زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

ہندوستان ٹائمس میں 18 اکتوبر 2022 کو فریدکوٹ کے باجاخانہ کی جے شری نندی کی شائع ہونے والی خبروں پر محکمہ زراعت اور کسانوں کی بہبود  کے محکمہ کا رد عمل

Posted On: 18 OCT 2022 5:12PM by PIB Delhi

انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ نے پوسا ڈی کمپوزر تیار کیا ہے، جو دھان کی پرالی کو تیزی سے گلانے کے لیے پھپھوندوں کے اقسام کا ایک مائکروبیل کنسورشیم (سائنسی مجموعہ )ہے۔ اس کنسورشیم  کےاستعمال سے کھیت میں ہی دھان کی پرالی کے گلنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ سال 2021 میں، پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور خطہ قومی راجدھانی دہلی (این سی ٹی )نے تقریباً 5.7 لاکھ ہیکٹر رقبے میں پرالی کے گلانے کاتجربہ کیا ہے اور سیٹلائٹ امیجنگ اور مانیٹرنگ کے ذریعے دیکھا گیا کہ جہاں اس تکنیک کا استعمال کیا گیا تھا ، وہاں 92ل فیصد علاقو میں پرالی کو جلایا نہیں گیا تھا۔ جیسا کہ کچھ اخبار کی خبروں میں بتایا گیا ہے، ان ریاستوں میں بائیو ڈیکمپوزر کے استعمال کا کوئی منفی اثر نہیں دیکھا گیا۔

پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سے ملحقہ ریاستوں میں پرالی  جلانے کی وجہ سے دہلی اور قومی راجدھانی کے علاقے میں فضائی آلودگی سے نمٹنے اور فصل کی باقیات کے بندوبست کے لیے درکار مشینری کو سبسڈی دینے کے مقصد سےمحکمہ زراعت اور کسانوں کی بہبود کا محکمہ پہلے سے ہی 2018-19 سے مرکزی سیکٹر کے منصوبہ  'فصل کی باقیات کا بندوبست' پر اسکیم کو نافذ کر رہا ہے۔ یہ منصوبے کسانوں، باہمی امداد کی سوسائٹیوں، زرعی پیداوار کرنے والی تنظیموں اور پنچایتوں کو مالی امداد کے ذریعے کھیتوں میں، اس کے باہر فصل کی باقیات کا بندوبست کرنےوالی مشینوں کے استعمال کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ اسکیم انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کے تحت مختلف ریاستی ایجنسیوں اور3 اے ٹی اے آر آئی اور 60 کرشی وگیان کیندر (کے وی کیز) کے ذریعے پرالی کے انتظام کے بندوبست کے بارے میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کرنے پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ بائیو ڈی کمپوزر کے فوائد کو دیکھتے ہوئے، فصل کی باقیات کے بندوبست کی اسکیم کے تحت انتظامات کیے گئے ہیں اور ریاستوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسانوں کے کھیتوں میں اس ٹیکنالوجی کے بڑے پیمانے پر استعمال کریں۔ رواں سال کے دوران ریاستوں نے 8.15 لاکھ ہیکٹر سے زیادہ رقبہ کو اس ٹیکنالوجی کے تحت لانے کا ہدف رکھا ہے۔

سال 2018-19 سے 2021-22 کے دوران ان ریاستوں کو 2440.07 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں اور رواں سال کے دوران اب تک 601.53 کروڑ روپئے جاری کیے گئے ہیں۔ ان فنڈز سے ریاستوں نے 2.0 لاکھ سے زیادہ مشینیں فراہم کی ہیں اور رواں سال کے دوران مزید 47000 مشینیں فراہم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس کے تحت فراہم کردہ مشینوں میں بیلر اور ریک بھی شامل ہیں جن کا استعمال کھیتوں سے باہراس تکنیک کے استعمال کے لئے پرالی کو گانٹھوں کی شکل میں جمع کیا جاتا ہے ۔

آنے والے سیزن کے دوران دھان کی پرالی جلانے پر موثر کنٹرول کے لیے ریاستوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مائیکرو لیول پر ایک جامع ایکشن پلان تیار کریں، مشینوں کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار قائم کریں، بایو ڈیکمپوزر کے استعمال کو اعزازی موڈ میں فروغ دیں۔اس کے علاوہ سی آر ایم مشینیں ملحقہ صنعتوں جیسے بائیو ماس پر مبنی پاور پلانٹس، بائیو ایتھانول پلانٹس وغیرہ کی مانگ کی نقشہ سازی کے ذریعے بھوسے کے سابقہ ​​استعمال کو فروغ دیتی ہیں اور الیکٹرانک/ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا  اس کے ساتھ ساتھ کسان میلوں، پبلیکیشنز، سیمینارس، ایڈوائزریز کے ذریعے اس شعبے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ذریعے کسانوں کی بڑے پیمانے پر بیداری کے لیے آئی ای سی سرگرمیاں شروع کرتی ہیں۔  اگر مندرجہ بالا فریم ورک کے اندر تمام اقدامات جیسا کہ پہلے ہی درخواست کی گئی ہے، ریاستی سطح پر ایک جامع انداز میں اٹھائے جائیں تو پرالی جلانے پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

وزارت زراعت/ ماحولیات اور جنگلات/ ریاستی حکومتوں کی ایک مشترکہ مانیٹرنگ ٹیم روزانہ پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور دہلی این سی آر کے دیگر ملحقہ علاقوں میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کے معاملے کی باقاعدگی سے نگرانی کر رہی ہے۔ کمیشن آف ایئر کوالٹی مانیٹرنگ بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

 

**********

ش ح ۔ س ک۔ف ر

U.No:11586



(Release ID: 1869115) Visitor Counter : 112


Read this release in: Hindi , Punjabi , English , Telugu