور روف ٹاپ سولر اسکیم میں چیلنجوں پر قابو پالیں۔ سکریٹری نے تمام ریاستوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ضوابط کو گرین اوپن ایکسیس رولز کے ساتھ ہم آہنگ کریں، تاکہ قابل تجدید توانائی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختلف ریاستوں کی طرف سے سرشار گرین ہائیڈروجن پالیسیوں کی ترقی ایک امید افزا قدم ہے۔ جناب بھلا نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستی حکومتوں کو پی وی ماڈیولز کے لیے مینوفیکچرنگ سہولیات کی بروقت کمیشننگ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
افتتاحی اجلاس یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
دو روزہ کانفرنس کے ایجنڈے میں ملک کے بجلی اور قابل تجدید توانائی کے شعبے سے متعلق درج ذیل اسکیمیں اور مسائل شامل ہیں۔
- ہندوستان کے این ڈی سیز اور نئے آر پی او کے ساتھ وسائل کی مناسبت کا منصوبہ
- پی ایم- کسم اسکیم
- روف ٹاپ سکیم فیز – II
- نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن
- شمسی پارکس
- ماحولیات کے لئے ساز گارتوانائی کوریڈو
- پی ایل آئی اسکیم سے متعلق مسائل
- ہوا کی توانائی سے متعلق مسائل
- گرین اوپن ایکسیس رولز
- آر ڈی ایس ایس کا جائزہ
- ڈی آئی ایس سی او ایمز کے قابل عمل میٹرکس کا جائزہ
- بڑھتی ہوئی طلب اور صلاحیت میں اضافہ۔
- پمپ اسٹوریج پروجیکٹس (پی ایس پیز)
- نیشنل ٹرانسمیشن پلان
- بجلی کے صارفین کے حقوق کا نفاذ
- کاربن مارکیٹ
- توانائی کی منتقلی پر ریاستی سطح کی کمیٹی
- ای-موبلٹی (ریاستوں کا کردار)
- ای ای ایس ایل واجبات (اسٹریٹ لائٹس نیشنل پروگرام)
***********
ش ح ۔ ح ا - م ش
U. No.735
(Release ID: 1975133)
Visitor Counter : 135