وزارت اطلاعات ونشریات
آج کے #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول مذاکرہ کے اقتباسات
(سترہواں ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول-2022)
دن -06، تاریخ: 03 جون، 2022
Posted On:
03 JUN 2022 8:16PM by PIB Delhi
الہام اور فلموں کی تخلیق پر روشنی ڈالتے ہوئے، #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول مذاکرہ فلم سازوں، میڈیا اور مندوبین کے درمیان بات چیت کے ذریعے ایک بصیرت فراہم کرتاہے۔ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول مذاکرہکے 6ویں دن نے کچھ دلچسپ تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس تقریب کی ایک سرسری جھلک یہ ہے:
فلم کا نام: ٹوگیدر
فلم کے ڈائریکٹر آزاد عالم کے خطاب کردہ ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول مذاکرہ کی جھلکیاں۔
’’کووڈ کے وقت کے تجربات شیئر کیے گئے تھے اور ایسی چیزیں ہیں جن سے ہم میں سے ہر کوئی تعلق رکھ سکتا ہے۔ ایک عام چیز جو ہم نے اس وقت محسوس کی وہ یہ تھی کہ بہت سے تخلیق کاروں، فلم سازوں، فنکاروں، گلوکاروں اور مصنفین کو اس مقام پر دھکیل دیا گیا جہاں وہ کچھ تخلیق کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’ہماری گھریلو ملازمہ کی کہانی ہماری فلم کی تحریک بن گئی۔ کوویڈ کے دوران اسے کل وقتی ملازمت کی اشد ضرورت تھی۔ اسے ایک کوویڈ مریض کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا۔ ہم نے فلم کی شوٹنگ دہلی میں کی، خالصتاً اخراجات کو کم کرنے کے لیے۔ میری ٹیم دہلی میں تھی اور ہمیں لگا کہ ہم وہاں چیزوں کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں، اور خوش قسمتی سے میری کاسٹ بھی دہلی سے تھی۔‘‘
خلاصہ:
فلم ٹوگیدرکورونا وائرس کی دوسری لہر کے دورانانتہائی اجتماعی اضطراب کے وقت میں ترتیب دی گئی ہے۔ منمن، ایک تارک وطن گھریلو ملازمہ، اور اس کی آجر، ریکھا، جو ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں، وبائی لاک ڈاؤن کے دوران خود کو ایک ہی چھت کے نیچے پاتی ہیں۔ منمن کو ریکھا کے شوہر راجندر کی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے، جو کووڈ-19 سے شدید متاثر ہو چکے ہیں، اور خود ریکھا، جو ایک دائمی گٹھیا کی مریض ہیں۔ چونکہ اس کی سولہ سالہ بیٹی بھی متاثر ہو جاتی ہے، منمن کو فوری طور پر گھر کے لیے روانہ ہونا پڑتا ہے جبکہ راجندر کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ یہ فلم جذبات کی بدلتی ہوئی حرکیات اور طبقاتی اختلافات کا انکشاف کرتی ہے جبکہ بحرانوں کا اشتراک کیا جاتا ہے۔
فلم کا نام: انٹو دی سی
فلم کے ڈائریکٹر آشیش کمار نائک کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’میں اڈیشہ کے ایک چھوٹے سے ساحلی گاؤں کیندرپارا سے آیا ہوں جہاں طوفان ایک بن بلایا مہمان ہے۔ لوگ عام طور پر سمندر کے ساحل کو ایک گلیمر عنصر سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ سمندر کے قریب رہتے ہیں یا طوفان کا سامنا کرتے ہیں وہ زندگی کی مشکلات کو جانتے ہیں، خاص طور پر ماہی گیر۔‘‘
’’ان واقعات کو قریب سے دیکھنے کے بعد، میں نے ایک دستاویزی فلم بنانے اور اپنے سامعین پر اثر ڈالنے کے بارے میں سوچا۔ پھر میں نے اپنا تحقیقی کام شروع کیا۔ میں سمندر میں ہونے والی ہر چیز کا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے تمام فوٹیج کو بہت ہی حقیقت پسندانہ انداز کے ساتھ حاصل کیا۔ میں نے بیانیہ یا پس منظر سے آواز کا استعمال نہیں کیا۔ میں ان سے چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل کی بات کریں۔‘‘
خلاصہ:
اڈیشہ میں 1999 کے سپر سائیکلون کے برسوں بعد، ساحلی ریاست کے ماہی گیروں کی نظریں اب بھی مچھلیوں کی ایک بڑی کھیپ کو پکڑنے کے لیے سمندر پر جمی ہوئی ہیں۔ سخت محنت، سخت موسم، لامتناہی گھنٹوں، اور کام کے غیر منصفانہ حالات کے باوجود، وہ مشکلات کے باوجود مسکراتے ہیں۔ انہیں جو بھی حالات درپیش ہوں، وہ سمندر اور افق کی طرف آگے بڑھتے ہیں، جسے وہ اپنی چاندی کی پرت سمجھتے ہیں۔
فلم کا نام: مین ول بی مین
فلم کے ڈائریکٹرکمار چندر سیکھرم کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’مجھے کامیڈی پسند ہے! ’مین ول بی مین ‘ شوہر اور بیوی کے تعلقات کو منکشف کرتا ہے اور میرا مقصد لوگوں کو ہنسانا ہے جب وہ میری فلم دیکھیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم سب نے گھر پر ہی اتنا وقت گزارا۔ اس لیے عام طور پر اپنی بیوی کے ساتھ اتنا وقت گزارتے ہوئے، کوئی کام نہ ہونے کے باعث، میں نے فلم بنانے کا سوچا۔ میں نے صرف اپنے رائٹر کو بلایا اور کہا کہ چلو فلم بناتے ہیں۔‘‘
’’میری ٹیم ہے اور وہ مجھ سے 25 سال سے زیادہ عرصے سے وابستہ ہیں۔ فلم بنانے کا سوچنا بہت آسان ہے لیکن آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانا انتہائی مشکل ہے اور سب سے بڑی مشکل ایکسپریس ہائی وے پر شوٹنگ تھی۔ ہمیں 30 منٹ تک انتظار کرنا پڑتاتھا، جب ہم کوئی سین ری شوٹ کرتے تھے۔‘‘
خلاصہ:
اپنی شادی کی سالگرہ کے نام پر، راج لوناوالا سے ٹیکسی لیتا ہے۔ اسے معلوم پڑتا ہے کہ ڈرائیور شندے بھی اسی دن اپنی شادی کی سالگرہ منا رہا ہے۔ اپنی منزل کی طرف جلدی کرتے ہوئے، ان کی بیویاں کال کرتی ہیں۔ شندے اپنی بیوی سے سچ بولتا ہے جبکہ راج اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے۔ ان کے فیصلوں کے نتیجے میں واقعات کا ایک سلسلہ کھلتا ہے۔
#ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں: https://www.youtube.com/watch?v=DYSDGIGsdyE
فلم: فورجنگ فیوچر
فلم کے ڈائریکٹردیپ چودھری کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’مجھے ہمیشہ سے ایک دستاویزی فلم ساز بننے کا جنون تھا۔ پچھلے سال کی مِف دیکھنے نے مجھے اس فلم کی شوٹنگ کرنے کی ترغیب دی۔‘‘
’’اس فلم کا ایک دلچسپ عنصر یہ ہے کہ میری والدہ کا اس گاؤں سے تعلق ہے جو اس فلم کو بنانے کے لیے میرے لیے بنیادی محرک تھا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ لوہار کا خون بھی میری رگوں میں دوڑتا ہے۔ اس لئے میں کوشش کی کہ ان ورثے اور غیر یقینی صورتحال کے بیان کو ریکارڈکروں کہ آیا نئی نسل اس پیشے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے والد نہیں چاہتے کہ ان کے بچے اس پیشے کو آگے بڑھائیں کیونکہ ان کے بچے پڑھے لکھے ہیں۔‘‘
’’میں ہمیشہ ماضی یا مستقبل میں رہنا پسند کرتا ہوں لیکن حال میں کبھی نہیں۔ مجھے مشینیں پسند نہیں ہیں بلکہ زیادہ دستی کام جس کی میں تعریف کرتا ہوں۔ اپنی دستاویزی فلم میں جن لوگوں کا میں نے احاطہ کیا ہے وہ مشینیں استعمال نہیں کرنا چاہتے اور اپنے قدیم آلات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ورثے کو جاری رکھ سکیں‘‘۔
خلاصہ:
جعل سازی اتنا ہی پرانا ہنر ہے جتنا کہ انسانی تاریخ۔ فلم دیہی آسام کے ایک لوہار گاؤں میں نسل در نسل تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ باپ نہیں چاہتے کہ ان کے بیٹے جعل سازی کے راستے پر گامزن رہیں اور نہ ہی بیٹے۔ بہتر زندگی کی اس جدوجہد میں، ورثہ غیر یقینی صورتحال میں سامنا کرتا ہے۔
فلم: گھر کا پتا
فلم کے ڈائریکٹرمدھولیکا جلالی کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’میرا تعلق ایک کشمیری پنڈت خاندان سے ہے جو کشمیر میں اقلیت میں تھا۔ میں نے اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر میں چھٹیاں گزاریں اور 24 سال بعد اس جگہ کا دورہ کیا، اچانک اس جگہ سے ایک تعلق پیدا ہو گیا، جہاں لوگمیرے گھر کی چہار دیواری کے اندر ایک ایسی زبان بولتے ہیں جو میں بولتی ہوں۔ ‘‘
’’یہ کہانی اپنے آبائی مقام کی یاد کو دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کے بارے میں ہے۔ یہ جلاوطنی کی کہانیوں اور اس کے اثرات کے بارے میں ہے جب لوگوں کو ان کی جگہ سے زبردستی بے گھر کیا گیا ہے۔ یہ اس صدمے کے بارے میں بات کرتی ہے جو نسلوں تک جاری رہتا ہے‘‘۔
’’یہ ایک حادثاتی فلم ہے۔ میں اسے استعمال کرنا چاہتی تھی جو ہم یادداشت سے سمجھ سکتے ہیں کیونکہ میں نے سوچا کہ یہ احساسات اور تجربات کو پیش کرنے کا سب سے فطری طریقہ ہے۔‘‘
’’میری اسکریننگ کے بعد میرے پاس لوگوں سے بہت سارے سوالات آئے اور مجھے ایسی بات چیت کرنا پسند ہے جس کا میں مِف کا انتظار کر رہی تھی ۔ میں واقعی خوش ہوں کہ دستاویزی فلموں کے پاس مِف جیسا پلیٹ فارم ہے جہاں خیالات اورتنقید سے متعلقہ کہانیوں کو کھل کر دیکھا جا سکتا ہے،ردعمل کا اظہار کیا جاسکتا ہے اور سراہا جاسکتا ہے‘‘۔
خلاصہ
فلمساز کی عمر چھ سال تھی جب اس کے خاندان کو 1990 میں مسلح شورش کی وجہ سے وادی کشمیر چھوڑنا پڑا۔ یہ فلم دور دراز اس کے مقام پیدائش کے دوبارہ تشکیل کے ذریعہ نقصانات اور شناخت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ فلم ان کے خاندان کی اجتماعی یادوں کی کھوج کرتی ہے جب وہ دھند کی وادی سے نکلنے کے چوبیس سال بعد سری نگر کے مضافاتی علاقے ریناواڑی کی سڑکوں پر دوبارہ نظر آتے ہیں۔
فلم: ریٹرن آف دی ہولی گریل
فلم کے ڈائریکٹرجی ایس انّی کرشنن نائر کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’شوٹنگ کے لیے اجازت حاصل کرنا مشکل تھا، قبائلی آبادی پہلے تو متفق نہیں تھی کہ وہ اپنے مواد کو شوٹ کرنے میں ہماری مدد کریں لیکن جب انہیں اس فلم کو بنانے کے مقصد کے بارے میں بتایا گیا تو وہ راضی ہو گئے‘‘۔
’’قبائلیوں کے ساتھ بات چیت گاؤں کے چند کارکنوں نے کی تھی جنہیں سرکاری اسکیموں کے تحت رکھا گیا تھا، جو قبائلیوں کی زبان اور مادری زبان ملیالم جانتے تھے‘‘۔
’’سرکاری اسکیموں کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ پائیدار نہیں ہیں، جب حکومت بدلتی ہے تو وہ نئی اسکیموں کا مجموعہ لاتی ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ان عوامل کو برقرار رکھنے کے لیے کمیونٹی سے ہی کچھ طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے۔ منصوبہ بندی نچلی سطح پر ہونی چاہیے‘‘۔
’’مجھے لگتا ہے کہ مِف ملک میں دستاویزی فلموں کے لیے بہترین فلمی میلوں میں سے ایک ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دستاویزی فلمیں بنانے کا انداز تیزی سے بدل رہا ہے۔ اب کیمرہ خود بخود کہانیاں سنا سکتا ہے، اس کے برعکس کہ پہلے بنانے والے کہانیوں کو بیان کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔ روایتی انداز کو چھوڑتے ہوئے خام فلم بنانا زیادہ موافقت پذیر ہورہا ہے ، مجھے یہ بہت اچھی تبدیلی لگتی ہے، مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا‘‘۔
خلاصہ:
تقریباً پانچ دہائیاں پہلے، باجرا ہندوستان میں اہم فصل تھا۔ اگرچہ ہندوستان جوار کی پیداوار میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن سبز انقلاب اور غذائی پالیسیوں نے جو چاول اور گندم کے حق میں تھا، باجرا کو نظر انداز کریا، جس کی وجہ سے اس کی پیداوار اور کھپت میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ دستاویزی فلم ہندوستان کے قبائل کے درمیان غذائیت اور سلامتی کے ایک ذریعہ کے طور پر باجرے کی اہمیت کو دریافت کرتی ہے۔
فلم: برادر ٹرول
فلم کے ڈائریکٹرگڈمنڈ ہیلمس ڈل کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’اداکار کے بیمار ہونے کے بعد بھی ہم نے صرف دو دن میں دوسرے سین شوٹ کیے جو تکنیکی طور پر مشکل تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ اس بات کی عکاسی تھی کہ ہم فیرو جزیرے میں فلم سازوں کے طور پر کتنے مؤثر ہو گئے ہیں کیونکہ جب ملک میں فلم سازی کی بات آتی ہے تو ہم بہت نوخیز ہیں۔ ‘‘
’’فلم کی نمائش کے بعد جوش و خروش واقعی بہت زیادہ تھا، اہم لمحہ وہ تھا جب لوگوں نے فلم کے لیے خوشی کا اظہار کیا، مجھے اس شہر کا ماحول اس سے بالکل مختلف لگتا ہے جہاں سے ہم آئے ہیں۔ تجربہ کے لیے ضرور واپس آؤں گا‘‘۔
اداکار: نکولج فالک
’فلم بنانا مشکل تھا کیونکہ اس کی شوٹنگ ایک پہاڑی چوٹی پر کی گئی تھی اور 1800 کے منظر نامے کو دوبارہ بنانا اور سامان کو ساتھ لے جانا بھی مشکل تھا۔‘‘
خلاصہ:
ایک زمانے میں جزائر فیرو میں، دو اکیلے بھائی اپنے بڑے بھائی کے اچانک کھو جانے کے بعد اپنے نازک رشتے کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رتے ہیں۔
فلم: وکلپ
فلم کے اسکرپٹ رائٹر سدھیپ نگم کے ذریعہ #ممبئی بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے خطاب کی کچھ جھلکیاں ۔
’’فلم کا تصور صحیح اور غلط سے بالاتر ہو کر انسانی رویوں کو تلاش کرنا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ یہ فلم بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں مقابلہ کررہی ہے۔‘‘
خلاصہ:
جب ایک غیر متوقع واقعہ ایک چھوٹے شہر کی لڑکی، شیوانی کی زندگی کو صدمہ پہنچا تا ہے، تو اسے یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ آ یا وہ چھٹکا رہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنے موافق خاندان کے پاس جانا چاہتی ہے، یا اسے نظرانداز کر کے اس زندگی کو جینا چاہتی ہے جو اس نے بڑی محنت سے اپنے لئے بنائی ہے۔
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگس دیکھنے کے لئے: https://www.youtube.com/watch?v=bsrPkHEsMvw
فلم کا نام: ایوری لائف میٹرس
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس کی جھلکیاں، جس سے فلم کے ڈائریکٹر دادھی آر پانڈے نے خطاب کیا۔
- فلم کی تحریک مجھے اس احساس کے ساتھ ملی کہ ‘‘ایک شخص کروڑ پتی ہو سکتا ہے اور پھر بھی یہ نہیں جانتا کہ اس کا اپنا ملازم تکلیف میں ہے۔’’
- ‘‘شوٹنگ کے وقت، لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت ساری پریشانی تھیں۔ لوگ کھانے کی کمی، نوکریوں سے محروم، اپنے گاؤں منتقل ہونے کے لئے پریشان تھے۔ شوٹنگ کے لئے بھی بہت سی پابندیاں تھیں، کیونکہ ہم صرف صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک شوٹنگ کرسکتے تھے۔’’
- ‘‘ایم آئی ایف ایف جیسے فلمی میلے انتہائی اہم ہیں،کیونکہ وہ مختصر فلموں کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں، جو کہیں اور فراہم نہیں کیا جاتا ۔’’
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس، فلم کے پروڈیوسر گریش اروڑہ کے ذریعہ کئے گئے خطاب کی جھلکیاں
- ‘‘کہانی واقعی اچھی تھی، اور اس نے میرے دل کو چھو لیا، کیونکہ میں بھی اس سے متعلق تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے لئے کام کرنے والے لوگ بھی انہیں چیزوں سے گزرتے ہیں۔’’
- ‘‘ہم مختصر فلموں میں بہت زیادہ پروڈکشن لاگت لگاتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اسٹریمنگ پلیٹ فارم انہیں پروڈکشن میں لگائی جانے والی نت رقم سے بھی خریدیں۔’’
خلاصہ
ایک ہوشیار تاجر، جس کی پوری توجہ وبائی امراض کے دوران منافع کمانے پر مرکوز ہے، اپنے گھر میں ایک ناپسندیدہ ملاقاتی (ویزیٹر) کی موجودگی سے حیران ہے۔ وہ اس ملاقاتی کے ساتھ بات چیت ختم کر تا ہے اور دل کی تبدیلی سے متاثر ہو کر۔ اس ملاقات میں، وہ اپنے ماضی کی غلطیوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک موقع دیکھتا ہے۔
فلم کا نام: اپّا کے موسم
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس، فلم کی جھلکیاں پروڈیوسر رادھیکا پرسدھا نے مشترک کیں
- ‘‘ایک چیز جس سے میں متوجہ ہوئی ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم ترقی پذیر ممالک میں صدمہ کا علاج کیسے کرتے ہیں! ہمارے ملک میں بچپن کے صدمہ کی سب سے عام وجہ شرابی والدین کا اپنے بچے پراثر انداز ہونا ہے یا بچہ کا متاثر ہونا ہے۔ ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تحقیق نہیں کی جاتی ہے، کیونکہ ہمارے یہاں شراب نوشی کا رواج ہے۔’’
- ‘‘یہ فلم اس بات کی تحقیق تھی کہ یادیں کیا ہوتی ہیں، اور ایک شخص بالغ ہونے کے ساتھ ان یادوں سے کیسے نمٹ سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ٹھیک بھی ہوسکتا ہے۔’’
- یہ یادیں تمام بری یا اچھی نہیں ہیں، یہ پیچیدہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جن کا ہم تجربہ کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ یہ بہت آسان چیزوں کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں اور ہم یہ سوچھ کر اسے ختم کردیتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ ہم پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔’’
خلاصہ
25سالہ منو اپنے تقریبا بوڑھے باپ کی دیکھ بھال میں ایک عام دن گزارتی ہے۔ یادوں کی ایک سہ پہر – کچھ پریشان کن، کچھ پسند کرنے والے، کچھ پرتشدد اور کچھ نرم مزاج۔ منو اپنے شرابی باپ کے ساتھ بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے، جو اب اس کے ماضی کی ایک ہلکی مشابہت یا جھلک کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیا کھوئے ہوئے بچپن کا غم ہو سکتا ہے۔ یا کیا بالغوں کو قدرتی طور پر امن قائم کرنے کی سرزمین میں جانا چاہئے ؟ جب یادیں بہت پیچیدہ اور تہہ دار ہوں تو زندگی کیسے گزاری جائے؟ کیا آزادی اس وقت بھی ممکن ہے جب ماضی کی محبت کی تمنا زندہ رہتی ہے۔ منو دریافت کرتی ہے اور ایک خواب دیکھتی ہے۔
فلم کا نام: میٹھی بریانہ
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس، فلم کی جھلکیاں جو ڈائریکٹر جیا چندر ہاشمی نے مشترک کیں
- ‘‘اس فلم کی چنگاری ایک مضمون سے نکلی ہے، جو میں نے بہت پہلے آنندا وکاتن نامی تمل میگزین میں پڑھی تھی۔ یہ ایک مشہور تمل مصنف ایس رام کرشنن نے لکھا تھا، جس نے ایک اپارٹمنٹ میں اکیلے رہنے والے ایک بوڑھے کے بارے میں ایک بہت ہی طاقت ور واقعہ بیان کیا۔ جب اس شخص کو کوریئر موصول ہوتا ہے تو وہ کوریئر بوائے سے چند منٹ بیٹھ کر بات کرنے کو کہتا ہے، جس کے لئے وہ کچھ رقم دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ ہماری اسکرپٹ اسی کہانی کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔’’
- ‘‘ہم نے فلم میں ‘کھانے’ کو رابطہ عنوان کے طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مرکزی کردار، میری موتھو، ایک لڑکا ہے، جو اپنے بیگ میں کھانے کے پیکٹ کے ساتھ سفر کرتا ہے، اور وہ ایک ماں اور اس کے بچے کے ساتھ راستہ عبور کرتا ہے، جو صبح سے بھوکے تھے۔ اسی ستم ظریفی نے اس فلم کو ممکن بنایا۔’’
- ‘‘ہم فلم میں مصنوعی طور پر کوئی نظریہ یا سیاست نہیں ڈالنا چاہتے تھے ،لیکن فلم میں جہاں بھی ممکن ہو، ہر چیز میں سیاست کی ایک تہہ موجود ہے۔ میٹھی بریانی ،کھانے کی سیاست، صنفی سیاست اور طبقاتی سیاست سے نمٹتی ہے ،لیکن یہ سب فلم میں ضم ہے۔’’
- ‘‘شارٹ فلمیں بذات خود ایک فن ہے، فیچر فلموں کا گیٹ وے نہیں ہے۔ فلم سازی کے فن کی روح مختصر فلموں میں پنہاں ہے۔’’
خلاصہ
یہ فلم ایک دن کے دوران کھانے کی ڈلیوری کرنے والے شخص کے تجربات کی پیروی کرتی ہے۔ میری میتھو، جو ایک قانون کا طالب علم ہے، اپنے خاندان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کھانا ڈلیور کرتا ہے۔ موسیقی سن کر، وہ سارا دن موٹر سائیکل چلانے میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ بظاہر ایک عام دن پر ، میری میتھو کو تعصب اور تکبر کا سامنا کرنے کے بعد ذلیل کردیا جاتا ہے۔ کیا وہ بدلا لیتا ہے؟ وہ اپنا سکون کیسے پاتا ہے؟
فلم کانام: اے گڈ جاب (ایک اچھی نوکری )
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس، فلم کی جھلکیاں جو ڈائریکٹر انوج بھاردواج نے مشترک کیں
- ‘‘فلم ایک خاص، عجیب وغریب بزارے جاب کی وضاحت کرتی ہے، جس میں کافی زیادہ پیسہ ہے۔ جب میں نے پہلی بار انٹر نیٹ پر جاب کے بارے میں سیکھا تو میں نے سوچا کی دنیا کے سامنے اس نوکری کے وجود کو کیسے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔’’
- ‘‘خیال یہ تھا کہ فلم کو مسئلے کے تاریک پہلو کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ سامعین کو ہنسایا جائے۔ یہاں تک کہ اگر عنوان اپنے آپ میں تاریک ہے، میں ہلکا پہلو دکھانا چاہتا تھا۔ اسکرپٹ بنانے میں یہی ایک چیلنج تھا۔’’
- ‘‘معاشرہ ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے – ہمیں اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، لوگ کس بارے میں بات کرتے ہیں، ہم کیسے نظر آتے ہیں، اور ہمارا کام کیا ہے۔ لوگ ہر چیز کی تعریف کرنا چاہتے ہیں، یہ فلم کے بنیادی پہلوؤں میں سے ایک تھا۔’’
- ‘‘اچھا کام کیا ہے؟ جس سے آپ محبت کرتے ہیں، یا وہ جسے آپ معاشرے کے سامنے ظاہر کرنا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں خوش کیا جاسکے۔’[
خلاصہ
اچھی نوکری کی تعریف ہمیشہ بحث کا موضوع ہوتی ہے۔ کیا کوئی ایسا کام ہے جوآپ معاشرے، اپنے والدین اور اپنے خاندان کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں یا یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے آپ کرنا پسند کرتے ہیں؟ اس انوکھی محبت کی کہانی میں، ندھی ایک طے شدہ شادی سیٹ اپ میں پرشانت سے ملتی ہے۔ ندھی ، جس کے اپنے خیالات ہیں، کہ اس کے شوہر کو کیا کرنا چاہئے، سوچتی ہے کہ اسے اپنا آدمی مل گیا ہے، لیکن کیا وہ ہے؟
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگس دیکھنے کے لئے: https://www.youtube.com/watch?v=bOgENgxd1HQ
فلم کا نام: دھوبی گھاٹ
# ایم آئی ایف ایف ڈائیلوگس، فلم کی جھلکیاں جو ڈائریکٹر کے ایس سری دھر نے مشترک کیں
- ‘‘میری فلم مہالکشمی دھوبی گھاٹ پر مبنی ہے، جو اب تقریباً 130 سال پرانا ہے۔ پہلے، یہ بہت بڑا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجاوزات یا ناجائز قبضے ہونے کے سبب ، صرف ایک چھوٹا سا علاقہ بچا ہے جسے وہ اب بھی بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔’’
- ‘‘میرا مقصد دھوبی گھاٹ کے بارے میں جاننے کے لیے سامعین میں دلچسپی پیدا کرنا تھا۔ بہت سے لوگ ہر روز اس سے گزرتے ہیں، لیکن احساس نہیں ہوتا کہ اس کے اندر زندگی ہے۔ آپ اس جگہ کو اس وقت تک نہیں دیکھ سکتے جب تک کہ آپ اپنی گاڑی سے نیچے نہ اتریں اور سڑک سے گزرنے کے بجائے اندر جانے کا خیال نہ رکھیں۔’’
- ‘‘آئندہ 10 سالوں میں، یہ پیشہ کم از کم ،اس جگہ موجود بھی نہیں ہوگا۔ لہذا، میں اس کا ریکارڈ محفوظ کرنا چاہتا تھا۔’’
- ‘‘دستاویزی انداز کا رجحان پوری دنیا میں بدل رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی دستاویزی فلموں کے بیانیہ کے انداز کو ترجیح دیتا ہے اگر بیانات شروع سے آخر تک پھیلے ہوں۔ اب، ہم روایت کا استعمال صرف وہیں کرتے ہیں جہاں اس کی ضرورت ہو۔’’
- ‘‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ نے انٹرنیٹ کے ذریعے کتنے لوگوں کو اپنی فلم دکھائی ہے، جب آپ اپنی فلم کسی تھیٹر میں ناظرین کو دکھاتے ہیں، تو یہ ہمیشہ ایک خاص احساس ہوتا ہے۔ ’’
- ‘‘میرے خیال میں دستاویزی فلمیں اور مختصر افسانہ بنانے کا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ اس کو وسیع تر سامعین کے سامنے دکھانے کے بہت سے راستے ہیں۔ اس سے پہلے، ہمارے پاس صرف تھیٹر تھے اور وہ ان میں سے کوئی بھی مختصر فلم ریلیز نہیں کریں گے۔ لیکن اب ہمارے پاس اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور بہت سارے فیسٹول ہیں جو ان فلموں کو وہ پہچان دینے کے لیے تیار ہیں جس کی وہ مستحق ہیں۔’’
خلاصہ
دھوبی گھاٹ ایک 130 سال پرانا کھلا ہوا عوامی لانڈرومیٹ ہے جو ممبئی کے قلب میں زندہ ہے، جو کہ رئیل اسٹیٹ کا گرم بازار ہے۔ فلم دھوبیوں (دھوبی مردوں) کی زندگیوں، ان کی روزمرہ کی جدوجہد اور ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں کو پیش کرتی ہے۔ اس میں دھوبی گھاٹ کی سماجی اور ثقافتی روایت اور معاشی ترقی اور اسے ممبئی شہر میں کیسے جوڑا گیا ہے، اس کی کھوج کی گئی ہے۔دھوبی اگرچہ یہاں نسلوں سے آباد ہیں، لیکن انہیں مسلسل بے دخلی کا خطرہ ہے۔ دھوبی گھاٹ کی کمزور آبادی جدید چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خوابوں کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
فلم کا نام: وہیلنگ دی بال
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگ، فلم کے ڈائریکٹر مکیش شرما کے ذریعہ خطاب کی جھلکیاں
- میری فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہیل چیئر پر جکڑی ہوئی لڑکیاں کھیلوں کی ہیرو بن جاتی ہیں جو اب معاشرے کے رویے سے پریشان نہیں ہیں۔ یہ اس بارے میں ہے کہ کس طرح کھیل ایک بالکل مختلف انداز میں زندگی گزارنے اور نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کےلیے رویے کی آگ کو بھڑکا کر پوری زندگی کو بدل سکتے ہیں۔
- ایک دستاویزی فلم میں، اسکرپٹ پر مبنی فیچر فلموں کے برعکس، آپ اپنے ذہن میں صرف تھیمز اور ویژول کے ساتھ شوٹنگ کر رہے ہوتے ہیں اور یہی چیز آپ کی دستاویزی فلم کو آگے بڑھاتی ہے۔ جب آپ ایڈیٹر کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تو آپ دستاویزی فلم کے پورے ڈھانچے اور بیانیے کو دوبارہ ڈیزائن کر سکتے ہیں۔
- ہمیں 17 گھنٹے کی فوٹیج 40 منٹ میں لانی تھی جو کہ بہت مشکل کام تھا۔
- اس فلم کی شوٹنگ کے لیے، میں نے اہم کھلاڑیوں کے بارے میں پڑھا اور فیڈریشن پر بھروسہ کیا، جس نے ان کے اور ان کے والدین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور رشتے بنانے میں بے حد مدد کی۔
خلاصہ:
وہیل چیئر باسکٹ بال کی چار خواتین کھلاڑیوں کی حقیقی زندگی کی کہانیوں کے بیان کے ذریعے، اس فلم کا مقصد کھیلوں کے تئیں ان کے شوق و جنون کو تلاش کرنا ہے۔
پھولوں کا آدمی
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگ، فلم کے ڈائریکٹر بی ایئر کے ذریعہ خطاب کی جھلکیاں
- کھیتی باڑی ایک عام سرگرمی ہے جو زیادہ تر کسان کرتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ٹی وینگادپاتھی ریڈڈیار نے کاشتکاری کے لیے ایک الگ راستہ اختیار کیا ہے جسے میں نے اپنی فلم میں دکھایا ہے۔
- پہلے کھیتی باڑی کو بوڑھے لوگوں کا کام سمجھا جاتا تھا، لیکن اب نوجوان بھی اس کام کو کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس لیے، میں فلم کو دو جوانوں کی آنکھوں کے ذریعے پیش کرنا چاہتا تھا جو کھیتی کی اگلی سطح پر جانے کے لیے جناب وینگادپتھی کی جانب سے استعمال کی گئی تکنیکوں کی نئی اقسام کو آزما رہے تھے۔
خلاصہ
یہ فلم پڈوچیری سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ پدم شری ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر ٹی وینگادپتی ریڈیار کے بارے میں ہے، جنہوں نے باغبانی میں مہارت حاصل کی ہے۔ صرف چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود، انہوں نے کسانوں کو زراعت میں اختراعات کے لامحدود امکانات کا مظاہرہ کرنے کے لیے تاریخی کوششیں کیں۔
سوچھتا کی عدالت
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگ، فلم کے ڈائریکٹر آشیش کمار داس کے ذریعہ خطاب کی جھلکیاں
- میری کہانی دیہی علاقوں میں رائج کھلے میں رفع حاجت کے نظام سے نمٹنے کے دوران سوچھ بھارت مشن کو ظاہر کرتی ہے۔ ایسے علاقوں میں بہت سے لوگ ہیں جو کھلی زمین پر قدرت کی پکار(رفع حاجت) پر حاضری دیتے ہیں۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی اسکیم کا استعمال کریں اور اس کے بجائے بیت الخلاء کا استعمال کریں۔
- میں نے کوشش کی ہے کہ خوبصورت ڈیزائن، دلچسپ کردار، اور کچھ ڈرامہ بھی شامل کروں۔
- میں نے اینی میشن میں پینٹنگز کا معیار لانے کی کوشش کی تاکہ اس سے اینی میشن فلم دیکھنے والوں میں بھی اسی طرح کے جذبات پیدا ہوں۔
- ہجوم نے مختصر فلموں کو پسند کرنا شروع کر دیا ہے۔ جیسے جیسے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے اور اسے اور زیادہ رسپانس ملتا ہے، OTT پلیٹ فارم ان کو دکھانے کے لیے ایک جگہ بھی فراہم کریں گے کیونکہ ہم ان کی ضروریات پوری کر رہے۔
خلاصہ:
یہ فلم ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں کھلے میں عام رفع حاجت کے نظام پر ہے جس کی وجہ سے ہر سال سانپ کے کاٹنے اور ایک اور بیماری سے کئی اموات ہوتی ہیں۔ حکومت کی مدد سے ہم کھلے میں رفع حاجت سے پاک ملک بنا سکتے ہیں۔
فلم کا نام: سکول بیل
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگ، فلم کے ڈائریکٹر بی سریش کمار کے ذریعہ خطاب کی جھلکیاں
- میں ایک ساؤنڈ ریکارڈسٹ ہوں۔ لہذا، میں نے سوچا کہ مجھے آواز کے ذریعے فلم کو پہنچانا چاہیے۔ اسی لیے میں نے فلم میں کوئی ڈائیلاگ نہ رکھنے کا انتخاب کیا۔ اس کے بجائے، میں نے صوتی ٹریک کے طور پر اسکول کا دعائیہ گانا (پریئر سانگ) چنا ۔
- میں پیغام کو مضبوط اور مختصر رکھنا چاہتا تھا، اور میں نے محسوس کیا کہ یہ کردار اور اس کے اعمال کے تاثرات کا استعمال کرتے ہوئے بغیر مکالمے کے زیادہ طاقتور ہے۔
- میں نے اسکول میں بہت سارے ویژول شوٹ کیے، یہ سوچ کر کہ وہ فلم میں زبردست اضافہ کریں گے، لیکن میرے ایڈیٹر نے یہ کہتے ہوئے کچھ بہت اچھے شاٹس کو ردی میں ڈال دیا کہ وہ واقعی فلم کی مدد نہیں کریں گے۔ لہذا، فلم کی شکل سے لے کر اپروچ تک ہمیشہ جواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف اچھے ویژول سب کچھ نہیں ہیں۔
- خود کے فنڈ سے چلنے والی فلموں میں، زیادہ آزادی ہوتی ہے کیونکہ آپ کو ہر ایک اخراجات کا جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن دونوں میں، سیلف فنڈڈ اور گورنمنٹ فنڈڈ فلموں میں تخلیقی صلاحیتوں کی سطحیں ایک جیسی ہیں۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے پر ایک مختصر فلم۔
# ایم آئی ایف ایف ڈائلوگ دیکھنے کے لیے: https://www.youtube.com/watch?v=nl-G_MFPSl4
********
PIB MIFF Team | AG/ARC/MS/BSN/SSP/AA/DR/MIFF-58
We believe good films go places through the good words of a film-lover like you. Share your love for films on social media, using the hashtags #AnythingForFilms / #FilmsKeLiyeKuchBhi and #MIFF2022. Yes, let’s spread the love for films!
|
Which #MIFF2022 films made your heart skip a beat or more? Let the world know of your favourite MIFF films using the hashtag #MyMIFFLove
|
If you are touched by the story, do get in touch! Would you like to know more about the film or the filmmaker? In particular, are you a journalist or blogger who wants to speak with those associated with the film? PIB can help you connect with them, reach our officer Mahesh Chopade at +91-9953630802. You can also write to us at miff.pib[at]gmail[dot]com.
|
For the first post-pandemic edition of the festival, film lovers can participate in the festival online as well. Register for free as an online delegate (i.e., for the hybrid mode) at https://miff.in/delegate2022/hybrid.php?cat=aHlicmlk The competition films can be watched here, as and when the films become available here.
|
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح- ش ت، اک- ق ر، س ا)
U-6858
(Release ID: 1836727)
Visitor Counter : 393