وزیراعظم کا دفتر
پانی کے موضوع پر آل انڈیا ریاستی وزراء کی سالانہ کانفرنس میں وزیر اعظم کے ویڈیو پیغام کا متن
Posted On:
05 JAN 2023 12:19PM by PIB Delhi
ہیلو.
ملک کے وزرائے آب کی پہلی آل انڈیا کانفرنس اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ آج ہندوستان پانی کی حفاظت پر بے مثال کام کر رہا ہے اور بے مثال سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ ہمارے آئینی نظام میں پانی کا موضوع ریاستوں کے کنٹرول میں آتا ہے۔ پانی کے تحفظ کے لیے ریاستوں کی کوششیں ملک کے اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے میںبڑے پیمانے پر مدد گار ثابت ہوں گی۔ اس لیے ‘واٹر ویژن ایٹ 2047’ امرت کے اگلے 25سالوں کے سفر کی ایک اہم جہت ہے۔
ساتھیوں،
اس کانفرنس میں ‘پوری حکومت’ اور‘ ملک’ کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کا ہونا بہت فطری اور ضروری ہے۔‘پوری حکومت’ کا ایک پہلو یہ ہے کہ تمام حکومتوں کو ایک نظام کی طرح ایک نامیاتی ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ ریاستوں میں بھی مختلف وزارتیں ہونی چاہئیں جیسے پانی کی وزارت، وزارت آبپاشی، وزارت زراعت، وزارت دیہی ترقی، محکمہ مویشی پروری۔ اسی طرح شہری ترقی کی وزارت، اسی طرح ڈیزاسٹر مینجمنٹ۔ یعنی مسلسل رابطہ اور مکالمہ اور سب کے درمیان واضح اور صریح وژن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر محکموں کے پاس ایک دوسرے سے متعلق معلومات ہیں، ان کے پاس مکمل ڈیٹا ہے تو ان کی منصوبہ بندی میں بھی مدد کی جائے گی۔
ساتھیوں،
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ کامیابی صرف حکومت کی کوششوں سے نہیں ملتی۔ حکومت میں رہنے والوں کو اس سوچ سے باہر آنا ہوگا کہ صرف ان کی کوششوں کے متوقع نتائج برآمد ہوں گے۔ اس لیے ہمیں پانی کے تحفظ سے متعلق مہم میں عوام، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنا ہوگا۔ عوامی شرکت کا ایک اور پہلو بھی ہے اور اسے سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عوامی شرکت کا مطلب تمام ذمہ داری عوام پر ڈالنا ہےاور عوامی شرکت کو فروغ دینے سے حکومت کی ذمہ داری کم ہوجاتی ہے۔ حقیقت ایسی نہیں ہے۔ اس سے حکومت کی ذمہ داری کم نہیں ہوتی ہے۔عوام کی شرکت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ اس مہم میں کتنی محنت کی جا رہی ہے، کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ اس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ جب عوام کسی مہم سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کام کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی قوت و صلاحیت معلوم ہوتی ہے، اس کا پیمانہ معلوم ہوتا ہے، یہ معلوم ہوتاہے کہ کتنے وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جب لوگ یہ سب دیکھتے ہیں اور اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر یہ منصوبہ ہو یا مہم، اس کے ساتھ اپنے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور اسی شدید وابستگی کا جو احساس ہوتا ہے وہی دراصل کامیابی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اب آپ دیکھیں کہ سوچھ بھارت ابھیان کتنی بڑی مثال ہے۔ جب لوگ سوچھ بھارت ابھیان میں شامل ہوئے تو عوام میں ایک شعور اور بیداری آئی۔ گندگی کو دور کرنے کے لیے جو وسائل اکٹھے کرنے پڑے، مختلف واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر، بیت الخلاء کی تعمیر، ایسے بہت سے کام حکومت نے کیے ہیں۔ لیکن اس مہم کی کامیابی اس وقت یقینی ہوئی جب عوام میں، ہر شہری کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کوڑا ادھر اُدھر نہیں پھینکنا چاہیے، کوڑا جمع نہیں ہونا چاہیے۔ شہریوں میں گندگی سے نفرت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ اب ہمیں پانی کے تحفظ کے لیے عوام کے ذہنوں میں عوامی شرکت کا یہ خیال ابھارنا ہوگا۔ اس کے لیے ہم عوام میں جتنی بیداری کریں گے اتنا ہی زیادہ اثر پیدا ہوگا۔ جیسا کہ ہم ‘ پانی کے معاملات سے آگاہی فیسٹیول’ کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر منعقد ہونے والے میلوں میں پانی کی آگہی سے متعلق بہت سی تقریبات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر نئی نسل کو اس موضوع سے روشناس کرانے کے لیے ہمیں نصاب سے لے کر اسکولوں میں سرگرمیوں تک کے اختراعی طریقے سوچنا ہوں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور تعمیر کئے جارہےہیں۔ آپ نے اپنی ریاست میں بھی اس میں بہت کام کیا ہے۔ اتنے کم وقت میں 25 ہزار امرت کی جھیلیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ پانی کے تحفظ کی سمت میں پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی منفرد مہم ہے اور عوامی شرکت داری اس کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ لوگ پہل کر رہے ہیں، لوگ اس میں شرکت کے لئے آگے آ رہے ہیں۔ ان کی حفاظت ہونی چاہیے، لوگوں کو ان کے ساتھ رابطے میں لانا چاہیے، ہمیں اس سمت میں مسلسل کوششیں بڑھانا ہوں گی۔
ساتھیوں،
ہمیں حکومتی پالیسیوں اور افسر شاہی کے طریقہ کار سے نکل کر پانی سے متعلق مسائل کو پالیسی کی سطح پر بھی حل کرنا ہوگا۔ ہمیں مسائل کی نشاندہی کرنے اور حل تلاش کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، صنعت اور خاص طور پر اسٹارٹ اپس کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ جیو سینسنگ اور جیو میپنگ جیسی ٹیکنالوجیز اس سمت میں ہماری بہت مدد کر سکتی ہیں۔
ساتھیوں،
جل جیون مشن’ ہر گھر کو پانی فراہم کرنے کے لیے آپ کی ریاست کا ایک بڑا ترقیاتی پیمانہ ہے۔ کئی ریاستوں نے اس میں اچھا کام کیا ہے، کئی ریاستیں اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایک بار جب یہ نظام قائم ہو جائے تو پھر ان کی دیکھ بھال بھی اتنی ہی اچھی طرح سے ہوتی رہے۔ گرام پنچایتوں کو جل جیون مشن کی قیادت کرنی چاہئے، اور کام مکمل ہونے کے بعد، انہیں یہ بھی تصدیق کرنی چاہئے کہ کافی اور صاف پانی دستیاب ہو چکا ہے۔ ہر گرام پنچایت آن لائن ماہانہ یا سہ ماہی رپورٹ بھی پیش کر سکتی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اس کے گاؤں کے کتنے گھروں کو نل کا پانی مل رہا ہے۔ پانی کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً پانی کی جانچ کا نظام بھی وضع کیا جائے۔
ساتھیوں،
ہم سب جانتے ہیں کہ صنعت اور زراعت دو ایسے شعبے ہیں جن میں قدرتی طور پر بہت زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ان دونوں شعبوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان ایک خصوصی مہم چلانی چاہیے تاکہ انہیں پانی کی حفاظت سے آگاہ کیا جا سکے۔ فصلوں میں تنوع پانی کی دستیابی کی بنیاد پر کیا جائے، قدرتی کاشتکاری کی جائے، قدرتی کاشتکاری کو فروغ دیا جائے۔ بہت سی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں قدرتی کاشتکاری کی جاتی ہے، قدرتی کھیتی باڑی ہو رہی ہے، وہاں پانی کے تحفظ پر بھی مثبت اثر دیکھا گیا ہے۔
ساتھیوں،
پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کے تحت تمام ریاستوں میں کام تیز رفتاری سے ہو رہا ہے۔ اس کے تحت کم سے کم پانی سے زیادہ سے زیادہ فصل مہم شروع کی گئی۔ اس اسکیم کے تحت اب تک ملک میں 70 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زمین کو چھوٹے پیمانے کی سینچائی پروگرام کے تحت لایا جا چکا ہے۔ تمام ریاستوں کو چھوٹے پیمانے کی سنیچائی پروگرام کو مسلسل فروغ دینا چاہیے۔ پانی کے تحفظ کے لیے یہ بہت اہم منصوبہ ہے۔ اب براہ راست نہر کی جگہ پائپ لائن پر مبنی نئی اسکیمیں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ اس پروگرام کو ابھی مزید آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔
ساتھیوں،
آبی تحفظ کے لئے مرکز نے اٹل بھوجل سنرکشن اسکیم کی شروعات کی ہے۔یہ ایک حساس مہم ہے اوراسے اتنی ہی حساسیت سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔آبی بندوبست کے لئے تیار کی گئی اتھارٹی سختی سے اس سمت میں کام کرے، یہ بھی لازمی ہے۔ زمینی پانی کی بھرائی کے لئے تمام اضلاع میں بڑے پیمانے پر واٹر شیڈ کے انتظام کی سخت ضرورت ہے ۔ میری خواہش ہے کہ منریگا میں سب سے زیادہ کام پانی کے لئے ہونا چاہئے ۔ پہاڑی خطوںمیں اسپرنگ شیڈ کو زندہ رکھنے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے،اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔آبی تحفظ کے لئے ریاست میں جنگلاتی رقبوں کو بڑھانا بہت ضروری ہے ۔ اس کے لئے وزارت ماحولیات اور آبی وزارت ساتھ مل کر کام کریں ۔مسلسل پانی پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ پانی کے سبھی مقامی ذرائع کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ گرام پنچایتیں اپنے لئے اگلے پانچ سال کے لئے عملی منصوبہ تیار کریں اور پانی پر خصوصی توجہ دیں ۔ اس عملی منصوبے میں پانی کی فراہمی سے لے کر صاف صفائی اور کوڑا کرکٹ کے بندوبست تک کا روڈ میپ ہو۔ کس گاؤں میں کتنا پانی ضروری ہے اور اس کے لئے کیا کام ہوسکتا ہے ، اس کی بنیاد پر کچھ ریاستوں میں پنچایت سطح پر واٹر بجٹ تیار کیا گیا ہے۔اسے بھی دوسری ریاستوں کے ذریعہ اپنا یا جاسکتا ہے۔ حالیہ برسوںمیں ہم نے دیکھا ہے کہ کیچ دی رین (بارش کو اکٹھا کرنے کا عمل ) مہم نے لوگوں میں پانی جمع کرنے کی رغبت پیدا کی ہے لیکن کامیابی کے لئے مزیداقدامات کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی مہم ریاستی حکومت کی روز مرہ کی سرگرمیوں کا ایک حصہ ہونا چاہئے ۔ ریاستی حکومت کی سالانہ مہم کا ضروری حصہ بننا چاہئے اور اس طرح کی مہم کے لئے بارش کا انتظار کرنے کے بجائے بارش سے قبل ہی تمام منصوبہ بندی ضروری ہے۔
ساتھیوں،
اس بجٹ میں حکومت نے سرکلر اکنامی پر بہت زور دیا ہے ۔آبی تحفظ کے شعبے میں سرکلر اکنامی کا اہم کردار ہے ۔ جب صاف کئے گئے پانی کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے، تازہ پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے تو اس سے پورے ماحولیاتی نظام کو فائدہ پہنچتا ہے ۔اس لئے پانی کو سوتنے اور پانی کی ری سائکلنگ بہت ضروری ہے ۔ ریاستوں کے ذریعہ صاف کئے گئے پانی کے استعمال میں اضافے کی اسکیم سے بڑی تبدیلی آئی ہے اور اس میں ویسٹ میں سے بیسٹ آمدنی بھی ہوتی ہے ۔آپ کو مقامی ضروریات کی میپنگ کرنی ہوگی اور اسی نہج پر اسکیمیں تیار کرنی ہوں گی۔ انہوں نے آگے کہا کہ ہمارے دریا ، ہمارے آبی ادارے پورے آبی ماحولیاتی نظا م کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں۔ہمارا کوئی بھی دریا یا آبی ادارہ باہری چیزوں سے آلودہ نہ ہو ،اس کے لئے ہمیں ہرریاست میں کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے بندوبست اور سیویج ٹریٹمنٹ کا نیٹ ورک تیار کرنا ہوگا۔صاف کئے گئے پانی کا دوبارہ استعمال ،اس کے لئے بھی موثر بندوبست پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ نمامی گنگے مشن کو ٹمپلیٹ بناکر بقیہ ریاستیں بھی اپنے یہاں کےدریاؤں کے تحفظ اور اس کے احیاء کے لئے اس طرح کی مہمیں شروع کرسکتی ہیں۔
ساتھیوں،
پانی پر ایک دوسرے کا تعاون اور آپسی تال میل پر توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت تیزی سے ہماری آبادی شہرکاری کی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ جس طرح سے شہری ترقی ہورہی ہے ،اسی طرح ہمیں پانی پر بھی سوچنا ہوگا۔ سیویج کے بندوبست پر بھی غور کرنا ہوگا۔ شہروں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے ، اس رفتار سے ہمیں مزیدترقی کرنی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ اس اجلاس میں ہرشخص اپنے تجربات کومشترک کرے گا جو بہت ہی کارآمد ثابت ہوں گے۔ایک عہد کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے ۔ہرریاست اپنے شہریوں کی سہولیات کے لئے پانی کے تئیں ترجیحی طورپر کام کرے گی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس واٹر کانفرنس کے لئے بڑی امیدوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد!
شکریہ۔
*************
ش ح ۔ س ب ۔ع ح۔ رض۔ رم
U. No.134
(Release ID: 1888836)
Visitor Counter : 394
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Assamese
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam