وزیراعظم کا دفتر

نئی  دہلی میں مہرشی دیانند سرسوتی کی 200ویں جینتی  تقریبات  سے  وزیر اعظم کے خطاب  کا متن

Posted On: 12 FEB 2023 4:50PM by PIB Delhi

اس پروگرام میں  موجود گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی ، سرودیشک آریہ پرتیندھی سبھا کے صدر جناب سریش چندر آریہ، دہلی آریہ پرتینیدھی سبھا کے صدر جناب دھرمپال آریہ، جناب ونے آریہ، میرے کابینہ کے ساتھی کشن ریڈی جی، میناکشی لیکھی جی، ارجن رام میگھوال جی، تمام مندوبین، یہاں موجود بھائیو اور بہنو!

مہرشی دیانند جی کی 200ویں یوم پیدائش کا یہ موقع تاریخی ہے اور مستقبل کی تاریخ بنانے کا موقع بھی۔ یہ پوری دنیا کے لیے، انسانیت کے مستقبل کے لیے تحریک کا لمحہ ہے۔ سوامی دیانند جی اور ان کا آئیڈیل تھا- ’’کرن ونتو وشو ماریم‘‘۔ یعنی ہمیں پوری دنیا کو بہتر بنانا چاہیے، ہمیں بہترین خیالات، انسانی نظریات کو پوری دنیا میں پہنچانا چاہیے۔ اس لیے، آج 21ویں صدی میں، جب دنیا بہت سے تنازعات میں گھری ہوئی ہے، تشدد اور عدم استحکام میں گھری ہوئی ہے، مہرشی دیانند سرسوتی کا دکھایا ہوا راستہ کروڑوں لوگوں میں امید جگاتا ہے۔ ایسے اہم دور میں آریہ سماج کی جانب سے مہرشی دیانند جی کے 200 ویں یوم پیدائش کا یہ مبارک پروگرام دو سال تک جاری رہنے والا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ حکومت ہند نے بھی اس تہوار کو منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسانیت کی بھلائی کے لیے یہ مسلسل سادھنا چلی ہے ، ایک یگیہ چلا ہے، کچھ دیر قبل مجھے بھی آہوتی دینے کا موقع ملا ہے ۔ابھی  آچاریہ جی   بتا رہے تھے، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے بھی اس مقدس سرزمین پر پیدا ہونے کا شرف حاصل ہوا جس پر مہرشی دیانند سرسوتی جی نے جنم لیا تھا۔ مجھے اس مٹی سے جو قدریں ملی ہیں، اس مٹی سے مجھے جو ترغیب ملی ہے وہ مجھے مہرشی دیانند سرسوتی کے نظریات کی طرف راغب کرتی رہتی ہے۔ میں احترام کے ساتھ سوامی دیانند جی کے قدموں میں جھکتا ہوں اور آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

جب مہرشی دیانند جی پیدا ہوئے، ملک صدیوں کی غلامی سے کمزور ہو کر اپنی چمک، اپنی شان، اپنا اعتماد، سب کچھ کھو رہا تھا۔ ہمارے سسنسکاروں ، ہمارے نظریات اور ہماری اقدار کو تباہ کرنے کی ہر لمحہ لاکھوں کوششیں ہوتی رہتی تھیں ۔ جب کسی معاشرے میں غلامی کا احساس کمتری غالب آجائے تو روحانیت اور ایمان کی جگہ دکھاوے کا آنا فطری بات ہے۔ ہم ایک انسان کی زندگی میں بھی  دیکھتے ہیں جو خود اعتمادی سے محروم  ہوتا ہے، وہ دکھاوے کی بنیاد پر جینے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں مہرشی دیانند جی آگے آئے اور سماجی زندگی میں وید کی سمجھ کو زندہ کیا۔ انہوں نے سماج کو سمت دی، اپنے دلائل سے ثابت کیا اور بار بار بتایا کہ قصور ہندوستان کے مذہب اور روایات میں نہیں ہے۔ خرابی یہ ہے کہ ہم ان کی اصل فطرت کو بھول چکے ہیں اور بگاڑ سے بھر گئے ہیں۔ آپ سوچیں کہ اس وقت جب ہمارے اپنے ویدوں کی غیر ملکی تشریحات، غیر ملکی روایتیں گھڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی، ان جعلی تاویلات کی بنیاد پر بہت سے اسکالرزنے ہمیں نیچا دکھانے، ہماری تاریخ اور روایت کو بگاڑنے کی کوشش کی،اور یہ کوششیں جاری تھیں، پھر مہرشی دیانند جی کی یہ کوششیں ایک بڑی سنجیونی کی شکل میں، ایک جڑی بوٹی کی شکل میں، سماج میں ایک نئی زندگی کی طاقت بن کر سامنے آئیں۔ مہرشی جی نے سماجی امتیاز، اونچ نیچ، چھوا چھوت ، بہت سی بگاڑ اور بہت سی برائیوں کے خلاف ایک مضبوط مہم چلائی جو سماج میں جڑ پکڑ چکی  تھیں ۔ آپ تصور کریں ،آج بھی مجھے معاشرے کی کسی برائی کے بارے میں کچھ کہنا ہے، اگر میں بھی کبھی یہ کہوں کہ مجھے فرض کے راستے پر چلنا ہے تو کچھ لوگ مجھے ڈانٹتے ہیں کہ تم حقوق کی نہیں فرض کی بات کرتے ہو۔ اگر 21ویں صدی میں میری یہ حالت ہے تو 150، 150 یا 200 سال پہلے مہرشی جی کو سماج کو راستہ دکھانے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ جن برائیوں کا الزام مذہب پر لگایا گیا تھا، سوامی جی نے انہیں خود مذہب کی روشنی سے دور کیا۔ اور مہاتما گاندھی جی نے ایک بہت بڑی بات بتائی تھی اور بڑے فخر کے ساتھ بتائی تھی، مہاتما گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’’ہمارے سماج کو سوامی دیانند جی کی بہت ساری دین ہے لیکن چھوا چھوت کے خلاف اعلان ان کی سب سے بڑی دین  ہے۔‘‘ مہرشی دیانند جی بھی خواتین کے حوالے سے سماج میں پروان چڑھنے والے دقیانوسی تصورات کے خلاف ایک منطقی اور موثر آواز بن کر ابھرے۔ مہرشی جی نے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو مسترد کیا ، خواتین کی تعلیم کے لیے مہم شروع کی۔ اور یہ چیزیں ڈیڑھ سو پونے دوسو سال پہلے کی ہیں۔ آج بھی کئی معاشرے ایسے ہیں جہاں بیٹیاں تعلیم اور عزت سے محروم رہنے پر مجبور ہیں۔ سوامی دیانند جی نے یہ بگل اُس وقت  بجایا  تھا جب مغربی ممالک میں بھی خواتین کیلئے یکساں حقوق  دور کی بات تھی۔

بھائیو اور بہنو!

اس دور میں سوامی دیانند سرسوتی کی آمد ، پورے دور کے چیلنجوں کے سامنے ان کا کھڑا ہونا، غیر معمولی تھا، وہ کسی بھی طرح سے عام بات نہیں تھی ۔ لہذا، قوم کے سفر میں ان کی زندہ جاوید  موجودگی، آریہ سماج کے 150 سال، مہرشی جی کے 200 سال اور لوگوں کا اتنا بڑا سمندر آج اس تقریب میں نہ صرف یہاں ہے، بلکہ پوری دنیا کے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ زندگی کی اس سے بڑی بلندی کیا ہو سکتی ہے۔ زندگی جس طرح چل رہی ہے اس کا مرنے کے دس سال بعد بھی زندہ رہنا ناممکن  ہوتا ہے۔ دو سو سال گزرنے کے بعد بھی مہرشی جی ہمارے درمیان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جب ہندوستان آزادی کا امرت کال منا رہا ہے، مہرشی دیانند جی کا  200 واں  یوم پیدائش ایک نیک تحریک لے کر آیا  ہے۔ اس وقت مہرشی جی نے جو منتر دیے تھے، سماج کے لیے جو خواب دیکھے تھے، آج ملک ان پر پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سوامی جی نے تب اپیل کی تھی – ’ویدوں کی طرف لوٹ آؤ۔‘ آج ملک اپنے ورثے پر انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ فخر کر رہا ہے۔ آج ملک پورے وثوق سے کہہ رہا ہے کہ ملک میں جدیدیت لانے کے ساتھ ساتھ ہم اپنی روایات کو بھی تقویت دیں گے۔ وراثت کے ساتھ ساتھ ترقی، اس ٹریک پر ملک نئی بلندیوں کی طرف دوڑ رہا ہے۔

ساتھیو،

عام طور پر دنیا میں جب مذہب کی بات آتی ہے تو اس کا دائرہ صرف عبادت، عقیدہ ،اس کے  طور طریقوں تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، ہندوستان کے تناظر میں، مذہب کے معنی اور مضمرات بالکل مختلف ہیں۔ ویدوں نے مذہب کی تعریف ایک مکمل طرز زندگی کے طور پر کی ہے۔ ہمارے یہاں مذہب کا پہلا مفہوم فرض سمجھا جاتا ہے۔ باپ کا مذہب، ماں کا مذہب، بیٹے کا مذہب، ملک کا مذہب، زمانے کا مذہب، یہ ہمارا تصور ہے۔ لہٰذا ہمارے سنتو ں، رشیوں  کا کردار بھی صرف پوجا اور بندگی تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے قوم اور معاشرے کے ہر پہلو کی ذمہ داری لی، ایک جامع نقطہ نظر اختیار کیا، ایک مربوط نقطہ نظر اختیار کیا۔ پانینی جیسے رشیوں نے یہاں زبان اور گرامر کے میدان کو تقویت بخشی۔ پتنجلی جیسے مہارشی نے یوگا کے میدان کو وسعت دی۔ اگر آپ فلسفے میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ کپل جیسے ماہرین  نے دانشوری کو ایک نئی تحریک دی۔ پالیسی اور سیاست میں مہاتما ودر سے لے کر بھرت ہری اور آچاریہ چانکیہ تک، بہت سے رشی  ہندوستان کے نظریات کی وضاحت کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم ریاضی کی بات کریں تو ہندوستان کی قیادت آریہ بھٹ، برہما گپت اور بھاسکر جیسے عظیم ترین ریاضی دانوں نے کی۔  سائنس کے میدان میں کناد اور وراہمیہر سے لے کر چرک اور سشرت تک بے شمار نام ہیں۔ جب ہم سوامی دیانند جی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس قدیم روایت کو زندہ کرنے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا اور ان میں خود اعتمادی کتنی حیرت انگیز رہی ہوگی۔

بھائیو اور بہنو،

سوامی دیانند سرسوتی جی نے نہ صرف اپنی زندگی میں ایک راستہ بنایا بلکہ انہوں نے بہت سے مختلف ادارے، ادارہ جاتی نظام بھی بنائے اور میں یہ کہوں گا کہ رشی جی نے اپنی زندگی میں انقلابی خیالات کو آگے بڑھایا، انہیں زندہ کیا۔ لوگوں کو جینے کی ترغیب دی۔ لیکن انہوں  نے ہر خیال کو منظم کیا، اسے ادارہ جاتی بنایا اور اداروں کو جنم دیا۔ یہ تنظیمیں کئی دہائیوں سے مختلف شعبوں میں بہت سے بڑے  اورمثبت کام کر رہی ہیں۔ مہرشی جی نے خود پروپکارینی سبھا قائم کی تھی۔ آج بھی یہ ادارہ اشاعتوں اور گروکلوں کے ذریعے ویدک روایت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ کروکشیتر گروکل ہو، سوامی شردھانند ٹرسٹ ہو ، یا مہارشی دیانند سرسوتی ٹرسٹ، ان اداروں نے ملک کے لیے وقف کئی نوجوان پیدا کیے ہیں۔ اسی طرح سوامی دیانند جی سے متاثر مختلف تنظیمیں غریب بچوں کی خدمت، ان کے مستقبل کے لیے کام کر رہی ہیں اور یہ ہماری ثقافت، ہماری روایت ہے۔ مجھے اب یاد ہے کہ ابھی  جب ہم ٹی وی پر ترکی کے زلزلے کی فوٹیج دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں، درد محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے 2001 میں جب گجرات میں زلزلہ آیا تھا تو یہ پچھلی صدی کا بدترین زلزلہ تھا۔ اس وقت میں نے خود جیون پربھات ٹرسٹ کے سماجی کام اور ریلیف ریسکیو میں اس کے کردار کو دیکھا ہے۔ ہر کوئی مہرشی جی کی ترغیب سے کام کرتا تھا۔ سوامی جی نے جو بیج بویا تھا وہ آج ایک بڑے برگد کی شکل میں پوری انسانیت کو سایہ دے رہا ہے۔

ساتھیو،

آج آزادی کے امرت کال میں ملک ان اصلاحات کا مشاہدہ کر رہا ہے، جو سوامی دیانند جی کی ترجیحات بھی تھیں۔ آج ہم ملک میں پالیسیوں اور کوششوں کو بغیر کسی تفریق کے آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ غریبوں، محروموں  اور پسماندہ لوگوں کی خدمت آج ملک کا پہلا یگیہ ہے۔ محروم  افراد کو ترجیح،  اس  منتر کو لیکر ہر غریب کے لیے مکان، اس کا احترام، ہر شخص کے لیے طبی امداد، بہتر سہولیات، سب کے لیے غذائیت، سب کے لیے مواقع، ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ ملک کا  منتر بن گیا ہے۔ گزشتہ 9 سالوں میں ملک خواتین کو بااختیار بنانے کی سمت میں تیز رفتاری سے قدم بڑھا رہا ہے۔ آج ملک کی بیٹیاں دفاع اور سلامتی سے لے کر اسٹارٹ اپ تک ہر کردار میں بغیر کسی پابندی کے قوم کی تعمیر  کے کام کو تیز کر رہی ہیں۔ اب بیٹیاں سیاچن میں تعینات ہیں، اور لڑاکا طیارہ رافیل بھی اڑارہی ہیں۔ ہماری حکومت نے ملٹری  ا سکولوں میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی بھی ہٹا دی ہے۔ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ سوامی دیانند جی نے گروکولوں کے ذریعے ہندوستانی ماحول میں ڈھالے گئے تعلیمی نظام کی بھی وکالت کی تھی۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اب ملک نے اپنی بنیاد بھی مضبوط کر لی ہے۔

ساتھیو،

سوامی دیانند جی نے ہمیں زندگی جینے کا ایک اور منتر دیا تھا۔ سوامی جی نے بہت آسان الفاظ میں بتایا تھا کہ آخر پختہ کار کون ہوتا ہے؟ آپ پختہ کار  کس کو کہیں گے؟ سوامی جی کا دل کو چھولینے والا ایک قول تھا، مہرشی جی نے کہا تھا – ’’جو شخص سب سے کم حاصل کرتا ہے اور سب سے زیادہ تعاون کرتا ہے، وہ پختہ کار ہے۔‘‘ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہوں  نے کتنی آسانی سے اتنی سنجیدہ بات کہہ دی تھی۔ ان کا یہ جیون  منتر آج کے بہت سے چیلنجوں کا حل فراہم کرتا ہے۔ اب جیسا کہ ماحولیات کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس صدی میں جب گلوبل وارمنگ کلائمیٹ چینج جیسے الفاظ نے جنم بھی نہیں لیا تھا، کوئی ان الفاظ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، مہرشی جی کے ذہن میں یہ احساس کہاں سے آیا؟ جواب ہے - ہمارے وید، ہماری رچائیں ! سب سے قدیم مانے جانے والے  ویدوں میں  کتنے ہی سوکت فطرت اور ماحول کے لیے وقف ہیں۔ سوامی جی نے ویدوں کے اس علم کو گہرائی سے سمجھا، انہوں نے اپنے دور میں ان کے آفاقی پیغامات کو وسعت دی۔ مہرشی جی ویدوں کے شاگرد اور علم کی راہ کے سنت تھے۔ اس لیے اس کا ادراک اپنے وقت سے بہت آگے تھا۔

بھائیو اور بہنو،

آج جب دنیا پائیدار ترقی کی بات کر رہی ہے، سوامی جی کا دکھایا ہوا راستہ ہندوستان کی زندگی کے قدیم فلسفے کو دنیا کے سامنے رکھتا ہے اور حل کا راستہ پیش کرتا ہے۔ ماحولیات کے میدان میں ہندوستان آج دنیا کے لیے مشعل راہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے اس وژن کی بنیاد پر، ہم نے ’گلوبل مشن لائف‘ LiFE قائم کیا ہے اور اس کا مطلب ہے طرز زندگی برائے ماحولیات۔ ماحولیات کے لیے اس طرز زندگی نے بھی ایک لائف مشن شروع کیا ہے۔ یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ اس اہم دور میں دنیا کے ممالک نے جی -20 کی صدارت کی ذمہ داری ہندوستان کو سونپی ہے۔ ہم ماحولیات کو جی -20 کے خصوصی ایجنڈے کے طور پر آگے لے جا رہے ہیں۔ آریہ سماج ملک کی ان اہم مہمات میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ ہمارے قدیم فلسفے کے ساتھ، آپ ،لوگوں کو جدید نقطہ نظر اور فرائض سے جوڑنے کی ذمہ داری آسانی سے اٹھا سکتے ہیں۔ اس وقت ملک اور جیسا کہ آچاریہ جی نے بیان کیا ہے، آچاریہ جی تو  اس کے تئیں بہت وقف ہیں۔ ہمیں قدرتی کھیتی سے متعلق ایک جامع مہم کو ہر گاؤں تک لے جانا ہے۔ قدرتی کھیتی، گائے پر مبنی کھیتی، ہمیں اسے پھر سے گاؤں گاؤں لے جانا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آریہ سماج کے یگیہ میں ایک آہوتی اس قرارداد کیلئے بھی  دی جائے۔ ایسی ہی ایک اور عالمی اپیل، بھارت نے ملیٹس ، موٹے اناج، باجرہ، جوار وغیرہ  کیلئے دیا ہے جس سے ہم واقف ہیں اور باجرے کو عالمی شناخت بنانے کے لیے اور اب پورے ملک کے ہر ملیٹ کی پہچان بنانے کے لیے اب ایک نیا نام دیا گیا ہے۔ ہم نے ملیٹس  کو شری انیہ کہا ہے۔ اس سال اقوام متحدہ بین الاقوامی ملیٹ  سال منا رہی ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہم یگیہ کلچر کے لوگ ہیں اور ہم یگیہ میں صرف بہترین آہوتی دیتے ہیں۔ موٹے اناج جیسے جو یا شری انیہ  کا ہمارے یگیوں میں اہم کردار ہے۔ کیونکہ، ہم یگیہ میں وہی استعمال کرتے ہیں جو ہمارے لیے بہترین ہے۔ اس لیے، یگیہ کے ساتھ، ہمیں نئی نسل کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ تمام موٹے اناج - شری انیہ ، کو جہاں تک ممکن ہو ہم وطنوں کی زندگی اور خوراک میں شامل کریں، اسے ان کی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنائیں، اور آپ کو یہ کرنا چاہیے۔ یہ کام آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہمیں سوامی دیانند جی کی شخصیت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے بہت سے  مجاہدین آزادی میں جذبہ حب الوطنی کے شعلے جلائے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک انگریز افسر اُن سے ملنے آیا اور اُن سے ہندوستان میں برطانوی راج کے دائمی قیام کے لیے دعا کرنے کو کہا۔ سوامی جی کا بے خوف جواب تھا، آنکھ سے آنکھ ملا کر انہوں نے انگریز افسر سے کہا – ’’آزادی میری روح اور ہندوستان کی آواز ہے، یہ مجھے پسند ہے۔ میں کبھی بھی غیر ملکی سلطنت کے لیے دعا نہیں کر سکتا۔‘‘ لاکھوںمجاہدین  آزادی اور انقلابی جیسے لاتعداد عظیم آدمی، لوک مانیہ تلک، نیتا جی سبھاش چندر بوس، ویر ساورکر، لالہ لاجپت رائے، لالہ ہردیال، شیام جی کرشن ورما، چندر شیکھر آزاد، رام پرساد بسمل مہرشی جی سے متاثر تھے۔ دیانند جی ہوں، مہاتما ہنسراج جی  ہوں جنہوں نے دیانند اینگلو ویدک اسکول شروع کیا، سوامی شردھانند جی جنہوں نے گروکل کانگڑی کی بنیاد رکھی، بھائی پرمانند جی، سوامی سہجانند سرسوتی، ایسی بہت سی دیوتا  صفت  شخصیتوں کو سوامی دیانند سرسوتی سے تحریک ملی۔ آریہ سماج کے پاس مہرشی دیانند جی کی ان تمام تر ترغیبات کی میراث ہے، آپ کو یہ صلاحیت وراثت میں ملی ہے۔ اور اسی لیے ملک کی بھی آپ سب سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ آریہ سماج کے ہر آریہ ویر سے توقع ہے۔ مجھے یقین ہے، آریہ سماج قوم اور سماج کے لیے ان یگیوں کا اہتمام کرتا رہے گا، اور انسانیت کے لیے یگیوں کی روشنی پھیلاتا رہے گا۔ اگلے سال آریہ سماج کے قیام کا 150 واں سال بھی شروع ہونے والا ہے۔ یہ دونوں مواقع اہم مواقع ہیں۔ اور اب آچاریہ جی نے سوامی شردھانند جی کی وفات کی تاریخ یعنی ایک طرح سے تروینی کے بارے میں بات کی ہے۔ مہرشی دیانند جی خود علم کی روشنی تھے، ہم سب کو بھی اس علم کی روشنی بننا چاہیے۔ جن آدرشوں اور اقدار کے لیے وہ جیتے رہے، جن آدرشوں اور اقدار کے لیے انھوں نے اپنی زندگی گزاری اور زہر پی کر ہمیں امرت بخشا۔ آنے والے امرت کال میں وہ امرت  ہمیں ماں بھارتی کے اور ایک ایک  اہل وطن کی فلاح و بہبود کیلئے مسلسل تحریک دے ، طاقت دے، اہلیت دے ،  میں آج  آریہ پرتیندھی سبھا کی تمام عظیم شخصیات کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ آج کا پروگرام جس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے، مجھے  آکر 10-15 منٹ کے لیے ان سب چیزوں کو  دیکھنے کا  جو موقع ملا، میں  مانتا ہوں کہ پلاننگ، مینجمنٹ، ایجوکیشن ہر لحاظ سے بہترین انعقاد کے لئے آپ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔

بہت بہت مبارک باد۔

بہت بہت شکریہ۔

******

شح۔ مم۔ م ر

U-NO.1548



(Release ID: 1898578) Visitor Counter : 171