بھارتی چناؤ کمیشن
azadi ka amrit mahotsav

حد بندی کمیشن  نےآج حد بندی  کے آرڈر کو حتمی شکل دے دی ہے


پہلی بار نو سیٹیں ایس سیز کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں

تمام پانچ پارلیمانی حلقوں  میں پہلی بار اسمبلی حلقوں کی تعداد مساوی ہوگی

نوّے اسمبلی حلقوں میں سے ، 43 جموں خطے جبکہ 47 کشمیر خطے کا حصہ ہوں گے

حدبندی کے مقصد کے لیے جموں اور کشمیر کو ایک واحد اکائی کے طور پر سمجھا جاتا ہے

پٹوار سرکل سب سے کم انتظامی اکائی ہے جسے توڑا نہیں گیا

تمام اسمبلی حلقے، متعلقہ ضلع کی حدود میں ہی رہیں گے

کمیشن ، کشمیری مہاجرین اور پاکستان کے زیر قبضہ جموں وکشمیر سے بے گھر ہوئے افرادکے لیے اضافی نشستوں کی سفارش کرتا ہے

Posted On: 05 MAY 2022 3:23PM by PIB Delhi

حد بندی کمیشن کی سربراہی جسٹس رجنا پرکاش دیسائی (ہندوستان کی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج) اور جناب سشیل چندر (اعلیٰ انتخابی کمشنر) اور جناب کے کے شرما (مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں وکشمیر کے ریاستی انتخابی کمشنر) نے حد بندی کمیشن کے سابق عہدیداروں کے طور پر، آج جموں وکشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لیے حد بندی آرڈر کو حتمی شکل دینے کے لیے میٹنگ کی۔ اس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی آج جاری کردیا گیا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0011B9P.jpg

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002AI55.jpg

حتمی حد بندی آرڈر کے مطابق مرکزی حکومت کے ذریعے مطلع کرنے کی تاریخ سے درج ذیل نافذ ہوں گے:-

خطے میں 90 اسمبلی حلقوں میں سے ، 43 جموں خطے کا حصہ ہوں گے اور 47 کشمیر خطے کا حصہ ہوں گے۔ یہ کارروائی حد بندی کے قانون 2002 کی دفعہ 9(1)(اے) اور دفعہ 60 (2) (بی) کی دفعات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

ایسوسی ایٹ اراکین ، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں، شہریوں، سول سوسائٹی گروپس کے ساتھ مشاورات کے بعد ، درج فہرست قبائل کے لیے 9 اسمبلی حلقے مخصوص کے گئے  ہیں، جن میں سے  6 جموں خطے میں اور 3 اسمبلی حلقے وادی کشمیر میں ہیں۔

اس خطے میں پانچ پارلیمانی حلقے ہیں۔ حد بندی کمیشن نے جموں وکشمیر خطے کو مرکز کے زیر ا نتظام ایک واحد علاقے کے طور پر دیکھا ہے۔ لہٰذا، وادی میں اننت ناگ کے علاقے اور جموں خطے راجوری اور پونچھ اضلاع کو ملا کر پارلیمانی حلقے میں سے ایک بنایا گیا ہے۔اس تنظیم نو سے ہر پارلیمانی حلقے میں 18 اسمبلی حلقوں کی مساوی تعداد ہوگی۔

بلدیاتی نمائندوں کے مطالبے کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اسمبلی حلقوں کے نام بھی تجویز کئے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ حد بندی کمیشن حکومت نے تشکیل دیا تھا۔ جموں وکشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے مقصد کے لیے حد بندی قانون 2002 (2002 کا 33)، کے دفعہ 3 کے ذریعے اختیارات کے استعمال کے لیے اس کی تشکیل کی گئی تھی۔کمیشن ، اپنے کام سے وابستہ رہا ہے۔ لوک سبھا کے پانچ اراکین مرکز کے زیر انتظام علاقے  جموں وکشمیر سے منتخب ہوئے ہیں۔ اِن ایسوسی ایٹ اراکین کو لوک سبھا کے معزز اسپیکر نے نامزد کیا تھا۔

حد بندی کمیشن کو ، 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر اور جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 (2019 کا 34) اور حدبندی قانون 2002 (2002 کا 33) کی دفعات کے مطابق مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں وکشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی  حلقوں کے حد بندی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

آئین کی متعلقہ گنجائشوں (دفعہ 330 اور 332) جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 کی دفعہ 14 کی ذیلی دفعہ (6) اور (7) کے حوالے سے، درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد ، 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر جموں وکشمیر کے مرکزی علاقے کی قانون ساز اسمبلی نے درج فہرست ذاتوں (ایس سیز) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹیز) سے متعلق  کام کیا گیا۔ اسی کے مطابق، حد بندی کمیشن نے پہلی مرتبہ درج فہرست قبائل کے لیے 9 اسمبلی حلقے اور درج فہرست ذاتوں کے لیے7  اسمبلی حلقے  مخصوص کئے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابقہ جموں وکشمیر کی ریاست کے آئین میں درج فہرست قبائل کے لیے نشستوں کے ریزرویشن کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔

جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 اور حد بندی قانون 2002 نے وسیع پیرامیٹرز کا  تعین کیا ہے جن کے اندر  اندر ہی حد بندی کی مشق کی جانی تھی۔ البتہ،کمیشن نے جموں وکشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کے لیے رہنما خطوط اور طریقہ کار وضع کیا تاکہ ہموار کام کاج اور موثر نتائج حاصل کئے جاسکیں، اوراسی طرح  حد بندی کے عمل کے دوران  اسی پر عمل کیا گیا۔جغرافیائی خصوصیات، مواصلات کے وسائل نیز عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ، حد بندی  قانون 2002 کی دفعہ  9(1) میں درج مختلف عوامل کے طور پر علاقوں کی مطابقت اور 6 سے 9 جولائی 2021 تک کمیشن کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے دورے کے دوران جمع کی گئی معلومات واعداد وشمار کے مطابق کمیشن نے تمام 20 اضلاع کو تین وسیع زمروں میں درجہ بند کیا یعنی اے- بنیادی طور پر پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں والے اضلاع، بی- پہاڑی اور ہموار علاقوں والے اضلاع اور سی- بنیادی طور پر ہموار علاقے والے اضلاع۔ فی اسمبلی حلقہ  اوسط آبادی کا +/- 10 فیصد کا اوسط دیتے ہیں، جبکہ حلقوں کو مختص کرنے کی تجویز دیتے ہوئے اضلاع کے کمیشن نے، کچھ اضلاع کے لیے ، جغرافیائی علاقوں کی نمائندگی کو متوازن کرنے کے لیے ایک اضافی حلقہ بھی بنانے کی تجویز پیش کی ہے جہاں بین الاقوامی سرحد پر حد سے زیادہ دور دراز ہونے یا ناگوار حالات کے باعث عوامی سہولیات کی کمی ہے۔

کمیشن نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 15 جون 2020 کو معرض  وجود میں آنے والی انتظامی اکائیوں یعنی اضلاع ، تحصیلوں اور پٹوار حلقوں وغیرہ  کےحوالے سے  حلقہ بندیوں کی حد بندی کی جائے گی اور کمیشن نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے انتظامیہ کو مطلع کیا تھا کہ انتظامی اکائیوں کو پریشان نہ کیا جائے، جیسا کہ 15 جون 2020 کو مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں وکشمیر میں  حد بندی کی مشق کے مکمل ہونے تک موجود ہے۔ کمیشن کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ہر ایک اسمبلی حلقہ مکمل طور پر ایک ہی ضلع میں ہوگا اور کم سے کم انتظامی  اکائیاں یعنی پٹوار سرکل (اور جموں وکشمیر میونسپل کارپوریشن میں وارڈز) کو توڑا نہیں گیا تھا اور انھیں ا یک ہی اسمبلی حلقے میں رکھا گیا تھا۔

کمیشن نے قانون ساز اسمبلی میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص نشستوں کی نشان دہی کرنے اور جہاں تک قابل عمل ہو، ان علاقوں میں جہاں ان کی آبادی کی تناسب کل آبادی کے لیے ہے، ان کمیونٹیز کے لیے مخصوص نشستوں کا پتہ لگانے میں انتہائی احتیاط برتی گئی ہے اس میں ہر اسمبلی حلقے میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی آبادی کے فیصد کا تعین کرکے اور مخصوص شدہ حلقوں کی مطلوبہ تعداد کو نزولی ترتیب میں ترتیب دے کر یہ عمل کیا گیا۔

بالترتیب 4 اور 5 اپریل 2022 کو راجدھانی جموں اور سری نگر میں عوامی نشستوں کا انعقاد کیا گیا، جس میں عوام، عوامی نمائندوں، سیاسی رہنماؤں اور دیگر شراکتداروں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ پبلک نوٹس کے جواب میں اعتراضات اور تجاویز داخل کرنے والوں کو خصوصی طور پر سنا گیا۔ عوام کی تمام تجاویز، جو عوامی اجلاسوں کے دوران تحریری یا زبانی طور پر دی گئیں اور مختلف شراکتداروں کی نمائندگی، کمیشن کے سیکرٹریٹ کے ذریعہ تیار کی گئیں۔

کمیشن نے تمام تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے داخلی اجلاسوں کا آخری دور منعقد کیا اور تجاویز کے مسودے میں کی جانے والی تبدیلیوں پر فیصلہ کیا۔ مجوزہ حلقوں کے ناموں کی تبدیلی سے متعلق زیادہ تر نمائندگیوں کو کمیشن نے اس میں شامل عوامی جذبات کے پیش نظر قبول کیا۔ ان ناموں کی تبدیلیوں میں تنگمرگ-اےسی کا نام گلمرگ-اے سی، زونیمار-اے سی کو زیدیبل-اےسی، سونوار- اےسی کو لال چوک- اےسی ، پیڈر- اےسی کو پیڈر-ناگسینی- اےسی ، کٹھوعہ نارتھ- اےسی کو جسروٹا- اےسی ، ساؤتھ اے سی کو کٹھوعہ اے سی، کھوور اے سی کو چھمب اے سی، مہور اے سی کو گلاب گڑھ اے سی، درہل اے سی کو بڈھل اے سی وغیرہ کے نام سے شامل کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ، ایک سےزیادہ تحصیلوں کی دوسرے اے سی کو منتقلی سے متعلق بہت سی نمائندگییں تھیں اور ان میں سے کچھ کو جنہیں کمیشن نے منطقی پایا،قبول کر لیا گیا۔ تحصیل شری گفوارہ کو پہلگام- اےسی سے بجبہاڑہ- اےسی میں منتقل کرنا، تحصیل کوارہامہ اور کنزر تحصیلوں کو گلمرگ- اےسی میں شفٹ کرنا اور واگورہ-کریری- اےسی کو کیری اور کھوئی تحصیلوں اور وگورہ اور ٹنگمرگ تحصیلوں کا کچھ حصہ پر مشتمل بدہال اے سی سے درہال اےسی سے تھانامنڈی-اےسی میں تبدیل کرناتھا۔ مزید برآں، مجوزہ اے سیز کے علاقائی دائرہ اختیار میں معمولی تبدیلیوں کے لیے کچھ درخواستیں تھیں، جن کا کمیشن میں مکمل تجزیہ کیا گیا اور ان میں سے کچھ کو ، جو منطقی تھیں، حتمی آرڈر میں شامل کیا گیا ہے۔

مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی، ایک چیلنجنگ کام تھا۔ کمیشن نے مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا دو بار دورہ کیا۔ پہلے دورے کے دوران، کمیشن نے تقریباً 242 وفود سے چار مقامات پر بات چیت کی، یعنی سری نگر، پہلگام، کشتواڑ اور جموں۔ تقریباً 1600 لوگوں نے اس میں شرکت کی اور جموں اور سری نگر میں بالترتیب 4 اور 5 اپریل 2022 کو کمیشن کے مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں اور کشمیر کے دوسرے دورے کے دوران منعقدہ عوامی اجلاسوں میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

مرکز کے زیر انتظام علاقے کے مخصوص جغرافیائی ثقافتی منظر نامے نے جغرافیائی اور ثقافتی طور پر مخصوص جموں اور کشمیر کے علاقوں کی سیاسی خواہشات کا مقابلہ کرنے جیسے عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفرد مسائل کو پیش کیا۔ ایک طرف وادی کے میدانی علاقوں میں اضلاع کے درمیان آبادی کی کثافت میں وسیع فرق 3436/مربع کلومیٹر سے لے کر دوسری طرف زیادہ تر پہاڑی اور دشوار گزار اضلاع میں 29/ مربع کلومیٹر کا اوسط؛ کچھ اضلاع کے اندر ذیلی علاقوں کا وجود، برف کی وجہ سے سردیوں کے مہینوں تک پہاڑی گزرگاہوں کو روکنے کی وجہ سے، غیر معمولی جغرافیائی رکاوٹوں کی باعث انتہائی مشکل انٹرا ڈسٹرکٹ کنیکٹیویٹی کے ساتھ کچھ باقی رہ گئے ہیں ؛ زندگی کی غیر یقینی صورتحال اور بین الاقوامی سرحد کے ساتھ دیہاتوں میں رابطے اور عوامی سہولتوں کی ناکافی دستیابی سرحدی اضلاع میں بلا اشتعال فائرنگ/گولہ باری کا خطرہ وغیرہ شامل ہیں۔

غیر مساوی حالات میں رہنے والی آبادیوں کی طرف سے جمہوری حقوق کے منصفانہ استعمال کے ان مسابقتی دعوؤں کو، دیگر پہلوؤں کے علاوہ، سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور افراد کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کے تمام متنوع علاقوں کی جانب سے اچھی طرح سے بیان کیا گیا تھا۔ کمیشن کے سامنے گہری بصیرت فراہم کی گئی اور دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کے لوگوں کی طرف سے پرورش کردہ جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیااورممبران کے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے مناسب حلقے تشکیل دے کر ایک منصفانہ اور مضبوط فریم ورک فراہم کیا۔ ووٹر باہمی طور پر متنوع حالات میں، مساوی طور پر سہل طریقے سے رہتے ہیں۔

اس طرح کی تمام تبدیلیوں کو شامل کرنے کے بعد، حتمی آڈرکو حکومت ہند کے ساتھ ساتھ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سرکاری گزٹ میں شائع کیا گیا ہے۔ حتمی آرڈر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی شائع ہوتا ہے اور کمیشن اور سی ای او جموں و کشمیر کی ویب سائٹ پر بھی ہوسٹ کیا جاتا ہے۔

کمیشن نے ، عوامی سماعت کے دوران ، کشمیری تارکین وطن اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے بے گھر ہونے وا لے افراد کی نمائندگی بھی حاصل کی۔ کشمیری تارکین وطن کے وفود نے کمیشن کے سامنے یہ نمائندگی کی کہ گذشتہ 3 دہائیوں سے انھیں ستایا جارہا ہے اور وہ اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کے طور پر ضلع وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کئے گئے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ ان کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے، جموں وکشمیر اسمبلی اور پارلیمنٹ نے ان کے لیے نشستیں مختص کی جائیں۔ پاکستان کے زیر قبضہ جموں وکشمیر کے بے گھر افراد نے بھی کمیشن سے یہ درخواست کی کہ جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے ان کے لیے کچھ سیٹیں مخصوص کی جائیں۔ اسی مناسبت سے حد بندی کمیشن نے بھی مرکزی حکومت کو درج ذیل سفارشات پیش کیں۔

  1. قانون ساز اسمبلی میں کشمیری تارکین وطن کی کمیونٹی سے کم از کم دو اراکین (ان میں سے ایک خاتون ہونی چاہیے) کی فراہمی اور ایسے اراکین کو مرکز کے زیر انتطام علاقے پڈوچیری کی قانون ساز اسمبلی کے نامزد اراکین کی طاقت کے برابر اختیار دیا جا سکتا ہے۔
  2.  مرکزی حکومت، پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے بے گھر افراد کو، پاکستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے بے گھر افراد کے نمائندوں کی نامزدگی کے ذریعے، جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں کچھ نمائندگی دینے پر غور کر سکتی ہے۔

جموں اور کشمیر کا مرکزی علاقہ، جموں اور کشمیر کی تنظیم نوکے قانون 2019 (2019 کا34) کے ذریعے سابقہ ​​ریاست جموں اور کشمیر سے الگ کیا گیا تھا، جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی، ریاست جموں و کشمیر کے آئین اور جموں و کشمیر کی عوامی نمائندگی کے قانون 1957 کے تحت کی گئی تھی۔ سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی کی نشستوں کی آخری بار حد بندی 1981 کی مردم شماری کی بنیاد پر 1995میں کی گئی تھی۔

*****

U.No.5054

(ش ح - اع - ر ا)   


(Release ID: 1823022) Visitor Counter : 541