بجلی کی وزارت

مرکزی حکومت نے ہائی پرائس ڈی اے ایم اور سرپلس پاور پورٹل(پی یو ایس ایچ پی)  کا آغاز کیا


مرکزی وزیر توانائی جناب آر کے سنگھ کا کہنا ہے، پی یو ایس ایچ پی گرمیوں کے مہینوں میں بجلی کی مناسب دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے وضع  کی گئی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مناسب شرح پر صلاحیت کے بہتر استعمال کو یقینی بنائے گا

کسی بھی پاور پروڈیوسر کو حد سے زیادہ قیمتیں وصول کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی: جناب  سنگھ نے سی ای اے اور گرڈ کنٹرولر آف انڈیا سے صورتحال پر نظر رکھنے کو کہا

Posted On: 10 MAR 2023 10:01AM by PIB Delhi

مرکزی حکومت نے ایک اعلی قیمت والا  مستقبل کی منڈی اور اضافی بجلی کاپورٹل  (پی یو ایس ایچ پی) شروع کیا ہے – تاکہ زیادہ مانگ کے موسم میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی ( این آر ای ) کے مرکزی وزیر وزیر جناب آر کے سنگھ نے کل نئی دہلی میں ایک ورچوئل تقریب میں ریاستی حکومتوں اور پاور سیکٹر کے 200 سے زیادہ شراکت داروں  کی موجودگی میں پورٹل کا آغاز کیا۔ جناب  کرشن پال گرجر، بجلی اور بھاری صنعتوں کے وزیر مملکت، جناب آلوک کمار، سکریٹری، بجلی کی وزارت، جناب گھنشیام پرساد، چیئرمین، سی ای اے،  جناب  ایس این گوئل، سی ایم ڈی، آئی ای ایکس،  جناب  ایس آر۔ نرسمہن، سی ایم ڈی، گرڈ انڈیا کے ساتھ بجلی کی وزارت کے کئی سینئر افسران اس موقع پر موجود تھے۔

پچھلے سال بجلی کی وزارت نے، اس صورت حال کا  جائزہ   لینے کے بعد کہ کچھ دنوں میں بجلی کے ایکسچینج میں قیمتیں 20 روپے تک پہنچ گئی تھیں، سی ای آر سی کو ایکسچینج پر قیمت کی حد 12 روپے رکھنے کی ہدایت دی تھی، تاکہ کوئی منافع خوری نہ کی جاسکے۔یہ حد 01.04.2022 سے  مستقبل کی منڈی اور ریئل ٹائم مارکیٹ میں، اور مزید تمام حصوں میں 06.05.2022 سے نافذ کی گئی تھی۔ اس اقدام نے خریداروں کے لیے قیمت کو معقول بنا دیا۔ بین الاقوامی منڈی میں گیس کی بڑی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے؛ گیس کے استعمال سے تیار کی جانے والی  بجلی مہنگی تھی ،یعنی 12 روپے فی یونٹ سے زیادہ  اور اس قیمت کے ساتھ یہ  مارکیٹ میں فروخت نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسی طرح، درآمد شدہ کوئلے پر مبنی پلانٹس اور بیٹری انرجی ا سٹوریج کے نظام میں ذخیرہ شدہ قابل تجدید توانائی کو کام میں نہیں لایا جا سکا، کیونکہ اس کی پیداواری لاگت زیادہ تھی۔

اس سال یہ توقع ہے کہ طلب پچھلے سال کے مقابلے بہت زیادہ ہوگی اس لیے گیس پر مبنی پلانٹس اور درآمد شدہ کوئلے پر مبنی پلانٹس کو شیڈول کرنے کی ضرورت ہوگی اور اسی لیے ان بجلی  کے پیداواری نظاموں کے لیے ایک الگ سیگمنٹ تیار کیا گیا ہے۔ جہاں بجلی پیدا کرنے کی لاگت - گیس / درآمدی کوئلے/ قابل تجدید توانائی(  آر ای ) پلس  اسٹوریج سے  12 روپے سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس الگ حصے کو ایچ پی  ڈی اے ایم  کہا جاتا ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر توانائی جناب آر کےسنگھ نے کہا کہ ایچ پی۔ ڈی اے ایم  اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مجموعی حکمت عملی کا حصہ تھا  جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ صارفین کو بجلی کی فراہمی کے لیے تمام دستیاب بجلی کی صلاحیت کا استعمال کیا جائے۔  ایچ پی۔ ڈی اے ایم  کی کارروائی  کی وضاحت کرتے ہوئے، جناب  سنگھ نے کہا کہ کسی کو بھی زیادہ قیمتیں وصول کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ صرف وہی بجلی پیدا کرنے والے ادارے  جن کی بجلی پیدا کرنے کی لاگت 12 روپے فی یونٹ زیادہ ہے۔ ایچ پی۔ ڈی اے ایم  میں کام کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اگر پیداواری لاگت 12 روپے سے کم ہے، تو جنریٹرز کو پاور ایکسچینج کی مربوط مستقبل کی منڈی  (آئی۔ ڈی اے ایم ) میں صرف 12 روپے کی قیمت کے ساتھ بجلی فراہم کرنی ہوگی۔ انہوں نے سی ای اے اور گرڈ کنٹرولر سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایچ پی۔ ڈی اے ایم  میں قیمتیں مناسب ہوں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری کارروائی کریں کہ کوئی بھی پاور پروڈیوسرز حد سے زیادہ قیمتیں وصول نہ کریں، جو کہ پیداواری لاگت سے کہیں زیادہ ہیں۔ جناب  سنگھ نے مزید کہا کہ ہندوستان ایک بہت ہی مستحکم پاور مارکیٹ ہے، ان کچھ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس جہاں پچھلے سال پیداواری لاگت سے بہت زیادہ بجلی کے نرخوں کی صورتحال دیکھی گئی تھی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بجلی اور بھاری صنعتوں کے وزیر مملکت جناب کرشن پال گرجر نے کہا کہ پہلے کے حالات کے برعکس اب کوئی بھی بجلی کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ نیا طریقہ کار بجلی کی مناسب دستیابی کو یقینی بنائے گا۔ جناب آلوک کمار، سکریٹری نے مارکیٹ کے نئے طریقہ کار کے بہت سے فوائد کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ کچھ رپورٹوں کے برخلاف  50روپے/ فی یونٹ صرف ایک تکنیکی  حد  تھی اور مارکیٹ میں اثررکھنے والی طاقتیں  بہت کم شرح کو یقینی بنائیں گی۔

اضافی پاور پورٹل عالمی پاور مارکیٹوں میں اپنی نوعیت کا واحد سیگمنٹ ہے، جو بجلی کی  وزارت اور ریگولیٹر کی ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کی فراہمی کے لیے طویل مدتی پی پی اے کا معاہدہ کیا ہے۔ انہیں بجلی کا شیڈول نہ ہونے پر بھی معینہ  چارجز ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اب ڈی آئی ایس سی او ایم  پورٹل پر بلاک کے اوقات / دنوں / مہینوں میں اپنی اضافی طاقت کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوں گے۔ وہ  ڈی آئی ایس سی او ایم  (ڈسکوم ) جن کو بجلی کی ضرورت ہے وہ فاضل بجلی  کی مانگ  کر سکیں گے۔ نیا خریدار متغیر چارج(وی سی) اور مقررہ لاگت(ایف سی)  دونوں ادا کرے گا۔ ایک بار بجلی  دوبارہ تفویض ہونے کے بعد، اصل فائدہ اٹھانے والے کو اسے واپس لینے  کا کوئی حق نہیں ہوگا کیونکہ ایف سی کی پوری ذمہ داری بھی نئے فائدہ اٹھانے والے کو منتقل کر دی جاتی ہے۔ نئے خریدار کی مالی ذمہ داری عارضی طور پر مختص کردہ / منتقل شدہ بجلی  کی مقدار تک محدود ہوگی۔ اس سے ڈی آئی ایس سی او  ایم  (ڈسکوم ) پر مقررہ لاگت کا بوجھ کم ہو جائے گا، اور یہ تمام دستیاب پیداواری صلاحیت کو استعمال کرنے کے قابل بنائے گا۔

*************

 

( ش ح ۔ س ب۔ ر ض(

U. No.2488



(Release ID: 1905493) Visitor Counter : 107