وزیراعظم کا دفتر

فرید آباد، ہریانہ میں امرتا اسپتال کی افتتاحی تقریب سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 24 AUG 2022 2:38PM by PIB Delhi

امرتا اسپتال کی شکل میں ہم سبھی کو آشیرواد دے رہیں ماں امرتانند مئی جی کو میں پرنام کرتا ہوں۔ سوامی امرتا سوروپ پوری جی، ہریانہ کے گورنر جناب بنڈارو دتاتریہ جی، وزیر اعلیٰ جناب منوہر لال کھٹر جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی کرشن پال جی، ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ جناب دُشینت چوٹالہ جی، دیگر  شخصیات، خواتین و حضرات،

ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک نے ایک نئی توانائی کے ساتھ آزادی کے امرت کال میں قدم رکھا ہے۔ ہمارے اس امرت کال میں ملک کی مشترکہ کوششیں نمایاں ہو رہی ہیں، ملک کے مشترکہ خیالات بیدار ہو رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ امرت کال کی اس پہلی گھڑی میں ماں امرتانند مئی کے آشیرواد کا امرت بھی ملک کو مل رہا ہے۔ امرتا اسپتال کی شکل میں فرید آباد میں آروگیہ کا اتنا بڑا ادارہ مشہور ہو رہا ہے۔ یہ اسپتال بلڈنگ کے حساب سے، ٹیکنالوجی سے، جتنا ماڈرن ہے خدمت، آگہی اور روحانی شعور کے حساب سے اتنا ہی شاندار ہے۔ جدیدیت اور روحانیت اس کا یہ انضمام غریب اور متوسط طبقہ کے کنبوں کی خدمت کا، ان کے لیے آسان اور مؤثر علاج کا ذریعہ بنے گا۔ میں اس بہترین کام کے لیے، خدمت کے اس بڑے مہایگیہ کے لیے پوجیہ امّاں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

स्नेहत्तिन्डे, कारुण्यत्तिन्डे, सेवनत्तिन्डे, त्यागत्तिन्डे, पर्यायमाण अम्मा। माता अमृतानंन्दमयी देवी, भारत्तिन्डे महत्ताय, आध्यात्मिक पारंपर्यत्तिन्डे, नेरवकाशियाण। हमारे यहां कहा गया है - अयं निजः परो वेति गणना, लघुचेतसाम्। उदारचरितानां तु वसुधैव कुटुम्बकम्॥ एन्न महा उपनिषद आशयमाण, अम्मयुडे, जीविता संदेशम।

یعنی، اماں، محبت، رحم، خدمت اور قربانی کی علامت ہیں۔ وہ بھارت کی مذہبی روایت کی علم بردار ہیں۔ اماں کی زندگی کا پیغام ہمیں مہا اپنشدوں میں ملتا ہے۔ میں مٹھ سے جڑے سنتوں کو، ٹرسٹ سے جڑے تمام افراد کو، سبھی ڈاکٹروں اور دوسرے ملازمین حضرات کو بھی آج اس مقدس موقع پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

ہم بار بار سنتے آئے ہیں ’’نہ توہم کامیے راجیم، نہ چہ سورگ سوکھانی۔ کامیے دکھ تپتانام، پرانی نام آرتی ناشنم‘‘۔ یعنی، نہ ہمیں ریاست کی طلب ہے، نہ سورگ (بہشت) کے آرام کی خواہش ہے۔ ہماری تمنا ہے کہ ہمیں بس پریشان حال کا، مریضوں کا درد دور کرنے کا موقع ملتا رہے۔ جس معاشرہ کی سوچ ایسی ہو، جس کا اخلاق ایسا ہو، وہاں خدمت اور طب سماج کا شعور ہی بن جاتا ہے۔ اسی لیے، بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں علاج ایک خدمت ہے، آروگیہ ایک نعمت ہے۔ جہاں آروگیہ روحانیت، دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں آیور وگیان ایک وید ہے۔ ہم نے ہماری میڈیکل سائنس کو بھی آیوروید کا نام دیا ہے۔ ہم نے آیوروید کے سب سے عظیم دانشوروں کو، سب سے عظیم سائنس دانوں کو رشی اور مہرشی کا درجہ دیا، ان میں اپنے اٹوٹ عقیدہ کا اظہار کیا۔ مہرشی چرک، مہرشی سوشرت، مہرشی واگ بھٹ! ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں، جن کا علم اور مقام آج ہندوستانیوں کے ذہن میں امر ہو چکا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

بھارت نے اپنے اس اخلاق اور  سوچ کو صدیوں کی غلامی اور سیاہی میں بھی کہیں کبھی گم نہیں ہونے دیا، اسے سنبھال کر رکھا۔ آج ملک میں ہماری وہ روحانی صلاحیت ایک بار پھر مضبوط ہو رہی ہے۔ ہمارے اصولوں کی توانائی کو ایک بار پھر تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ پوجیہ اماں بھارت کے اس نشاۃ الثانیہ کے ایک اہم علم بردار کے طور پر دیش اور دنیا تجربہ کر رہا ہے۔  ان کے عزم و ارادہ، خدمت کے اتنے عظیم اداروں کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہیں۔ سماجی زندگی سے جڑے ایسے جتنے بھی شعبے ہیں، پوجیہ اماں کی الفت، ان کی مہربانی ہمیں ہر جگہ دکھائی پڑتی ہے۔ ان کا مٹھ آج ہزاروں بچوں کو اسکالرشپ دے رہا ہے، لاکھوں خواتین کو سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعے با اختیار بنا رہا ہے۔ آپ نے سووچھ بھارت ابھیان میں بھی ملک کے لیے بیش قیمتی تعاون دیا ہے۔ سووچھ بھارت فنڈ میں آپ کے ذریعے دیے گئے بیش قیمتی تعاون کی وجہ سے، گنگا کنارے آباد کچھ علاقوں میں کافی کام ہوا۔ اس سے نمامی گنگے ابھیان کو بھی کافی مدد ملی۔ پوجیہ اماں ان کے تئیں پوری دنیا کا عقیدہ ہے۔ لیکن میں ایک خوش قسمت آدمی ہوں۔ گزشتہ کتنی ہی دہائیوں سے پوجیہ اماں کاپیار، پوجیہ اماں کا آشیرواد مجھے لگاتار ملتا رہا ہے۔ میں نے ان کے  سادہ من اور مادر وطن کے تئیں وسیع وژن کو محسوس کیا ہے۔ اور اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جس ملک میں ایسا وسیع القلب اور  روحانی اقتدار ہو،  اس کی ترقی اور عروج یقینی ہے۔

ساتھیو،

ہمارے مذہبی اور سماجی اداروں کے ذریعے تعلیم و طب سے جڑی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا یہ نظام ایک طرح سے پرانے زمانے کا پی پی پی ماڈل ہی ہے۔ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ تو کہتے ہی ہیں لیکن میں اسے ’پرسپر پریاس‘ (مسلسل کوشش) کے طور پر بھی دیکھتا ہوں۔ ریاستیں اپنی سطح سے نظام کھڑا کرتی تھیں، بڑی بڑی یونیورسٹیوں کی تعمیر میں رول نبھاتی تھیں۔ لیکن ساتھ ہی مذہبی ادارے بھی اس کا ایک اہم مرکز ہوتے تھے۔ آپ ملک بھی یہ کوشش کر رہا ہے کہ حکومتیں پوری ایمانداری سے مشن موڈ میں ملک کی صحت اور تعلیمی شعبے  کی تشکیل نو کریں۔ اس کے لیے سماجی اداروں کو بھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ پارٹنرشپ کرکے مؤثر پی پی پی ماڈل تیار ہو رہا ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے اپیل کرتا ہوں، امرتا ہاسپیٹل  کا یہ عزم ملک کے دوسرے تمام اداروں کے لیے ایک رہنما اصول بنے گا،  آئیڈیل بن کر ابھرے گا۔ ہمارے کئی دوسرے مذہبی ادارے، اس طرح کے انسٹی ٹیوٹ بھی چلا رہے ہیں، کئی محاذ پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے پرائیویٹ سیکٹر، پی پی پی ماڈل کے ساتھ ساتھ اسپریچوئل پرائیویٹ پارٹنرشپ کو بھی آگے بڑھا سکتے ہیں، ایسے اداروں کو وسائل مہیا کرا کر ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

ساتھیو،

سماج کے ہر طبقہ، ہر ادارہ، ہر سیکٹر کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، یہ ہم نے کورونا کے اس دور میں بھی دیکھا ہے۔ اس میں بھی جو اسپریچوئل پرائیویٹ پارٹنرشپ رہی ہے، آج اس کا میں خاص طور سے ذکر کروں گا۔ آپ سبھی کو یاد ہوگا کہ جب بھارت نے اپنی ویکسین بنائی تھی، تو کچھ لوگوں نے کس طرح کا پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے سماج میں کئی طرح کی افواہیں پھیلنے لگیں۔ لیکن جب سماج کے مذہبی رہنما، روحانی پیشوا ایک ساتھ آئے، انہوں نے لوگوں کو افواہوں پر دھیان نہ دینے کو کہا، اور اس کا فوراً اثر بھی ہوا۔ بھارت کو اس طرح کی ویکسین ہیزیٹینسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جیسا دیگر ملکوں کو دیکھنے کو ملا۔ آج سب کی کوشش کا یہی جذبہ ہے، جس کی وجہ سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا ٹیکہ کاری پروگرام کامیابی سے چلا پایا ہے۔

ساتھیو،

اس بار لال قلعہ سے میں نے امرت کال کے ’پنچ پرانوں‘ (پانچ عہد) کا ایک وژن ملک کے سامنے رکھا ہے۔ ان ’پنچ پرانوں‘ میں سے ایک ہے- غلامی کی ذہنیت کو پوری طرح سے ترک کرنا۔ اس کی اس وقت ملک میں خوب چرچہ بھی ہو رہی ہے۔ اس ذہنیت کو جب ہم ترک کرتے ہیں، تو ہمارے کاموں کی سمت بھی بدل جاتی ہے۔ یہی تبدیلی آج ملک کے ہیلتھ کیئر سیکٹر میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اب ہم اپنے روایتی علم اور تجربات پر بھی بھروسہ کر رہے ہیں، ان کا فائدہ دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا آیوروید، ہمارا یوگ آج ایک قابل اعتبار طریقہ علاج بن چکا ہے۔ بھارت کی اس تجویز پر اگلے سال پوری دنیا ’انٹرنیشنل ملیٹ اِیئر‘ منانے جا رہی ہے۔ موٹا دھان۔  میں امید کرتا ہوں کہ آپ سبھی اس مہم کو بھی کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہیں، اپنی توانائی دیتے رہیں۔

ساتھیو،

صحت سے جڑی خدمات کا دائرہ صرف اسپتالوں، دواؤں، اور علاج تک ہی محدود نہیں ہوتا ہے۔ سروس سے جڑے ایسے کئی کام ہوتے ہیں، جو صحت مند سماج کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صاف  و شفاف پانی تک عام سے عام شہری کی رسائی، یہ بھی ایسا ہی اہم موضوع ہے۔ ہمارے ملک میں کتنی ہی بیماریاں صرف آلودہ پانی سے ہی پیدا ہوتی رہی ہیں۔ اسی لیے ملک نے 3 سال پہلے ’جل جیون مشن‘ جیسی ملک گیر مہم کی شروعات کی تھی۔ ان تین سالوں میں ملک کے 7 کروڑ نئے دیہی کنبوں کو پائپ سے پانی پہنچایا جا چکا ہے۔ خاص طور سے، اس مہم میں ہریانہ حکومت نے بھی مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔ میں اس کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہریانہ آج ملک کی ان سرفہرست ریاستوں میں ہے، جہاں گھر گھر پائپ سے پانی کی سہولت سے جڑ چکا ہے۔ اسی طرح، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ میں بھی ہریانہ کے لوگوں نے بہترین کام کیا ہے۔ فٹنس اور کھیل یہ موضوعات تو ہریانہ کی رگوں میں ہیں، ہریانہ کی مٹی میں ہے، یہاں کی اخلاقیات میں ہیں۔ اور تبھی تو یہاں کے نوجوان کھیل کے میدان میں ترنگے کی شان بڑھا رہے ہیں۔ اسی رفتار سے ہمیں ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی کم وقت میں بڑے نتائج حاصل کرنے ہیں۔ ہماری سماجی تنظیمیں اس میں بہت بڑا تعاون دے سکتی ہیں۔

ساتھیو،

صحیح ترقی ہوتی ہی وہ ہے جو سبھی تک پہنچے، جس سے سب کو فائدہ ہو۔ خطرناک بیماری کے علاج کو سب کے لیے آسان کرنے کا یہ جذبہ امرتا اسپتال کا بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خدمت کے جذبہ کا آپ کا یہ امرت عزم ہریانہ کے، دہلی این سی آر کے لاکھوں خاندانوں کو آیوشمان بنائے گا۔ ایک بار پھر پوجیہ اماں کے شری چرنوں میں پرنام کرتے ہوئے آپ سبھی کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے  بے شمار مبارکباد، بہت بہت شکریہ!

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 9482



(Release ID: 1854149) Visitor Counter : 177