نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

نائب صدر  جمہور یہ کی تقریر کا متن - ڈبرو گڑھ یونیورسٹی کا 21واں جلسہ تقسیم اسناد

Posted On: 03 MAY 2023 3:10PM by PIB Delhi

نمسکار، آپ سب کو میری طرف سے مبارکباد!

میرے پیارے طلباء، امرت کال کے دوران، آپ ایسے  انسانی وسائل کی نمائندگی کرتے ہیں جو ہمارے بھارت کو 2047 تک لے جائیں گے۔ آپ 2047 کے  میکرس اور واریئروس   ہیں جب ملک اپنی آزادی کاصد سالہ جشن منائے گا۔ مجھے میں اکیسویں جلسہ تقسیم اسناد کا حصہ بننے اور اس عظیم ادارے میں اس جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔

دوستو، ملک کے نائب صدر  جمہوریہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملک کے اس حصے کا یہ میرا تیسرا دورہ ہے۔ ملک کے اس  حصے میں آنا  میرے لیے پہلے بھی باعث خوشی رہا ہے  اور یہ دورہ بھی  یادگار ہوگا۔

شمال مشرقی خطے کی آٹھ ریاستیں صحیح معنوں میں ہندوستان کی ’’اشٹ لکشمیاں‘‘ ہیں۔ ان کی شمولیت، شرکت اور تعاون  کے بغیر بھارت نامکمل رہے گا۔

ڈبروگڑھ - آسام کی خوبصورت ثقافتی اور تجارتی دارالحکومت - بہت سے قابل ذکر دانشوروں، ادبی، ثقافتی اور عوامی شخصیات کا گھر رہی ہے جیسے راجیہ سبھا میں میرے معزز ساتھی، ہندوستان کے سابق چیف جسٹس جناب  رنجن گوگوئی اور جناب  سربانند سونووال جی، ایک اعلیٰ اور شاندار شخصیت، جن کے  طرز عمل سے  شمال مشرق کی  ثقافت کی مصدقہ جھلک ملتی  ہے۔

اس سال، ہمارے پاس اس علاقے کے لوگوں کو پدم ایوارڈ سے نوازنے کا موقع تھا، محترمہ ہیموپرووا چوٹیا، جناب  ہیم چندر گوسوامی اور جناب  رامکوئیوانگبے جینے، جنہیں اس سال ان کی خدمات  کے لیے پدم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ایک وقت تھا جب پدم ایوارڈ دو زمروں  میں دیئے جاتے تھے: ایک سرپرستی اور دوسرا امتیازی حیثیت میں۔ پچھلے چند سالوں میں نظام بدل گیا ہے۔ پدم ایوارڈ اب صرف مستحق لوگوں کو دیا جاتا ہے، اور جس لمحے ان کا اعلان ہوتا ہے، ہر کوئی اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ صحیح شخص کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ انہیں بہت بہت مبارک باد۔

جب میں اپنے ملک کے اس حصے میں ہوں تو مجھے کامروپ کے راجا  پرتھو جالاپیشور کی بہادری کو یاد کرتے ہوئے  بڑے فخر  کا احساس ہورہا ہے جنہوں نے نالندہ یونیورسٹی کو تباہ کرنے والے بختیار خلجی کو شکست دی تھی اور ہم فخر  اور اعزاز  کے احساس کے ساتھ عظیم  آہوم واریئر  لچیت بورفوکن کو بھی یاد کرتے ہیں جنہوں نے سرائے گھاٹ کی مشہور جنگ میں مغل فوجوں کو شکست دی تھی۔

دوستو، آپ کی یونیورسٹی کا موٹو  جو بھگوت گیتا سے لیا گیا ہے، بہت موزوں اور اہم ہے، ’’نیاتَم کرو کرما‘‘آپ اپنا فرض ادا کریں۔ اگر ہم اسے بھگوت گیتا میں جو سکھایا گیا ہے اس سے آگے بڑھیں’کام  کرنا تیری  عبادت ہے؛  تو صلہ کی فکر مت کر۔‘‘ یہ ہمیں ایک بصیرت انگیز نقطہ نظر فراہم کرتا ہے کہ ہمیں ہندوستانی ہونے پر ہمیشہ ہمیشہ فخر کرنا چاہیے۔

ہمیں اپنی تاریخی کامیابیوں اور کارناموں پر ہمیشہ فخر کرنا چاہیے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ آپ کی یونیورسٹی اس خطے کے لسانی تنوع اور اس کی ادبی روایات کے تحفظ کے لیے ایک فوکل پوائنٹ کے طور پر ابھری ہے۔

اپنی زبان کا تحفظ بہت ضروری ہے کیونکہ ہمیں یہ ہزاروں برسوں سے حاصل ہوئی ہے اور حکومت ہند اس سمت میں بہت کچھ کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی طرف سے کیا گیا کام ہماری ثقافت کی خوبی کی مثال دیتا ہے۔ بوڈو، تائی اور گم ہوجانے والی  زبانوں کے کورسز پر توجہ قابل ستائش ہے۔

سنٹر آف ایکسی لینس ان پرفارمنگ آرٹس کا نام موزوں طور پر جدید ہندوستان کی  سب سے نمایاں ثقافتی شخصیت ، بھارت رتن، ڈاکٹر بھوپین ہزاریکا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ان کا نام ہماری ایک مختلف قسم کی ذہنیت میں ابھارتا ہے۔ ملک کا سب سے طویل سڑک کا پل آسام میں ہے اور اس کا نام  بھی   انہیں کے نام پر بھوپین ہزاریکا برج رکھا گیا ہے۔

ایک اور کامیابی یہ ہے کہ ڈبرو گڑھ یونیورسٹی کو جی 20 یونیورسٹی کنیکٹ پروگرام کی میزبانی کرنے  اور اس میں حصہ لینے کے لیے ملک کے اعلیٰ تعلیم کے 76 اداروں میں سے ایک کے طور پر چنا گیا ہے۔ دوستو، ہم سب کے لیے کتنا فخر کا لمحہ ہے اور اس ملک کی عالمی امیج میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان جی 20 سمٹ  کا صدر ہے اور ملک بھر میں اس کی میزبانی کر رہا ہے جس کا اثر ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے  اور نمایاں ہے، یہ یونیورسٹی بھی اس کا ایک مرکز ہے۔

جلسہ تقسیم اسناد طلباء، ان کے اساتذہ اور ان کے والدین کی زندگی میں ایک اہم موڑ ، ایک سنگ میل  ہوتا ہے۔ یہ ایک پھل ہے، ایک محنت سے کمائی گئی سند ہے  جو آپ کو  باہر کی وسیع دنیا میں آگے بڑھنے ، چھلانگ دیتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا موڑ ہے؛ اس عظیم یونیورسٹی کے طالب علم ہونے سے اب آپ کو سابق طالب علم ہونے کا درجہ ملے گا۔ آپ کو معاشرتی تبدیلی لانے میں بہت اہم رول  ادا کرنا ہوگا۔ آپ اپنے کیریئر کا آغاز ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب مقابلہ شدید ہے، مواقع بہت زیادہ ہیں، اور چیلنجز مشکل ہیں۔ جب میں اپنی جوانی کو یاد کرتا ہوں، اس وقت  کچھ  کمی محسوس کی جارہی تھی جو اب محسوس نہیں کی جاتی ۔  آج سرکاری  اقدامات اور مثبت پالیسیوں کی وجہ سے ایک  ایکو سسٹم ابھر رہا  ہے جہاں ہر نوجوان اب اپنی صلاحیتوں اور قابلیت  کو بروئے کار لانے کا حقدار ہے۔ اس خیال کو عملی شکل دینے کے لیے آپ کے پاس ایک خیال ہونا ضروری ہے۔ آپ کو سسٹم کی ہر طرح کی مدد ملے گی۔

کووڈ عالمی وبا نوع انسانی کے لیے ایک چیلنج تھی۔ اس کے دوران ایسا وقت بھی آیا جب دباؤ محسوس کیا گیا؛ لیکن  اس عرصے کے دوران بھی ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت بن گیا۔

ہم سرمایہ کاری اور مواقع کا ایک سازگار عالمی مقام بن گئے  ہیں۔ ستمبر 2022 میں ہمیں پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت کا درجہ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ یہ درجہ حاصل کرتے ہوتے ہم نے اپنے  سابقہ  سامراجی  آقا کو پیچھے چھوڑ دیا جو ایک عظیم کارنامہ ہے، ہماری دور اندیش قیادت اور ہمارے لوگوں کی محنت کو خراج تحسین۔

دوستو،  اس دہائی کے اختتام تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، اور یہ اس لیے ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں ہمارے پاس گورننس کا ایک نیا منتر ہے’’ کم حکومت اور زیادہ حکمرانی‘‘ پہلے یہ اس کے برعکس ہوا کرتا تھا۔

ایک وقت تھا جب اس ملک کے ایک پریشان وزیر اعظم نے  1980 کی دہائی میں  یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ  85 فیصد امداد   غائب ہوجاتی ہے اور مستحقین تک نہیں پہنچتی  ۔ آج، براہ راست منتقلی ہے اور لکیج کو 100 فیصد  بند کردیا گیا ہے۔ یہ تاریخی کامیابی پہلے وژنری منصوبہ بندی اور پھر انسانی وسائل کے عمل سے حاصل ہوئی ہے۔

ایک وقت تھا جب پاور کوریڈور پاور بروکرز کی زد میں تھے، جب بچولئے پھلے پھولتےتھے  اور شفافیت اور احتساب نہیں ہوتا تھا لیکن اب وہ  پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ پاور کوریڈورز کو ان تمام برے  عناصر سے پاک کر دیا گیا ہے اور اختیارات کا ماورائے قانون فائدہ اٹھانا ختم ہو گیا ہے۔ درحقیقت پاور بروکرز، رابطہ ایجنٹوں اور دلالوں کی یہ صنعت تباہ ہو چکی ہے۔

دوستو آج  جب آپ کو محنت کا پھل ملے گا اور آپ بڑے میدان میں قدم رکھیں گے؛ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ بہترین گرو مسابقت ہے، مسابقت سے بڑا گرو کوئی نہیں ہو سکتا اور سب سے مہلک دشمن شکست یا ناکامی کا خوف ہے۔ میری یہ  بات یاد رکھنا کہ  تعلیم کی پیداوار کے طور پر، کبھی بھی تناؤ میں مت رہو، کبھی تناؤ کا شکار  نہ پہو، مثبت انداز میں تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرو۔ اپنی توانائی کو کام میں لائیں۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ مختلف چیزوں کو آزمائیں۔ غیر روایتی چیزوں کو آزمائیں۔ کسی خیال کو اپنے ذہن پر قبضہ نہ کرنے دیں، جس لمحے آپ کسی خیال کو عمل میں لائے بغیر اہمیت دیتے ہیں تو آپ معاشرے کے لیےخدمت انجام نہیں دیتے۔

جنہوں نے بڑے بڑے سنگ میل اور کامیابیاں حاصل کی ہیں ، وہ کئی بار ناکام ہوئے ہیں۔ آپ کو اس خوف کو اپنے دماغ سے نکالنا ہوگا۔ ترقی اختراع سے آتی ہے۔ اچھے خیالات تب ہی سامنے آسکتے ہیں جب آپ لیک سے ہٹ کر سوچیں۔

دوستو، میں ریاست مغربی بنگال میں تین سال تک گورنر رہا ہوں۔ میں ذاتی طور پر شمال مشرق میں رونما ہونے والی تبدیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ 1991 میں ہمارے پاس ’’لک ایسٹ‘‘ پالیسی تھی اور 2014 میں  وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے پاس ’’ایکٹ ایسٹ‘‘ پالیسی ہے۔

سال 2014 ہندوستانی سیاسی تاریخ کا ایک اہم لمحہ تھا۔ 3 دہائیوں کے وقفے کے بعد جب ملک نے مخلوط حکومت دیکھی تو ہمارے پاس ایک پارٹی کی حکومت تھی۔ میں 1989 میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا، میں ایک مرکزی وزیر تھا۔ ہم ایک درجن سے زائد جماعتوں کی حکومت چلا رہے تھے۔ مجھے اس کے نتائج معلوم ہیں۔ اور عوام کے اس فیصلے نے ہندوستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا ہے، جسے اب دنیا دیکھتی ہے، جس کا  دنیا احترام کرتی ہے اور نوع انسانی کے  1/6  حصے کی آواز کبھی بھی اتنی واضح نہیں تھی جتنی اس وقت ہے۔ لیکن اس حصے میں جو ترقی ہوئی ہے وہ اہم ہے، بہت بڑی ہے۔

این سی ای آر ٹی ہماری تاریخ اور ہماری  جنگ  آزادی میں شمال مشرق کے گمنام ہیروز کے تعاون کو شامل کرنے کے لیے قابل ستائش کورس مواد تیار کر رہی ہے۔

ہم انہیں تقریباً بھول چکے تھے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں ، آپ کو ہیرو ملے۔ ہمیں آزادی کا امرت مہوتسو میں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے  کی ضرورت ہے۔ یہ علاقہ خاصی توجہ حاصل کر رہا ہے۔

انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) نے  شمال مشرق کے نامعلوم مجاہدین آزادی  کے بارے میں  لیکچرز کی کی  ایک سیریز کا اہتمام  کیا ہے۔

شمال مشرقی خطہ اپنے مادی، سماجی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں اپنی ہمہ جہت ترقی کی وجہ سے، مواقع کی سرزمین کے طور پر ابھر رہا ہے۔

پی ایم ڈیولپمنٹ انیشیٹو فار نارتھ ایسٹ کے  فنڈ انفراسٹرکچر کنورژن کے ساتھ نتائج  برآمد ہورہے ہیں ۔

پچھلے نو برسوں میں، سڑک کنکٹی وتی کے 375 پروجیکٹ  شروع کیے گئے ہیں۔ تاریخی بوگی بیل ریل اور روڈ پل کا افتتاح چند سال پہلے ہی کیا گیا تھا۔

اب دنیا کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، میں بغیر کسی تضاد کے خوف کے کہہ سکتا ہوں کہ ملک کے اس حصے میں  ہمارے پاس جس قسم کی ثقافت ، تاریخی پس منظر، نباتات اور حیوانات کی اقسام، پارکو اور سینکچوریز اقسام، مذہبی مقامات کی اقسام  موجود ہے، وہ نیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ریل کنکٹی وٹی  میں مسلسل اضافہ اور ہوائی اڈوں کے نیٹ ورک کے بڑھنے سے یہ علاقہ ایک موثر انداز میں باقی ہم وطنوں کے سامنے آ رہا ہے  اور اس تبدیلی کو دیکھیں جو ریل کنکٹی وٹی  کے علاوہ ملک کے اس حصے میں سفر کرنے معاملے میں لائی گئی ہے۔ ہوائی اڈوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 17 ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس علاقے کی ترقی کے لیے اچھا ہے اور اس سے  ہماری جامع ترقی ظاہر ہوتی ہے۔

میں صحت کی دیکھ ریکھ کے شعبے اور تعلیم کے شعبے میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے درمیان تعاون کی بے حد تعریف اور ستائش کرتا ہوں۔ پچھلے سال ریاست میں کینسر کے سات اسپتال کھولے گئے تھے، اور آسام میں سات نئے کینسر اسپتالوں کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نے رکھا تھا۔

میں تعلیم کو اس معاشرے میں  انصاف و مساوات کی پیشرفت اور ترقی لانے کے لیے سب سے موثر تبدیلی کے طریقہ کار کے طور پر سمجھتا ہوں۔ لوگوں کی تعلیم سے بڑھ کر کوئی چیز معاشرتی حالات کو نہیں بدل سکتی۔ تعلیم کے شعبے میں، شمال مشرقی خطہ میں پچھلے نو برسوں میں اعلیٰ تعلیم کے 190 نئے ادارے قائم کیے گئے ہیں جن میں آئی آئی ٹی  گوہاٹی میں سائنس اور ریاضی کی تعلیم میں سنٹر آف ایکسی لنس بھی شامل ہے۔

نوجوانوں کی توانائی کے استعمال اور ان کے فروغ کے لئے   اب  ایسی نئی راہیں اور وسعتیں دستیاب ہیں جو  پہلے کبھی نہیں تھیں۔ آپ کی س’’ایشان ادے‘‘ اسکالرشپ اسکیم بہت مددگار ثابت ہوئی ہے اور یہی  معاملہ قائم کئے جانے والے  190 نئے اسکل ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کا بھی ہے۔

پوری دنیا میں ہندوستان کو اس کے ہنر مند انسانی وسائل کے لیے پہچان مل رہی ہے۔ اس کا سہرا ہمارے ڈی این اے کے سر  ہے کہ ہم ہندوستانی بہت تیزی سے ہنرمندی  حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اگر حکومت اس قسم کے اداروں کو لے کر آگے آئے تو ترقی  بہت زیادہ  ہوتی ہے۔

میں آپ کی توجہ چند قابلِ اعتبار کامیابیوں کی طرف مبذول کراؤں گا اور پوری دنیا ہماری طرف تحسین، رشک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ کرہ ارض پر سب سے زیادہ آبادی والے ملک، مدر آف ڈیموکریسی اور بہت زیادہ فعال جمہوریت کے طو رپر  ان کے کارناموں کو دیکھے۔ 99.9 فیصد بالغ ہندوستانیوں کے پاس ڈیجیٹل آئی ڈی- آدھار ہے جو سب کے لیے کھلا ہے اور مفت ہے۔ یہ عام لوگوں کی زندگی میں گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔ نوبل انعام یافتہ پال رومر اُسے ’’دنیا کا سب سے نفیس آئی ڈی  پروگرام‘‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جو لوگ ملک سے باہر ہیں وہ ان کے سامنے جب  ملک کی تعریف کرنے کی بات آتی ہے اور  جب بات ہمارے ملک کی تذلیل اور مذمت کی آتی ہے تو وہ اپنا ہوم ورک کرتے ہیں۔ یہ ایک بیانیہ ہے۔

جن دھن کھاتے، آدھار نمبر اور موبائل ٹیلی فونی کی جے اے ایم تثلیث نے بغیر کسی درمیانی آدمی کے فائدہ اٹھانے والوں کے کھاتوں میں براہ راست بینک ٹرانسفر کو ممکن بنایا ہے۔ 11 کروڑ ہندوستانی کسانوں کو پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت اب تک 2.25 لاکھ کروڑ مل چکے ہیں۔ وہ کہاں ہیں جو بل کی ادائیگی کے خواہش مند ہیں؟ پاسپورٹ سے لے کر راشن کارڈ تک، ملازمت کے لیے درخواست دینے تک، آپ کو اپنے گاؤں سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیکنالوجی آپ کی دہلیز پر ہے۔

ڈیجیٹل ادائیگی کے لین دین، 2022 میں 1.5 ٹریلین ڈالر کی رقم امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں مشترکہ لین دین سے چار گنا زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق، ہندوستان کے’’عالمی معیار کے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر‘‘ کی ترقی ۔ ہم اب ایک ایسا ملک ہیں جس کے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 700 ملین ہے اور یہ چین اور امریکہ کی مشترکہ کھپت سے زیادہ ہے۔

ہمارے اسٹارٹ اپس، یونیکارنز نے  ہمارا سر  فخر سے بلند کیا ہے۔ مُدرا اسکیم نے نہ صرف نوکری تلاش کرنے والے کے لئے بلکہ  دوسروں کو  نوکری فراہم کرانے والوں  میں سے ہر ایک کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کیا ہے ۔ اس کے آغاز سے لے کر اب تک 23 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا مُدرا قرضہ دیا گیا ہے جن میں سے 70 فیصد  کاروباری  خواتین ہیں۔ یہ نوٹ کرنا بہت خوش کن تھا کہ جب گورنر طلباء کو ان کی محنت سے حاصل  کی  گئیں ڈگریوں سے نواز رہے تھے،  تو میں نے نمبر چیک نہیں کیے لیکن ہماری لڑکیوں نے شاید لڑکوں پر سبقت حاصل کی ہے۔ ان کی تعداد زیادہ تھی۔

آسام میں 21۔2020  میں، 6.8 لاکھ کاروباریوں نے مُدرا  اسکیم کے تحت 4500 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض حاصل کیا۔ یہ کامیابیاں ہمیں دنیا میں صحیح مقام حاصل کرنے میں مدد کریں گی جب ہم 2047 میں اپنی آزادی کی صد سالہ جشن منائیں گے۔

 میں آپ سے  یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ  جب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے تو ہم میں سے کچھ لوگ ہماری  جمہوریت کو کیوں برا بھلا کہتے ہیں، ہم میں سے کچھ لوگ کیوں  ملک کے اندر اور باہر غیر جبری خاموشی کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوری اقدار نہیں ہیں۔ میں اعتماد کے ساتھ اور تضاد کے خوف کے ساتھ  یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ہندوستان آج تک کرہ ارض پر سب سے زیادہ متحرک اور فعال جمہوریت ہے۔

دنیا کا کوئی بھی ملک گاؤں، بلدیات، ریاستوں اور پارلیمنٹ کے لیے آئینی جمہوری طریقہ کار کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ میں طلباء، دانشوروں اور میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ انہیں اس ملک کے سفیر کے طور پر کام کرنا ہوگا، انہیں ہماری قوم پرستی پر یقین رکھنا ہوگا، انہیں اس بیانیے کو ختم کرنا ہوگا۔ ہم ان لوگوں کی حمایت نہیں کر سکتے جو ملک میں اور  ملک کے باہر ہماری ترقی کی رفتار اور جمہوری اقدار کو داغدار کرتے ہیں۔

بحیثیت چیئرمین راجیہ سبھا کے چیئرمین  کی بحیثیت سے  میں جانتا ہوں کہ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی دستیاب ہے اور یہ  کسی بھی جبری خاموشی کے تابع نہیں ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

اس طرح کے جھوٹے بیانیے باہر کی کچھ یونیورسٹیوں سے نکل رہے ہیں۔ امریکہ کی کچھ یونیورسٹیوں میں صرف ہندوستانی طلباء ہی اپنے ملک پر تنقید کرتے ہیں۔ آپ کو دوسری مثال نہیں ملے گی جہاں  کسی ملک کا فیکلٹی ممبر،  طالب علم اپنے ملک سے باہر اپنے ملک پر تنقید کرتا ہو۔

آپ کو کوئی ایسا سیاست دان نہیں ملے گا جو ہماری جمہوری اقدار کو داغدار کرنے کے لیے پوری دنیا میں چکر لگائے۔ اور یہ ہندوستانی ثقافت نہیں ہے۔

بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی جی سے  نرسمہا راؤ جی نے ملک کی نمائندگی کرائی۔ ہمیں اپنی مادر وطن پر یقین رکھنا ہے اور اپنے نیشنلزم  کی سربلندی کو برقرار رکھنا ہے۔ ذمہ داری آپ پر  عائد ہوتی ہے، آپ ایسا طریقے تلاش کرنا ہوگا جس سے اس طرح کے  خطرناک، مذموم  بیانیے کو  ابتدا میں ہی ختم کیا جاسکے۔

پارلیمنٹ اور تعلیمی ادارے مندر ہیں۔ پارلیمنٹ مکالمے، بحث، گفت و شنید اور بحث و مباحثے کی جگہ ہے نہ کہ خلل ڈالنے کی جگہ۔

ہم  خلل  کو سیاسی ہتھیار کے طور پر کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ ہم ان تھیٹروں کو اس قدر آلودہ ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ میرے نوجوان دوستو، ہندوستانی آئین کو دستور ساز اسمبلی نے تین برسوں میں تشکیل دیا تھا اور ان تین برسوں کے دوران انہوں نے بہت حساس مسائل پر بحث کی، کچھ ایسے مسائل بھی تھے جو  بہت ہی تفرقہ  ڈالنے والے، بہت پیچیدہ اور الجھے ہوئے تھے لیکن کوئی خلل اور  رخنہ  نہیں ڈالا گیا۔ تعاون کا رویہ تھا ٹکراؤ کا نہیں۔

میں دانشوروں اور  میڈیا سے  اپیل کرتا ہوں، یہ امرت کال کا وقت ہے، ہم ایک ایکو سسٹم تیار  کرنے میں مدد کریں تاکہ ہمارے پارلیمنٹیرین ہمارے آئین کے بانیان کے جذبے کے  تئیں مثبت ردعمل ظاہر کریں۔

مجھے کوئی شک نہیں دوستو، اس یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد آپ معاشرتی ترقی میں تعاو ن کریں گے لیکن دو باتیں کبھی نہ بھولنا۔ ایک، ہمیشہ اپنے اساتذہ کا احترام کریں۔ ایک اچھے گرو کی سہولت کے بغیر کوئی بھی تعلیم ایک اچھا انسان نہیں بنا سکتی۔

دوسری بات، اپنی یونیورسٹی کو کبھی نہ بھولیں، یونیورسٹی کی فلاح و بہبود کے لیے جس شکل میں بھی ہو سکے اپنا تعاون دیں۔ ایک خواب دیکھیں، لیکن اس خواب کو اپنے دماغ پر حاوی  نہ ہونے دیں۔

خواب کا مطلب  دماغ  پر حاوی ہونا نہیں بلکہ  اسے حقیقت کا جامہ پہنایا جانا ہے۔

میں عزت مآب  چانسلر اور وائس چانسلر سے اپیل کرتا ہوں۔ ہمیں سابق طلباء کی توانائی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ وہ بہت بڑا فرق لا  سکتے ہیں۔ میں کنفیڈریشن آف ایلومنائی کے ایک خیال کا خاکہ تیار کررہا ہوں جو ملک کی فلاح و بہبود کے لیے   ایک بنیادی  تھنک ٹینک  تیار کرے گی۔

اپنی یونیورسٹی کو ہی لیجئے، اس میں معروف  سابق طلباء ہیں۔ اس کا ڈھانچہ بنائیں، اسے تیار کریں۔

یہ میرے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ میں عزت مآب چانسلر اور وائس چانسلر کا شکرگزار ہوں اور عزت مآب وزیراعلی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے نہ صرف میرے اس ریاست کے دورے کو ہمیشہ  کے لئے یادگار بنایا، بلکہ انہوں نے دارجلنگ میں آنے کی میری ایک دعوت کا جواب بھی دیا۔

آپ سب کو بہت بہت مبارک باد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-4782



(Release ID: 1921783) Visitor Counter : 184