امور داخلہ کی وزارت

ہریانہ کے گروگرام میں ’’این ایف ٹی، اے آئی اور میٹاورس کے دور میں جرائم اور سلامتی سے متعلق جی 20 سربراہی اجلاس‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ کے خطاب کا متن

Posted On: 13 JUL 2023 2:50PM by PIB Delhi

معزز مندوبین، معزز مہمانان!… نمسکار

آئیے میں آپ سب کا ہندوستان میں خیرمقدم کرتے ہوئے آغاز کرتا ہوں۔ اس سرزمین میں خوش آمدید جہاں ’وراثت‘ اور ’ٹیکنالوجی‘ سے چلنے والی ترقی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

آج ’’کرائم اینڈ سکیورٹی ان دی ایج آف نان فنجیبل ٹوکنز (این ایف ٹی)، آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) اور میٹاورس‘‘ کے موضوع پر اس اہم جی- 20 کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے آپ کا شکریہ۔

اس باوقار اجتماع میں، میں تیزی سے جڑ رہی دنیا میں سائبر ریزیلینس قائم کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تعاون کی ضرورت پر زور دینا چاہوں گا۔

آپ سب کو معلوم ہوگا کہ اس سال ہندوستان جی-  20 کی صدارت کر رہا ہے۔ ہندوستان کی جی-  20 صدارت کا تھیم – ’’وسو دھیو کٹم بکم‘‘ یا

’’ایک زمین - ایک خاندان - ایک مستقبل‘‘،  ہے

جو ہمارے قدیم ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جملہ شاید آج کی ’ڈیجیٹل دنیا‘ سے زیادہ قریب ہے۔

ٹیکنالوجی نے تمام روایتی جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی حدود کو عبور کر لیا ہے۔ آج ہم ایک بڑے عالمی ڈیجیٹل گاؤں میں رہتے ہیں۔

اگرچہ ٹیکنالوجی انسانوں، برادریوں اور ممالک کو قریب لانے والی ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن کچھ سماج دشمن عناصر اور خود غرض عالمی قوتیں بھی ہیں جو ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے شہریوں اور حکومتوں کو معاشی اور سماجی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

اس لیے یہ کانفرنس زیادہ اہم ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ ڈیجیٹل دنیا کو سب کے لیے محفوظ بنانے کی خاطر مربوط کارروائی کے لیے ایک اہم عالمی اقدام ہو سکتا ہے۔

وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا ماننا ہے کہ

’’سائبر سیکورٹی اب صرف ڈیجیٹل دنیا تک محدود نہیں ہے۔ یہ قومی سلامتی - عالمی سلامتی کا معاملہ بن گیا ہے۔‘‘

وزیر اعظم مودی نے ٹیکنالوجی کے انسانی پہلو پر زور دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ’ہمدردی‘ اور ’حساسیت‘ کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے ’’انٹرنیٹ آف تھنگس‘‘ کو ’’ایموشنز آف تھنگس‘‘ سے جوڑ دیا ہے۔

مودی جی کی قیادت میں، ہندوستان نچلی سطح پر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے میں سب سے آگے رہا ہے۔ ہمارا مقصد معاشرے کے تمام طبقات کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو مزید قابل رسائی اور سستی بنانا ہے۔

  • آج 840 ملین ہندوستانیوں کی آن لائن موجودگی ہے، اور 2025 تک مزید 400 ملین ہندوستانی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوں گے۔
  •  نو (9) سالوں میں انٹرنیٹ کنیکشن میں 250 فیصد  کا اضافہ ہوا ہے۔
  •  فی جی بی ڈیٹا کی لاگت میں 96 فیصد  کی کمی۔
  •  پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت:
  • 500 ملین نئے بینک اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں۔ اور
  • 330 ملین ’روپے ڈیبٹ کارڈز‘تقسیم کیے گئے ہیں۔
  • بھارت 2022 میں 90 ملین لین دین کے ساتھ عالمی ڈیجیٹل ادائیگیوں میں اوّل مقام پر ہے۔
  • آج تک ہندوستان میں 35 ٹریلین روپے کے یو پی آئی لین دین ہو چکے ہیں۔
  • عالمی ڈیجیٹل ادائیگیوں کا 46 فیصد ہندوستان میں کیا جاتا ہے۔
  • 2017-18 سے لین دین کے حجم میں 50 گنا اضافہ ہوا ہے۔
  • جن دھن-آدھار-موبائل (جے اے ایم) سے براہ راست فوائد (ڈی بی ٹی) منتقل کیے گئے ہیں۔
  • 1.38 بلین آدھار - ڈیجیٹل شناختیں تیار کی گئی ہیں۔
  • 52 وزارتوں میں 300 سے زیادہ اسکیموں کا احاطہ کرنے والے بینک کھاتوں میں   300 ملین روپے کی رقم براہ راست منتقل کی گئی ہے۔
  • ڈیجی لاکر میں تقریباً 6 بلین دستاویزات محفوظ ہیں۔
  • کوون ایپ کے ذریعے 2.2 بلین کووڈ ویکسی نیشن کیے گئے ہیں۔
  • بھارت نیٹ کے تحت 6 لاکھ کلومیٹر آپٹیکل فائبر کیبل (او ایف سی) بچھائی گئی ہے۔
  • یونیفائیڈ موبائل ایپلی کیشن فار نیو ایج گورنینس – امنگ ایپ شروع کیا گیا  ہے جس میں  53 ملین اندراجات ہوئے ہیں۔

 

خدمات کی ڈیجیٹل ڈیلیوری کی پہل نے ایک دہائی میں ہندوستان کو ایک ’ڈیجیٹل نیشن‘ میں بدل دیا ہے۔

لیکن ساتھ ہی سائبر خطرات کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ سال 2022 کے لیے انٹرپول کی ’گلوبل ٹرینڈ سمری رپورٹ‘ کے مطابق، سائبر کرائم کے کچھ رجحانات جیسے کہ رینسم ویئر، فشنگ، آن لائن گھپلے، بچوں سے آن لائن جنسی زیادتی اور ہیکنگ سے پوری دنیا میں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مستقبل میں ان سائبر کرائمز میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

اس تناظر میں یہ سربراہی اجلاس جی-  20 صدارت کا ایک نیا اور منفرد اقدام ہے۔ جی-  20 میں سائبر سیکورٹی پر یہ پہلی کانفرنس ہے۔

جی- 20 نے اب تک معاشی نقطہ نظر سے ڈیجیٹل تبدیلی اور ڈیٹا کے بہاؤ پر توجہ مرکوز کی ہے، لیکن جرائم اور سلامتی کے پہلوؤں کو سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ ہم این ایف ٹی، اے آئی، میٹاورس اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے دور میں نئے اور ابھرتے ہوئے خطرات کا بروقت جواب دیتے ہوئے مربوط اور تعاون پر مبنی انداز میں آگے بڑھیں۔

جی- 20 فورم پر سائبر سکیورٹی پر زیادہ توجہ اہم ’انفارمیشن انفرا اسٹرکچر‘ اور ’ڈیجیٹل پبلک پلیٹ فارمز‘ کی سلامتی اور سکیورٹی کو یقینی بنانے میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔

جی- 20 کے پلیٹ فارم پر سائبر سیکورٹی اور سائبر کرائم پر بحث کرنے سے ’انٹیلی جنس اور انفارمیشن شیئرنگ نیٹ ورک‘ کی ترقی میں مدد ملے گی اور اس شعبے میں ’عالمی تعاون‘ کو فروغ ملے گا۔

کانفرنس کا مقصد ڈیجیٹل عوامی سامان اور ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر کو بااختیار بنانے اور محفوظ بنانے اور ٹیکنالوجی کی طاقت کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک محفوظ اور سکیور بین الاقوامی فریم ورک کو فروغ دینا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ دو روزہ کانفرنس کے 6 سیشنز میں درج ذیل موضوعات پر بامعنی بات چیت ہوگی:

  • انٹرنیٹ گورننس ،
  • ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر کی سکیورٹی،
  • ڈیجیٹل ملکیت سے متعلق قانونی اور ریگولیٹری امور،
  • اے آئی کے ذمہ دارانہ استعمال اور ڈارک نیٹ پر بین الاقوامی تعاون فریم ورک۔

مجھے خوشی ہے کہ عالمی برادری نے دل سے اس کنونشن کی حمایت کی ہے۔ اس کانفرنس میں جی-  20 ممبران کے علاوہ 9 مہمان ممالک اور 2 بڑی بین الاقوامی تنظیمیں انٹرپول اور یو این او ڈی سی کے علاوہ مختلف بین الاقوامی مقررین شرکت کر رہے ہیں۔

دوستو، اس ڈیجیٹل دور کے پیش نظر سائبر سیکورٹی عالمی سیکورٹی کا ایک لازمی پہلو بن گیا ہے، جس کے معاشی اور جغرافیائی سیاسی مضمرات پر خاطر خواہ توجہ کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی، دہشت گردی کی مالی معاونت، بنیاد پرستی، نارکو، نئے اور ابھرتے ہوئے، روایتی اور غیر روایتی چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی اداروں کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے، جن میں منشیات اور دہشت گردی کے روابط اور غلط معلومات شامل ہیں۔

ہمارے روایتی سکیورٹی چیلنجز کا ’ڈائنامائٹ ٹو میٹاورس‘ اور ’حوالہ ٹو کرپٹو کرنسی‘ میں تبدیلی یقیناً دنیا کے ممالک کے لیے باعث تشویش ہے۔ اور ہم سب کو مل کر اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنانا ہوگی۔

دہشت گرد تشدد کو انجام دینے، نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے اور مالی وسائل اکٹھا کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ دہشت گرد مالیاتی لین دین کے لیے ورچوئل اثاثوں کی شکل میں نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

دہشت گرد اپنی شناخت چھپانے اور بنیاد پرستی پر مبنی مواد پھیلانے کے لیے ڈارک نیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔

ہمیں ڈارک نیٹ پر چلنے والی ان سرگرمیوں کے انداز کو سمجھنا ہوگا، اور اس کے لیے حل تلاش کرنا ہوں گے۔ ورچوئل اثاثوں کے ذرائع کے استعمال پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے،  ایک ’’مضبوط اور موثر آپریشنل نظام‘‘ کی سمت میں، ہمیں متحد ہوکر سوچنا ہو گا۔

میٹاورس، جو کبھی سائنس فکشن تھا، اب حقیقی دنیا میں داخل ہو چکا ہے۔ میٹاورس دہشت گرد تنظیموں کے لیے بنیادی طور پر پروپیگنڈا، بھرتی اور تربیت کے لیے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے کمزور ذہن کے لوگوں کو چننا، ٹارگٹ کرنا اور ان کی کمزوریوں کے مطابق مواد تیار کرنا آسان ہو جائے گا۔

میٹاورس صارف کی شناخت کی حقیقی مشابہت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے، جسے ’’ڈیپ فیکس‘‘ کہا جاتا ہے۔ افراد کے بارے میں بہتر بائیو میٹرک معلومات کا استعمال کرتے ہوئے، مجرم صارفین کی نقالی کرنے اور ان کی شناخت چرانے کے قابل ہو جائیں گے۔

رینسم ویئر کے حملے، اہم ذاتی ڈیٹا کی فروخت، آن لائن ہراساں کرنا، بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور فرضی خبروں سے متعلق غلط معلومات کی مہمات سائبر کریمنلس کے ذریعے ’ٹول کٹس‘ کے توسط سے چلائی جا رہی ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ، اہم معلومات اور مالیاتی نظاموں کو اسٹریٹجک اہداف بنانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔

ایسی سرگرمیاں قومی تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کا براہ راست اثر قومی سلامتی، امن و امان اور معیشت پر پڑتا ہے۔ ایسے جرائم اور مجرموں کی روک تھام کے لیے ہمیں روایتی جغرافیائی حدود سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور عمل کرنا ہوگا۔

ڈیجیٹل جنگ میں اہداف ہمارے جسمانی وسائل نہیں بلکہ آن لائن کام کرنے کی ہماری صلاحیت ہے۔ 10 منٹ کے لیے بھی آن لائن نیٹ ورک میں خلل جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

آج پوری دنیا کی حکومتیں نظم و نسق اور عوامی بہبود میں ڈیجیٹل ذرائع کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس سمت میں ضروری ہے کہ شہریوں کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اعتماد ہو۔ ڈیجیٹل اسپیس میں عدم تحفظ قومی ریاست کی قانونی حیثیت اور خودمختاری پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

ہمارا انٹرنیٹ ویژن نہ تو ضرورت سے زیادہ آزادی سے ملک کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والا ہونا چاہیے اور نہ ہی ڈیجیٹل فائر وال جیسے تنہائی پسند ڈھانچے میں سے ایک ہونا چاہیے۔

  • ہندوستان نے کچھ ایسے ہی ’اوپن ایکسیس ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر‘ ماڈل قائم کیے ہیں، جو آج دنیا میں مثال بن چکے ہیں۔ ڈیجیٹل شناخت کا ہمارا آدھار ماڈل، ریئل ٹائم تیز ادائیگیوں کا یو پی آئی ماڈل، ڈیجیٹل کامرس کے لیے اوپن نیٹ ورک (او این ڈی سی)، صحت کے شعبے میں اوپن ہیلتھ سروس نیٹ ورک، اور بہت سی دوسری مثالیں ہیں۔

آج دنیا کو معلومات اور مالیات کے بہاؤ میں ثالثی کے لیے ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر کے ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کے ممالک کو اپنے شہریوں کو ڈیجیٹل طور پر بااختیار بنانے میں سہولت فراہم کرے گا۔

دوستو، میں حفاظتی اقدامات کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ دنیا کے کئی ممالک سائبر حملوں کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ خطرہ دنیا کی تمام بڑی معیشتوں پر منڈلا رہا ہے۔

ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق سائبر حملوں سے 2019-2023 کے دوران دنیا کو تقریباً 5.2 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کا استعمال نقصان دہ بدنیت عناصر کی طرف سے اس کی کھوج اور روک تھام کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

وزیر اعظم مودی کی قیادت میں حکومت ہند نے یکساں سائبر حکمت عملی، سائبر کرائمس کی ریئل ٹائم رپورٹنگ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار میں اضافہ، تجزیاتی آلات کی ڈیزائننگ، فارنسک لیبارٹریوں کا قومی نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ سائبر حفظان صحت نے ہر شعبے میں کام کیا ہے، جیسے ہر شہری کے اندر سائبر بیداری کو یقینی بنانا اور پھیلانا۔

اب ملک کے تمام تھانوں میں کرائم اینڈ کریمنل ٹریکنگ نیٹ ورک اینڈ سسٹم (سی سی ٹی این ایس) نافذ کر دیا گیا ہے۔

حکومت ہند نے سائبر کرائم پر جامع ردعمل کو یقینی بنانے کے لیے انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر (I4سی) قائم کیا ہے۔

حکومت ہند نےCyTrain پورٹل کے نام سے ایک بہت بڑا اوپن آن لائن ٹریننگ پلیٹ فارم بھی بنایا ہے۔ شاید، یہ سائبر سکیورٹی کے شعبے میں دنیا کا سب سے بڑا تربیتی پروگرام ہوگا۔

ایک ’محفوظ اور سکیور سائبر اسپیس‘ کو یقینی بنانے کے لیے، میں چند نکات پر حاضرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ آپ اس کانفرنس میں ان نکات پر ضرور غور کریں-

  • سبھی ڈیجیٹل جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے سبھی ممالک کے قوانین میں کچھ یکسانیت لانے کی کوشش کی جائے۔
  • سائبر کرائمس کی سرحد سے ماورا (بارڈر لیس) نوعیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہمیں ممالک کے الگ الگ قوانین کے تحت ریسپونڈ کرنے کا میکانزم بنانا ہوگا۔
  • اس شعبے میں عالمی تعاون، سائبر سکیورٹی کے معیارات، بہترین طور طریقوں اور ضابطوں کو ہم آہنگ کرنے میں مدد کرے گا۔
  • مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس اس سمت میں ایک ٹھوس ایکشن پلان ہمارے سامنے رکھے گی۔ سائبر سکیورٹی پالیسیوں کے لیے ایک مربوط اور مستحکم نقطہ نظر باہمی تعاون کو آسان بنائے گا، معلومات کے تبادلے کے پس منظر میں اعتماد میں اضافہ کرے گا اور تمام ایجنسیوں میں پروٹوکول اور وسائل کے فرق کو کم کرے گا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ رکن ممالک کے درمیان ’انٹیگریٹڈ اینڈ اسٹیبل ایپروچ ٹو سائبر سکیورٹی پالیسیز‘ یعنی حقیقی وقت میں سائبر خطرے سے متعلق معلومات کا اشتراک کیا جائے، تاکہ ملک کے اہم انفرااسٹرکچر کو محفوظ بنانے کے لیے صنعت اور تعلیمی اداروں کی فعال مدد حاصل ہو۔
  • سائبر واقعات کی رپورٹنگ اور ان کا جواب دینے میں تمام ممالک کی سائبر ایجنسیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہیے۔
  • ’پرامن، محفوظ، مزاحم اور اوپن انفارمیشن‘ اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ماحول کی تعمیر کے لیے مشترکہ کوششوں کے ذریعے سرحد پار سائبر جرائم کی تحقیقات میں تعاون آج کی فوری ضرورت ہے۔
  • انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجیز کے مجرمانہ استعمال پر اقوام متحدہ کے کنونشن کی طرف تیزی سے آگے بڑھنا، ثبوتوں کا تحفظ، تفتیش اور تعاون ضروری ہے۔
  • ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی وجہ سے ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیموں (سی ای آر ٹی) کو مضبوط کرنا ہوگا۔
  • ’پریڈکٹیو – پریونٹیو – پروٹیکٹیو اینڈ ریکوری‘ یعنی مؤثر پیشن گوئی - انسدادی - حفاظتی اور بحالی کی کارروائی کے لیے ہفتے کے ساتوں دن  24 گھنٹے  سائبر سکیورٹی میکانزم ہونا چاہیے۔
  • سائبر خطرے کے منظر نامے کی نوعیت نے قومی حدود کو پار کر دیا ہے، جس سے سائبر کرائمز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے اقوام، تنظیموں اور حصص داروں کے تعاون اور معلومات کے اشتراک کی ضرورت ہے۔
  • ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ’ٹرانسپیرنٹ اینڈ اکاؤنٹیبل اے آئی اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز گورنینس فریم ورک‘ یعنی شفاف اور جوابدہ اے آئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز گورننس فریم ورک بنانے کا وقت آ گیا ہے۔
  • ڈیجیٹل کرنسی سے لیس سائبر کرائم میں اضافے کے پیش نظر، قوموں کے درمیان ایک ’ڈیڈیکیٹڈ کامن چینل‘ کی ضرورت ہے، تاکہ اس طرح کی مالی بے ضابطگیوں کو روکا جا سکے۔
  • این ایف ٹی پلیٹ فارموں کے تیسرے فریق کی تصدیق اعتماد میں اضافہ کرے گی اور مجرمانہ سرگرمیوں کو روکے گی۔

 

آخر میں، میں ایک بار پھر اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ کوئی ایک ملک یا ادارہ اکیلے سائبر خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتا - اس کے لیے ایک متحدہ محاذ کی ضرورت ہے۔ ہمارا مستقبل ہمیں حساسیت کے ساتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے اور عوامی تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم پر ثابت قدم رہنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ کام اکیلے حکومتیں نہیں کرسکتیں۔

ہمارا مقصد ’سائبر سکسیس ورلڈ‘ بنانا ہے نہ کہ ’سائبر فیلور ورلڈ‘۔ سب کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال ڈیجیٹل مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے، ہم مل جل کر ان ٹیکنالوجیز کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔

آئیے تعاون کرنے، اپنے خیالات کا اشتراک کرنے اور بین الاقوامی شراکت داری قائم کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

شکریہ!

******

 

ش  ح۔ م  م۔ م ر

U-NO. 6989



(Release ID: 1939293) Visitor Counter : 160