وزیراعظم کا دفتر

من کی بات کی 92 ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 28 AUG 2022 11:37AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنوں ، نمسکار ! اگست کے اس مہینے میں آپ سبھی کے خطوط، پیغامات اور کارڈز نے میرے دفتر کو تین رنگوں سے بھر دیا ہے۔ مجھے شاید ہی کوئی ایسا خط ملا ہو ، جس پر ترنگا نہ ہو، یا ترنگے اور آزادی سے متعلق بات نہ ہو۔  بچوں نے ، نو جوان ساتھیوں نے تو امرت مہوتسو پر بہت خوبصورت خوبصورت تصاویر اور فن پارے بھی بنا کر بھیجے ہیں ۔ آزادی کے اس مہینے میں، ہمارے پورے ملک میں، ہر شہر، ہر گاؤں میں، امرت مہوتسو کی امرت  دھارا بہہ رہی ہے۔ امرت مہوتسو اور یومِ آزادی کے اس خاص موقع پر ہم نے ملک کی اجتماعی طاقت  کا مشاہدہ کیا ہے۔  بیداری کا ایک احساس ہوا ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنے تنوع، لیکن جب ترنگا لہرانے کی بات آئی تو  سب ایک ہی جذبے میں بہتے دکھائی دیئے ۔ ترنگے کی شان کے  پہلے محافظ بن کر لوگ خود آگے آئے۔ ہم نے صفائی مہم اور ٹیکہ کاری مہم میں بھی ملک کا جذبہ دیکھا تھا۔ حب الوطنی کا وہی جذبہ ہمیں امرت مہوتسو میں دوبارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہمارے سپاہیوں نے اونچے  اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر، ملک کی سرحدوں پر اور سمندر کے بیچ ترنگا لہرایا۔ لوگ ترنگا مہم کے لئے مختلف اختراعی آئیڈیاز بھی لے کر آئے۔ جیسے نوجوان ساتھی، کرشنیل انل جی  نے ،  جو ایک پزل آرٹسٹ ہیں  ، انہوں نے ریکارڈ وقت میں خوبصورت ترنگا موزیک آرٹ  تیار کیا ہے۔ کرناٹک  کے کولار میں لوگوں نے 630 فٹ لمبا اور 205 فٹ چوڑا ترنگا  پکڑ کر  ایک انوکھا نظارہ پیش کیا۔ آسام میں سرکاری ملازمین  نے دیگھالی پوکھوری وار میموریل پر ترنگا لہرانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے 20 فٹ کا ترنگا بنا یا ۔ اسی طرح اندور میں لوگوں نے انسانی چین کے ذریعے  بھارت کا نقشہ بنایا۔ چنڈی گڑھ میں نوجوانوں نے ایک عظیم انسانی ترنگا بنایا۔  ان دونوں  ہی کوسشوں کو گینز ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا ہے۔ اس سب کے درمیان ہماچل پردیش کی گنگوٹ پنچایت سے ایک بڑی  تحریک دینے والی مثال بھی دیکھنے کو ملی ہے ۔ یہاں پنچایت میں یوم ِ آزادی کے پروگرام میں مہاجر مزدوروں کے بچوں کو مہمان خصوصی  کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

ساتھیو ، امرت مہوتسو کے یہ رنگ صرف بھارت  میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دیکھنے کو ملے۔ بوتسوانا  میں  مقامی  گلوکاروں نے بھارت کی آزادی کے 75 سال  منانے کے لئے حب الوطنی کے 75   گیت گائے۔ اس میں خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ 75  گیت  ہندی، پنجابی، گجراتی، بنگالی، آسامی، تامل، تیلگو، کنڑ اور سنسکرت جیسی زبانوں میں گائے گئے۔ اسی طرح نمیبیا میں  بھارت - نمیبیا کے ثقافتی-روایتی تعلقات پر خصوصی ٹکٹ جاری کیا گیا ۔

ساتھیو ،  میں  ایک اور خوشی کی  بات بتانا چاہتا ہوں ۔  ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں انہوں نے دوردرشن سیریلسوراجکی اسکریننگ رکھی تھی ۔ مجھے اس کے پریمیئر میں جانے کا موقع ملا۔ ملک کی نوجوان نسل کو تحریک آزادی میں حصہ لینے والے ان ہیروز اور ہیروئنوں کی کاوشوں سے روشناس کرانے کا یہ ایک بہترین اقدام ہے۔ یہ ہر اتوار کو رات 9 بجے دوردرشن پر نشر ہوتا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ 75 ہفتوں تک جاری رہے گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ وقت نکال کر خود بھی دیکھیں اور اپنے گھر کے بچوں کو بھی دکھائیں اور اسکول کالج والے بھی پیر کو اسکول کالج کھلنے پر اس کی ریکارڈنگ کرکے ایک خصوصی پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تاکہ  آزادی کے اِن ہیرو کے تئیں ہمارے ملک میں ایک نئی بیداری پیدا ہو ۔  آزادی کا امرت مہوتسو اگلے سال یعنی اگست ، 2023 ء تک جاری رہے گا ۔  ملک کے لئے،  مجاہدینِ آزادی  کے لئے، جو مضمون نویسی وغیرہ ہم کر رہے تھے ، ہمیں انہیں اور آگے بڑھانا ہے ۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے  اجداد کا علم، ہمارے  اجداد کی دور اندیشی اور ہمارے اجداد  کی اتحاد کی فکر  آج بھی کتنی اہم ہے ، جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ہمیں  بہت حیرت  ہوتی  ہے ۔ ہزاروں سال پرانا ہمارا رِگ وید – رِگ وید میں کہا گیا ہے :

ओमान-मापो मानुषी: अमृक्तम् धात तोकाय तनयाय शं यो:।

यूयं हिष्ठा भिषजो मातृतमा विश्वस्य स्थातु: जगतो जनित्री:।|

یعنی  -  اے پانی تو انسانیت کا بہترین دوست ہے۔ تو ہی زندگی دینے والا ہے، تجھ سے رزق پیدا ہوتا ہے اور تجھ سے ہمارے بچوں کی فلاح ہوتی ہے۔ تو ہی ہمارا محافظ ہے اور ہمیں تمام برائیوں سے دور رکھے۔ آپ بہترین دوا ہیں اور آپ ہی اس کائنات کو پالنے والے ہیں۔

سوچیے  ، ہماری تہذیب میں ہزاروں سال پہلے  پانی اور پانی کے تحفظ کی اہمیت کو  سمجھایا گیا ہے ۔ جب ہم اس علم کو آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہم جوش میں آجاتے ہیں لیکن  جب اسی علم کو  ملک  اپنی  صلاحیت  کے طور پر  اعتراف  کرتا  ہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، چار مہینے پہلےمن کی باتمیں ہی میں نے امرت سروور کی بات کی تھی۔ اس کے بعد مختلف اضلاع میں مقامی انتظامیہ جمع ہوئی، رضاکار تنظیمیں جمع ہوئیں اور مقامی لوگ جمع ہوئے- دیکھتے ہی دیکھتے امرت سروور کی تعمیر ایک عوامی تحریک بن گئی ہے۔ جب ملک کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہو، اپنے فرض کا احساس ہو، آنے والی نسلوں کی فکر ہو تو طاقت بھی شامل ہو جاتی ہے اور عزم بھی بلند ہو جاتا ہے۔ مجھے تلنگانہ کے وارنگل سے ایک عظیم کوشش کا علم ہوا ہے۔ یہاں ایک نئی گرام پنچایت بنائی گئی ہے، جس کا نام  ہے ’منگتیا والیا ٹھانڈا ‘ ۔ یہ گاؤں جنگل علاقے کے قریب ہے۔ گاؤں کے قریب  ہی ایک ایسی جگہ تھی  ، جہاں مانسون میں بہت سا پانی جمع ہو جاتا تھا۔ گاؤں والوں کی پہل پر اب اس جگہ کو امرت سروور ابھیان کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس بار مانسون کے دوران ہونے والی بارشوں کی وجہ سے یہ جھیل پانی سے بھر گئی ہے۔

میں آپ کو مدھیہ پردیش کے منڈلا میں موچا گرام پنچایت میں بنائے گئے امرت سروور کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہ امرت سروور کانہا نیشنل پارک کے قریب بنایا گیا ہے اور اس نے اس علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اتر پردیش کے للت پور میں نو تعمیر شدہ شہید بھگت سنگھ امرت سروور بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ یہاں کی نیواری گرام پنچایت میں بنی یہ جھیل 4 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے۔ جھیل کے کناروں پر شجرکاری اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہے۔ جھیل کے قریب 35 فٹ اونچے ترنگے کو دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے  آرہے ہیں۔ امرت سروور کی یہ مہم کرناٹک میں بھی زور و شور سے جاری ہے۔ یہاں باگل کوٹ ضلع کے گاؤں  ’بلکیرور ‘ میں لوگوں نے ایک بہت ہی خوبصورت امرت سروور بنایا ہے۔ در اصل ، اس علاقے میں پہاڑ سے  نکلنے والے پانی  کی وجہ سے لوگوں کو  بہت مشکل ہوتی تھی ،  کسانوں اور ان کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچتا تھا ۔ امرت سروور بنانے کے لئے گاؤں کے لوگ سارے پانی کو چینلائز کرکے ایک طرف لے آئے۔ اس سے علاقے میں سیلاب کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ امرت سروور ابھیان نہ صرف آج ہمارے بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے بلکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس مہم کے تحت کئی مقامات پر پرانے آبی ذخائر کو بھی از سر نو بنایا جا رہا ہے۔ امرت سروور کو جانوروں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تالابوں کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کے اردگرد ہریالی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں، کئی جگہوں پر لوگ امرت سروور میں  ماہی پروری کی تیاریوں میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ میری آپ سب سے، خاص کر میرے نوجوان دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ امرت سروور مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پانی کو جمع کرنے اور  اس کے تحفظ کی ان کوششوں کو پوری طاقت  سے آگے بڑھائیں۔

 میرے پیارے ہم وطنو، آسام کے بونگئی گاؤں میں ایک دلچسپ پروجیکٹ چلایا جا رہا ہے پروجیکٹ سمپورن۔ اس پروجیکٹ کا مقصد تغذیہ قلت کے خلاف لڑنا ہے اور اس لڑائی کا طریقہ بھی بہت منفرد ہے۔ اس کے تحت  کسی آنگن واڑی سنٹر سے کسی صحت مند بچے کی ماں  ایک تغذیہ کی کمی والے بچے کی ماں سے ہر ہفتے ملتی ہے اور  تغذیہ  سے متعلق تمام معلومات پر تبادلۂ خیال کرتی ہے۔ یعنی ایک ماں دوسری ماں کی سہیلی بنتی ہے، اس کی مدد کرتی ہے، اسے سکھاتی ہے۔ اس منصوبے کی مدد سے اس خطے میں ایک سال میں 90 فیصد سے زیادہ  بچوں میں تغذیہ کی کمی دور ہوئی ہے ۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں، کیا گانا اور موسیقی اور ترانے بھی تغذیہ  کی کمی  کو دور کرنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں؟ مدھیہ پردیش کے دتیا ضلع میں  ’’میرا بچہ ابھیان ‘‘ ! اس ’’میرا بچہ  ابھیان ‘‘ میں  کامیابی کے ساتھ  اس کا تجربہ  کیا گیا۔ اس کے تحت ضلع میں بھجن کیرتنوں کا انعقاد کیا گیا  ، جس میں  تغذیہ  گرو کہلانے والے اساتذہ کو بلایا گیا۔ ایک مٹکا پروگرام بھی منعقد کیا گیا، جس میں خواتین آنگن واڑی مرکز میں مٹھی بھر اناج لاتی ہیں اور اس اناج سے ہفتہ کے روز  ’ بال بھوج ‘  کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سے آنگن واڑی مراکز میں بچوں کی حاضری بڑھنے سے تغذیہ  کی کمی بھی کم ہوئی ہے۔ جھارکھنڈ میں تغذیہ  کی قلت کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لئے ایک انوکھی مہم بھی چل رہی ہے۔ جھارکھنڈ کے گریڈیہہ میں سانپ سیڑھی کا  ایک کھیل تیار کیا گیا ہے۔ کھیل کے ذریعے بچے اچھی اور بری عادات کے بارے میں سیکھتے ہیں۔

ساتھیو ، میں آپ کو تغذیہ سے متعلق بہت سے نت نئے تجربات کے بارے میں بتا رہا ہوں کیونکہ آنے والے مہینے میں ہم سب کو اس مہم میں شامل ہونا ہے۔ ستمبر کا مہینہ تہواروں کے ساتھ ساتھ تغذیہ سے متعلق ایک بڑی مہم کے لئے وقف ہے۔ ہم ہر سال 1 سے 30 ستمبر تک پوشن ماہ مناتے ہیں۔ پورے ملک میں تغذیہ  کی کمی کے خلاف بہت سی تخلیقی اور متنوع کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال اور عوام کی شرکت بھی نیوٹریشن مہم کا ایک اہم حصہ بن گئی ہے۔ ملک میں لاکھوں آنگن واڑی کارکنوں کو موبائل آلات دینے سے لے کر آنگن واڑی خدمات کی رسائی کی نگرانی تک، پوشن ٹریکر بھی شروع کیا گیا ہے۔ تمام  امنگوں والے اضلاع اور  شمال مشرق کے ریاستوں میں 14 سے 18 سال کی بیٹیوں کو بھی پوشن ابھیان کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ تغذیہ کی کمی کے مسئلے کا حل صرف ان اقدامات تک محدود نہیں ہے - اس لڑائی میں بہت سے دوسرے اقدامات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جل جیون مشن کو لے لیجئے، تو یہ مشن بھارت کو تغذیہ  کی کمی سے پاک بنانے میں بھی بہت بڑا اثر ڈالنے والا ہے۔ سماجی بیداری کی کوششیں تغذیہ  کی قلت کے چیلنجوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آنے والے پوشن ماہ میں آپ کو تغذیہ  کی قلت یا  مال نیوٹریشن  کو دور کرنے کی کوششوں میں ضرور حصہ لیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، چنئی سے سری دیوی وردراجن جی نے مجھے ایک  ریمائنڈر  بھیجا ہے۔ انہوں نے  مائی گوو  پر  اپنی بات کچھ اس طرح لکھی ہےنئے سال کے آنے میں 5 ماہ سے بھی کم وقت  بچا  ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ آنے والا نیا سال جوار  باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے  مجھے ملک کا جوار  باجرے کا نقشہ بھی بھیجا ہے۔ یہ بھی پوچھا  ہے کہ کیا آپ  ’من کی بات ‘ کے آنے والے ایپی سوڈ میں اس پر بات کر سکتے ہیں؟ مجھے اپنے ہم وطنوں میں ایسا جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اقوام متحدہ نے   ایک قرار داد منظور کرکے سال 2023 ء  کو  جوار باجرے کا بین الاقوامی سال قرار  دیا ہے  ۔ آپ کو یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوگی کہ بھارت کی اس تجویز کو 70 سے زیادہ ممالک کی حمایت  ملی تھی ۔ آج پوری دنیا میں اسی موٹے  اناج کا ، جوار باجرے کا  کریز  بڑھتا جا رہا ہے۔  ساتھیو ، جب میں موٹے  اناج  کی بات کرتا ہوں تو میں آج اپنی ایک کوشش کو بھی  آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ عرصے سے  ، جب کوئی بھی غیر ملکی مہمان بھارت آتا ہے، جب سربراہ مملکت بھارت آتے ہیں تو میری کوشش رہتی ہے کہ  کھانے میں بھارت کے  موٹے اناج یعنی ملٹس سے بنے ہوئے پکوان بنواؤں اور  اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان  اہم شخصیات کو یہ  کھانے بہت پسند آتے ہیں  اور ہمارے موٹے اناج کے تعلق سے ، ملٹ کے تعلق سے  ، وہ بہت سی معلومات حاصل کرنے کی بھی  کوشش  کرتے ہیں ۔ ملٹس ، موٹے اناج  عہدِ قدیم سے ہی ہماری زراعت، ثقافت اور تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔  ہمارے ویدوں میں موٹے اناج  کے بارے میں تحریر ملتی ہے  اور اسی طرح پرانانورو اور تولکپیم میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی حصے میں جائیں، وہاں کے لوگوں کے کھانے میں آپ کو  الگ الگ طرح کے موٹے اناج دیکھنے کو ضرور ملیں گے ۔  ہماری  تہذیب کی طرح  ملٹ  میں بھی بہت زیادہ تنوع  پایا جاتا ہے۔ جوار، باجرہ، راگی، ساواں ، کنگنی، سینا، کوڈو، کٹکی، کٹو، یہ سب  موٹے اناج ہی تو ہیں ۔ بھارت دنیا میں موٹے اناج کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے، اس لئے اس پہل کو کامیاب بنانے کی بڑی ذمہ داری بھی ہم بھارتیوں کے کندھوں پر ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے ایک عوامی تحریک بنانا ہے اور ملک کے لوگوں میں  موٹے اناج  کے تئیں بیداری بڑھانی ہے  اور  ساتھیو ، آپ اچھی طرح جانتے ہیں،  ملٹ  کسانوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور وہ بھی خاص طور پر چھوٹے کسانوں کے لئے۔ دراصل، فصل بہت کم وقت میں تیار ہو جاتی ہے اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت  بھی نہیں ہوتی۔  ملٹ  ہمارے چھوٹے کسانوں کے لئے  ، خاص طور پر  بہت فائدہ مند ہے۔  ملٹ  کے بھوسے کو بھی بہترین چارہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل صحت مند رہنے اور کھانے پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اس حساب سے بھی دیکھیں تو  ملٹ میں  پروٹین، فائبر اور  منرل بھرپور ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسے سپر فوڈ بھی کہتے ہیں۔  ملٹ  کے ایک نہیں بلکہ بہت سے فوائد ہیں۔ موٹاپا کم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل سے متعلق امراض کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ معدے اور جگر کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہیں۔ ہم نے تھوڑی دیر پہلے تغذیہ  کی قلت کے بارے میں بات کی تھی۔  ملٹ  تغذیہ کی کمی سے لڑنے میں بھی بہت فائدہ مند ہے کیونکہ یہ  پروٹین کے ساتھ ساتھ توانائی سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔ آج ملک میں  ملٹ   کو فروغ دینے کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ اس سے متعلق تحقیق اور اختراع پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ، ایف پی او کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ میرے کسان بھائیوں اور بہنوں سے میری درخواست ہے کہ  ملٹ  یعنی موٹے اناج کو زیادہ سے زیادہ اپنائیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ آج بہت سے ایسے اسٹارٹ اپس ابھر رہے ہیں، جو ملٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ  ملٹ   کوکیز بنا رہے ہیں، جب کہ کچھ ملٹ  پین کیک اور ڈوسا بھی بنا رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں  ، جو  ملٹ  کی انرجی بارز اور  ملٹ  کا ناشتہ تیار کر رہے ہیں۔ میں اس شعبے میں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ اس تہوار کے موسم میں، ہم زیادہ تر پکوانوں میں  ملٹ  کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ آپ اپنے گھروں میں بننے والی ایسی ڈشز کی تصویریں سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں تاکہ لوگوں میں ملٹ  کے بارے میں آگاہی بڑھانے میں مدد ملے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے، میں نے اروناچل پردیش کے سیانگ ضلع کے جورسنگ گاؤں سے ایک خبر دیکھی۔ یہ خبر اس تبدیلی کی تھی  ، جس کا اس گاؤں کے لوگ کئی سالوں سے انتظار کر رہے تھے۔ دراصل، جورسنگ گاؤں میں اس ماہ یوم ِآزادی کے دن سے  4 جی  انٹرنیٹ خدمات شروع ہو گئی ہیں۔  پہلے کبھی گاؤں میں بجلی پہنچنے پر لوگ خوش ہوتے تھے، اب نئے بھارت میں  ویسی ہی خوشی  4 جی پہنچنے پر ہوتی ہے ۔ اروناچل اور شمال مشرق کے دور دراز علاقوں میں 4 جی  کے طور پر ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی ایک نئی صبح  لے کر آئی ہے ،  جو سہولتیں کبھی صرف بڑے شہروں میں دستیاب تھیں، ڈیجیٹل انڈیا نے انہیں ہر گاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں نئے ڈیجیٹل انٹرپرینیور پیدا ہو رہے ہیں۔ راجستھان کے اجمیر ضلع کے سیٹھا سنگھ راوت جی  ’ درزی  آن لائن ‘ ، ای اسٹور چلاتے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ کیا ہوا، آن لائن درزی!! دراصل سیٹھا  سنگھ راوت کووڈ سے پہلے ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے۔ جب کووڈ آیا تو راوت جی نے اس چیلنج کو مشکل نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر لیا۔ انہوں نے  ’ کامن سروس سنٹر ‘ یعنی سی ایس سی  ای اسٹور جوائن کیا اور آن لائن کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ گاہک، بڑی تعداد میں، ماسک کا آرڈر دے رہے تھے۔ انہوں  نے کچھ خواتین کو  کام پر رکھا اور ماسک بنوانے لگے ۔ اس کے بعد  انہوں نے  ’ درزی آن لائن ‘ کے نام سے اپنا آن لائن اسٹور شروع کیا  ، جس میں وہ  اور بھی کئی  طرح کے کپڑے  بناکر بیچنے لگے ۔ آج ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت سے سیٹھا سنگھ جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب انہیں پورے ملک سے آرڈر ملتے ہیں۔ انہوں نے یہاں سینکڑوں خواتین کو روزگار دیا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا نے یوپی کے اناؤ میں رہنے والے اوم پرکاش سنگھ جی کو بھی ڈیجیٹل انٹرپرینیور بنا دیا ہے۔ انہوں  نے اپنے گاؤں میں ایک ہزار سے زیادہ براڈ بینڈ کنکشن قائم کئے ہیں۔ اوم پرکاش جی نے اپنے کامن سروس سینٹر کے ارد گرد ایک مفت وائی فائی زون بھی بنایا ہے، جو ضرورت مند لوگوں کی بہت مدد کر رہا ہے۔ اوم پرکاش جی کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے 20 سے زیادہ لوگوں کو ملازمت پر رکھا ہے۔ یہ لوگ گاؤں کے اسکولوں، اسپتالوں، تحصیل دفاتر اور آنگن واڑی مراکز کو براڈ بینڈ کنکشن فراہم کر رہے ہیں اور اس سے روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ کامن سروس سینٹر کی طرح، ایسی کتنی کامیابی کی کہانیاں گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم پورٹل پر دیکھنے کو مل  رہی ہیں۔

ساتھیو ، مجھے  گاؤوں  سے اس طرح کے بہت سے پیغامات ملتے ہیں، جو انٹرنیٹ سے ہونے والی تبدیلیوں کو میرے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہمارے نوجوان دوستوں کے مطالعہ اور سیکھنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جب یوپی کی گڑیا سنگھ اناؤ کے امویا گاؤں میں اپنے سسرال آئیں ، تو  انہیں اپنی پڑھائی کے فکر  ہوئی لیکن بھارت نیٹ نے ان کی  اس فکر کو حل کر دیا ۔ گڑیا نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنی گریجویشن بھی مکمل کی۔ گاؤں گاؤں میں ایسی کتنی زندگیوں کو ڈیجیٹل انڈیا مہم سے نئی طاقت مل رہی ہے۔ آپ مجھے  گاؤوں  کے ڈیجیٹل  انٹرپرینیورس  کے بارے میں  زیادہ سے زیادہ لکھ کر بھیجیں اور  ان کی کامیابی کی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر  بھی ضرور ساجھا کریں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، کچھ  وقت پہلے، مجھے ہماچل پردیش سےمن کی باتکے سننے والے رمیش جی کا خط ملا۔ رمیش جی نے اپنے خط میں پہاڑوں کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پہاڑوں پر بستیاں  بھلے ہی دور  دور بستی  ہیں لیکن لوگوں کے دل ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ در اصل ، ہم پہاڑوں پر رہنے والے لوگوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پہاڑوں کے رہن سہن اور ثقافت سے پہلا سبق جو ہمیں ملتا ہے  ، وہ یہ ہے کہ اگر ہم حالات کے دباؤ میں نہ آئیں تو آسانی سے ان پر قابو پا سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم مقامی وسائل سے خود کفیل کیسے ہو سکتے ہیں۔ پہلا سبق  ، جس کا میں نے ذکر کیا، اس کی ایک خوبصورت تصویر ان دنوں اسپیتی  کے علاقے میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسپیتی ایک قبائلی علاقہ ہے۔ یہاں ان دنوں مٹر توڑنے کا کام جاری ہے۔ پہاڑی کھیتوں میں یہ ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے لیکن یہاں گاؤں کی عورتیں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کے کھیتوں سے مٹر چنتی ہیں۔ اس کام کے ساتھ خواتین مقامی گیت ’ چھپرا ماجھی چھپرا ‘  بھی گاتی ہیں یعنی یہاں باہمی تعاون بھی لوک روایت کا حصہ ہے۔ مقامی وسائل کے استعمال کی بہترین مثال اسپیتی میں ملتی ہے۔ اسپیتی میں، کسان جو گائے  پالتے  ہیں ، ان کے  گوبر  کو خشک کرکے بوریوں میں بھرتے ہیں۔ جب سردیاں آتی ہیں تو یہ بوریاں اس جگہ رکھ دی جاتی ہیں  ، جہاں گائے رہتی ہے  ، جسے یہاں  کوڑھ  کہتے ہیں۔ برف باری کے دوران یہ بوریاں گا یوں کو سردی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ سردیوں کے بعد گائے کے اس گوبر کو کھیتوں میں کھاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یعنی جانوروں کے فضلے سے ان کی حفاظت  بھی اور کھیتوں کے لئے کھاد بھی۔کھیتی کی لاگت بھی کم اور کھیت میں پیداوار بھی زیادہ ۔  اسی لئے تو یہ علاقہ ان دنوں قدرتی  کھیتی کے لئے بھی تحریک بن رہا ہے۔

ساتھیو  ،  اسی طرح ہماری  کی کئی قابل ستائش کوششیں ہماری ایک پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں بھی  دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اتراکھنڈ میں کئی قسم کی  جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ، جو ہماری صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہیں۔ ان میں سے ایک  پھل ہے - بیڑو۔ اسے ہمالیائی انجیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس پھل میں معدنیات اور وٹامنز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ اسے نہ صرف پھل کی شکل میں استعمال کرتے ہیں بلکہ اسے کئی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کی ان خوبیوں کے پیش نظر اب بیڑو کے جوس، جیم، چٹنیاں، اچار اور خشک میوہ جات کو خشک کرکے تیار کیا گیا ہے۔ پتھورا گڑھ انتظامیہ کی پہل اور مقامی لوگوں کے تعاون سے بیڑو  کو مختلف شکلوں میں بازار تک پہنچانے میں کامیابی ملی  ہے۔ بیڑو کو پہاڑی انجیر کے نام سے برانڈنگ کرکے آن لائن مارکیٹ میں بھی لانچ کیا گیا ہے ،  جس کی وجہ سے کسانوں کو نہ صرف آمدنی کا نیا ذریعہ ملا ہے بلکہ بیڑو کی ادویاتی خصوصیات کے فوائد دور دور تک پہنچنے لگے ہیں۔

 میرے پیارے ہم وطنو، آج  ’من کی بات ‘ میں شروعات میں ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے بارے میں بات کی ہے۔ یوم آزادی کے عظیم تہوار کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں کئی اور تہوار بھی آنے والے ہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد بھگوان گنیش کی پوجا کا تہوار گنیش چترتھی ہے۔ گنیش چترتھی، یعنی گنپتی بپا کے آشیرواد کا تہوار۔ گنیش چترتھی سے پہلے اونم کا تہوار بھی شروع ہو رہا ہے۔ اونم خاص طور پر کیرالہ میں امن اور خوشحالی کے  جذبے کے ساتھ منایا جائے گا۔ ہرتالیکا تیج بھی 30 اگست کو ہے۔ اوڈیشہ میں یکم ستمبر کو نوا کھائی کا تہوار بھی منایا جائے گا۔ نوا کھائی کا مطلب  ہوتا ہے ، نیا کھانا  یعنی یہ بھی بہت سے دوسرے تہواروں کی طرح ہماری زرعی روایت سے جڑا ایک تہوار ہے۔ اس دوران جین سماج کا سموت سری تہوار بھی ہوگا۔ ہمارے یہ تمام تہوار ہماری  مالا مال ثقافت  اور  بھر پور زندگی  کے مترادف ہیں۔ میں آپ سب  سے  ان تہواروں اور خاص مواقع کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ ان تہواروں کے ساتھ ساتھ کل 29 اگست کو میجر دھیان چند جی کے یوم پیدائش پر قومی کھیلوں کا دن بھی منایا جائے گا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی عالمی پلیٹ فارمز پر ہمارے ترنگے کی شان کو بڑھاتے رہیں، یہی دھیان چند جی کو ہمارا خراج عقیدت ہوگا۔ آئیے  ، ہم سب مل کر ملک کے لئے کام کرتے رہیں، ملک کی عزت میں اضافہ کرتے رہیں، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ اگلے مہینے ایک بار آپ سے ’ من کی بات ‘ ہوگی ۔

بہت بہت شکریہ !

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )

U. No. 9607



(Release ID: 1855012) Visitor Counter : 280