وزیراعظم کا دفتر
’من کی بات‘ کے 94ویں ایپی سوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (30.10.2022)
Posted On:
30 OCT 2022 11:50AM by PIB Delhi
میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج، ملک کے کئی حصوں میں سورج کی اُپاسنا کا بڑا تہوار ’چھٹھ‘ منایا جا رہا ہے۔ ’چھٹھ‘ تہوار کا حصہ بننے کے لیے لاکھوں عقیدت مند اپنے گاؤں، اپنے گھر، اپنی فیملی کے درمیان پہنچے ہیں۔ میری پرارتھنا ہے کہ چھٹھ میاّ سب کی خوشحالی، سب کی فلاح کا آشیرواد دیں۔
ساتھیو، سورج کی اُپاسنا کی روایت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری تہذیب، ہماری عقیدت کا، فطرت سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ اس پوجا کے ذریعے ہماری زندگی میں سورج کی روشنی کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ اتار چڑھاؤ، زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس لیے، ہمیں ہر حالات میں ایک جیسا جذبہ رکھنا چاہیے۔ چھٹھ میاّ کی پوجا میں الگ الگ قسم کے پھلوں اور ٹھیکوا کا پرساد چڑھایا جاتا ہے۔ اس کا برت بھی کسی مشکل سادھنا سے کم نہیں ہوتا۔ چھٹھ پوجا کی ایک اور خاص بات ہوتی ہے کہ اس میں پوجا کے لیے جن اشیاء کا استعمال ہوتا ہے اسے سماج کے مختلف لوگ مل کر تیار کرتے ہیں۔ اس میں بانس کی بنی ٹوکری یا سُپالی کا استعمال ہوتا ہے۔ مٹی کے دیوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے چنے کی پیداوار کرنے والے کسان اور بتاشے بنانے والے چھوٹے کاروباریوں کی سماج میں اہمیت بتائی گئی ہے۔ ان کے تعاون کے بغیر چھٹھ کی پوجا مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔ چھٹھ کا تہوار ہماری زندگی میں صفائی کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ اس تہوار کے آنے پر عوامی سطح پر سڑک، ندی، گھاٹ، پانی کے مختلف ذرائع، سب کی صفائی کی جاتی ہے۔ چھٹھ کا تہوار ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کی بھی مثال ہے۔ آج بہار اور پوروانچل کے لوگ ملک کے جس بھی کونے میں ہیں، وہاں دھوم دھام سے چھٹھ کا پروگرام ہو رہا ہے۔ دہلی، ممبئی سمیت مہاراشٹر کے الگ الگ ضلعوں اور گجرات کے کئی حصوں میں چھٹھ کا بڑے پیمانے پر پروگرام ہونے لگا ہے۔ مجھے تو یاد ہے، پہلے گجرات میں اتنی چھٹھ پوجا نہیں ہوتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ آج قریب قریب پورے گجرات میں چھٹھ پوجا کے رنگ نظر آنے لگے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں، بیرونی ممالک سے بھی چھٹھ پوجا کی کتنی شاندار تصویریں آتی ہیں۔ یعنی بھارت کی بیش قیمتی وراثت، ہماری عقیدت، دنیا کے کونے کونے میں اپنی پہچان بڑھا رہی ہے۔ اس بڑے تہوار میں شامل ہونے والے ہر عقیدت مند کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی ہم نے مقدس چھٹھ پوجا کی بات کی، بھگوان سوریہ کی اُپاسنا کی بات کی۔ تو کیوں نہ سوریہ اُپاسنا کے ساتھ ساتھ آج ہم ان کے وردان کی بھی چرچہ کریں۔ سوریہ دیو کا یہ وردان ہے – ’شمسی توانائی‘۔ سولر انرجی آج ایک ایسا موضوع ہے، جس میں پوری دنیا اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے اور بھارت کے لیے تو سوریہ دیو صدیوں سے اُپاسنا ہی نہیں، طرز زندگی کے بھی مرکز میں رہ رہے ہیں۔ بھارت، آج اپنے روایتی تجربات کو جدید سائنس سے جوڑ رہا ہے، تبھی، آج ہم، شمسی توانائی سے بجلی بنانے والے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہو گئے ہیں۔ شمسی توانائی سے کیسے ہمارے ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی میں تبدیلی آ رہی ہے، وہ بھی مطالعہ کا موضوع ہے۔
تمل ناڈو میں، کانچی پورم میں ایک کسان ہیں، تھیرو کے ایجھیلن۔ انہوں نے ’پی ایم کسم یوجنا‘ سے فائدہ حاصل کیا اور اپنے کھیت میں دس ہارس پاور کا سولر پمپ سیٹ لگوایا۔ اب انہیں اپنے کھیت کے لیے بجلی پر کچھ خرچ نہیں کرنا ہوتا ہے۔ کھیت میں سینچائی کے لیے اب وہ سرکار کی بجلی سپلائی پر منحصر نہیں ہیں۔ ویسے ہی راجستھان کے بھرت پور میں ’پی ایم کسان یوجنا‘ سے استفادہ کرنے والے ایک اور کسان ہیں – کمل جی مینا۔ کمل جی نے کھیت میں سولر پمپ لگایا، جس سے ان کی لاگت کم ہو گئی ہے۔ لاگت کم ہوئی تو آمدنی بھی بڑھ گئی۔ کمل جی سولر بجلی سے دوسری کئی صنعتوں کو بھی جوڑ رہے ہیں۔ ان کے علاقے میں لکڑی کا کام ہے، گائے کے گوبر سے بننے والی مصنوعات ہیں، ان میں بھی سولر بجلی کا استعمال ہو رہا ہے۔ وہ، 12-10 لوگوں کو روزگار بھی دے رہے ہیں، یعنی کسم یوجنا سے کمل جی نے شروعات کی، اس کی مہک کتنے ہی لوگوں تک پہنچے لگی ہے۔
ساتھیو، کیا آپ کبھی تصور کر سکتے ہیں کہ آپ مہینے بھر بجلی کا استعمال کریں اور آپ کا بجلی بل آنے کی بجائے، آپ کو بجلی کے پیسے ملیں؟ شمسی توانائی نے یہ بھی کر دکھایا ہے۔ آپ نے کچھ دن پہلے، ملک کے پہلے سوریہ گرام – گجرات کے موڈھیرا کی خوب چرچہ سنی ہوگی۔ موڈھیرا سوریہ گرام کے زیادہ تر گھر، سولر پاور سے بجلی پیدا کرنے لگے ہیں۔ اب وہاں کے کئی گھروں میں مہینہ کے آخر میں بجلی کا بل نہیں آ رہا ہے، بلکہ، بجلی سے کمائی کا چیک آ رہا ہے۔ یہ ہوتا دیکھ، اب ملک کے بہت سے گاؤوں کے لوگ مجھے خط لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے گاؤں کو بھی سوریہ گرام میں بدلا جائے، یعنی وہ دن دور نہیں جب بھارت میں سوریہ گراموں کی تعمیر بہت بڑی تحریک بنے گی اور اس کی شروعات موڈھیرا گاؤں کے لوگ کر ہی چکے ہیں۔
آئیے، ’من کی بات‘ کے سامعین کو بھی موڈھیرا کے لوگوں سے ملواتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس وقت فون لائن پر جڑے ہیں محترم وپن بھائی پٹیل۔
محترم وزیراعظم:- وپن بھائی نمستے! دیکھئے، اب تو موڈھیرا پورے ملک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر چرچہ میں آ گیا ہے۔ لیکن جب آپ کو اپنے رشتہ دار، شناسا لوگ سب باتیں پوچھتے ہوں گے تو آپ ان کو کیا کیا بتاتے ہیں، کیا فائدہ ہوا؟
وپن جی:- سر، لوگ ہمارے کو پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں جو بل آتا تھا، لائٹ بل وہ ابھی زیرو آ رہا ہے اور کبھی 70 روپے آتا ہے مگر ہمارے پورے گاؤں میں جو مالی حالت ہے وہ بہتر ہو رہی ہے۔
محترم وزیر اعظم:- اب اپنے گھر میں ہی خود ہی بجلی کا کارخانہ کے مالک بن گئے۔ خود کا اپنا گھر کے چھت پر بجلی بن رہی ہے۔
وپن جی:- ہاں سر، صحیح ہے سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو کیا یہ تبدیلی جو آئی ہے اس کا گاؤں کے لوگوں پر کیا اثر ہے؟
وپن جی:- سر وہ پورے گاؤں کے لوگ، وہ کھیتی کر رہے ہیں، تو پھر ہمارے کو بجلی کی جو جھنجھٹ تھی تو اس میں آزادی ہو گئی ہے۔ بجلی کا بل تو بھرنا نہیں ہے، بے فکر ہو گئے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- مطلب، بجلی کا بل بھی گیا اور سہولت بڑھ گئی۔
وپن جی:- جھنجھٹ ہی گیا سر اور سر جب آپ یہاں آئے تھے اور وہ 3ڈی شو جو یہاں افتتاح کیا تو اس کے بعد تو موڈھیرا گاؤں میں چار چاند لگ گئے ہیں سر۔ اور وہ جو سکریٹری آئے تھے سر…
محترم وزیر اعظم:- جی جی…
وپن جی:- تو وہ گاؤں فیمس (مشہور) ہو گیا سر۔
محترم وزیر اعظم:- جی ہاں، یو این کے سکریٹری جنرل ان کی خود کی خواہش تھی۔ انہوں نے مجھ سے بڑی گزارش کی کہ بھئی اتنا بڑا کام کیا ہے تو میں وہاں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلئے وپن بھائی آپ کو اور آپ کے گاؤں کے سب لوگوں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور دنیا آپ میں سے سبق لے اور یہ سولر انرجی کی مہم گھر گھر چلے
وپن جی:- ٹھیک ہے سر۔ وہ ہم سب لوگوں کو بتائیں سر کہ بھئی سولر لگواؤ، آپ کے پیسے سے بھی لگواؤں، تو بہت فائدہ ہے۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں لوگوں کو سمجھائیے۔ چلئے بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ بھیا۔
وپن جی:- تھینک یو سر، تھینک یو سر، میری زندگی مالامال ہو گئی آپ سے بات کرکے۔
وپن بھائی کا بہت بہت شکریہ۔
آئیے اب موڈھیرا گاؤں میں ورشا بہن سے بھی بات کریں گے۔
ورشا بین:- ہیلو نمستے سر!
محترم وزیر اعظم:- نمستے نمستے ورشا بین۔ کیسی ہیں آپ؟
ورشا بین:- ہم بہت اچھے ہیں سر۔ آپ کیسے ہیں؟
محترم وزیر اعظم:- میں بہت ٹھیک ہوں۔
ورشا بین:- ہم مالا مال ہو گئے سر آپ سے بات کرکے۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا ورشا بین۔
ورشا بین:- ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- آپ موڈھیرا میں، آپ تو ایک تو فوجی فیملی سے ہیں۔
ورشا بین:- میں فوجی فیملی سے ہوں ہیں۔ آرمی ایکس مین کی وائف بول رہی ہوں سر۔
محترم وزیر اعظم:- تو پہلے ہندوستان میں کہاں کہاں جانے کا موقع ملا آپ کو؟
ورشا بین:- مجھے راجستھان میں ملا، گاندھی نگر میں ملا، کچرا کانجھور جموں ہے وہاں پر ملا موقع، ساتھ میں رہنے کا۔ بہت سہولت وہاں پر مل رہی تھی سر۔
محترم وزیر اعظم:- ہاں۔ یہ فوج میں ہونے کی وجہ سے آپ ہندی بھی بڑھیا بول رہی ہو۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سیکھا ہے سر ہاں۔
محترم وزیر اعظم:- مجھے بتائیے موڈھیرا میں جو اتنی بڑی تبدیلی آئی تو یہ سولر روف ٹاپ پلانٹ آپ نے لگوا دیا۔ جو شروع میں لوگ کہہ رہے ہوں گے، تب تو آپ کو من میں آیا ہوگا، یہ کیا مطلب ہے؟ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہوگا؟ ایسے تھوڑی بجلی آتی ہے؟ یہ سب باتیں ہیں کہ آپ کے من میں آئی ہوں گی۔ اب کیا تجربہ آ رہا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہوا ہے؟
ورشا بین:- بہت سر فائدہ تو فائدہ ہی فائدہ ہوا ہے سر۔ سر ہمارے گاؤں میں تو روز دیوالی منائی جاتی ہے آپ کی وجہ سے۔ 24 گھنٹے ہمیں بجلی مل رہی ہے، بل تو آتا ہی نہیں ہے بالکل۔ ہمارے گھر میں ہم نے الیکٹرک سب چیزیں گھر میں لا رکھی ہیں سر، سب چیزیں یوز کر رہے ہیں – آپ کی وجہ سے سر۔ بل آتا ہی نہیں ہے، تو ہم فری مائنڈ سے، سب یوز کر سکتے ہیں ناٍ!
محترم وزیر اعظم:- یہ بات صحیح ہے، آپ نے بجلی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے بھی من بنا لیا ہے۔
ورشا بین:- بنا لیا سر، بنا لیا۔ ابھی ہمیں کوئی دقت ہی نہیں ہے۔ ہم فری مائنڈ سے، سب یہ جو واشنگ مشین ہے، اے سی ہے سب چلا سکتے ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اور گاؤں کے باقی لوگ بھی خوش ہیں اس کی وجہ سے؟
ورشا بین:- بہت بہت خوش ہیں سر۔
محترم وزیر اعظم:- اچھا یہ آپ کے پتی دیو (شوہر) تو وہاں سوریہ مندر میں کام کرتے ہیں؟ تو وہاں جو وہ لائٹ شو ہوا اتنا بڑا ایونٹ ہوا اور ابھی دنیا بھر کے مہمان آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- دنیا بھر کے فارینرز آ سکتے ہیں پر آپ نے ورلڈ میں مشہور کر دیا ہے ہمارے گاؤں کو۔
محترم وزیر اعظم:- تو آپ کے شوہر کو اب کام بڑھ گیا ہوگا اتنے مہمان وہاں مندر میں دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔
ورشا بین:- ارے! کوئی بات نہیں جتنا بھی کام بڑھے، سر کوئی بات نہیں، اس کی ہمیں کوئی دقت نہیں ہے ہمارے شوہر کو، بس آپ ترقی کرتے جاؤ ہمارے گاؤں کی۔
محترم وزیر اعظم:- اب گاؤں کی ترقی تو ہم سب کو مل کر کے کرنی ہے۔
ورشا بین:- ہاں ہاں۔ سر ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- اور میں تو موڈھیرا کے لوگوں کا شکریہ ادا کروں گا کیوں کہ گاؤں نے اس اسکیم کو قبول کیا اور ان کو اعتماد ہو گیا کہ ہاں ہم اپنے گھر میں بجلی بنا سکتے ہیں۔
ورشا بین:- 24 گھنٹے سر! ہمارے گھر میں بجلی آتی ہے اور ہم بہت خوش ہیں۔
محترم وزیر اعظم:- چلیے! میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ جو پیسے بچے ہیں، اس کا بچوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیجئے۔ ان پیسوں کا استعمال اچھا ہو تاکہ آپ کی زندگی کو فائدہ ہو۔ میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ اور سب موڈھیرا والوں کو میرا نمسکار!
ساتھیوں، ورشا بین اور وپن بھائی نے جو بتایا ہے، وہ پورے ملک کے لیے، گاؤوں شہروں کے لیے ایک مثال ہے۔ موڈھیرا کا یہ تجربہ پورے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔ سورج کی طاقت، اب پیسے بھی بچائے گی اور آمدنی بھی بڑھائے گی۔ جموں و کشمیر کے سرینگر سے ایک ساتھی ہیں – منظور احمد لرہوال۔ کشمیر میں سردیوں کی وجہ سے بجلی کا خرچ کافی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے، منظور جی کا بجلی کا بل بھی 4 ہزار روپے سے زیادہ آتا تھا، لیکن جب سے منظور جی نے اپنے گھر پر سولر روف ٹاپ پلانٹ لگوایا ہے، ان کا خرچ آدھے سے بھی کم ہو گیا ہے۔ ایسے ہی، اوڈیشہ کی ایک بیٹی کنی دیئوری، شمسی توانائی کو اپنے ساتھ ساتھ دوسری عورتوں کے روزگار کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔ کنی، اوڈیشہ کے کیندوجھر ضلع کے کرداپال گاؤں میں رہتی ہیں۔ وہ آدیواسی خواتین کو سولر سے چلنے والی ریلنگ مشین پر سلک کی کتائی کی ٹریننگ دیتی ہیں۔ سولر مشین کے سبب ان آدیواسی خواتین پر بجلی کے بل کا بوجھ نہیں پڑتا، اور ان کی آمدنی ہو رہی ہے۔ یہی تو سوریہ دیو کی شمسی توانائی کا وردان ہی تو ہے۔ وردان اور پرساد تو جتنی توسیع ہو، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اس لیے، میری آپ سے درخواست ہے، آپ بھی، اس میں جڑیں اور دوسروں کو بھی جوڑیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی میں آپ سے سورج کی باتیں کر رہا تھا۔ اب میرا دھیان اسپیس کی طرف جا رہا ہے۔ وہ اس لیے، کیوں کہ ہمارا ملک، سولر سیکٹر کے ساتھ ہی اسپیس سیکٹر میں بھی کمال کر رہا ہے۔ پوری دنیا، آج، بھارت کی حصولیابیاں دیکھ کر حیران ہے۔ اس لیے میں نے سوچا، ’من کی بات‘ کے سامعین کو یہ بتا کر میں ان کی بھی خوشی بڑھاؤں۔
ساتھیو، اب سے کچھ دن پہلے آپ نے دیکھا ہوگا بھارت نے ایک ساتھ 36 سیٹلائٹس کو خلاء میں قائم کیا ہے۔ دیوالی سے ٹھیک ایک دن پہلے ملی یہ کامیابی ایک طرح سے یہ ہمارے نوجوانوں کی طرف سے ملک کو ایک اسپیشل دیوالی گفٹ ہے۔ اس لانچنگ سے کشمیر سے کنیاکماری اور کچھّ سے کوہیما تک، پورے ملک میں ڈیجیٹل کنیکٹویٹی کو اور مضبوطی ملے گی۔ اس کی مدد سے بے حد دور دراز کے علاقے بھی ملک کے باقی حصوں سے اور آسانی سے جڑ جائیں گے۔ ملک جب آتم نربھر ہوتا ہے، تو، کیسے کامیابی کی نئی بلندی پر پہنچتا جاتا ہے – یہ اس کی بھی ایک مثال ہے۔ آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے وہ پرانا وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب بھارت کو کرایوجینک راکٹ ٹیکنالوجی دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ لیکن بھارت کے سائنس دانوں نے نہ صرف سودیشی ٹیکنالوجی تیار کی بلکہ آج اس کی مدد سے ایک ساتھ درجنوں سیٹلائٹس خلاء میں بھیج رہا ہے۔ اس لانچنگ کے ساتھ بھارت گلوبل کمرشیل مارکیٹ میں ایک مضبوط پلیئر بن کر ابھرا ہے، اس سے خلائی شعبے میں بھارت کے لیے مواقع کے نئے دروازے بھی کھلے ہیں۔
ساتھیو، ترقی یافتہ ہندوستان کا عزم لے کر چل رہا ہمارا ملک، سب کی کوشش سے ہی، اپنے اہداف کو حاصل کر سکتا ہے۔ بھارت میں پہلے اسپیس سیکٹر، سرکاری انتظامات کے دائرے میں ہی سمٹا ہوا تھا۔ جب یہ اسپیس سیکٹر بھارت کے نوجوانوں کے لیے، بھارت کے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کھول دیا گیا تب سے اس میں انقلابی تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ ہندوستانی انڈسٹری اور اسٹارٹ اپس اس شعبے میں نئے نئے انوویشنز اور نئی نئی ٹیکنالوجیز لانے میں مصروف ہیں۔ خاص کر، ان-اسپیس کے تعاون سے اس شعبے میں بڑی تبدیلی ہونے جا رہی ہے۔
ان-اسپیس کے ذریعے غیر سرکاری کمپنیوں کو بھی اپنے پے لوڈز اور سیٹلائٹ لانچ کرنے کی سہولت مل رہی ہے۔ میں زیادہ سے زیادہ اسٹارٹ اپس اور انوویٹر سے اپیل کروں گا کہ وہ اسپیس سیکٹر میں بھارت میں بن رہے ان بڑے مواقع کا پورا فائدہ اٹھائیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، جب اسٹوڈنٹس کی بات آئے، نوجوانوں کی طاقت کی بات آئے، قائدانہ قوت کی بات آئے، تو ہمارے من میں گھسی پٹی، پرانی بہت سی بدگمانیاں گھر کر گئی ہیں۔ کئی بار ہم دیکھتے ہیں کہ جب اسٹوڈنٹ پاور کی بات ہوتی ہے، تو اس کے اسٹوڈنٹ یونین انتخابات سے جوڑ کر اس کا دائرہ محدود کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسٹوڈنٹ پاور کا دائرہ بہت بڑا ہے، بہت وسیع ہے۔ اسٹوڈنٹ پاور، بھارت کو پاورفل بنانے کی بنیاد ہے۔ آخر، آج جو نوجوان ہیں، وہی تو بھارت کو 2047 تک لے کر جائیں گے۔ جب بھارت صد سالہ جشن منائے گا، نوجوانوں کی یہ طاقت، ان کی محنت، ان کا پیسہ، ان کی صلاحیت، بھارت کو اس بلندی پر لے کر جائے گی، جس کا عزم، ملک آج کر رہا ہے۔ ہمارے آج کے نوجوان، جس طرح ملک کے لیے کام کر رہے ہیں، نیشن بلڈنگ میں مصروف ہو گئے ہیں، وہ دیکھ کر میں بہت بھروسے سے بھرا ہوا ہوں۔ جس طرح ہمارے نوجوان ہیکا تھانس میں پرابلم سالو کرتے ہیں، رات رات بھر جاگ کر گھنٹوں کام کرتے ہیں، وہ بہت ہی حوصلہ فراہم کرنے والا ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہوئی ایک ہیکاتھانس میں ملک کے لاکھوں نوجوانوں نے مل کر، بہت سارے چیلنجز کو نمٹایا ہے، ملک کو نئے سالیوشنز دیے ہیں۔
ساتھیو، آپ کویاد ہوگا، میں نے لال قلعہ سے ’جے انوسندھان‘ کا نعرہ دیا تھا۔ میں نے اس دہائی کو بھارت کا ٹیک ایڈ بنانے کی بات بھی کہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا، اس کی کمان ہماری آئی آئی ٹی کے اسٹوڈنٹس نے بھی سنبھال لی ہے۔ اسی مہینے 15-14 اکتوبر کو سبھی 23 آئی آئی ٹی اپنے انوویشنز اور ریسرچ پروجیکٹ کی نمائش کرنے کے لیے پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر آئے۔ اس میلہ میں ملک بھر سے منتخب ہو کر آئے اسٹوڈنٹس اور ریسرچرز انہوں نے 75 سے زیادہ بہترین پروجیکٹس کی نمائش کی۔ ہیلتھ کیئر، ایگریکلچر، روبوٹکس، سیمی کنڈکٹرز، 5جی کمیونی کیشنز، ایسی بہت ساری تھیم پر یہ پروجیکٹ بنائے گئے تھے۔ ویسے تو یہ سارے ہی پروجیکٹ ایک سے بڑھ کر ایک تھے، لیکن، میں کچھ پروجیکٹس کے بارے میں آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے، آئی آئی ٹی بھونیشور کی ایک ٹیم نے نوزائیدہ بچوں کے لیے پورٹیبل وینٹی لیٹر تیار کیا ہے۔ یہ بیٹری سے چلتا ہے اور اسکا استعمال دور دراز کے علاقوں میں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان بچوں کی زندگی بچانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے جن کی پیدائش طے وقت سے پہلے ہو جاتی ہے۔ الیکٹرک موبلٹی ہو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، 5جی ہو، ہمارے بہت سارے طلباء، ان سے جڑی ہوئی نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کئی ساری آئی آئی ٹی مل کر ایک کثیر لسانی پروجیکٹ پر بھی کام کر رہی ہیں جو مقامی زبانوں کو سیکھنے کے طریقے کو آسان بناتا ہے۔ یہ پروجیکٹ نئی قومی تعلیمی پالیسی کو، ان اہداف کو حاصل کرنے میں بہت مدد بہت مدد کرے گا۔ آپ کو یہ جان کر بھی اچھا لگے گا کہ آئی آئی ٹی مدراس اور آئی آئی ٹی کانپور نے بھارت کے سودیشی 5جی ٹیسٹ بیڈ کو تیار کرنے میں سرکردہ رول نبھایا ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک شاندار شروعات ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرح کی کئی اور کوششیں دیکھنے کو ملیں گی۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ آئی آئی ٹی سے حوصلہ پا کر دوسرے انسٹی ٹیوشن بھی تحقیق و ترقی سے جڑی اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ماحولیات کے تئیں حساسیت، ہمارے سماج کے ذرے ذرے میں شامل ہے اور اور اسے ہم اپنے چاروں طرف محسوس کر سکتے ہیں۔ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو ماحولیات کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی کھپا دیتے ہیں۔
کرناٹک کے بنگلورو میں رہنے والے سریش کمار جی سے بھی ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں، ان میں فطرت اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے غضب کا جنون ہے۔ 20 سال پہلے انہوں نے شہر کے سہکار نگر کے ایک جنگل کو پھر سے ہرا بھرا کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ یہ کام مشکلوں سے بھرا تھا، لیکن، 20 سال پہلے لگائے گئے وہ پودے آج 40-40 فٹ اونچے لحیم شحیم درخت بن چکے ہیں۔ اب ان کی خوبصورتی ہر کسی کا من موہ لیتی ہے۔ اس سے وہاں رہنے والے لوگوں کو بھی بڑے فخر کا احساس ہوتا ہے۔ سریش کمار جی اور ایک انوکھا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کنڑ زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے سہکار نگر میں ایک بس شیلٹر بھی بنایا ہے۔ وہ سینکڑوں لوگوں کو کنڑ میں لکھی براس پلیٹس بھی تحفے میں دے چکے ہیں۔ ایکولوجی اور کلچر دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں اور پھلیں پھولیں، سوچئے… یہ کتنی بڑی بات ہے۔
ساتھیو، آج ایکو فرینڈلی لیونگ اور ایکو فرینڈلی پروڈکٹس کو لے کر لوگوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بیداری نظر آ رہی ہے۔ مجھے تمل ناڈو کی ایک ایسی ہی دلچسپ کوشش کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملا۔ یہ شاندار کوشش کوئمبٹور کے انائی کٹی میں آدیواسی خواتین کی ایک ٹیم کی ہے۔ ان عورتوں نے ایکسپورٹ کے لیے دس ہزار ایکو فرینڈلی ٹیراکوٹا ٹی کپس بنائے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ٹیراکوٹا ٹی کپس بنانے کی پوری ذمہ داری ان عورتوں نے خود ہی اٹھائی۔ کلے مکسنگ سے لے کر فائنل پیکیجنگ تک سارے کام خود کیے۔ اس کے لیے انہوں نے تربیت بھی حاصل کی تھی۔ اس انوکھی کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ساتھیو، تریپورہ کے کچھ گاؤوں نے بھی بڑی اچھی سیکھ دی ہے۔ آپ لوگوں نے بائیو ولیج تو ضرور سنا ہوگا، لیکن تریپورہ کے کچھ گاؤں، بائیو ولیج 2 کی سیڑھی چڑھ گئے ہیں۔ بائیو ولیج-2 میں اس بات پر زور دہوتا ہے کہ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کو کیسے کم از کم کیا جائے۔ اس میں مختلف طریقوں سے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر پوری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ سولر انرجی، بائیو گیس، بی کیپنگ اور بائیو فرٹیلائزرس، ان سب پر پورا فوکس رہتا ہے۔ کل ملا کر اگر دیکھیں تو، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مہم کو بائیو ولیج 2 بہت مضبوطی عطا کرنے والا ہے۔ میں ملک کے الگ الگ حصوں میں ماحولیاتی تحفظ کو لے کر بڑھ رہے جوش کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوں۔ کچھ دن پہلے ہی، بھارت میں، ماحولیات کے تحفظ کے لیے وقف مشن لائف کو بھی لانچ کیا گیا ہے۔ مشن لائف کا سیدھا اصول ہے – ایسا طریقہ زندگی، ایسی لائف اسٹائل کو فروغ، جو ماحولیات کو نقصان نہ پہنچائے۔ میری اپیل ہے کہ آپ بھی مشن لائف کو جانئے، اسے اپنانے کی کوشش کیجئے۔
ساتھیو، کل، 31 اکتوبرکو، راشٹریہ ایکتا دیوس ہے، سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کی جنم جینتی کا مبارک موقع ہے۔ اس دن ملک کے کونے کونے میں رن فار یونٹی کا پروگرام کیا جاتا ہے۔ یہ دوڑ، ملک میں اتحاد کے دھاگے کو مضبوط کرتی ہے، ہمارے نوجوانوں کو حوصلہ بخشتی ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے، ایسا ہی جذبہ، ہمارے قومی کھیلوں کے دوران بھی دیکھا ہے۔ ’جڑے گا انڈیا تو جیتے گا انڈیا‘ اس تھیم کے ساتھ قومی کھیلوں نے جہاں اتحاد کا مضبوط پیغام دیا، وہیں بھارت کی کھیل ثقافت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ بھارت میں قومی کھیلوں کا اب تک کا سب سے بڑا پروگرام تھا۔ اس میں 36 کھیلوں کو شامل کیا گیا، جس میں 7 نئے اور دو سودیشی مقابلے یوگاسن، اور ملّ کھمب بھی شامل رہے۔ گولڈ میڈل جیتنے میں سب سے آگے جو تین ٹیمیں رہیں، وہ ہیں – سروسز کی ٹیم، مہاراشٹر اور ہریانہ کی ٹیم۔ ان کھیلوں میں چھ نیشنل ریکارڈز اور قریب قریب 60 نیشنل گیمز ریکارڈز بھی بنے۔ میں میڈل جیتنے والے، نئے ریکارڈ بنانے والے، اس کھیل مقابلہ میں حصہ لینے والے، سبھی کھلاڑیوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں ان کھلاڑیوں کے سنہرے مستقبل کی دعا بھی کرتا ہوں۔
ساتھیو، میں ان سبھی لوگوں کی بھی دل کی گہرائیوں سے تعریف کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گجرات میں ہوئے قومی کھیلوں کے کامیاب انعقاد میں اپنا تعاون دیا۔ آپ نے دیکھا ہے کہ گجرات میں تو قومی کھیل نوراتری کے دوران ہوئے۔ ان کھیلوں کے انعقاد سے پہلے ایک بار تو میرے من میں بھی آیا کہ اس وقت تو پورا گجرات ان تہواروں میں مصروف ہے، تو لوگ ان کھیلوں کا مزہ کیسے لے پائیں گے؟ اتنا بڑاانتظام اور دوسری طرف نوراتری کے گربا وغیرہ کا انتظام۔ یہ سارے کام گجرات ایک ساتھ کیسے کر لے گا؟ لیکن گجرات کے لوگوں نے اپنی مہمان نوازی سے سبھی مہمانوں کو خوش کر دیا۔ احمد آباد میں نیشنل گیمز کے دوران جس طرح فن، کھیل اور ثقافت کا سنگم ہوا، وہ خوشیوں سے بھر دینے والا تھا۔ کھلاڑی بھی دن میں جہاں کھیل میں حصہ لیتے تھے، وہیں شام کو وہ گربا اور ڈانڈیا کے رنگ میں ڈوب جاتے تھے۔ انہوں نے گجراتی کھانا اور نوراتری کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیں۔ یہ دیکھنا ہم سبھی کے لیے بہت ہی مزیدار تھا۔ آخرکار، اس طرح کے کھیلوں سے، بھارت کی متنوع ثقافتوں کےبارے میں بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کے جذبے کو بھی اتنا ہی مضبوط کرتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، نومبر مہینے میں 15 تاریخ کو ہمارا ملک جن جاتیہ گورو دیوس منائے گا۔ آپ کو یاد ہوگا، ملک نے پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جنم جینتی کے دن آدیواسی وراثت اور گورو کو سیلیبریٹ کرنے کے لیے یہ شروعات کی تھی۔ بھگوان برسا منڈا نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں انگریزی حکومت کے خلاف لاکھوں لوگوں کو متحد کر دیا تھا۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی اور آدیواسی ثقافت کی حفاظت کے لیے اپنی زندگی قربان کر دی تھی۔ ایسا کتنا کچھ ہے، جو ہم دھرتی آبا برسا منڈا سے سیکھ سکتے ہیں۔ ساتھیو، جب دھرتی آبا برسا منڈا کی بات آتی ہے، چھوٹی سی ان کی زندگی کی طرف نظر کرتے ہیں، آج بھی ہم اس میں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور دھرتی آبا نے تو کہا تھا- یہ دھرتی ہماری ہے، ہم اس کے محافظ ہیں۔ ان کے اس جملے میں مادر وطن کے لیے ذمہ داری کا جذبہ بھی ہے اور ماحولیات کے لیے ہمارے فرائض کا احساس بھی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ ہمیں ہماری آدیواسی ثقافت کو بھولنا نہیں ہے، اس سے ذرہ برابر بھی دور نہیں جانا ہے۔ آج بھی ہم ملک کے آدیواسی سماجوں سے فطرت اور ماحولیات کو لے کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ساتھیو، پچھلے سال بھگوان برسا منڈا کی جینتی کے موقع پر، مجھے رانچی کے بھگوان برسا منڈا میوزیم کے افتتاح کا موقع حاصل ہوا تھا۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ انہیں جب بھی وقت ملے، وہ اسے دیکھنے ضرور جائیں۔ میں آپ کویہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک نومبر یعنی پرسوں، میں گجرات-راجستھان کے بارڈر پر موجودہ مان گڑھ میں رہوں گا۔ بھارت کی جدوجہد آزادی اور ہماری بیش قیمتی آدیواسی وراثت میں مان گڑھ کا بہت ہی خاص مقام رہا ہے۔ یہاں پر نومبر 1913 میں ایک خوفناک قتل عام ہوا تھا، جس میں انگریزوں نے مقامی آدیواسیوں کا بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قتل عام میں ایک ہزار سے زیادہ آدیواسیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اس جن جاتیہ آندولن کی قیادت گووند گرو جی نے کی تھی، جن کی زندگی ہر کسی کو حوصلہ بخشنے والی ہے۔ آج میں ان سبھی آدیواسی شہیدوں اور گووند گرو جی کی مثالی ہمت اور شجاعت کو نمن کرتا ہوں۔ ہم اس امرتکال میں بھگوان برسا منڈا، گووند گرو اور دیگر مجاہدین آزادی کے اصولوں پر جتنی ایمانداری سے عمل کریں گے، ہمارا ملک اتنی ہی بلندیوں کو چھو لے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آنے والے 8 نومبر کو گرو پورب ہے۔ گرونانک جی کا پرکاش پرو جتنا ہمارے عقیدہ کے لیے اہم ہے، اتنا ہی ہمیں اس سے سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔ گرو نانک دیو جی نے اپنی پوری زندگی، انسانیت کے لیے روشنی پھیلائی۔ پچھلے کچھ برسوں میں ملک نے گروؤں کی روشنی کو ہر ایک تک پہنچانے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔ ہمیں گرو نانک دیو جی کا 550واں پرکاش پرو یاد ہے، ملک اور بیرون ملک میں بڑے پیمانے پر منانے کا سنہرا موقع ملا تھا۔ دہائیوں سے انتظار کے بعد کرتارپور صاحب کوریڈور کی تعمیر ہونا بھی اتنا ہی مسرت آمیز ہے۔ کچھ دن پہلے ہی مجھے ہیم کنڈ صاحب کے لیے روپ وے کا سنگ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ ہمیں ہمارے گروؤں کے خیالات سے لگاتار سیکھنا ہے، ان کے لیے وقف رہنا ہے۔ اسی دن کارتک پورنیما کا بھی ہے۔ اس دن ہم تیرتھوں میں، ندیوں میں اسنان (غسل) کرتے ہیں – سیوا اور دان کرتے ہیں۔ میں آپ سبھی کو ان تہواروں کی دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ آنے والے دنوں میں کئی ریاستیں، اپنا یوم تاسیس بھی منائیں گی۔ آندھرا پردیش اپنا یوم تاسیس منائے گا، چھتیس گڑھ اور ہریانہ بھی اپنا یوم تاسیس منائیں گے۔ میں ان سبھی ریاستوں کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہماری تمام ریاستوں میں، ایک دوسرے سے سیکھنے کی، تعاون کرنے کی، اور مل کر کام کرنے کی اسپرٹ جتنی مضبوط ہوگی، ملک اتنا ہی آگے جائے گا۔ مجھے یقین ہے، ہم اسی جذبے سے آگے بڑھیں گے۔ آپ سب اپنا خیال رکھئے، صحت مند رہئے۔ ’من کی بات‘ کی اگلی ملاقات تک کے لیے مجھے اجازت دیجئے۔
نمسکار، شکریہ۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 12006
(Release ID: 1872039)
Visitor Counter : 315
Read this release in:
Kannada
,
Telugu
,
Assamese
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Malayalam