امور داخلہ کی وزارت

نئی دہلی میں دہشت گردوں کو مالیہ فراہم کرنے اور دہشت گردی میں عالمی رجحانات سے متعلق دہشت گردی کے لئے رقم کی کوئی گنجائش کے موضوع پرتیسری وزارتی کانفرنس سے پہلے اجلاس میں مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے خطاب کا مکمل متن

Posted On: 18 NOV 2022 12:13PM by PIB Delhi

شروع میں، میں آپ سب کو اس وزارتی کانفرنس میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے آپ سب کے ساتھ اپنے تجربات اور خیالات  مشترک  کرنااور بات چیت کرنا میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اس کے علاوہ، میں انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے، یعنی دہشت گردی پر آپ کے خیالات سننے کے لیے بے چین ہوں۔

مجھے امید ہے کہ دو دن کی بات چیت میں، ہم ایک قابل عمل اور عملی لائحہ عمل  تیار کرنے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں فیصلہ کن پہل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

دہشت گردی بلاشبہ عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کی مالی معاونت  خود دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ دہشت گردی کے 'ذرائع اور طریقے' اسی فنڈنگ ​​سے پروان چڑھتے ہیں۔ مزید یہ کہ دہشت گردی کی مالی معاونت دنیا کے ممالک کی معیشت کو کمزور کرتی ہے۔

بھارت ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، ہمارا ماننا ہے کہ کوئی بھی وجہ  معصوم جانیں لینے جیسے عمل کا جواز نہیں بن سکتی ہے۔ میں پوری دنیا میں دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ ہمیں اس برائی  ولعنت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

بھارت کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہاہے جس کی سرپرستی سرحد پار سے کی جاتی ہے۔ ہندوستانی سیکورٹی فورسز اور شہریوں کو انتہائی سنگین دہشت گردی کے واقعات سے مسلسل اور مربوط انداز میں نمٹنا پڑا ہے۔ عالمی برادری کا ایک اجتماعی نقطہ نظر ہے کہ دہشت گردی کی ہر شکل میں مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن تکنیکی انقلاب کی وجہ سے دہشت گردی کی شکلیں   مسلسل بدل رہی  ہیں۔

آج دہشت گرد اور دہشت گرد گروپ  جدید ہتھیاروں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی باریکیوں اور سائبر اور مالی وسائل کی صورت  حال کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کا استعمال کرتے ہیں۔

’’ڈائنامائٹ سے میٹاورس‘‘ اور ’’اے کے 47 سے ورچوئل ایسٹس‘‘ میں دہشت گردی کی یہ تبدیلی یقیناً دنیا کے ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اور ہم سب کو مل کر اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیارکرنا ہوگا۔

ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرے کو کسی مذہب، قومیت یا گروہ سے منسلک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیاجانا چاہیے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہم نے حفاظتی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ قانونی اور مالیاتی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ اس کے باوجود، دہشت گرد تشدد کرنے، نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے اور مالی وسائل اکٹھا کرنے کے لیے مسلسل نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔  دہشت گرد بنیاد پرستی سے متعلق  مواد  کی تشہیرکرنے  اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے خفیہ نیٹ کا  استعمال کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ، کریپٹو کرنسی جیسے ورچوئل اثاثوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں ان خفیہ نیٹ  سرگرمیوں کے نمونوں کو سمجھنے اور ان کاحل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے، آج ایسے ممالک بھی ہیں جو دہشت گردی سے لڑنے کے ہمارے اجتماعی عزم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، یا اس میں رکاوٹ بھی ڈالتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ممالک دہشت گردوں کو تحفظ اور پناہ دیتے ہیں، ایک دہشت گرد کو تحفظ دینا دہشت گردی کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہوگی کہ ایسے عناصر اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہ ہوں۔

اگست 2021 کے بعد جنوبی ایشیائی خطے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ حکومت کی تبدیلی اور القاعدہ اور داعش کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ علاقائی سلامتی کے لیے ایک اہم چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ ان نئے زاویوں نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے مسئلے کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ تین دہائیاں قبل پوری دنیا کو ایسی ہی ایک حکومتی تبدیلی کے سنگین نتائج بھگتنے پڑے ہیں جس کا نتیجہ ہم سب نے نائن الیون کے ہولناک حملے میں دیکھا ہے۔ اس پس منظر میں جنوبی ایشیائی خطے میں گزشتہ سال کی تبدیلیاں ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ القاعدہ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیمیں بھی دہشت پھیلا رہی ہیں۔

ہمیں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں یا ان کے وسائل کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسے عناصر کی دوغلی باتوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا جو ان کی سرپرستی اور حمایت کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک اور تنظیمیں اس خطے کے چیلنجز کے بارے میں انتخابی یا مطمئن نقطہ نظر سے کام نہ لیں۔

دہشت گردی کی مالی معاونت کا مسئلہ وسیع ہو چکا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں، ہندوستان دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف  کارروائی  کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف ہندوستان کی حکمت عملی ان چھ ستونوں پر مبنی ہے:

پہلا - قانون سازی اور تکنیکی فریم ورک کو مضبوط بنانا،

دوسرا - ایک جامع نگرانی کے فریم ورک کی تخلیق،

تیسرا - قابل عمل  خفیہ معلومات کومشترک کرنے کا طریقہ کار  اور تفتیش  کو مستحکم بنانااور پولیس کی کارروائیوں کو مضبوط بنانا،

چوتھا – املاک  کو ضبط  کرنے کا انتظام،

پانچواں - قانونی اداروں اور نئی ٹیکنالوجیز کے غلط استعمال کو روکنا اور

 

چھٹا - بین الاقوامی تعاون اور ہم آہنگی کا قیام۔

اس سمت میں، ہندوستان نے غیر قانونی سرگرمیوں  سے متعلق  قانون میں کے ایکٹ میں ترمیم کرکے، قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو مضبوط کیا، اور مالیاتی انٹیلی جنس کو ایک نئی سمت دی،  نیز دہشت گردی اور اس کی مالی امداد کے خلاف جنگ کو مضبوط کیا ہے۔ یہ ہماری مسلسل کوششوں کا نتیجہ  ہی ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی کے واقعات میں زبردست کمی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردی  سے ہونے والے معاشی  نقصانا ت میں  بھی زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

ہندوستان کا ماننا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سب سے مؤثر حکمت عملی بین الاقوامی ہم آہنگی اور اقوام کے درمیان بر وقت اور  صاف و شفاف تعاون ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حوالگی، استغاثہ، انٹیلی جنس شیئرنگ، صلاحیت سازی اور "دہشت گردی کی مالی اعانت (سی ایف ٹی) کا مقابلہ کرنے" جیسے شعبوں میں ممالک کے درمیان تعاون اہم ہے۔ ہمارا باہمی تعاون اور بھی اہم ہو جاتا ہے کیونکہ دہشت گرد اور دہشت گرد گروپ سرحدوں کے پار اپنے وسائل کو آسانی سے مربوط  کرتے ہیں اور جوڑ تے ہیں۔

منشیات کی غیر قانونی تجارت کے ابھرتے ہوئے رجحانات، اور منشیات سے جڑی  دہشت گردی کے چیلنج نے دہشت گردی کی مالی معاونت کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اس کے پیش نظر تمام ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ جیسے کثیر الجہتی ادارے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس، ایف اے ٹی ایف جیسے پلیٹ فارمز کی موجودگی ‘‘دہشت گردی کی مالی معاونت)’’سے نمٹنے کے شعبے میں دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے سب سے زیادہ  بااثر ہے۔ ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام  اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی معیارات طے کرنے اور ان کو عمل درآمد کرنے  میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

آج ہمارے سامنے ورچوئل اثاثوں کی شکل میں ایک نیا چیلنج ہے۔ دہشت گرد مالی لین دین  کے لیے ورچوئل اثاثوں کے نئے  طورطریقوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اثاثے کے  ورچوئل چینلز، فنڈکے بنیادی ڈھانچے اور خفیہ  نیٹ کے استعمال کو روکنے کے لیے، ہمیں  کارروائی ایک‘‘مضبوط اور موثر نظام تیارکرنے کے  لیے ہم آہنگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، انٹرپول، اور دیگر متعلقہ فریقوں جیسے  قانون نافذ کرنے والے ادارے، مالی معاملات کی  تفتیش کرنے والوں ، اور مختلف ممالک کے ریگولیٹرز اس سلسلے میں زیادہ مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں ان چیلنجوں کو گہرائی سے سمجھنا چاہیے اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی نئی تکنیک کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کرنی چاہئیں، جیسا کہ نئی دہلی میں حال ہی میں ختم ہونے والی انٹرپول جنرل اسمبلی میں کیا گیا تھا۔

ہندوستان  خفیہ معلومات کو مشترک کرکے ، موثر  صلاحیت سازی  پیداکرکے  جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی روک تھام کرکے ، غیر قانونی مالی امداد   کی آمد کی نگرانی کرنے کے علاوہ ، اتفتیشی اور عدالتی عمل میں تعاون کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کی تمام کوششوں کے  تئیں  پرعزم ہے۔

"دہشت گردی کے لیے سرمائے کی کوئی گنجائش  نہیں" کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے عالمی برادری کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے "موڈ – وسیلے اور طریقہ" کو سمجھنا چاہیے اور ان کے خلاف  کارروائی  کرنے کے لیے 'ایک ذہن، ایک نقطہ نظر' کے اصول کو اپنانا چاہیے۔

ہم نے آج اس کانفرنس کا آغاز ہندوستان کے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے خطاب سے کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان دو دنوں میں دہشت گردی کی مالی معاونت کی مختلف جہتوں پر بامعنی مذاکرات ہوں گے ور موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں کے لیے بامعنی حل تلاش کیے جا سکیں  گے۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ  کی حیثیت سے ، میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ 'دہشت گردی کے لیے رقم کی کوئی گنجائش  نہیں' کے مقصد کے تئیں ہماری وابستگی اتنی ہی مضبوط ہے جتنی کہ اس تقریب میں شرکت کے لیے آپ کا جوش!

میں اپنے ساتھی پینلسٹ مقررین سے سننے کا منتظر ہوں۔ کل، اختتامی  اجلاس  میں، میں کچھ متعلقہ مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گا۔ فی الحال، میں اپنی بات یہیں ختم  کرتا ہوں، سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں!

شکریہ۔

***********

(ش ح ۔ش ر۔ ع آ)

U -12674



(Release ID: 1877007) Visitor Counter : 216