وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

’من کی بات‘ کی 103ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا  متن (30 جولائی ، 2023 ء   )

Posted On: 30 JUL 2023 11:45AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔

  'من کی بات' میں آپ سب کا پرتپاک استقبال۔ جولائی کا مہینہ یعنی  مان سون کا مہینہ، بارش کا مہینہ۔ گزشتہ چند روز قدرتی آفات کی وجہ سے پریشانی اور مشکلات سے بھرے ہوئے  رہے ہیں۔ یمنا سمیت کئی دریاؤں  میں  سیلاب  کی وجہ سے کئی علاقوں کے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں  مٹی کے تودے کھسکنے کے واقعات بھی ہوئے ہیں ۔  اسی دوران ، ملک کے مغربی حصے میں، بپرجوئے سائیکلون کچھ عرصہ قبل گجرات کے علاقوں سے بھی ٹکرایا تھا  ۔ لیکن  ساتھیوں ،  ان آفات کے درمیان ہم سب ہم وطنوں نے  پھر دکھا دیا ہے کہ اجتماعی کوشش کی قوت کیا ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں نے ، ہمارے این ڈی آر ایف کے جوانوں ، مقامی انتظامیہ کے لوگوں نے  ، اس طرح کی آفات سے نمٹنے کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ ہماری صلاحیتیں اور وسائل کسی بھی آفت سے نمٹنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں  لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری حساسیت اور ہاتھ تھامنے کا جذبہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ سَرو جَن ہِتایے  کا یہی جذبہ  بھارت کی پہچان  بھی ہے اور بھارت کی قوت بھی ہے۔

ساتھیو ،  بارش کا یہ مرحلہ 'درخت لگانے' اور 'پانی کے تحفظ' کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کے دوران بنائے گئے 60 ہزار سے زیادہ امرت سرووروں میں بھی رونق بڑھ گئی ہے ۔ اس وقت 50 ہزار سے زیادہ امرت سروور بنانے کا کام  بھی چل رہا ہے۔ ہمارے ہم وطن پوری بیداری اور ذمہ داری کے ساتھ 'پانی کے تحفظ' کے لیے نئی کوششیں کر رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، کچھ وقت  پہلے، میں ایم پی  کے شاہڈول گیا تھا۔ وہاں میری ملاقات پکریا گاؤں کے قبائلی بھائیوں اور بہنوں سے ہوئی۔  وہیں پر میری ان سے فطرت اور پانی کو بچانے کے لیے  بات  چیت ہوئی ۔ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ پکریا گاؤں کے قبائلی بھائی بہنوں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ یہاں انتظامیہ کی مدد سے لوگوں نے تقریباً سو کنوؤں کو واٹر ریچارج سسٹم میں تبدیل کر دیا ہے۔ بارش کا پانی اب ان کنوؤں میں آتا ہے اور کنوؤں سے پانی زمین  کے اندر چلا جاتا ہے۔ اس سے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بتدریج بہتر ہوگی۔ اب تمام گاؤں والوں نے ری چارجنگ کے لیے پورے علاقے میں تقریباً 800 کنویں استعمال کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایسی ہی ایک حوصلہ افزا خبر یوپی سے آئی ہے۔ کچھ دن پہلے اتر پردیش میں ایک دن میں 30 کروڑ درخت لگانے کا ریکارڈ بنایا گیا ہے۔ یہ مہم ریاستی حکومت نے شروع کی تھی۔ اسے وہاں کے لوگوں نے مکمل کیا۔ اس طرح کی کوششیں عوامی شرکت کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری کی بہترین مثالیں ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ہم سب درخت لگانے اور پانی کو بچانے کی  ،ان کوششوں کا حصہ بنیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس وقت ساون کا مقدس مہینہ چل رہا ہے۔  سادھنا  - ارادھنا کے ساتھ  ہی  'ساون' ہریالی اور خوشیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے 'ساون' روحانی اور ثقافتی نقطہ نظر سے بہت اہم رہا ہے۔ ساون کے جھولے، ساون کی مہندی، ساون کے تہوار... یعنی 'ساون' کا مطلب ہی خوشی اور جوش ہے۔

ساتھیو ، اس عقیدے اور ہماری ان روایات کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ ہمارے یہ تہوار اور روایات ہمیں متحرک بناتی ہیں۔ بہت سے عقیدت مند ساون میں شیو کی پوجا کرنے کے لیے  کانوڑ  یاترا پر  نکلتے ہیں۔ ان دنوں بے شمار عقیدت مند 'ساون' کی وجہ سے 12 جیوترلنگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ بنارس پہنچنے والوں کی تعداد بھی ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ اب ہر سال 10 کروڑ سے زیادہ سیاح کاشی پہنچ رہے ہیں۔ ایودھیا، متھرا، اجین جیسے  تیرتھوں پر آنے والے عقیدت مندوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس سے لاکھوں غریبوں کو روزگار مل رہا ہے۔ ان کی روزی روٹی کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ یہ سب ہماری اجتماعی ثقافتی بیداری کا نتیجہ ہے۔ اب ’درشن‘ کے لیے دنیا بھر سے لوگ ہماری  تیرتھوں پر آ رہے ہیں۔ مجھے ایسے ہی دو امریکی دوستوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے  ، جو کیلیفورنیا سے یہاں امرناتھ یاترا کرنے آئے تھے۔ ان غیر ملکی مہمانوں نے امرناتھ یاترا سے متعلق سوامی وویکانند کے تجربات کے بارے میں کہیں سنا تھا۔ انہیں اتنا حوصلہ ملا کہ وہ خود امرناتھ یاترا کے لیے آئے۔ وہ اسے بھگوان بھولے ناتھ کا آشیرواد  مانتے ہیں۔ یہی بھارت کی خاصیت ہے کہ وہ سب کو  اپناتا ہے،  سب کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے۔ اسی طرح ایک فرانسیسی نژاد خاتون ہے - شارلوٹ شوپا۔  گذشتہ دنوں ، جب میں فرانس گیا تھا تو ان سے  میری ملاقات ہوئی تھی۔ شارلوٹ شوپا   ایک یوگا پریکٹیشنر، یوگا ٹیچر ہیں اور ان کی عمر 100 سال سے زیادہ ہے۔ وہ ایک سنچری  پار کر چکی ہیں ۔ وہ گزشتہ 40 سالوں سے یوگا کی مشق کر رہی ہیں۔ وہ اپنی صحت اور اس 100 سال کی عمر کا سہرا صرف یوگا کو دیتی ہیں ۔ وہ  دنیا میں بھارت کی یوگ کی سائنس اور اس کی طاقت کا ایک نمایاں چہرہ بن گئی ہیں۔ سب کو ان سے سیکھنا چاہیے۔ آئیے  ، ہم اپنے ورثے کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اسے ذمہ داری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مجھے خوشی ہے کہ ایسی ہی ایک کوشش ، ان دنوں اجین میں چل رہی ہے۔ یہاں ملک بھر کے 18 مصور پرانوں پر مبنی پرکشش تصویری کہانیاں بنا رہے ہیں۔ یہ پینٹنگز بہت سے مخصوص انداز میں بنائی جائیں گی جیسے کہ بوندی اسٹائل، ناتھ دُوارا اسٹائل، پہاڑی اسٹائل اور اَپ بھرنش اسٹائل۔  انہیں  اُجّین کے تروینی میوزیم میں  لگایا جائے گا یعنی کچھ  وقت بعد، جب آپ اُجّین جائیں گے ،  تو مہاکال مہا  لوک کے ساتھ ساتھ ایک اور  قابل دید مقام  کا آپ دیدار کر سکیں گے ۔

ساتھیو ،  اجین میں  بن رہی ، اِن پینٹنگز کی بات کرتے ہوئے  ، مجھے ایک اور  انوکھی پینٹنگ  کی یاد آ رہی ہے۔ یہ پینٹنگ راجکوٹ کے ایک آرٹسٹ پربھات سنگھ موڈ بھائی برہاٹ جی  نے بنائی تھی۔

یہ پینٹنگ چھترپتی ویر شیواجی مہاراج کی زندگی کے ایک واقعے پر مبنی تھی۔ آرٹسٹ پربھات بھائی نے تصویر کشی کی تھی کہ چھترپتی شیواجی مہاراج تاج پوشی کے بعد اپنی کلدیوی 'تلجا ماتا' سے ملنے جا رہے تھے اور اس وقت وہاں کا ماحول کیسا تھا۔ اپنی روایات، اپنے ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے  ، ہمیں اسے بچانا ہوگا، اسے جینا ہوگا، آنے والی نسلوں کو سکھانا ہوگا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج اس سمت میں بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

اکثر اوقات، جب ہم ماحولیات، نباتات، حیوانات، حیاتیاتی تنوع جیسے الفاظ سنتے ہیں، تو کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ خصوصی  موضاعات ہیں۔ ماہرین سے متعلق مضامین ہیں  لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر ہمیں فطرت سے محبت ہے تو ہم اپنی چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ سریش راگھون جی تمل ناڈو کے وڈّاولی کے ایک  ساتھی ہیں۔ راگھون جی کو پینٹنگ کا شوق ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پینٹنگ آرٹ اور کینوس سے متعلق ایک کام ہے لیکن راگھون جی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی پینٹنگز کے ذریعے  پیڑ پودوں اور جانوروں کے بارے میں معلومات کو محفوظ  کریں گے۔ وہ متنوع نباتات اور حیوانات کی پینٹنگز بنا کر  ، ان سے متعلق معلومات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں ۔ اب تک ، وہ ایسے درجنوں پرندوں، جانوروں،  باغوں کی پینٹنگز بنا چکے ہیں، جو معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ فن کے ذریعے فطرت کی خدمت کی یہ مثال واقعی حیرت انگیز ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتانا چاہتا ہوں۔ کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک حیرت انگیز کریز  دیکھنے میں آیا ۔ امریکہ  نے ہمیں سو سے زائد نادر اور قدیم نوادرات واپس  لوٹائی ہیں ۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر  ، ان نوادرات کا خوب چرچا ہوا۔ نوجوانوں نے اپنے ورثے پر فخر کا اظہار کیا۔  بھارت کو لوٹائے گئے یہ نوادرات ڈھائی ہزار سے لے کر  250 سال  تک پرانی ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوگی کہ ان نایاب اشیاء کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ یہ ٹیراکوٹا، پتھر، دھات اور لکڑی کا استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں  جو  آپ کو حیرت زدہ کر دیں گے۔ اگر آپ ان پر ایک نظر ڈالیں تو آپ مسحور رہ جائیں گے۔ ان میں سے آپ کو 11ویں صدی کا ایک خوبصورت سینڈ اسٹون کا مجسمہ بھی دیکھنے کو ملے گا۔ یہ ایک رقص  کرتی ہوئی 'اپسرا'  کا  مجسمہ ہے، جس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔ چول دور کی کئی مورتیاں بھی ، ان میں شامل ہیں۔  بھگوان مرگن کی مورتیاں تو  12ویں صدی کی ہیں اور  تمل ناڈو تمل ناڈو کی  شاندار ثقافت  کا حصہ ہیں ۔ بھگوان گنیش کی تقریباً ایک ہزار سال پرانی کانسے کی مورتی بھی بھارت کو واپس کی گئی ہے۔ للت آسن میں  بیٹھے اوما -مہیشور کی مورتی 11ویں صدی کی بتائی جاتی ہے ، جس میں  وہ دونوں نندی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جین تیرتھنکروں کی پتھر کی دو مورتیاں بھی  بھارت واپس آئیں ہیں۔ بھگوان سوریا دیو کی دو مورتیاں بھی آپ کو مسحور کر دیں گی۔ ان میں سے ایک سینڈ اسٹون سے بنی ہے۔ واپس کی جانے والی اشیاء میں لکڑی سے بنا ایک پینل بھی شامل ہے، جو سمدر  منتھن کی کہانی کو  پیش کرتا ہے۔  16ویں-17ویں صدی کا یہ پینل جنوبی  بھارت سے وابستہ ہے۔

ساتھیو ، میں نے یہاں صرف چند نام بتائے ہیں، جب کہ اگر آپ دیکھیں تو یہ فہرست بہت  لمبی ہے۔ میں امریکی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جس نے ہمارا یہ قیمتی ورثہ واپس کیا۔  2016  ء اور 2021 ء میں بھی ،  جب میں نے امریکہ کا دورہ کیا تھا، تب بھی بہت سے نوادرات  بھارت کو واپس کی گئی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے ہمارے ثقافتی ورثے کی چوری روکنے کے لیے ملک بھر میں بیداری بڑھے گی۔ اس سے ہم وطنوں کا ہمارے شاندار ورثے سے لگاؤ مزید گہرا ہو گا۔

میرے پیارے ہم وطنو، دیو بھومی اتراکھنڈ کی کچھ ماؤں اور بہنوں کی طرف سے مجھے لکھے گئے خطوط دل کو چھو لینے والے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو ، اپنے بھائی کو بہت سارا   آشیرواد یا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ - 'انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارا قدیم ثقافتی ورثہ 'بھوج پتر' ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سارا معاملہ کیا ہے!

ساتھیو ، یہ خط مجھے چمولی ضلع کی نیتی مانا  وادی کی خواتین نے لکھے ہیں ۔ یہ وہی خواتین ہیں  ، جنہوں نے مجھے گزشتہ سال اکتوبر میں بھوج پتر پر ایک انوکھا  آرٹ ورک پیش کیا تھا۔ یہ تحفہ پا کر میں بھی بہت خوش ہوا۔ بہر حال، قدیم زمانے سے، ہمارے صحیفے اور کتابیں ان بھوج پتروں پر محفوظ ہیں۔ بھوج پتر پر مہابھارت بھی لکھی گئی تھی۔ آج دیو بھومی کی یہ خواتین بھوج پتر سے بہت خوبصورت نوادرات اور یادگاریں بنا رہی ہیں۔ مانا گاؤں کے دورے کے دوران میں نے ان کی  انوکھی کوشش  کو سراہا تھا۔ میں نے دیو بھومی آنے والے سیاحوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے دورے کے دوران زیادہ سے زیادہ مقامی مصنوعات خریدیں۔ وہاں اس کا بڑا اثر ہوا ہے۔ آج بھوج پتر کی مصنوعات یہاں آنے والے یاتریوں کو بہت پسند ہیں اور وہ اسے اچھی قیمت پر خرید بھی رہے ہیں۔ بھوج پتر کا یہ قدیم ورثہ اتراکھنڈ کی خواتین کی زندگیوں میں خوشیوں کے نئے رنگ بھر رہا ہے۔ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ریاستی حکومت خواتین کو بھوج پتر سے نئی نئی مصنوعات بنانے کی تربیت بھی دے رہی ہے۔

ریاستی حکومت نے بھوج پتر کی نایاب نسلوں  کے تحفظ کے لیے  بھی ایک مہم بھی شروع کی ہے۔ جن علاقوں کو کبھی  ملک  کا آخری  حصہ  سمجھا جاتا تھا ، اب انہیں ملک کا پہلا گاؤں سمجھ کر ترقی دی جا رہی ہے۔ یہ کوشش ہماری روایت اور ثقافت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، مجھے بھی اس بار ’من کی بات‘ میں ایسے خطوط کی ایک بڑی تعداد موصول ہوئی ہے ، جو ذہن کو بہت اطمینان بخشتی ہے۔ یہ خطوط ان مسلم خواتین نے لکھے ہیں  ، جو حال ہی میں حج  کا سفر کرکے  آئی ہیں۔ ان کا یہ سفر کئی لحاظ سے بہت خاص ہے۔ یہ وہ عورتیں ہیں ، جنہوں نے بغیر کسی مرد ساتھی یا محرم کے حج کیا ہے اور ان کی تعداد پچاس یا سو نہیں بلکہ چار ہزار سے زیادہ ہے، یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس سے قبل مسلم خواتین کو محرم کے بغیر حج کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ من کی بات کے ذریعے میں سعودی عرب کی حکومت کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ محرم کے بغیر حج پر جانے والی خواتین کے لیے خصوصی طور پر خواتین کوآرڈینیٹر  بھی مقرر  کی گئی تھیں ۔

ساتھیو ، گزشتہ چند سالوں میں حج پالیسی میں ، جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، ان کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ ہماری مسلمان ماؤں بہنوں نے مجھے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اب، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو 'حج' پر جانے کا موقع مل رہا ہے۔ حج سے واپس آنے والے لوگوں کو خصوصاً ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے خطوط کے ذریعے ، جو آشیرواد دیا ہے ، وہ اپنے آپ میں بہت متاثر کن ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، چاہے جموں کشمیر میں میوزیکل نائٹس ہوں، بلندی پر بائیک ریلیاں ہوں، چندی گڑھ کے مقامی کلب ہوں اور پنجاب کے بہت سے کھیلوں کے گروپ ہوں، ایسا لگتا ہے کہ ہم تفریح اور ایڈونچر کی بات کر رہے ہیں لیکن یہ کچھ مختلف ہے ۔   اس واقعہ کا تعلق بھی ایک ' کامن کاز ' سے  جڑا ہوا ہے اور یہ  کامن کاز ہے - منشیات کے خلاف  بیداری مہم ۔ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو منشیات سے بچانے کے لیے کئی اختراعی کوششیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ یہاں میوزیکل نائٹ، بائیک ریلیاں جیسے پروگرام ہو رہے ہیں۔ چنڈی گڑھ میں اس پیغام کو پھیلانے کے لیے مقامی کلبوں کو اس سے جوڑا گیا ہے۔ وہ انہیں وادا  کلب کہتے ہیں۔ وادا  یعنی  وِکٹری اگینٹ ڈرگ ایبیوز ۔ پنجاب میں کئی اسپورٹس گروپس بھی بنائے گئے ہیں ، جو فٹنس پر توجہ دینے اور نشے کی لت سے نجات کے لیے بیداری مہم چلا رہے ہیں۔ منشیات کے خلاف مہم میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی شرکت بہت حوصلہ افزا ہے۔ ان کوششوں سے بھارت میں منشیات کے خلاف مہم کو کافی تقویت ملتی ہے۔ اگر ہم ملک کی آنے والی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں منشیات سے دور رکھنا  ہی ہوگا۔ اسی سوچ کے ساتھ 15 اگست ،  2020  ء کو 'نشہ سے پاک بھارت  مہم ' شروع کی گئی تھی ۔ اس مہم سے 11 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو جوڑا گیا ہے ۔ دو ہفتے قبل بھارت نے منشیات کے خلاف بڑی کارروائی کی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ  لاکھ کلو منشیات کی کھیپ ضبط کرنے کے بعد اسے  تلف کر دیا گیا ہے۔ بھارت نے 10 لاکھ کلو منشیات تلف کرنے کا انوکھا ریکارڈ بھی بنا ڈالا ہے ۔ ان منشیات کی قیمت 12000 کروڑ روپئے سے زیادہ تھی۔ میں ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا   ، جو نشے سے نجات کی اس عظیم مہم میں اپنا  تعاون دے رہے ہیں۔  نشے  کی لت نہ صرف خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں اس خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اس سمت میں آگے بڑھیں۔

       میرے پیارے ہم وطنو، منشیات اور نوجوان نسل کے بارے میں بات کرتے ہوئے، میں آپ کو مدھیہ پردیش کے ایک متاثر کن سفر کے بارے میں بھی بتانا چاہوں گا۔ یہ منی برازیل کا متاثر کن سفر ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مدھیہ پردیش میں منی برازیل کہاں سے آیا، ٹھیک ہے،  یہی تو ٹوئسٹ ہے۔ ایم پی  کے شاہڈول میں ایک گاؤں ہے ، بیچار پور ۔ بیچارپور کو منی برازیل  بھی کہا جاتا ہے۔ ’منی برازیل‘  اس لیے   کیونکہ یہ گاؤں  آج فٹ بال کے ابھرتے ہوئے ستاروں کا گڑھ بن گیا ہے۔ جب میں چند ہفتے قبل شاہڈول گیا تھا تو  میری ملاقات ایسے  کئی فٹ بال کھلاڑیوں  کے ساتھ ہوئی ۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ہم وطنوں اور خاص کر ہمارے نوجوان دوستوں کو اس کے بارے میں جاننا چاہیے۔

ساتھیو ، بیچار  پور گاؤں کا منی برازیل بننے کا سفر  دو ڈھائی دہائیوں پہلے شروع ہوا تھا۔ اس  وقت  بیچار  پور گاؤں  غیر قانونی شراب کے لیے بدنام تھا، نشہ کی  گرفت میں تھا۔ اس قسم کے ماحول کا سب سے بڑا نقصان ، یہاں کے نوجوانوں کو  ہو رہا تھا ۔ ایک سابق قومی کھلاڑی اور کوچ رئیس احمد نے ، ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پہچانا۔ رئیس جی کے پاس بہت زیادہ وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نے پوری لگن سے نوجوانوں کو فٹ بال سکھانا شروع کیا۔ چند ہی سالوں میں فٹ بال اس قدر مقبول ہو گیا کہ بیچار پور گاؤں  کی پہچان ہی فٹ بال سے  ہونے لگی ۔ اب یہاں فٹ بال کرانتی کے نام سے ایک پروگرام بھی چل رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو اس کھیل سے جوڑا جاتا ہے اور انہیں تربیت دی جاتی ہے۔ یہ پروگرام اتنا کامیاب رہا ہے کہ بیچار  پور سے 40 سے زیادہ قومی اور ریاستی سطح کے کھلاڑی سامنے آئے ہیں۔ فٹ بال کا یہ انقلاب اب آہستہ آہستہ پورے خطے میں پھیل رہا ہے۔ شاہڈول اور اس کے گردونواح میں 1200 سے زائد فٹ بال کلب بن چکے ہیں۔ یہاں سے بڑی تعداد میں کھلاڑی ابھر رہے ہیں ، جو قومی سطح پر کھیل رہے ہیں۔ آج، فٹ بال کے کئی نامور سابق کھلاڑی اور کوچ یہاں کے نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ایک قبائلی علاقہ ، جو ناجائز شراب کے لیے مشہور تھا، نشے کے لیے بدنام تھا، وہ اب ملک کی فٹ بال نرسری بن  گیا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں چاہ ، وہاں راہ ۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یقیناً انہیں ڈھونڈنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یہ نوجوان ملک کا نام بھی روشن کرتے ہیں اور ملک کی ترقی کو سمت بھی دیتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ہم سب 'امرت مہوتسو' پورے جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ 'امرت مہوتسو' کے دوران ملک میں تقریباً دو لاکھ پروگرام منعقد کیے گئے ہیں۔ یہ پروگرام  ایک سے بڑھ کر ایک رنگوں سے سجے تھے... تنوع سے بھرے تھے۔ ان تقریبات کی خوبی یہ رہی کہ نوجوانوں کی ریکارڈ تعداد نے ان میں شرکت کی۔ اس دوران ہمارے نوجوانوں کو ملک کی عظیم شخصیات کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔ اگر ہم صرف ابتدائی چند مہینوں کی بات کریں تو ہمیں عوامی شرکت سے متعلق بہت سے دلچسپ پروگرام دیکھنے کو ملے۔ ایسا ہی ایک پروگرام تھا - دِویانگ  ادیبوں کے لیے 'رائٹرز میٹ' کا انعقاد۔ اس میں لوگوں کی ریکارڈ تعداد میں شرکت دیکھی گئی۔ وہیں آندھرا پردیش کے تروپتی میں 'قومی سنسکرت کانفرنس' کا انعقاد کیا گیا۔ ہم سبھی  اپنی تاریخ میں قلعوں کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس کی عکاسی کرنے والی ایک مہم، ’قلعہ اور کہانیاں‘ یعنی قلعوں سے متعلق کہانیاں بھی لوگوں نے پسند کیں۔

ساتھیو ،  آج جب ملک میں چاروں طرف امرت مہوتسو  کی گونج ہے  ،  15 اگست   پاس ہی ہے تو  ملک میں ایک اور بڑی مہم کی شروعات ہونے جا رہی ہے   ۔ شہید بہادر مرد و خواتین  کو  خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ،  'میری ماٹی میرا دیش' مہم شروع  ہو گی۔ اس کے تحت  ملک بھر میں ہمارے امر شہیدوں کی یاد میں  بہت سے پروگرام منعقد  ہوں گے۔ ان  عظیم شخصیات کی یاد میں ملک کی لاکھوں گاؤں پنچایتوں میں خصوصی  کتبے بھی لگائے جائیں گے۔ اس مہم کے تحت ملک بھر میں 'امرت کلش یاترا'  بھی نکالی جائے گی ۔ یہ امرت کلش یاترا ملک کے  گاؤں گاؤں سے ، کونے کونے سے 7500 کلشوں میں مٹی لے کر ملک کی راجدھانی دلّی پہنچے گی۔ یہ  یاترا  اپنے ساتھ ملک کے  الگ الگ حصوں سے پودے بھی لے کر  آئے گی ۔ 7500 کلش میں آئی مٹی اور پودوں سے ملاکر پھر نیشنل وار میموریل کے قریب  'امرت واٹیکا'  کی تعمیر  کی جائے گی ۔ یہ امرت واٹیکا بھی 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت' کی   بہت شاندار علامت بنے گی۔ میں نے پچھلے سال لال قلعہ سے  اگلے 25 سال کے  امرت کال کے لیے  'پنچ پران' کی بات کی تھی۔ 'میری ماٹی میرا دیش' مہم میں حصہ لے کر، ہم ان 'پنچ  پرانوں ' کو پورا کرنے کا حلف بھی  لیں گے۔ آپ سب  ملک کی مقدس مٹی کو تھام کر حلف اٹھاتے ہوئے اپنی سیلفیز yuva.gov.in پر ضرور اپ لوڈ کریں ۔ پچھلے سال یوم آزادی کے موقع پر 'ہر گھر ترنگا ابھیان' کے لیے پورا ملک اکٹھا ہوا تھا، اسی طرح اس بار بھی ہمیں ہر گھر پر ترنگا لہرانا ہے اور اس روایت کو  لگاتار آگے بڑھانا ہے۔ ان کوششوں سے ہمیں اپنے فرائض کا احساس ہو گا... ہمیں وطن کی آزادی کے لیے دی گئی لاتعداد قربانیوں کا احساس ہو گا۔ ہم آزادی کی قدر کو سمجھیں گے۔ اس لیے ہر اہل وطن کو ، ان کوششوں میں شامل ہونا چاہیے۔

       میرے پیارے ہم وطنو، 'من کی بات' میں آج  بس  اتنا ہی ۔

اب کچھ ہی دنوں میں  ، ہم 15 اگست کو آزادی کے  اس عظیم تہوار کا حصہ بنیں گے۔  ملک کی آزادی کے لیے مر مٹنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھنا  ہے ۔ ہمیں اُن کے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے  دن رات محنت کرنی ہے اور 'من کی بات'  اہل وطن کی ، اِسی محنت کو  ، اُن کی اجتماعی کوششوں کو سامنے لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگلی مرتبہ کچھ نئے موضوعات کے ساتھ  آپ سے ملاقات ہو گی ، بہت بہت شکریہ ، نمسکار ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا  )

U.No.  7736


(Release ID: 1944130) Visitor Counter : 233