وزارات ثقافت
azadi ka amrit mahotsav

ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں کے فروغ اور تخلیقی معیشت پر عالمی موضوعاتی ویبینار کا انعقاد ہندوستان کی  جی 20 صدارت کے تحت کلچر ورکنگ گروپ کے ذریعے کیا گیا

Posted On: 20 APR 2023 10:03AM by PIB Delhi

کلچر ورکنگ گروپ(سی ڈبلیو جی) نے ہندوستان کی جی 20  صدارت کے تحت یو این ای ایس سی او کے ساتھ مل کر نالج پارٹنر کے طور پر ‘‘ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں اور تخلیقی معیشت کے فروغ’’  پر ایک عالمی موضوعاتی ویبینار کا انعقاد کیا۔ یہ ویبینار چار پروگراموں کے سلسلے کی تیسری کڑی کے طور پر تھا  جس میں  ترجیحی علاقوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جیسا کہ سی ڈبلیو جی  کی طرف سے بیان کیا گیا ہے۔ ویبینار کا مقصد ایک جامع مکالمے کو فروغ دینا اور ماہرین کے نقطہ نظر سے گہرائی سے بحث کی سہولت فراہم کرنا تھا۔

ویبنار کا انعقاد 19 اپریل کو دوپہر 12.30 بجے سے رات 8:30 ہندوستانی معیاری وقت (آئی ایس ٹی)  تک کیا گیا تھا۔ اس میں ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں اور تخلیقی معیشت کے فروغ کے بارے میں نتیجہ خیز گفتگو اور بہترین طریقوں کا اشتراک دیکھنے میں آیا، جس میں  جی 20 کے ممبران سمیت 28 ممالک کے 43 ماہرین نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ مہمان ممالک کے ساتھ ساتھ 13 بین الاقوامی تنظیمیں اور متعلقہ ادارے بھی اس میں شریک تھے۔

آج کی عالمگیریت کی دنیا میں، بین الاقوامی اقتصادی تناظر میں ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں اور تخلیقی معیشت کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صنعتیں ترقی کے محرک بن گئی ہیں، جیسا کہ تخلیقی اشیا اور خدمات کی عالمی برآمدات میں دیکھا گیا ہے، جو کہ تجارت اور ترقی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس کی طرف سے جاری کردہ تخلیقی معیشت آؤٹ لک 2022 کے مطابق 2020 میں بالترتیب 524 ملین امریکی ڈالر اور 1.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، یہ رجحان آنے والے سالوں میں جاری رہنے کی امید ہے۔ ثقافتی اور تخلیقی صنعتوں میں نوجوانوں کی مصروفیت قابل ذکر ہے کیونکہ یہ شعبہ 15-29 سال کی عمر کے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد کو ملازمت دیتا ہے۔ جنوبی تجارت کے تناظر میں، ثقافتی اور تخلیقی صنعتیں مسلسل اقتصادی ترقی اور ترقی کے ایک ذریعہ کے طور پر تیزی سے اہمیت کی حامل ہوتی جارہی ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں، تخلیقی اشیا میں جنوبی جنوب کی تجارت دوگنی ہو گئی ہے،  جس میں  2020 میں ترقی پذیر معیشتوں کی تخلیقی برآمدات کا 40.5 فیصد شامل ہے۔ مزید برآں، 2011 سے، ترقی پذیر معیشتوں نے ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے زیادہ تخلیقی اشیا برآمد کی ہیں۔

اگرچہ تخلیقی صنعت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، لیکن اس کا مستقل غیر رسمی ڈھانچہ پائیدار ترقی کے حصول میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ فی الحال، غیر رسمی معیشت کا عالمی تخلیقی صنعت کا تخمینہ 60 فیصد حصہ ہے، جو ثقافتی ماہرین کی حیثیت کو متاثر کرتا ہے اور وسیع تر معیشت کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس شعبے کی شراکت کو کم اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط نیٹ ورک قائم کرنا ضروری ہے۔ ایسا کرنے کے لیے، بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، جس سے رسمی شکل دینے کے لیے ضروری اقدامات پر تنقیدی  انداز میں غور و خوض کیا جا سکے۔

ثقافت کی وزارت کے سکریٹری اور ثقافتی ورکنگ گروپ( سی ڈبلیو جی ) کے چیئرمین جناب  گووند موہن نے ویبینار میں اپنے افتتاحی کلمات میں ایک متحرک اور جامع ثقافتی ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے پر زور دیا جو تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے، افراد، برادریوں اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ ثقافتی اور تخلیقی شعبہ بھی تبدیلی، افراد اور برادریوں کو بااختیار بنانے، اظہار رائے کی آزادی اور بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دینے کا محرک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس شعبے کو سپورٹ کیا جائے اور ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعات پروان چڑھ سکیں۔

ویبینار میں تین پروگرام  تقاریر سے متعلق  تھے اور ماہرین کی پیش کشیں  ان حصوں میں ان کے متعلقہ ٹائم زون کی بنیاد پر تقسیم کی گئیں۔ ویبینار کو یو این سی ٹی اے ڈی، آئی ایل او ، اور ڈبلیو آئی پی او کے نمائندوں نے اس موضوع پر مہارت کے ساتھ ترتیب دیا تھا۔ اسے یونیسکو کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا گیا۔

ویبینار میں، جی 20، مہمان ممالک، اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے متعلقہ قومی جی ڈی پیز میں تخلیقی معیشت کی خاطر خواہ شراکت کو ظاہر کرنے والے ڈیٹا کا اشتراک کیا۔ بعض تقاریرمیں  اس بات پر زور دیا  گیا کہ تخلیقی معیشت ایک متحد، انسانی مرکوز معاشرے کی بنیاد کے طور پر بھی کام کرتی ہے جو ثقافتی تنوع کو ایک بنیادی اصول کے طور پر برقرار رکھتا ہے۔ بحث کے دوران  خاص طور پر ڈیجیٹل انقلاب کے ذریعے، اور حال ہی میں، کووڈ-19  وبائی امراض کے اثرات سے، خاص طور پر ابھرتے ہوئے کاروباری ماڈلز اور جدید ٹیکنالوجیز کے حوالے سے تبدیلی کی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی گئی۔

کئی ممالک نے اس بات کی  طرف بھی اشارہ کیا کہ ثقافتی اور تخلیقی صنعتیں تیزی سے ایک بنیادی ترجیح بن گئی ہیں، جیسا کہ بعض معاملات میں ان کے ساتھ مختص وزارتوں کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے۔ متعدد ممالک نے ایسی پالیسیاں نافذ کی ہیں جن کا مقصد ثقافتی ماہرین کی حیثیت کو بہتر بنانا، معاوضے میں انصاف پسندی کو فروغ دینا، اور ثقافتی شعبے میں شمولیت اور مساوات کو بڑھانا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ممالک ثقافتی شعبے میں مزید ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے رسمی تعلیم، پیشہ ورانہ مہارت اور ہنر کی ترقی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور تخلیقی شعبے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، جس میں  ثقافتی سیٹلائٹ اکاؤنٹس  کا  استعمال بھی کیا جارہا ہے۔

تخلیقی شعبے کی درجہ بندی کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں کے حوالے سے بہت سی سفارشات  پیش کی گئیں ۔ ان میں سے کچھ  شفارشات میں  تخلیقی معیشت کے دائرہ کار کی ایک واضح اور متفقہ تعریف قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا اور بین الاقوامی سطح پر متفقہ تعریفوں اور مخصوص قومی ثقافتی پالیسیوں کی مثالوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ دیگر سفارشات میں خصوصی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر، ان کے موجودہ شماریاتی اور طریقہ کار کے فریم ورک کی بنیاد پر۔جی ڈی پی میں تخلیقی شعبے کے شراکت اور جی 20  ممالک میں پائیدار ترقی پر اس کے اثرات کی پیمائش پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا گیاتھا۔

پندرہ(15) جولائی سے 18 جولائی 2023 تک ہمپی، کرناٹک میں ہونے والی تیسری سی ڈبلیو جی میٹنگ میں چار عالمی موضوعاتی ویبینارز کی ایک جامع رپورٹ تیار کی جائے گی اور اسے جی 20 ممبران، مہمان ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ ہے کہ مشترکہ کام کی وراثت کے طور پر کام کیا جائے، وقت کے ساتھ ساتھ علم کی ترقی  کو یقینی بنانے کے لیے ، سی ڈبلیو جی  کے عمل پر غور و خوض اور بات چیت کی جائے۔ ترجیحی چار، ثقافت کے تحفظ اور فروغ کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے استفادہ پر عالمی موضوعاتی ویبینار، ، 20 اپریل 2023 کو منعقد کیا جانا ہے۔

*************

ش ح ۔س ب ۔ رض

U. No.4305


(Release ID: 1918167) Visitor Counter : 284