وزیراعظم کا دفتر

مان گڑھ ہلز، راجستھان میں ’مان گڑھ دھام کی گورو گاتھا‘ پروگرام میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 01 NOV 2022 2:49PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

راجستھان کے قابل احترام وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، مدھیہ پردیش کے گورنر اور قبائلی سماج کے بہت بڑے لیڈر جناب منگو بھائی پٹیل، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ جی چوہان، کابینہ  کے  میرے ساتھی جناب فگن سنگھ کلستے جی، جناب  ارجن میگھوال جی، مختلف تنظیموں کی سرکردہ شخصیات،ارکان پارلیمنٹ،  ارکان اسمبلی اور میرے پرانے دوست جنہوں نے قبائلی سماج کی خدمت میں اپنی زندگی وقف کر دی ہیں، ایسے بھائی مہیش جی اور بڑی تعداد میں، دور دراز سے مان گڑھ دھام آنے والے  میرے پیارے قبائلی بھائیو اور بہنو۔

یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ آج مجھے ایک بار پھر مان گڑھ کی اس مقدس سرزمین پر آکر کےسر جھکانے کا موقع ملا ہے۔ وزیر اعلی کے طور پر، اشوک جی اور ہم ساتھ ساتھ  کام کرتے رہے اور اشوک جی ہماری جو وزرائے  اعلیٰ کی جماعت تھی، اس میں  سب سے سینئر تھے، سب سے سینئر  وزیر اعلیٰ اب ہیں۔ اور ابھی ہم جو اسٹیج پر بیٹھے ہیں، ان میں بھی اشوک جی سینئر وزرائے اعلیٰ میں سے ایک ہیں۔ ان کا یہاں آنا  اس پروگرام میں موجود رہنا ۔

ساتھیو،

آزادی کے امرت مہوتسو میں ہم سبھی کا مان گڑھ دھام آنا، یہ ہم سب کے لیے محرک ہے، ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے۔ مان گڑھ دھام قبائلی بہادر مرد و خواتین  کے تپ، تیاگ، تپسیا اور حب الوطنی کا عکس ہے۔ یہ راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کے لوگوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ پرسوں یعنی 30 اکتوبر کو گووند گرو جی کی برسی تھی۔ میں  تمام اہل  وطن کی جانب  سے، گووند گورو جی کو  پھر  سے  خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں گووند گرو جی کی تپ، تپسیا کے خیالات اور اصولوں کو سلام کرتا ہوں ۔

بھائیو اور بہنو،

گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے  مان گڑھ کا جو  علاقہ گجرات میں پڑتا ہے مجھے اس کی  خدمت کرنے کا موقع ملا تھا ۔ اسی علاقے میں  گووند گرو نے اپنی زندگی کے آخری سال بھی گزارے تھے۔ ان کی توانائی، ان کی تعلیمات آج بھی اس مٹی میں محسوس کی جا رہی ہیں۔ میں خاص طور پر اپنے کٹارا کنک مل جی اور یہاں کے معاشرے کا بھی آج سر جھکاکر کے نمن کرنا چاہتا ہوں۔ جب میں پہلے آتا تھا تو یہ پورا ویران علاقہ تھا اور میں نے اپیل کی تھی ون مہوتسو کے ذریعےآج  مجھے اتنا اطمینان ہوا چاروں طرف مجھے ہریالی نظر آرہی ہے ۔ آپ نے پورے عقیدت کے جذبے سے  جنگل کی ترقی کے لیے جو کام کیا ہے، اس علاقے کو جس طرح  سے ہرا بھرا بنادیا ہے، میں اس کے لیے  یہاں کے تمام ساتھیوں کا دل سے آج میں  شکریہ اداکرتا ہوں۔

ساتھیو،

اس علاقے میں جب ترقی ہوئی، جب سڑکوں کی تعمیر ہوئی تو وہاں کے  لوگوں کی زندگی میں بہتر ہوئی ہی،  گووند گرو کی تعلیمات کی بھی توسیع ہوئی۔

ساتھیو،

گووند گرو جیسے عظیم  مجاہد آزادی  ہندوستان کی روایات کے، ہندوستان کے آدرشوں کے نمائندے تھے۔ وہ کسی  ریاست کے راجہ نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ لاکھوں لاکھ قبائلیوں کے ہیرو تھے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے اپنا خاندان  کھو دیا، لیکن  حوصلہ کبھی نہیں کھویا۔ انہوں نے ہر قبائلی کو، ہر کمزور-غریب اور ہندوستانی باشندے کو اپنا خاندان بنایا۔ گووند گرو نے اگر قبائلی سماج کے استحصال کے خلاف انگریزی  حکومت سے  جدوجہد کا بگل پھونکا تو ساتھ ہی  اپنے سماج  کی برائیوں کے خلاف بھی انہوں نے لڑائی لڑی تھی۔ وہ ایک سماجی مصلح بھی تھے۔ وہ ایک روحانی گرو بھی تھے۔ وہ ایک سنت بھی تھے۔ وہ ایک  عوامی لیڈر بھی تھے۔ ان کی زندگی میں ہمیں حوصلے، شجاعت  کی جتنی  عظیم جھلک نظر آتی ہے، اتنی ہی بلند پایہ  ان کی فلسفیانہ اور فکری سوچ  بھی تھی۔ گووند گرو کا وہ خیال، وہ  ادراک آج بھی ان کی ’دھونی‘ کی شکل میں مان گڑھ دھام میں مسلسلس روشن  ہے۔ اور ان کی ’سمپ سبھا‘  دیکھیئے، الفاظ بھی کتنے متاثر کن ہیں ’سمپ سبھا‘ سماج کے ہر طبقے میں سمپ کا جذبہ  پیدا ہو ، اس لیے ان کے ’سمپ سبھا‘ کے اصول آج بھی اتحاد، محبت اور بھائی چارے کی تحریک دے رہے ہیں۔ ان کے بھگت پیروکار آج بھی ہندوستان کی روحانیت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ساتھیو،

سترہ  نومبر 1913 کو مان گڑھ میں جو  قتل عام  ہوا وہ انگریزی حکومت  کے ظلم و بربریت کی انتہا تھی۔ ایک جانب آزادی  میں یقین رکھنے بھولے بھالے  قبائلی بھائی بہن تو دوسری طرف دنیا کو غلام بنانے کی سوچ۔ مان گڑھ کی اس پہاڑی پر انگریزی  حکومت نے ڈیڑھ ہزار سے زائد نوجوانوں، بزرگوں، خواتین کو گھیر کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، ایک ساتھ  ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگوں کا بہیمانہ قتل کرنے کا  گناہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے قبائلی سماج  کی اس جدوجہد اور قربانی کو آزادی کے بعد تحریر کی گئی تاریخ میں جو جگہ ملنی چاہئے تھی  وہ نہیں ملی۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں آج ملک اس کمی کو پورا کر رہا ہے۔ آج ملک دہائیوں پہلے کی س بھول کی اصلاح کررہا ہے۔

ساتھیو،

ہندوستان کا ماضی، ہندوستان کی تاریخ، ہندوستان کا حال اور ہندوستان کا مستقبل قبائلی سماج کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔  آج  آزادی کی لڑائی کا بھی  ہر قدم ، تاریخ کا ہر ایک ورق قبائلی بہادری سے بھرا پڑا ہے۔ 1857 کے انقلاب سے بھی پہلے غیر ملکی حکومت کے خلاف قبائلی سماج نے جنگ  کا بگل پھونکا تھا۔ 1780 میں آپ سوچئے 1857 سے بھی پہلے  1780 سنتھال میں تلکا مانجھی کی قیادت میں ’دامِن ستیہ گرہ‘ لڑا گیا تھا، ’دامِن سنگرام‘ لڑا گیا تھا۔ 1830-32 میں، بدھو بھگت کی قیادت میں ملک نے ’لڑکا  آندولن‘ دیکھا۔ 1855 میں آزادی کی یہی مشعل  ’سدھو کانہو کرانتی‘ کی شکل میں روشن ہوئی۔ اسی طرح  بھگوان برسا منڈا نے لاکھوں قبائلیوں میں انقلاب کی مشعل  روشن کی۔ بہت  کم  عمر میں چلے گئے۔ لیکن توانائی، ان کی حب الوطنی اور ان کا حوصلہ ’تانا بھگت آندولن‘ جیسے انقلابات کی بنیاد بنا۔

ساتھیو،

غلامی کی ابتدائی صدیوں سے لے کر 20ویں صدی تک آپ ایسا  کوئی بھی  دور نہیں دیکھیں گے جب قبائلی سماج نے جنگ آزادی کی مشعل کو  تھامے نہ رکھا  ہو۔ آندھرا پردیش میں ’الوری سیتارام رام راجو گارو‘ کی قیادت میں قبائلی سماج نے ’رمپا انقلاب‘ کو ایک نئی دھار دے دی تھی۔ اور راجستھان کی یہ سرزمین تو اس سے بھی بہت پہلے  ہی قبائلی سماج کی حب الوطنی کی گواہ رہی ہے۔ اسی سرزمین  پر ہمارے قبائلی بھائی بہن مہارانا پرتاپ کے ساتھ ان کی طاقت بن کر کھڑے ہوئے تھے۔

ساتھیو،

ہم قبائلی سماج کی قربانیوں کے مقروض ہیں۔ ہم ان کی خدمات  کے مقروض ہیں۔ اس سماج کے، اس فطرت سے لے کر ماحولیات تک، ثقافت سے لے کر روایات تک، ہندوستان کے کردار کو سمیٹا   اور محفوظ کیا گیا ہے۔ آج وقت ہے کہ  ملک اس قرض کے لیے ان خدمات کے لئے قبائلی سماج کی خدمت کرکے ان کا شکریہ ادا کرے،گزشتہ 8  برسوں  سے  یہی  جذبہ ہماری کوششوں کو تقویت  دے رہا ہے۔ آج سے کچھ روز بعد ہی  15 نومبر کو، بھگوان برسا منڈا کی جینتی پر ملک ’جن جاتیہ گورو  دوس‘ منائے گا۔ قبائلی سماج کے ماضی اور تاریخ  کو سبھی لوگوں تک پہنچانے کے لئے آج ملک بھر میں قبائلی مجاہدین آزادی کے لئے وقف خصوصی میوزیم تیار کی جارہی ہیں۔ اس شاندار وراثت سے ہماری نسلیں محروم رہ گئی تھیں، وہ اب ان کی فکر کا، ان کی سوچ کا اور ان کی تحریکات کا حصہ بنیں گی۔

بھائیو، بہنو،

ملک میں قبائلی سماج کی توسیع اور اس کا رول  اتنا بڑا ہے کہ ہمیں اس کے لیے پرعزم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ راجستھان اور گجرات سے لے کر شمال مشرق اور اڈیشہ تک، گونا گونیت سے پُر قبائلی سماج کی خدمت کے لیے آج ملک واضح پالیسیوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ ’ون بندھو کلیان یوجنا‘ کے ذریعے آج  قبائلی آبادی کو پانی، بجلی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع سے جوڑا جا رہا ہے۔ آج ملک میں جنگلاتی علاقوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جنگلاتی وسائل کی بھی حفاظت کی جارہی ہے، اور ساتھ ہی  قبائلی علاقے  ڈیجیٹل انڈیا سے بھی جڑ رہے ہیں۔ روایتی ہنر کے ساتھ ساتھ قبائلی نوجوانوں کو جدید تعلیم کے بھی مواقع بھی حاصل ہوں، اس کے لیے ’ایکلویہ آواسیہ ودیالیہ بھی کھولے جا رہے ہیں۔ یہاں اس پروگرام کے بعد، میں جامبوگھوڑا جا رہا ہوں جہاں میں گووند گرو جی کے نا م پر تیار کی جانے والی یونیورسٹی کے شاندار ایڈمنیسٹریٹیو  کیمپس کو قوم کے نام وقف کروں گا۔

ساتھیو،

آج میں آپ کے درمیان آیا ہوں تو ایک اور بات بھی  میرا بتانے کا من کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا،  کل شام ہی مجھے  احمد آباد سے ادے پور براڈ گیج لائن پر چلنے والی ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا نے کا موقع ملا۔ اس 300 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنا بھی ہمارے راجستھان کے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ اس تبدیلی سے راجستھان کے بہت سے قبائلی علاقے گجرات کے قبائلی علاقوں سے جڑ جائیں گے۔ اس نئی ریل لائن سے راجستھان کی سیاحت کو بھی بہت فائدہ ہوگا، یہاں کی صنعتی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔ اس سے نوجوانوں کے لیے بھی روزگار کے نئے امکانات  پیدا ہوں گے۔

ساتھیو،

ابھی یہاں مان گڑھ دھام کی مکمل ترقی کابھی ذکر کیا گیا ہے۔  مان گڑھ دھام کی شاندار  توسیع کی زبردست  خواہش ہم سبھی میں ہے۔ اس کے لیے راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میری یہاں کی چاروں ریاستوں اور حکومتوں سے اپیل  ہے کہ  وہ اس سمت میں تفصیلی بات چیت کریں، ایک روڈ میپ تیار کریں، تاکہ گووند گرو جی کا یہ یادگار مقام بھی پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائے۔ مجھے یقین ہے کہ مان گڑھ دھام کی ترقی اس علاقے کو نئی پیڑھی کے لیے تحریک کا ایک بیدار مقام بنائے گی۔ اور میں یہ یقین دلاتا ہوں، کیونکہ کئی روز سے اس پر ہماری بات چیت چل رہی ہے۔ جتنی جلدی، جتنا زیادہ علاقے کا  ہم تعین کریں گے، تو  پھر سب مل کرکے  اور حکومت ہند کی قیادت میں، ہم اس کی مزید ترقی  کرسکتے ہیں۔ اس کو  کوئی قومی یادگار کہہ سکتا ہے، کوئی اسے مستحکم نظام کہہ سکتا ہے، نام تو کوئی بھی دے دیں گے، لیکن حکومت ہند اور ان چار ریاستوں کے قبائلی سماج کا سیدھا تعلق  ہے۔ ان چاروں ریاستوں اور حکومت ہند کو مل کر کے  اس کو مزید  نئی بلندیوں تک لے جانا ہے، اس سمت میں حکومت ہند پوری طرح پابندی عہد ہے ۔ میں ایک بار پھر آپ سب کے لیے بہت بہت نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں گووند گرو کے شری چرنوں میں پرنام کرتا  ہوں، ان کی آواز سے  ملی ہوئی تحریک سے قبائلی سماج کی فلاح و بہبود کا عزم لے کرکے  ہم سبھی نکلیں یہی آپ سب سے میری گزارش  ہے۔

بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U-0000



(Release ID: 1872765) Visitor Counter : 150