وزارت دفاع

نئی دہلی میں 13ویں انڈو پیسفک آرمی چیفس کانفرنس میں وزیر دفاعنے کہا کہ ہند-بحرالکاہل خطے کی پیچیدگیاں اور غیر استعمال شدہ امکانات ایک خوشحال، محفوظ اور شمولیات پر مبنی مستقبل کے لیے مشترکہ کوششوں کا مطالبہ کرتے ہیں


’’ہندوستان ایک آزاد، کھلے،شمولیات اورضابطوں پر مبنی ہند-بحرالکاہل کا حامی ہے ‘‘

’’دوست ممالک کے ساتھ مضبوط فوجی شراکت داری قائم کرنے کی ہماری کوششیں قومی مفادات کے تحفظ اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے ہمارے عزم کو واضح کرتی ہیں‘‘

Posted On: 26 SEP 2023 11:42AM by PIB Delhi

وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ نے ہند-بحرالکاہل خطے کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی دانشمندی اور مشترکہ کوششوں پر زور دیا ہے، تاکہ پوری صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے، ایک ایسے مستقبل کو یقینی بنایا جاسکے جس میں خوشحالی،سلامتی اور جوشمولیت  پر مبنی ہواور جوقدیم ہندوستانی روایات’وسودھیو کٹمبکم‘ (دنیا ایک خاندان ہے) اورجی-20کے نصب العین’ایک کرہ ارض ، ایک خاندان، ایک مستقبل‘ سے ہم آہنگ  ہو۔  وزیر دفاع 26 ستمبر 2023 کو نئی دہلی میں 13 ویں انڈو پیسیفک آرمی چیفس کانفرنس (آئی پی اے سی سی)سے افتتاحی خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر  چیف آف ڈیفنس اسٹاف ، فوج کے سربراہ جنرل منوج پانڈے اور آرمیز کے سربراہان اور 35 ملکوں کے مندوبین موجود تھے۔

جناب راجناتھ سنگھ نے زور دے کر کہا کہ ہند-بحرالکاہل  کی اہمیت اب محض ایک سمندر کی  نہیں رہی، بلکہ پوری طرح سے ایک جغرافیائی اور اسٹریٹجک  خطہ بن گیا ہے ، اور یہ خطہ سرحدی تنازعات اور قزاقی سمیت سیکورٹی چیلنجوں کے پیچیدہ جال کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکی مصنف اور اسپیکر مسٹر اسٹیفن آر کووی کے ایک نظریاتی ماڈل کے ذریعے اپنے وژن کی وضاحت کی، جو کہ دو سرکلز– ’سرکل آف کنسرن‘ اور’سرکل آف انفلوئنس‘ پر مبنی ہے۔

’سرکل آف کنسرن‘ ہراس چیز کااحاطہ کرتا ہے جس کی کوئی فکر کرتا ہے،بشمول وہ چیزیں جن پر قابو پایا جاسکتا ہے اور وہ چیزیں  جن پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اس میں بیرونی عوامل اور مسائل کی ایک وسیع رینج شامل ہے جیسے عالمی واقعات، معاشی حالات،دوسرے لوگوں کی رائے، موسم اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلو۔ ’سرکل آف انفلوئنس‘ میں ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جن پر کسی کا براہ راست کنٹرول ہوتا ہے یا وہ کسی حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس میں آپ کے رویے، برتاؤ، فیصلے، تعلقات اور اعمال شامل ہو سکتے ہیں۔

اس ماڈل کو بین الاقوامی تعلقات  پرلاگو کرتے ہوئے،وزیر دفاع نے کہا:’’ایسے واقعات ہوسکتے ہیں جب مختلف  ملکوں کے ’سرکل آف کنسرن‘   ایک دوسرے کے ساتھ اوورلیپ  کریں ۔کسی بھی ملک کے خصوصی اقتصادی زونز سے ہٹ کر گہرے سمندروں سے گزرنے والے بین الاقوامی بحری تجارتی راستے متعلقہ مثالیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں یا توملکوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے یا وہ باہمی طور پر رابطے کے اصول طے کر کے ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ان سرکلز کا تصور اسٹریٹجک سوچ اور ترجیح کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

جناب راج ناتھ سنگھ نے واضح کیا کہ  ملکوں کو یہ تسلیم کرنا  ہوگا کہ عالمی مسائل میں متعدد فریق شامل ہیں اور کوئی بھی ملک تنہا ان چیلنجوں سے نمٹ نہیں سکتا۔انہوں نے وسیع تر بین الاقوامی برادری کے ساتھ منسلک ہونے اور سفارت کاری، بین الاقوامی تنظیموں اور معاہدوں کے ذریعے باہمی تعاون کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اوور لیپنگ ’سرکلز آف کنسرن‘ میں مشترکہ خدشات سے نمٹا جاسکے ۔انہوں نے سمندر کے قانون  سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن(یو این سی ایل او ایس)1982 کو اس طرح کے بین الاقوامی معاہدے کی ایک اچھی مثال قرار دیا جو سمندری سرگرمیوں کے لیے قانونی فریم ورک قائم کرتا ہے اور مختلف ملکوں کے ’سرکل آف کنسرن‘ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرتا ہے۔

وزیر دفاع کا موقف تھا کہ ریاستوں کو،ساتھ ہی، عالمی سطح پر قومی مفادات کو فروغ دینے کے لیے اپنے ’سرکل آف انفلوئنس‘ کی شناخت اور اسے بڑھانے کی کوشش کرنی  ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اس میں شراکت داری  قائم کرنا ، اور علاقائی تنظیموں میں شرکت اور سفارتی،اقتصادی یا فوجی ٹولس  کواسٹریٹجک طریقے  سے استعمال کرنا شامل ہو سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ کانفرنس ایک مشق ہے جہاں ہم سب  ’سرکل آف کنسرن‘  کے اوورلیپس کو ہم آہنگ بناتے ہوئےاپنے ’سرکلز آف انفلوئنس‘ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘‘۔

جناب راج ناتھ سنگھ نے آئی پی اے سی سی،انڈو پیسیفک آرمیز مینجمنٹ سیمینار (آئی پی اے ایم ایس) اور سینئر انلسٹڈ لیڈرز فورم (ایس ای ایل ایف) کو خطے میں بری افواج کے سب سے بڑے بحث و مباحثے کے پروگراموں میں سے ایک قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ یہ تقریبات مشترکہ وژن کی سمت مشترکہ نظریہ  قائم کرنے کے لیے  ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہیں  اورسبھی کے لئے  شراکت پر مبنی سکیورٹی کے جذبے کے تحت پارٹنر شپ قائم کرتی ہے اور اسے مضبوطی فراہم کرتی ہیں۔

وزیر دفاع نے مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کے حصول میں آزاد، کھلے،شمولیت اورضابطوں پر مبنی ہند-بحرالکاہل خطے کے لیے ہندوستان کے موقف کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے ’پڑوسی مقدم‘کو قدیم زمانے سے ہندوستان کی ثقافت کا سنگ بنیاد قرار دیا۔ خطے کے لیے ہندوستان کے نقطہ نظر کا تعین اس کی ’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘ سے ہوتا ہے، انہوں نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے وژن کو دہراتے ہوئے کہا: ’’ہند بحرالکاہل میں ہماری مصروفیت پانچ’ایس‘پر مبنی ہے: سمان (احترام)؛ سمواد (مکالمہ)؛ سہیوگ (تعاون)؛ شانتی (امن) اور سمردھی (خوشحالی)۔

جناب راج ناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ دوست ممالک کے ساتھ مضبوط فوجی شراکت داری قائم کرنے کی طرف ہندوستان کی کوششیں نہ صرف قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اس کے عزم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ سبھی کو درپیش عالمی چیلنجوں  کو بھی حل کرتی ہیں۔آب وہوا میں  تبدیلی کے بارے میں، جو ایک سنگین عالمی چیلنج ہے، انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلح افواج، اپنی غیر متزلزل لگن اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ، آفات کی صورت میں سب سے پہلے حرکت میں آتی ہیں اور انسانی امداد اورآفات کے دوران راحت رسانی  (ایچ اے ڈی آر) کی کوششوں میں کام کرتی ہے۔

وزیر دفاع نے تجویز پیش کی کہ تین روزہ پروگرام میں ایچ اے ڈی آر آپریشنز کے دوران باہمی تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا جائے۔شدید  موسمی حالات اور قدرتی آفات مستثنیات ہونے کے بجائے نیا معمول بن چکے ہیں اور ہمارے خطے  کے لئے بڑے چیلنجز ہیں۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہند بحرالکاہل کے چھوٹے جزیرائی ممالک کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خدشات کو وہ اہمیت دی جائے جس کے وہ حقدار ہیں، کیونکہ یہ  بقا کا ایک بحران کے طور پر آب و ہوا میں تبدیلی کےاثرات کو برداشت کرتے ہیں۔آب و ہوا میں  تبدیلیوں سے ان کی اقتصادی سلامتی کو بھی خطرہ ہے۔آب و ہوا میں تبدیلی اورشدید موسم کے معاشی اثرات آب و ہوا کے لیے لچکدار اور ماحول دوست بنیادی ڈھانچے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تمام شراکت دار ممالک کی مجبوریوں اور نقطہ نظر کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مہارت اور وسائل کو بانٹنے کی ضرورت ہے۔

جناب راج ناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ اگرچہ ایک بڑے گروپ میں کارروائی کے منصوبے پر متفق ہونا مشکل کام ہے، تاہم عزم اور ہمدردی کے ساتھ یہ ناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ختم ہونے والی جی-20 کانفرنس کا حوالہ دیا اور کہا کہ ممالک کے گروپ نے تمام ترقیاتی اور جغرافیائی سیاسی مسائل پر اتفاق رائے کے ساتھ نئی دہلی قائدین کے اعلامیہ کو اپنایا، جس سے یہ تاریخی اور ڈگر سے ہٹ کر بن گئی ہے۔

ہندوستانی فوج اور ریاستہائے متحدہ کی فوج 13ویں آئی پی اے سی سی ، 47ویں آئی پی اے ایم ایس اور 9ویں ایس ای ایل ایف کی مشترکہ میزبانی کر رہی ہیں،جو کہ نئی دہلی میں  25 سے 27 ستمبر 2023 کو منعقد ہورہی  35 ممالک کے  فوجی سربراہان  اور مندوبین کی تین روزہ کانفرنس  ہے۔اس فورم  کے لئےمرکزی موضوع ہے’امن کے لیے ایک ساتھ:ہند-بحرالکاہل خطے میں پائیدار امن و استحکام کو برقرار رکھنا‘۔ یہ کانفرنس  فوجی سربراہان اوربری افواج کے اعلیٰ سطح کےلیڈرز کو، بنیادی طور پر ہند-بحرالکاہل خطے کے بارے میں سکیورٹی اور عصری مسائل پر خیالات  اور موقف کے تبادلے کا موقع فراہم کرے گی۔ فورم کی بنیادی کوشش ساحلی شراکت داروں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم، بات چیت اور دوستی کے ذریعے ہند-بحرالکاہل خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینا ہوگی۔

***********

 

 

ش ح ۔  ف ا - م ش

U. No.9955



(Release ID: 1960815) Visitor Counter : 130