امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

ملک میں سال بھر مناسب قیمتوں پر وافر مقدار میں چینی دستیاب ہے


گزشتہ 5 سال میں مرکز کی سرگرم شمولیت سے چینی کے  شعبے کو خود کفیل بنایا گیا ہے

شوگر سیزن 22-2021کے لیے کسانوں کو گنے کے 99.7 فیصد سے زیادہ بقایا جات ادا کیے گئے، جو کہ کسی بھی شوگر سیزن میں ادا کیے جانے والے بقایا جات میں سب سے زیادہ ہیں

ایتھنول کی آمیزش ای ایس وائی 2021-22 میں 10فیصد سے بڑھ  گئی ہے اور یہ ای ایس وائی 2022-23 میں 3 ماہ کے اندر 11.41فیصد ہو گئی ہے

Posted On: 06 MAR 2023 6:27PM by PIB Delhi

توقع ہے کہ شوگر سیزن (اکتوبر-ستمبر) 23-2022میں بھارت 336لاکھ میٹرکٹ ٹن چینی پیدا  کریگا جس میں تقریباً 50لاکھ میٹرک ٹن چینی کو ایتھنول کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس طرح ملک میں عام شکر کی  کُل پیداوار 386 لاکھ میٹرک ٹن  (ایل ایم ٹی)ہوجائیگی۔ یہ پچھلے سال کی 395 ایل ایم ٹی کی عام چینی کی پیداوار سے نسبتاً کم ہے (359 ایل ایم ٹی چینی کے لیے + 36ایل ایم ٹی ایتھنول کی پیداوار کے لیے)، لیکن پچھلے 5 سال میں دوسری سب سے زیادہ ہے۔ جہاں تک چینی کی پیداوار کے نقطہ نظر کا تعلق ہے، کم پیداوار کی وجہ سے اس سیزن میں مہاراشٹر اور کرناٹک میں چینی کی پیداوار کم ہونے کی امید ہے، جس کی وجہ پیڑی کی فصل (یا رتون کی فصل) کے ساتھ ستمبر-اکتوبر 2022 کے دوران ہونے والی غیر موسمی بارشوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ تمل ناڈو جیسی کچھ ریاستوں نے پچھلے سال کےمقابلے زیادہ پیداوار کی ہے۔ لہذا مجموعی طور پرعام چینی کی پیداوار گزشتہ سیزن 22-2021سے تقریباً 3 فیصد کم ہونے کا امکان ہے۔

تقریباً 275 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) چینی کی گھریلو کھپت اور تقریباً 61لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) برآمدات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی کا حتمی تعداد تقریباً 70 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) ہونے کی توقع ہے جو تقریباً 3 ماہ کی گھریلو مانگ کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے گھریلو صارفین کے لیے سال بھر مناسب قیمتوں پر وافر تعداد میں چینی دستیاب ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب چینی کی بین الاقوامی قیمتیں اپنے ریکارڈ سطح پر بڑھ رہی ہیں اور یہ کہ اس میں مزید کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، اس لئے حکومت کی پالیسیوں کے عملی اقدام کی بدولت  مقامی قیمتوں میں معمولی اضافے کے ساتھ اسے مستحکم رکھا گیا ہے۔ گھریلو  ایکس مل چینی کی قیمتیں مستحکم ہیں اور یہ 32 روپئے فی کلو گرام سے 35 روپئے فی کلو گرام کی حد میں ہیں۔ ملک میں چینی کی اوسط خوردہ قیمت تقریباً 41.50روپئے فی کلو گرام ہے اور آئندہ مہینوں میں اس کے 37 روپئے سے 43 روپئے فی کلو گرام کی حد میں رہنے کا امکان ہے جو کہ تشویش کی بات نہیں ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں چینی ’کڑوی‘ نہیں ہوئی اور اس کی مٹھاس برقرار ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی سے ایتھنول کی پیداوار اور چینی کی برآمد میں تبدیلی نے بہت سی چینی ملوں کو مالی استحکام عطا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں کسانوں کو گنے کے بقایا جات کی بروقت ادائیگی ہوئی ہے۔ شوگر سیزن 22-2021 کے دوران چینی ملوں نے 1.18 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی گنے خریداری کی  ہے اور بھارتی حکومت نے بغیر کسی سبسڈی کے سیزن کے لیے 1.17 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگیاں کیں۔ اس طرح، شوگر سیزن 22-2021 کے گنے کے بقایا جات  500 کروڑ روپئے سے کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شوگر سیزن 22-2021کے 99.7% گنے کے بقایا جات کو پہلے ہی ادا کر دیا گیا ہے اور پچھلے سیزن کے 99.9فیصدبقایا جات کو پہلے ہی ختم کیاجاچکاہے جو کہ  اپنے آپ میں ایک ریکارڈہے۔

چینی کے شعبے کو خود کفیل طریقے سے ترقی کے قابل بنانے کے لیے ایک طویل مدتی اقدام کے طور پر، مرکزی حکومت چینی ملوں کی اس بات کیلئے حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ چینی سے ایتھنول تیار کریں اور اضافی چینی برآمد کریں تاکہ چینی  ملیں  کسانوں کو گنے کے بقایا جات کی بروقت ادائیگی  کر سکیں  اس طرح گنے کی ملیں بہتر مالی حالات کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھ سکیں گی۔ ان دونوں اقدامات کی کامیابی سے شوگر سیکٹر اب شوگر سیزن 22-2021سے سبسڈی کے بغیر خود کفیل ہو گیا ہے۔

گزشتہ 5 سالوں میں حیاتیاتی ایندھن کے شعبے کے طور پر ایتھنول کی ترقی نے شوگر کے شعبے کو بہت مدد دی ہے، کیونکہ چینی سے ایتھنول کی پیداوار نے شوگر ملوں کو  بہترمالی استحکام عطا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے تیزی سے ادائیگیاں ہوئی ہیں، ورکنگ کیپیٹل کی ضرورت میں کمی ہوئی ہے اور ملوں کے پاس کم اضافی چینی پڑنے کی وجہ سے کیپٹل لاک اپ میں کمی آئی ہے۔ 22-2021 کے دوران، شوگر ملوں/ڈسٹلریز نے ایتھنول کی فروخت سے 20,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی آمدنی حاصل کی ہے، اس میں کسانوں کے گنے کے واجبات کی جلد ادائیگی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ گڑ/چینی پر مبنی ڈسٹلریز کی ایتھنول کی پیداواری صلاحیت بڑھ کر 700 کروڑ لیٹر سالانہ ہو گئی ہے اور ایتھنول بلینڈڈ پیٹرول یعنی ایتھنول کی آمیزش والا پٹرول (ای بی پی) پروگرام کے تحت 2025 تک 20 فیصد آمیزش کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت جاری ہے۔ نئے سیزن میں چینی سے ایتھنول کی پیداوار 36 ایل ایم ٹی سے بڑھ کر 50 ایل ایم ٹی ہونے کی امید ہے جس سے شوگر ملوں کو تقریباً 25,000 کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی۔ ایتھنول کی آمیزش کے اس  پروگرام نے زرمبادلہ کی بچت کے ساتھ ساتھ ملک کی توانائی کی حفاظت کو بھی مضبوط بنایا ہے۔ 2025 تک 60 ایل ایم ٹی سے زائد اضافی چینی کو ایتھنول میں تبدیل کرنے کا ہدف ہے، جس سے چینی کے زیادہ اسٹاک کے مسئلے کو  حل کیا جاسکے گا،  ملوں کی لیکویڈیٹی بہتر ہوگی، کسانوں کو گنے کے واجبات کی بروقت ادائیگی میں مدد ملے گی اور دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

ملاوٹ کے نشانے کو حاصل کرنے کے لیے حکومت شوگر ملوں اور ڈسٹلریز کو ان کی ڈسٹلری کی استعداد بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ اس کے لیے حکومت انہیں بینکوں سے قرضے فراہم کر رہی ہے، جس پر حکومت کی جانب سے 6 فیصد یا 50 فیصد سود کی شرح سود پر، جو بھی کم ہو، بوجھ حکومت برداشت کر رہی ہے۔ اس سے تقریباً 41,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوگی۔ پچھلے 4 سالوں میں، 243 پروجیکٹ سےمنسلک  افراد کو تقریباً 20,343 کروڑ روپے کے قرضوں کی منظوری دی گئی ہے، جس میں سے تقریباً 11,093 کروڑ روپے کے قرضے 210 پروجیکٹ سے منسلک افراد  کو دئیے گئے ہیں۔

حکومت کی پالیسیوں، ریاستی حکومت اور چینی ملوں کے اتحاد نے کسانوں، صارفین کے ساتھ ساتھ  چینی کے شعبے میں مزدوروں کی دلچسپی کو بڑھایا ہے۔ چینی کو سب کے لیے سستی بنا کر اس نے بالواسطہ طور پر 5 کروڑ سے زیادہ لوگوں اور ملک کے تمام باشندوں کی روزی روٹی کو متاثر کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔ش م۔ ع ن۔

U-2394


(Release ID: 1904701) Visitor Counter : 278


Read this release in: English , Hindi , Marathi , Tamil