وزارت دفاع
رکشا منتری نے او ایف بی سے بنی سات دفاعی کمپنیوں کے کام کاج کا ان کے ایک سال پورا ہونے پر جائزہ لیا
خود مختاری اور جوابدہی کے ساتھ کام کرتے ہوئے منافع درج کرنے اور اپنے ملازمین کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لیے ان کی تعریف کی
جناب راجناتھ سنگھ نے ڈی پی ایس یو سے بھارت کو ایک عالمی دفاعی مینوفیکچرنگ مرکز بنانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی تیار کرنے/اپنانے کی اپیل کی
ہمارا مقصد 2025 تک 35 ہزار کروڑ روپے کی دفاعی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا ہے، ہدف کے حصول میں ڈی پی ایس یو کو تعاون فراہم کرنا چاہیے: رکشا منتری
Posted On:
30 SEP 2022 3:00PM by PIB Delhi
رکشا منتری جناب راجناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں 30 ستمبر، 2022 کو سابقہ آرڈننس فیکٹری بورڈ (او ایف بی) سے بنی سات دفاعی کمپنیوں کے کام کاج کا جائزہ ان کے کام کاج کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر منعقد ایک میٹنگ میں لیا۔ ان کمپنیوں نے 15 اکتوبر، 2021 کو ’وجیہ دشمی‘ کے موقع پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعے قوم کو وقف کیے جانے سے پہلے یکم اکتوبر، 2021 سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
میٹنگ کے دوران محکمہ دفاعی پیداوار کے عہدیداروں نے پچھلے ایک سال میں ان نئے ڈی پی ایس یو کے ذریعے کی گئی پیش رفت کے بارے میں رکشا منتری کو معلومات فراہم کیں۔ سات کمپنیوں کے عہدیداروں اور ملازمین سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے جناب راجناتھ سنگھ نے کہا کہ او ایف بی کا کارپوریٹائزیشن ان اداروں کی حقیقی صلاحیت کو اجاگر کرکے ملک کو ’آتم نربھر‘ بنانے کی سمت میں ایک بڑا قدم تھا۔ انہوں نے اس حقیقت کی تعریف کی کہ یہ کمپنیاں اپنے ملازمین کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے مکمل خود مختاری، مہارت اور جوابدہی کے ساتھ ترقی کی راہ پر تیز رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں، جو کہ حکومت کے ذریعے او ایف بی کو کارپوریٹائز کرنے کے فیصلہ کی بنیاد تھا۔
رکشا منتری نے کہا، ’’سابقہ او ایف بی اپنے بنیادی ڈھانچے اور ہنر مند افرادی قوت کے ساتھ ملک کی ایک اسٹریٹجک پراپرٹی تھی، جس نے قومی سلامتی میں بیش قیمتی تعاون فراہم کیا۔ حالانکہ، گزشتہ کچھ دہائیوں میں اونچی لاگت، بے ترتیب معیار اور مصنوعات کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے مسلح افواج فکرمند تھیں۔ سرکاری محکمہ ہونے کے سبب او ایف بی کے پاس منافع دکھانے کی بہت کم جوابدہی تھی۔ صدیوں پرانے طریقہ کار، روایات، کاغذی کام اور قاعدے قانون تھے، جو اپنی افادیت کھو چکے تھے۔ ان روایتوں سے چھٹکارہ پانا وقت کی مانگ تھی اور آگے بڑھنے کا سب سے اچھا طریقہ کارپوریٹائزیشن تھا۔ حکومت شروع سے ہی ان کمپنیوں کو سنبھالتی رہی ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ وہ ترقی کے راستے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
ان کمپنیوں کو مالی سال 2021-22 اور 2022-23 کے دوران جدیدکاری کے لیے 2953 کروڑ روپے کی رقم ایکوئٹی کے طور پر جاری کی گئی ہے اور 2026-27 تک ان کمپنیوں کو پونجی اخراجات کے لیے 6270 کروڑ روپے کی رقم جاری کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ، ان کمپنیوں کو ایمرجنسی مجاز کاری فنڈ کے طور پر 3750 کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی ہے۔
ان نئے کارپوریٹ اداروں کو فراہم کی گئی آپریشنل اور مالی خود مختاری، حکومت کے ذریعے ہاتھ میں لینے کے ساتھ، ان کی کارکردگی میں نمایاں ہونے لگی ہے۔ چھ مہینے کی چھوٹی مدت یعنی 01 اکتوبر، 2021 سے 31 مارچ، 2022 کے اندر، ان نئی کمپنیوں نے 8400 کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار حاصل کیا ہے، جو پچھلے مالی سالوں کے دوران سابقہ او ایف بی کو جاری گئی قدر کو دیکھتے ہوئے اہم ہے۔ مالی سال 2022-23 کے لیے بھی، سات نئے ڈی پی ایس یو نے مجموعی فروخت کے ہدف کا تخمینہ لگایا ہے۔ 17000 کروڑ روپے، جو سابقہ او ایف بی کی پچھلی حصولیابیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔
یکم اپریل، 2021 سے 30 ستمبر، 2021 تک کی مدت تک تقریباً 5028 کروڑ روپے کی پیداوار حاصل کرنے کے ہدف کے برخلاف، نئی ڈی پی ایس یوز نے مالی سال 2022-23 کے پہلے چھ مہینوں میں 6500 کروڑ روپے سے زیادہ کی پیداوار حاصل کر لی ہے۔ کارپوریٹائزیشن کے بعد، نئے اداروں نے بدلے ہوئے کارپوریٹ سیٹ اپ میں پیداواری صلاحیت اور معیار میں قابل ذکر بہتری دکھائی ہے۔ مالی سال 22-2021 میں سات کمپنیوں میں سے چھ نے عبوری مالی تفصیلات کی بنیاد پر منافع کا اشارہ دیا ہے۔
ان ڈی پی ایس یو کے کام کاج میں مزید بہتری کے لیے جناب راجناتھ سنگھ نے کچھ اہم شعبوں کو درج فہرست کیا جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دور حاضر کو ٹیکنالوجی سے متحرک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کمپنیوں کو جدید ترین تکنیکیں تیار کرنے یا ان سے متعارف ہونے کی اپیل کی، جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنانے کے لیے دفاعی صنعت کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے ان سے گھریلو تحقیق و ترقی کے توسط سے جدیدیت پر مخصوص زور دینے کی اپیل کی کیوں کہ یہ آگے بڑھنے کا سب سے مضبوط اور محفوظ طریقہ ہے۔
رکشا منتری نے دنیا بھر میں بھارت کی بازار حصہ داری بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا، اسے کمپنیوں کی ذمہ داری بتایا کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوششوں میں تعاون فراہم کریں۔ انہوں نے کمپنیوں سے مسابقتی بولی کے موجودہ وقت میں اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے حملہ آور اور ترقی پذیر رویہ کے ساتھ حکمت عملی تیار کرنے اور لاگو کرنے کی اپیل کی۔
جناب راجناتھ سنگھ نے پونجی کی سرمایہ کاری کو ایک دوسرا اہم پہلو بتایا، جس کے بارے میں حکومت فی الحال کمپنیوں کو سنبھال رہی ہے۔ حالانکہ، انہوں نے کہا کہ مقابلہ آرائی کے اس دور میں ڈی پی ایس یو کو اپنی خواہشوں کے مطابق آنے والے وقت میں بازار سے سرمایہ کا انتظام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
وزارت دفاع کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کے ’آتم نربھر بھارت‘ کے وژن کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کو کم کرنے پر زور دینے پر روشنی ڈالتے ہوئے رکشا منتری نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کی سمت میں تعاون کرنے کے لیے ڈی پی ایس یو کا ہدف ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’خود انحصاریت کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دفاعی تعمیر ایک اہم شعبہ ہے۔ وزارت دفاع نے 2025 تک ایئرو اسپیس اور دفاعی اشیاء اور خدمات میں 1.75 لاکھ کروڑ روپے کا کاروبار حاصل کرنے کا ہدف طے کیا ہے، جس میں 35000 کروڑ روپے کی برآمدات شامل ہیں۔ ڈی پی ایس یو کو ہدف حاصل کرنے اور ملک کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
جناب راجناتھ سنگھ نے اعتماد کا اظہار کیا کہ آنے والے وقت میں کمپنیاں ٹرن اوور، منافع بخش، بازار کی قدر اور جامع ترقی میں نئے سنگ میل حاصل کریں گی۔ انہوں نے کمپنیوں کو فورس ملٹی پلائر قرار دیا جو ملک کی دفاعی پیداوار کو آگے لے جائے گی اور عالمی سطح پر اپنی حالت مضبوط کرے گی۔
راجناتھ سنگھ نے کہا، ’’بھارت ایک عالمی دفاعی مینوفیکچرنگ مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی سرگرم حصہ داری کے ساتھ ہمارا مقصد ڈیزائن، پیداوار، ایکسپورٹ کے شعبے میں بھارت کو دنیا کے سرکردہ ممالک میں شامل کرنا ہے۔ آج جب ہمارا ملک 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، ہماری دفاعی برآمدات پچھلے 7-8 برسوں کے مقابلے 5-6 گنا بڑھ کر 13000 کروڑ روپے ہو گئی ہیں۔ نئے انتظام کو گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں نئے مواقع کا پتہ لگانا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئی کمپنیاں دفاعی مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کو مضبوط کرنے میں اہم رول نبھائیں گی، ساتھ ہی معیشت کی جامع ترقی میں بھی اہم تعاون فراہم کریں گی۔
اپنے قیام کے بعد سے ان ڈی پی ایس یو نے اپنے کاروبار کی توسیع کرنے کے لیے راستے تلاش کرنا شروع کر دیا ہے اور اپنے صارفین کی بنیاد اور پیداواری پروفائل میں تنوع لانے کے لیے ایک حملہ آور نقطہ نظر اپنایا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران، نئی کمپنیوں کو 7200 کروڑ روپے سے زیادہ قیمت کے گھریلو آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ نئی کمپنیوں کی کچھ اہم حصولیابیاں درج ذیل ہیں:
- میونیشن انڈیا لمیٹڈ (ایم آئی ایل) نے پچھلے ایک سال میں مختلف قسم کے بولہ بارود کے لیے 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کے ایکسپورٹ آرڈر موصول کیے ہیں۔ گلائیڈرز انڈیا لمیٹڈ (جی آئی ایل) کو بھی پیراشوٹ کے ایکسپورٹ کے آرڈر ملے ہیں۔
- ینتر انڈیا لمیٹڈ (وائی آئی ایل) نے پیداوار اور صارفین کی کثیر النوعی میں اہم پیش رفت کی ہے۔ اس سے انہیں ہندوستانی ریلوے جیسے غیر دفاعی بازار سے 300 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر موصول کرنے میں مدد ملی ہے۔
- ٹروپ کمفرٹس لمیٹڈ (ٹی سی ایل) نے ایک مخصوص بازار میں داخل ہونے اور طویل عرصے میں اپنے کاروبار کو برقرار رکھنے کے لیے بلیٹ پروف جیکٹ، بیلسٹک ہیلمٹ، ای سی ڈبلیو سی ایس وغیرہ جیسی اشیاء تیار کی ہیں۔
- آرمرڈ ویہکلز نگم لمیٹڈ (اے وی این ایل) نے سی آر پی ایف کے لیے ڈیزائن کیے گئے مائن پروٹیکٹڈ ویہکل کا نیا ایڈیشن تیار کیا ہے، جو دیگر مسلح افواج کے لیے بھی مفید ہو سکتا ہے۔
- ایڈوانسڈ ویپنس اینڈ ایکوئپمنٹ انڈیا لمیٹڈ کو دہلی پولیس کو جے وی پی سی کاربائن کی سپلائی کا آرڈر ملا ہے۔
- میونیشن انڈیا لمیٹڈ (ایم آئی ایل) پناکا راکٹ یعنی پناکا ایم کے-1 (توسیع شدہ رینج) اور ڈی پی آئی سی ایم کے نئے ویرئنٹ کو کامیابی کے ساتھ پروف فائر کرنے میں اہلیت رکھتا ہے۔
- ایم آئی ایل نے 40 ایم ایم یو بی جی ایل گولہ بارود، 500 کلوگرام جنرل پرپز بم اور 62/76 ایس آر جی ایم ایچ ای ڈی اے گولہ بارود بھی کامیابی کے ساتھ تیار کیا ہے۔
- انڈیا آپٹیل لمیٹڈ نے ٹینکوں کے لیے ڈرائیور نائٹ سائٹ تیار کیا ہے جو فیوزن امیجنگ کی تکنیک کے معاملے میں پہلی ہے۔
ان نئے اداروں نے اپنے وسائل کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور لاگت میں کمی کی سمت میں مختلف طریقے اپنانے شروع کیے ہیں۔ انہوں نے لاگت کی بچت کے مختلف طریقے بھی استعمال کیے ہیں جیسے اوورٹائم اور غیر پیداواری سرگرمیوں کے لیے خرچ میں کمی اور شمسی توانائی کا استعمال، آبی ری سائیکل، ایل ای ڈی پر سوئچ کرنا وغیرہ جیسے طریقے اپنائے ہیں۔
اس موقع پر چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انل چوہان، آرمی چیف جنرل منوج پانڈے، بحریہ کے ڈپٹی چیف وائس ایڈمرل ای ایس گھورمڑے اور وزارت دفاع کے سینئر عہدیدار موجود تھے۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 10879
(Release ID: 1864055)
Visitor Counter : 166