وزارت اطلاعات ونشریات
’ آیوشمان‘ – امید کے سب سے بڑے سفر پر ایک حقیقی زندگی کی کہانی
’’ آیوشمان‘‘ کے ذریعے میں ایچ آئی وی مریضوں کے تئیں سماجی امتیاز اور بدنامی کے سلوک کو دور کرنا چاہتا تھا: ڈائریکٹر جیکب ورگیز
’’ آیوشمان ‘‘بھارت کے دیہی علاقے کے ایک محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے ایچ آئی وی سے متاثرہ دو 14 سالہ لڑکوں کے بارے میں ہیں ، جنہوں نے ایچ آئی وی کے مریضوں کے تئیں سماج میں موجود سماجی بدنامی اور امتیاز سے لڑنے اور ایک مثبت تبدیلی لانے اور امید کی روشنی پھیلانے کے لئے میراتھنس میں شرکت کی ۔ یہ بات فلم کے ڈائریکٹر جیکب ورگیز نے کہی ۔ وہ 25 نومبر ، 2022 ء کو گوا میں بھارت کے 53 بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے موقع پر پی آئی بی کے زیر اہتمام ’ٹیبل ٹاک‘ سیشن میں سے ایک میں میڈیا اور فیسٹیول کے مندوبین سے بات چیت کر رہے تھے۔
دستاویزی فلم بنانے کے پیچھے حوصلہ افزائی کے بارے میں بتاتے ہوئے ، ڈائریکٹر نے کہا کہ ’’ لڑکوں اور ان کی زندگی میں کبھی ہار نہ ماننے کے ، اُن کےعزم نے ، مجھے بھی حوصلہ دیا ہے ۔ انہوں نے ، اُن آزمائشوں کے بارے میں شکایتیں کرنا چھوڑ دیا اور اس کے بجائے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے دِل جیت لئے ۔
اس سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے ، جس کو مکمل ہونے میں تقریباً 6 سال لگے، جیکب ورگیز نے کہا کہ ان کی ملاقات بابو اور مانک سے ہوئی ، جو 12 سال کے لڑکے تھے اور اس وقت ایچ آئی وی سے متاثرہ بچوں کے لئے مخصوص یتیم خانے میں رہ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک کو پیدائش کے وقت چھوڑ دیا گیا تھا اور دوسرا اپنے خاندان اور مستقبل کے حوالے سے اپنے خوف پر قابو پانے کے لئے لڑ رہا تھا ۔ جب میں ان سے ملا، جن کی پیدائش ایچ آئی وی سے متاثر مریض کے طور پر ہوئی اور اس میں ان کی اپنی کوئی غلطی نہیں تھی تو میرے ذہن میں ، جو پہلا خیال آیا ، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں گے، کس طرح زندہ رہیں گے اور ان کی زندگی کتنی ہو گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ ‘‘
ڈائریکٹر نے کہا کہ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی ، جب لڑکوں نے ، جو وہ سب سے زیادہ پسند کرتے تھے ، یعنی دوڑ کو مسلسل کرنے کے لئے زبردست حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا ۔ ان کے مطابق، جن لڑکوں نے بڑے مقصد میں سبقت حاصل کرنے کے لئے چھوٹے قدم اٹھائے، انھوں نے پہلے 10 کلومیٹر دوڑ کا انتخاب کیا اور بعد میں اُسے بڑھا کر ہاف میراتھن تک کیا ، جو 21 کلومیٹر کا فاصلہ ہے ۔
ان کے سفر کی باریکیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے، جناب ورگیز نے کہا کہ انہوں نے چھوٹے پیمانے پر آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ جب ہم بہاؤ کے ساتھ جہاز پر روانہ ہوئے، میں نے بھی ان کے ساتھ بڑھنا شروع کیا اور ان کا مشن انہیں 5 براعظموں اور 12 ممالک تک لے گیا۔ میں نے صرف ان کی پیروی کی اور ان کی زندگی کو دستاویزی شکل دی ۔ ‘‘
جب ان سے لڑکوں کی جسمانی صحت کے بارے میں پوچھا گیا ، جو کہ ان کے مقصد میں اہم کردار ادا کرتی ہے، تو ڈائریکٹر کا کہنا ہے: ’’ کھیلوں کو اپنانا ، ان کے لئے اعتماد اور صلاحیت پیدا کرنے میں ایک ذریعہ کا کام کرتا ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ بیماری سے جڑے بدنما داغوں پر قابو پانے میں ان کی مدد کرنے میں ایک تحریک کے طور پر کام کر رہا ہے۔ یہ صحیح غذائیت اور ورزش کے معاملے میں بھی بہت مثبت انداز میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ ‘‘
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بدنما داغ کے نفسیاتی پہلو ، اس بیماری سے پیدا ہونے والے جسمانی نتائج سے کہیں زیادہ بڑے نتائج کا باعث بنتے ہیں، جناب ورگیس نے کہا کہ نفسیاتی پہلو بہت زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہ اس حقیقت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں کہ ان کے خاندانوں نے ان کی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود انہیں تنہا چھوڑ دیا ۔
یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح اس بیماری سے جڑی معاشرتی بدنامی اور امتیازی سلوک نے ، ان سے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھین لی تھیں اور کس طرح غلط معلومات ایسا کرنے میں ایک لازمی کردار ادا کرتی ہے، جناب ورگیس نے کہا کہ ’’ ایچ آئی وی اور جذام جیسی بیماریوں کے بارے میں درست معلومات کی کمی ہے ، جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کے درمیان ایک دیوار سی کھڑی ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ زندگی کو پوری طرح نہیں جی سکتے اور وہ اپنے درست حقوق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘
ان لڑکوں کی زندگی میں تبدیلی کی تفصیل بتاتے ہوئے ، جن کی کہانی امید کا سب سے بڑا سفر بن گئی، جناب ورگیز نے کہا کہ یہ لڑکے اپنے یتیم خانے میں ، انہی کی طرح کے بچوں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں اور جنہوں نے اس اعتماد کو جنم دیا ہے کہ لڑکے بہت سے دوسرے لوگوں کو تحریک دلانے کے لئے اپنی آخری سانس تک دوڑنا جاری رکھیں گے ۔
ڈائریکٹر جیکب ورگیز ایک ایوارڈ یافتہ بھارتی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور مصنف ہیں ، جو کنڑ فلم انڈسٹری میں اپنے سمجھدار، تجارتی لحاظ سے کامیاب اور اعلیٰ قدر کی سنیما تفریح کے لئے مشہور ہیں۔ ورگیس ، جو اکثر ایسے موضوعات پر فلمیں بنانے کی طرف مائل رہتے ہیں ، جو ان کے دل کو چھو کر ان پر دیرپا نقوش چھوڑتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ، جس موضوع اور شخصیت کی پیروی کر رہے ہیں ، وہی ان کے لئے ایسی فلمیں بنانے کا محرک ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’’ آپ اس طرح کی فلموں پر خرچ کی گئی رقم کی وصولی بھی نہیں کر سکتے اور فیسٹیول کے علاوہ ان کی نمائش کے لئے کوئی راستہ بھی نہیں ہے ‘‘ اور کہا کہ بابو اور مانک کی کہانی حقیقی ہے، اس لئے میں اصل حقائق بتانا چاہتا ہوں۔ اسی لئے میں نے ایک دستاویز کے طور پر ، یہ فلم بنائی ہے ۔
آیوشمان فلم کو گوا میں جاری بھارت کے 53 ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں بھارتی پینورما کے غیر فیچر فلم کے سیکشن میں دکھایا گیا ۔
فلم کے بارے میں
ڈائریکٹر: جیکب ورگیز
پروڈیوسر: دنیش راج کمار این، میتھیو ورگیز، نوین فرانکو
اسکرین پلے: جیکب ورگیز
سینماٹوگرافر: جیکب ورگیز
ایڈیٹر: کلویر برادر، اشون پرکاش آر
خلاصہ: یہ دو 14 سالہ، ایچ آئی وی پازیٹیو، دیہی بھارت کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے دو لڑکوں کی کہانی ہے ۔ ایک بچے کو پیدائش کے وقت ہی چھوڑ دیا گیا ہے ، جب کہ دوسرا مستقبل کے اپنے خوف پر قابو پانے کے لئے لڑ رہا ہے۔ دوڑ سے تحریک حاصل کرتے ہوئے ، انہوں نے اس بیماری کے تئیں تمام سماجی بدنامی اور امتیازی سلوک کو پوری دنیا میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے بیداری پیدا کی ۔
پروڈیوسر: دنیش راجکمار این ایک سینئر صحافی، سینماٹوگرافر اور ایوارڈ یافتہ فلم پروڈیوسر ہیں۔ انہوں نے دو فلموں کے لئے قومی فلم ایوارڈ جیتے ہیں : اندھیم ( 2008 ) اور ڈرِبلنگ وِد دیئر فیوچر ( 2016 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )
U. No. 12985
(Release ID: 1879112)
Visitor Counter : 240