ارضیاتی سائنس کی وزارت
مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے قدرتی آفات سے بنی نوع انسان کو ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے تخفیف کی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ان خیالات کااظہار دہلی میں جوائنٹ انڈو-یو کے اکیڈمک ورکشاپ میں کیا، جہاں برطانیہ کے وفد کی قیادت ہندوستان میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر محترمہ کرسٹینا اسکاٹ کر رہی تھیں
محترمہ کرسٹینا اسکاٹ نے کہا، ‘‘جغرافیائی خطرات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج پیش کرتا ہے جس کے لیے محققین، پالیسی سازوں، حکومتوں، نجی شعبوں، اور سول سوسائٹیز کے تعاون سے بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت ہے’’
Posted On:
10 JAN 2023 3:13PM by PIB Delhi
آج یہاں ‘‘زمین کے خطرات’’ پر 2 روزہ ہند-برطانیہ ورکشاپ کا افتتاح کرتے ہوئے، مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) سائنس اور ٹیکنالوجی؛ وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ارتھ سائنسز؛ پی ایم او، عملے، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلائی امور کے وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے قدرتی آفات سے بنی نوع انسان کو پہنچنے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے تخفیف کی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر جتندر سنگھ نے ان خیالات کااظہار دہلی میں جوائنٹ انڈو-یو کے اکڈ مک ورکشاپ میں کیا، جہاں برطانوی ہائی کمیشن نئی دہلی میں برطانوی وفد کی قیادت ہندوستان میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر محترمہ کرسٹنااسکاٹ کر رہی تھیں۔

محترمہ سکاٹ کے ساتھ محترمہ وینڈی میچم، ہیڈ آف ریسیلینٹ انوائرمنٹ، نیچرل انوائرنمنٹ ریسرچ کونسل(یو کے، این ای آر سی) ریسرچ اینڈ انوویشن(یو کے آر آئی) اور محترمہ سوکنیا کمار، قائم مقام ڈائریکٹر، یو کے ریسرچ اینڈ انوویشن انڈیا، جبکہ ہندوستانی جانب سے ڈاکٹر، ڈاکٹر ایم روی چندرن، سکریٹری، ارتھ سائنسز کی وزارت، ڈاکٹر او پی مشرا، ڈائرکٹر، نیشنل سینٹر فار سیسمولوجی، وزارت ارتھ سائنسز نے بحث میں حصہ لیا۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یہ ایک قدرتی اتفاق ہے کہ ‘‘زمین کے خطرات’’ پر مشترکہ ارضیاتی سائنس ورکشاپ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ہندوستان اتراکھنڈ میں جوشی مٹھ کے واقعے سے نمٹ رہا ہے، جہاں زمینی سائنس کی وزارت اس مسئلے کو حل کرنے میں دوسرے اداروں کے ساتھ شامل ہے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے، ارضیاتی سائنس کی وزارت نے فعال موقف اپنایا ہے اور پچھلے دو سالوں میں 37 نئے زلزلہ پیما مرکز (آبزرویٹری) قائم کیے ہیں اور اب ہندوستان کے پاس وسیع پیمانے پر مشاہدے کی سہولیات کے لیے ایسے 152 مراکز ہیں، جن سے نتائج پر مبنی تجزیات کے لیے بہت بڑا ڈیٹا بیس تیارکرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے 5 سالوں میں عین موقع پر ڈیٹا مانیٹرنگ اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل میں بہتری لانے کے لیے ملک بھر میں ایسے مزید 100 زلزے سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے سینٹرز کھولے جائیں گے۔ وزیر موصوف نے مزید کہا کہ ہندوستان زلزلہ سے متعلق معلومات کے حصول کی ترقی اور افہام و تفہیم میں اہم کردار ادا کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے اس بات پر زور دیا کہ ان طبیعاتی واقعات پر بنیادی تحقیق کی اشد ضرورت ہے جو زمین کی اوپری پرت اور ذیلی تہہ کے نیچے آسانی سے ٹوٹنے والی(پھوٹک) تہوں کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں، تاکہ خطےمیں وسیع پیمانے پر جغرافیائی خطرات کی شناخت اور ان کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے کم لاگت کی سہولیات تیار کی جاسکےاور تخفیف کی ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جاسکے جو وسیع پیمانے پر مختلف ہوتے ہوئے اور تیزی سے ترقی پذیر – سیاسی، سماجی، اور اقتصادی سیاق و سباق کے لئے موزوں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 50 سالوں میں آفات کے پس پشت کار فرما حالات وواقعات کی سائنسی تفہیم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں ایسی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستان-برطانیہ کی طرف سے کئے جانے والے مشترکہ اقدام جیسے بین الاقوامی تعاون کو مزیدمضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی سائنسدانوں کا یو کے آر آئی کے اپنے ہم منصب کے ساتھ ٹھوس زمین سے پیدا ہونے والے اثرات کے حوالے سے گہرا تعاون اس موضوع پر ہماری سمجھ بوجھ کو مزید تقویت بخشے گا تاکہ قدرتی آفات جیسے زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ اور سونامی وغیرہ سے منسلک خطرے کو کم کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔
ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مشترکہ ورکشاپ کے انعقاد کے لیے برطانوی ہائی کمشنر کا شکریہ ادا کیا اور ریمارک کیا کہ ہندوستان میں اس طرح کی تعلیمی وتنظیمی مصروفیات نوجوان محققین میں نیا جوش و جذبہ پیدا کرے گی اور انہیں باہمی تعاون اور کثیر الضابطہ سائنس کی تجاویز تیار کرنے کے قابل بنائے گی، جس کے نتائج نئی سائنسی سہولیات سے لیس اپنے سیارے کی بہتر تفہیم کے ساتھ مستقبل میں ہمیں آگے بڑھنے میں مدد فراہم کریں گے۔ وزیر موصوف نے مزید کہا کہ زمینی عمل اور اس کی اندرونی حرکیات کے پیچھے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی طبیعیات کے بڑھتے ہوئے شعور کے ساتھ، سائنس دان زمینی سائنس کے مختلف شعبوں میں مشترکہ تحقیق کی سرحدوں کو پرجوش طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔

محترمہ کرسٹینا اسکاٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جغرافیائی خطرات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت لچک پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے محققین، پالیسی سازوں، حکومتوں، نجی شعبوں اور سول سوسائٹیز کا تعاون حاصل کرتے ہوئے بین الاقوامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، اس تناظر میں، برطانیہ کے زمینی سائنس دان زمین کی پرت اوراس میں ہونے والی تبدیلی سے متعلق سرگرمی اور ہندوستان میں جغرافیائی خطرات سے اس کے تعلق کی موجودہ تفہیم میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محترمہ اسکاٹ نے مزید کہا کہ ورکشاپ کا نتیجہ معاشرے سے متعلق مخصوص سائنسی مسائل کا باعث بنے گا جن کا برطانیہ کے ہم منصب کے ساتھ مشترکہ طور پر مطالعہ کیا جائے گا تاکہ ہندوستان کو درپیش چیلنجوں کو سمجھ سکیں۔
ڈاکٹر ایم روی چندر نے کہا کہ یہ مشترکہ ورکشاپ دونوں ممالک کے لیے ایک موزوں ماحول ہے کہ وہ اپنے اپنے مقام پر تحقیق کو آگے بڑھائیں اور ساتھ ہی کثیر الضابطہ تحقیقات کی نئی راہیں تلاش کریں۔ انہوں نے کہا، یہ واقعی ہندوستان اور برطانیہ کے ماہرین/تعلیمی ماہرین کو ایک ساتھ آنے اور ہندوستانی خطے کے لیے ٹھوس زمینی خطرات کے مختلف پہلوؤں پر بنیادی تحقیق کی اہم ضرورت پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔
محترمہ وینڈی میچم، ہیڈ آف ریسیلینٹ انوائرمنٹ، نیچرل انوائرنمنٹ ریسرچ کونسل(یو کے، این ای آر سی) ریسرچ اینڈ انوویشن (یو کے آر آئی) نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس ورکشاپ کا مقصد برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان تحقیق کے ممکنہ شعبوں کو وسعت دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یو کے آر آئی انہیں پہلے ہی ماحولیات اور ہائیڈرولوجیکل سائنس سے متعلق ایم او ای ایس کی سرگرمیوں میں اسی طرح کے تعاون میں شامل کر چکا ہے۔
ارضیاتی سائنس کی وزارت نے سائنس دانوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو نیشنل سینٹر فار سیسمولوجی (این سی ایس) نئی دہلی، بورہول جیو فزیکل ریسرچ لیبارٹری (بی جی آر ایل) کراڈ، نیشنل سینٹر فار ارتھ سائنس اسٹڈیز (این سی ای ایس ایس) ترواننت پورم اور نیشنل سینٹر فار پولر اور اوشین ریسرچ (این سی پی او آر) گوا کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کا مقصد ورکشاپ کے دوران برطانیہ سے آنے والے ماہرین/سائنسدانوں کی ٹیم کے ساتھ بات چیت کرنا ہے تاکہ ٹھوس زمین کے خطرات پر تعاون کو فروغ دیا جاسکے اور منفرد تحقیقی پروجیکٹس تیار کیے جاسکیں۔

دو روزہ ورکشاپ کے دوران دونوں ممالک کے ماہرین/سائنسدان ٹھوس زمین کے خطرات کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کریں گے۔ تحقیق کے اس پروگرام کے لیے خاص توجہ کے ممکنہ طور پر مرکز بننے والے شعبوں میں – چٹانوں کے ٹوٹنے و بکھرنے کے پش پشت طبیعیات: زلزلے، لینڈ سلائیڈز، لیبارٹری سے ڈیٹا سیٹ کا امتزاج، ریموٹ سینسنگ، اور فیلڈ مشاہدات؛ زمین کے مشاہدے اور اے آئی تکنیکوں کی ترقی، جغرافیائی خطرات، نقشے کے خطرات، تخفیف کی حکمت عملیوں کو دریافت کرنے، اور آفات سے متعلق ردعمل کی رہنمائی کے لیے؛ زمینی پرت کے خراب ہونے گہری نگرانی کے لیے سینسرٹیکنالوجیز؛ خطرات اور خدشات کی مقدار کا بہتر طور پر تخمینہ؛ متحرک منظرنامے – جغرافیائی خطرات کے جواب میں شہروں اور علاقوں کی طویل مدتی ترقی کی رہنمائی ، سونامی-جینک زون کے خطرے کی صلاحیت؛ جی پی ایس کا استعمال کرتے ہوئے ٹی ای سی کا مطالعہ کرکے آئیون کی فضا میں ہونے والی گڑبڑیوں کا مطالعہ اور ریئل ٹائم جی پی ایس اور ایس ایم اے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے فوکل میکانزم کا مطالعہ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ورکشاپ صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں ہے۔
ہندوستان میں زلزلے کی نگرانی کے آلات کی تاریخ 1898 کی ہے جب ملک کی پہلی زلزالی امور کا مشاہدہ کرنے والی آبزرویٹری یکم دسمبر 1898 کو علی پور (کلکتہ) میں 1897 کے عظیم شیلانگ سطح مرتفع کے 8.7 کی شدت کے زلزلے کے بعد قائم کی گئی تھی، جو ہندوستانی زلزلوں کی تاریخ میں اب تک کا سب سے مہلک اور سب سے زیادہ شدید زلزلہ تھا۔
زمینی سائنس کی وزارت کے تحت نیشنل سینٹر فار سیسمولوجی حکومت ہند(جی او آئی) کی نوڈل ایجنسی ہے، جو ملک میں اور اس کے آس پاس کے زلزلوں کی نگرانی کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے،این سی ایس ایک نیشنل سیسمولوجیکل نیٹ ورک(این ایس این) کا استعمال کرتا ہے جس میں ملک بھر میں پھیلی 152 رصد گاہیں شامل ہیں۔ این سی ایس کے ذریعہ رپورٹ کردہ زلزلوں کی معلومات متعلقہ مرکزی اور ریاستی ڈیزاسٹر حکام کو کم از کم ممکنہ وقت میں فراہم کی جارہی ہے تاکہ مناسب تخفیف کے اقدامات شروع کیے جاسکیں۔
*************
ش ح ۔س ب ۔ رض
U. No.324
(Release ID: 1890219)