وزیراعظم کا دفتر

اڈالج میں شری انّاپورنا دھام ٹرسٹ کے ہاسٹل اور تعلیمی کمپلیکس کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی متن

Posted On: 12 APR 2022 5:03PM by PIB Delhi

 

 

نئی دہلی:12؍اپریل2022:

نمسکار

جے ماں انّا پورنا

جے جے ماں انّاپورنا

گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل اورپارلیمنٹ میں میرے ساتھی اور گجرات بی جے پی کے صدر جناب سی آر پاٹل، انّا پورنا دھام ٹرسٹ کے صدر ، پارلیمنٹ میں میرے ساتھ نرہری امین، دیگر عہدیداران، عوامی نمائندگان، سماج کے برزگ ساتھی، بہنوں اور بھائیوں

ماں انّا پورنا کے اس  مقدس دھام میں اعتقاد، روحانیت اور سماجی ذمہ داریوں سے جڑے بڑے اداروں سے مجھے جڑنے کا جو مسلسل موقع ملتا رہتا ہے، مندر کا بھومی پوجن ہوا ہو، مندر کی پران پرتشٹھا ہوئی ہو، ہاسٹل کا بھومی پوجن ہوا اور آج افتتاح ہو رہا ہے۔ ماں کے آشیرواد سے ہر بار مجھے کسی نہ کسی طرح سے آپ کے درمیان رہنے کا موقع ملا ہے۔ آج شری انّا پورنا دھام ٹرسٹ، اڈالج کمار ہاسٹل اور تعلیمی کمپلیکس کے افتتاح کے ساتھ ساتھ جن سہائک ٹرسٹ ہیرا منی آروگیہ دھام کا بھومی پوجن بھی ہوا ہے۔تعلیم ، تغذیہ اور صحت کے شعبے میں سماج کے لئے گجرات کا رویہ رہا ہے۔ جس کی جتنی طاقت، ہر سماج کچھ نہ کچھ سماجی ذمہ داری نبھاتا ہے اور اس میں پاٹیدار سماج بھی کبھی بھی پیچھے نہیں رہتا ہے۔ آپ سب خدمت کے اس یگیہ میں ماں انّا پورنا کے آشیرواد سے اور زیادہ اہل بنیں اور زیادہ خود کو وقف کرنے والے بن سکیں اور زیادہ خدمت کی بلندیوں کو حاصل کرتے چلیں۔ ماں انّاپورنا آپ کو آشیرواد دیں۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد بھی ہے۔ بہت بہت نیک خواہشات بھی ہیں۔

ساتھیوں، خوشحالی اور دھن کی دیوی ماں انّا پورنا کے تئیں ہماری زبردست عقیدت رہی ہے۔ پاٹی دار سماج کو دھرتی ماتا سے سیدھا جڑا رہا ہے۔ ماں کے تعلق سے اس گہری عقیدت کے سبب ہی کچھ مہینے پہلے ماں انّا پورنا کی مورتی کو ہم کناڈا سے واپس کاشی لے آئے ہیں۔ ماتا کی اس مورتی کو دہائیوں پہلے کاشی سے چوری کرکے غیر ممالک پہنچا دیا گیا تھا۔ اپنی ثقافت کی ایسی درجنوں علامتوں کو گزشتہ سات آٹھ سال میں غیر ممالک سے واپس لایا جاچکا ہے۔

ساتھیوں،

ہماری ثقافت میں ہماری روایت میں غذا، صحت اور تعلیم پر ہمیشہ سے بہت زور دیا گیا ہے۔ آج آپ نے انہیں عناصر کی ماں انّا پورنا دھام میں توسیع کی ہیں۔ یہ جو نئی سہولتیں مہیا کی ہیں، یہاں جو آروگیہ دھام بننے  جارہا ہے، اس سے گجرات کے عام لوگوں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ خاص طور سے ایک ساتھ متعدد لوگوں کی  ڈائیلیسس اور 24 گھنٹے بلڈ سپلائی کی سہولت سے متعدد مریضوں کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔مرکزی سرکار نے ضلع اسپتالوں میں مفت ڈائیلیسس کی جو سہولت شروع کی ہے، اس مہم کو آپ کی یہ کوشش مزید طاقت دینے والی ہے۔ تمام انسانی کوششوں کے لئے، خدمت کے جذبے کے لئے خود کو وقف کرنے کا یہ جو رویہ ہے  اس کے لئے آپ سب ستائش کے اہل ہیں۔

گجرات کے لوگوں کے پاس جب آتا ہوں، تو مجھے لگتا ہے کہ تھوڑی بات گجراتی میں بھی کرلی جائے۔ کئی سالوں سے آپ کے بیچ رہا ہوں۔ ایک طرح سے کہوں تو تعلیم و تربیت سب آپ نے ہی کی ہے اور آپ نے جو سنسکار دیئے ہیں، جو تعلیم دی ہے، اسے لے کر آج ملک کی جو ذمہ داری سونپی ہے، اسے پورا کرنے میں ہی لگا رہتا ہوں۔اس کے نتیجے میں نرہری کے بہت زور دینے کے باوجود بھی میں روبرو نہیں آ سکا۔ اگر میں روبرو آیا ہوتا تو مجھے کافی سارے پرانے اشخاص سے ملنے کا موقع حاصل ہوتا ۔ سب کے ساتھ بڑا لطف آیا ہوتا ، لیکن اب ٹیکنالوجی کا ذریہ لے کر آپ سب سے ملنے کا موقع میں چھوڑ نہیں سکتا، اس لئے یہاں سے آپ سب کے درشن کررہا ہوں۔ آپ سب کو وندن کررہا رہوں۔

ہمارے نرہری بھائی  میں کئی خصوصیتیں ہیں، میرے پرانے دوست ہیں۔ نرہری بھائی کی خصوصیت یہ ہے کہ  ان کی جو عوامی زندگی ہے وہ تحریک کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔وہ نونرمان تحریک  سےپیدا ہیں، لیکن تحریک سے پیدا ہوئے انسان کو تعمیری رویہ بھی مل جائے تو وہ درحقیقت  بڑے اطمینان اور خوشی کی بات ہے  اور نرہری بھائی تحریک میں سے نکلے ہوئے انسان ہیں۔ سیاست میں رہتے ہوئے بھی  وہ اس طرح کی تعمیری کام کرتے ہیں اور میں تو مانتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ گھنشیام بھائی بھی کوآپریٹیو سے پوری طرح وقف ہیں۔ اس طرح سے کہا جائے تو خاندان کے پورے سنسکار ایسے ہیں کہ ایسا کچھ نہ کچھ اچھاکرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے ان کو اور ان کے اہل خانہ کو بھی، اب نرہری بھائی کی ایک نئی نسل تیار ہوگئی ہے، اس لئے ان کو بھی میری نیک خواہشات ہیں۔

ہمارے وزیر اعلیٰ جی سخت اور  نرم ہیں۔ گجرات کو ایک ایسی قیادت ملی ہے، مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں گجرات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لئے ان کی جدید خیالات اور بنیادی ڈھانچہ کاموں کی ذمہ داری کی یکسانیت حقیقت میں ہماری ریاست کے لئے ان کی طرف سے بہت بڑی قیادت مل رہی ہے اور آج انہوں نے جتنی بھی باتیں کی ہیں اور یہاں میرا اندازہ تمام لوگوں کو اور خاص طور سے سوامی نارائن فرقے کے بھائیوں سے میں گزارش کرتا ہوں  کہ جہاں بھی ہمارے ہری بھکت ہیں، وہاں قدرتی کھیتی کروانے  کے لئے ہم آگے بڑھیں۔ اس دھرتی ماتا کو بچانے کے لئے جتنا ہوسکے ہم پوری کوشش کریں۔ آپ دیکھئے گا تین چار سال میں اس کے نتائج ایسے دکھائی دینے لگیں گے۔ ماتا کی طاقت اتنی ہوگی کہ ہم سب پھل پھول رہے ہوں گے۔ اس کے لئے ہم لازمی طور سے کام کریں۔

گجرات ملک کی ترقی کے لئے اور مجھے یاد ہے میں جب کام کرتا تھا، تب ہمارا ایک منتر تھا  کہ ہندوستان کی ترقی کے لئے گجرات کی ترقی اور ہم گجرات کی ترقی کے لئے ایسے ایسے معیار قائم کریں، جو گجرات کی خوشحال روایت  ہے، اس خوشحال روایت کو بھوپیندر بھائی کی قیادت میں ہم سب مل کر آگے بڑھائیں۔ مجھے خوشی ہے کہ دو چار دن پہلے مجھے کسی نے ویڈیو بھیجا ، جس میں ماں امبا جی کا اس طرح سے بھوپیندر بھائی کایا کلپ کررہے ہیں، کیونکہ امبا جی کے ساتھ میرا خصوصی لگاؤ رہا ہے۔اس لئے مجھے اور مزید خوشی حاصل ہوئی اور گبرکا انہوں نے جس طرح سے  نیا کلیور اختیار کیا ہے، بھوپیندر بھائی اپنے وژن کو  تعبیر آشنا کررہے ہیں۔جس طرح سے ماں امبا کے مقام کی ترقی ہورہی ہے۔جس طرح سے اسٹیچو آف یونٹی کے ذریعے سردار صاحب کو گجرات نے اتنی بڑی خراج عقیدت  پیش کی ہے، وہ پوری دنیا میں سردار صاحب کا نام آج سب سے اوپر ہے اور آزادی کے اتنے سالوں کے باوجود ہوا ہے۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ امبا جی میں، میں جب تھا تب 51 شکتی پیٹھ کا تصور کیا تھا۔ اگر امبا جی میں کوئی آئے تو اس کی بنیادی شکل اور اس کی بنیادی تعمیر کوئی بھی بھکت آتا ہے، تو اس کو 51  شکتی پیٹھ  کے درشن کرنے کا  موقع  حاصل ہو۔ آج بھوپیندر بھائی نے اس کام کو آگے بڑھا یا ہے۔پوری آن بان اور شان کے ساتھ لوگوں کو وقف کیا۔ اسی طرح گبر  جہاں کافی کم لوگ گبر سے جانتے ہیں، آج گبر کو بھی ماں امبا کے مقام کے جیسی ہی اہمیت دے کر اور خود وہاں جاکر ماں گبر کی طرف اپنا دھیان کھینچا ہے، اس کی وجہ سے شمالی گجرات میں سیاحت بڑھی ہے۔ ابھی میں نے دیکھا کہ نڑابیٹ میں جس طرح سے ہندوستان کے آخری گاؤں استعمال کیا گیا ہے۔

بھوپیندر بھائی کی قیادت میں پورے شمالی گجرات میں بھی سیاحت کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جب اس طرح کی ساری جگہوں کی ترقی ہورہی ہو تو ہم صاف صفائی کی طرف پوری توجہ دیں۔ آروگیہ کا کام ہاتھ میں لیا ہے، تب صاف صفائی اس کی بنیاد میں رہی ہے۔ اس کی بنیادمیں تغذیہ رہی ہے اور ماں انّا پورنا جہاں وراجمان ہو ، وہاں اپنے گجرات میں عدم تغذیہ کیسے ہوسکتی ہے اور عدم تغذیہ میں تغذیہ کی کمی سے زیادہ تغذیہ کی لاعلمی اس کی وجہ ہوتی ہے اور اس لاعلمی کی وجہ سے پتہ نہیں ہوتا کہ جسم کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ کیا کھانا چاہئے ، کون سی عمر پر کھانا چاہئے؟ بچے ماں کے دودھ میں سے جو طاقت حاصل کرتے ہیں، اپنی لاعلمی کی وجہ سے اگر ہم اس سے منحرف ہوجاتےہیں، تو ہم ان بچوں کو کبھی بھی طاقتور نہیں بنا سکتے اور جب ہم ماتا انّا پورنا کے قرب میں بیٹھے ہوں ، تب ہم ان کو یاد کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ڈائننگ ہال 600 لوگوں کو کھانا تو دے گا ہی، ساتھ ہی میں نرہری جی کو ایک نیا کا سونپ رہا ہوں کہ وہاں پر ایک ویڈیو رکھیں۔ ہمارے ڈائننگ  ہال میں جہاں پر کھاتے ہوئے سب لوگ اسکرین پر ویڈیو دیکھتے رہیں۔ ویڈیو میں صرف یہی دکھایا جائے کہ کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں کھانا چاہئے؟ کیا کھانے سے جسم کو فائدہ ہوگا ، کون سے عناصر جسم کو چاہئے، اس کی سمجھ ویڈیو میں دی گئی ہو، تاکہ کھاتے ہوئے ان کو یاد آئے کہ ماتا کے پرساد کے ساتھ مجھے یہ علم ساتھ لے کر جانا ہے  اور گھر جاکر اس پر عمل کرنا ہے۔آج کل تو ایسے جانکار لوگ بڑی تعداد میں مل جاتے ہیں۔

آپ  کا ایک نئے طرح کا ڈائننگ ہال مشہور  ہوجائے گا اور یہ میڈیا والے جب آپ کا ویڈیو آئے گا تو آپ کا ڈائننگ ہال دیکھنے آئیں گے اور مجھے یقین ہے کہ میں نے اب تک نرہری بھائی کو جتنے بھی مشورے دیئے ہیں، انہوں نے آج تک کسی بھی مشورے کو ٹھکرایا نہیں ہے۔اس لئے وہ اس پر ضرور توجہ دیں گے اور ہمارے یہاں تو شاستروں میں ایک اچھی بات کہی گئی ہے اور دیکھئے ہمارے اکابر کتنا اچھا کرگئے ہیں، اس میں کہا ہے:

دییم ویشجم آرتسیہ، پریشانتسیہ چہ آسنم

ترشی تشیاچ پانی  یہہ ، سدھی تشیاشچ بھوجنم

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مصیبت زدہ کو دوائی، تھکے ہوئے انسان کو بیٹھے کی جگہ، پیاسے انسان کو پانی اور بھوکے انسان کو کھانا دینا چاہئے۔ یہ ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے۔ ماتا انّا پورنا کے قرب میں جس کام کا مشورہ دیا گیا تھا  اب اس کا آغاز ہورہا ہے اور میرے لیے فخر کی بات ہے۔ آپ نے اور تمام ساتھیوں نے میری بات کو سر آنکھوں پر لے کر مکمل کیا ہے، اس کے لئے میرا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے اور کچھ نئے کام بتانے کی خواہش بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ غذا آروگیہ کی سب سے پہلا زینہ ہے اور اس لئے پوشن ابھیان ہم نے پورے ملک میں چلانا شروع کردیا ہے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ غذا کی کمی کی وجہ سے عدم تغذیہ پیدا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے۔غذا کی لاعلمی کی وجہ سے عدم تغذیہ پیدا ہونے کا امکان زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

آج آپ جانتے ہیں کہ پچھلے سال، دو ڈھائی سال سے ، جب سے یہ کورونا آیا تب سے گجرات میں غریب لوگ بھوکے پیٹ نہ رہے۔ غریبوں کے گھر میں شام کو چولہا نہ جلے، ایسی صورتحال ہم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آج پوری دنیا کو حیرت ہورہی ہے کہ کس طرح دو ڈھائی سال تک پورے 80کروڑ لوگوں کو مفت میں اناج ملتا رہے۔ یہ بات پوری دنیا کے لئے حیرت کی ہے۔ پوری دنیا میں جو اُتھل پتھل کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، کسی کو کوئی چیز مل نہیں رہی ہے، جہاں سے ہمیں پیٹرول مل رہا ہے، تیل مل رہا ہے، کھاد مل رہی ہے، وہ سارے دروازے بند ہوگئے ہیں۔

جنگ کا ایسا ماحول بن گیا ہے کہ سب اپنا اپنا سنبھال کر بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ایک نئی مصیبت دنیا کے سامنے آئی ہے  کہ غذائی اجناس کے ذخیرے کم ہونے لگے ہیں۔ کل میں جب امریکا کے صدر کے ساتھ بات چیت کررہا تھا تو ان سے بھی کہا کہ ہمارے یہاں پر اگر ڈبلیو ٹی او پروانہ دیتا ہے تو تھوڑی راحت کردیں گے کہ ہندوستان میں جو ذخیرے پڑے ہیں، اسے اگر باہر بھیج سکتے ہیں، تو ہم کل ہی بھیجنے کے لئے تیا رہیں۔ ہم ہندوستان کو تو کھلاتے ہی ہیں، انّا پورنا ماتا کے آشیرواد سے ہمارے ملک کے کسانوں نے جیسے کہ پہلے سے ہی دنیا کی فکر کی ہو، ایسے تیاری کرلی ہے، لیکن اب دنیا کے قاعدے قانون میں رہنا ضروری ہے، اس لئے پتہ نہیں کب ڈبلیو ٹی او اصلاح کرے گا۔

آپ دیکھئے گجرات کی طاقت صحت کے معاملے میں کیسی ہے۔ پوری دنیا میں جس تیز رفتاری سے ہم نے کورونا کے سامنے ٹیکہ کاری کی مہم چلائی ہے اور میں بھوپیندر کو اس میں بھی مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ گجرات میں ٹیکہ کاری کا کام بہت تیزی سے ہوا ہے۔ بہت اعلیٰ طریقے سے کیا ہے اور اسی وجہ سے گجرات کو بچالیا ہے۔ اتنا بڑا کام کرنے کے لئے بھی بھوپیندر بھائی اور ان کی پوری سرکار بہت بہت مبارکباد کے اہل ہیں اور اب تو بچوں کے لئے بھی ہم نے ٹیکہ کاری کے لئے چھوٹ دے دی ہے۔ اپنے پاٹی دار بھائیوں کو تو کافی وقت غیر ممالک جانا ہوتا ہے، ڈائمنڈ والوں کو جانا ہوتا ہے، گجرات کے لوگوں کو کاروباری معاملے میں جانا ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی باہر جاتا ہے  اور کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ آپ نے احتیاطی خوراک لی ہے یا نہیں تو اب اس کی سہولت ہے  کہ آپ کسی بھی اسپتال میں  جاکر خوراک لے سکتے ہیں، فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔اس لئے جو بھی ضرورتیں ہیں، انہیں پورا کرنے کے لئے ہم ہر طرح سے کوشش کرتے ہیں اور اب جو وقت ہے، اس شعبے میں میں سماج کے لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کی صلاحیت سازی کے لئے کتنی اولیت دیتے ہیں اور اب یہ صلاحیت سازی بھی پرانے زمانے والی نہیں ہے۔ اس دور میں کوئی سائیکل رپیرئنگ کا اسکل ڈیولپمنٹ نہیں ہوتا ہے۔

اب دنیا بدل گئی ہے۔ اب انڈسٹری 4.0ہورہا ہے۔ اب اسکل ڈیولپمنٹ بھی انڈسٹری 4.0کے مطابق ہونا چاہئے۔ اب گجرات کو انڈسٹری 4.0 کے اسکل ڈیولپمنٹ کے لئے چھلانگ لگانی ہے اور گجرات  کو اس کام میں ہندوستان کی نمائندگی کرنی چاہئے۔  گجرات کے صنعتی دنیا میں جو لوگ آگے ہیں، جو پروفیشنل ہیں، جو انٹرپرائز کے لوگ ہیں، ان کے فطری اثر میں گجرات ہے۔ گجرات نے تو ماضی میں ایسا کرکے دکھایا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دے رہا ہوں۔ہمارے برزرگوں نے گجرات میں ایک فارمیسی کالج شروع کیا  تھا۔ اس کو اب 50-60 سال پورے ہو گئے ہیں۔ اس وقت میں نگر سیٹھ اور مہاجن کے لوگوں ہندوستان میں سب سے پہلا فارمیسی کالج شروع کیا تھا، لیکن اس کا نتیجہ یہ آیا کہ  آج  فارمیسی میں گجرات  کا ڈنکاپوری دنیا میں بج رہا ہے اور گجرات کی دوا ساز کمپنیوں کا نام پوری دنیا میں گونج رہا ہے اور غریبوں کو سستی دوا ملنے کی فکر ہمارے لوگ  کرنے لگے۔ 50-60 سال پہلے ایک فارمیسی کالج بنا اور اس کی وجہ سے جو طلبا کے ماحول اور ایکو سسٹم کی تعمیر ہوئی اس کی وجہ سے آج فارمیسی  صنعت نے گجرات کو جگمگ کر دیا ہے۔

اسی طرح انڈسٹری 4.0، جدید اور آرٹیفشیئل انٹیلی جنس کے ساتھ ٹیکنالوجی والے ہمارے نوجوان اسکل ڈیولپمنٹ میں  تیار ہوں گے تو مجھے پورا پورا یقین ہے، اس کی قیادت  بھی کر سکتے ہیں اور گجرات میں صلاحیت ہے  کہ وہ تمام  کام  کو بہت آسانی سے کر پائے گا ۔ اس سمت میں ہم جتنا ہم  آگے بڑھیں گے، اتنا فائدہ ہوگا۔ آج جب صحت کی بات چیت چل رہی ہے، ہم جانتے ہیں کہ جب میں آیا ہوں تب میرے سامنے کافی بڑا مسئلہ تھا۔ کڈنی کے مریض بڑھ رہے تھے، ڈائیلیسس بڑھ رہی تھی اور لوگ صبح گھر سے نکلتے تھے 200-250 روپے کا کرایہ  خرچ کرتے تھے۔بڑے ہسپتال میں جاتے  تھے، جن کو ہفتے میں ڈائیلیسس کروان اہوتا تھا، ان کو دو مہینے میں چانس ملتا تھا، اس صورتحال کی وجہ سے کافی تشویشناک صورتحال پیدا ہوتی ہے اور ہمارے ناکافی وسائل کے درمیان  میں بھی ہم نے ایک مہم شروع کی کہ ڈائیلیسس سہولت دستیاب ہو، وہ بھی مفت ملے۔ تاکہ جنہیں بھی ڈائیلیسس کی ضرورت ہو انہیں ڈائیلیسس کی خدمادت دستیاب ہوں۔ اس کی فکر کی۔ آج  ہم کامیابی کےساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسے مریضوں کی اس کی مدد مل رہی ہے۔ ہم نے بڑی اہمیت کا کام کیا ہے۔ اس کی چرچا کافی کم ہوتی ہے۔

اخباروں میں ، میں تو زیادہ دیکھا نہیں ہے ، کیونکہ ان کو باتی تمام کاموں سے فرصت کب ملتی ہے، لیکن ہم نے ایک بہت بڑی اہمیت کا کام کیا ہے۔ اس ملک کے متوسط اور غریب طبقے کو ہم نے سب سے زیادہ فائدہ دیا ہے۔ یہ جن اوشدھی کیندر ہے، اگر گھر میں کسی بڑے کو  ذیابیطس ہوتا ہے، تو اس خاندان کو ہزار دو ہزار کا خرچ ہوتا ہے۔ اگر متوسط طبقے پر دوا کے خرچ کا بوجھ آتا ہے، تو وہ مشکل میں آجاتا ہے کہ یہ سب کیسے کریں، لیکن اب تشویش کی بات نہیں ہے۔ ہم نے جن اوشدھی کی دوا میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ جو دوا 100 روپے میں ملتی ہے، وہی دوا جن اوشدھی کیندر پر 10 سے 12 یا 15 روپے میں ملتی ہے۔ ہم جتنی بھی جن اوشدھی کیندر کی تشہیر کریں گے، ہمارا متوسط طبقہ جن اوشدھی کیندر سے اوتنی ہی دوا خریدے گا ، جس سے کافی بچت ہوگی۔ غریبوں کو مدد ملے گی۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ غریب لوگ دوا نہیں لیتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کو پریشانی ہوتی ہے۔وہ بل چکا نہیں پاتے۔ جن  اوشدھی کی وجہ سے عام آدمی بھی دوا خرید پائے ، اپنا علاج کرسکیں ، ہم اس کی فکر کررہے ہیں۔

صاف صفائی کی مہم ہو ، ڈائیلیسس کا کام ہو، تغذیہ کا معاملہ ہو یا پھر جن اوشدھی کے ذریعے سستی دوا کی بات ہو، ہم نے فکر کی ہے۔ اب تو ہم نے دل کی بیماری ہو تو اسٹنٹ کا پیسہ کم کرنے کے لئے مہم چلائی ہے۔ گھٹنوں کے آپریشن کا پیسہ کم کرنے کے لئے مہم شرو ع کی ۔ ایسے بہت تمام کام ہیں، تاکہ عام لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور سب سے بڑا کام کیا ہے، آیوشمان بھارت یوجنا۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے ذریعے ہندوستان کے عام لوگوں کو ہر سال ان کے خاندان کو 5لاکھ تک بیماری کے علاج کا خرچ سرکار دے رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ متعدد لوگ خاص طور سے ہماری ماؤں کو اگر خطرناک بیماری ہوئی تو پہلے اپنے بچوں کو نہیں بتاتی تھی، کیونکہ وہ سوچتی کہ بچوں کو دکھ ہوگا۔ اس لئے وہ دکھ برداشت کرتی رہتی تھی۔

جب معاملہ بگڑ جائے او رآپریشن کی بات آئے تب ماں کہتی تھی  کہ میں آپ کو قرض میں نہیں ڈالنا چاہتی  تھی، ویسے بھی مجھے کہاں زیادہ جینا ہے اور زندگی میں درد برداشت کرتی رہتی تھی۔ ایسے میں ماں کی کون فکر کرے، جہاں پر ماں امبا کا دھام ہو ، ماں  کالی کا دھام ہو، جہاں پر کھوڑیار ہو، ماں امیا ، جہاں پر ماں انّا پورنا ہو، وہاں پر ماں کی فکر کون کرے اور ہم نے طے کیا کہ پردھان جن آروگیہ کے توسط سے آیوشمان بھارت یوجنا سے 5لاکھ روپے تک کا علاج اچھے سے اچھے اسپتال میں کروانے کی ذمہ داری سرکار اٹھائے گی۔ آپریشن ہو ، ان کی کڈنی کی بیماری ہو، سب  کا خرچ اٹھائے گی۔ اتنا ہی نہیں احمد آباد میں ہو اور وہ ممبئی میں بیمار پڑتا ہے تو اس کی علاج کی ذمہ سرکار اٹھائے گی۔ اتنا ہی نہیں احمد آبا دکا یہ آدمی ممبئی میں گیا ہو تو وہاں اس کا فائدہ ملے گا۔ حیدرآباد گیا ہو تو وہاں ملے گا۔ ایک طرح سے صحت کے لئے جتنے بھی حفاظتی حصار  ممکن ہو ، جتنا بھی ہوسکے ، ان سب کام کے لئے ہم کوشش کررہے ہیں اور گجرات کی تو خصوصیت رہی ہے کہ گجرات ہمیشہ سب کے ساتھ چلنے والی ریاست رہی ہے۔

ہمارے یہاں جب کبھی مصیبت آئی ہو اور فوڈ پیکٹ پہنچانا ہو تو سرکار کو مشقت کم کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں سوامی نارائن سنستھا میں ایک فون کردیں گے، سنت رام سنستھا میں ایک فون کردیں گے تو فوراً گجرات میں فوڈ پیکٹ پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں رہتا ، یہ سب ماتا انّا پورنا کے آشیرواد سے ہوتا ہے۔ یہ ضرورت گجرات کی ہے اور  اسی کی بنیاد پر ہم گجرات کی ترقی کو ترقی کے راستے پر آگےبڑھا رہے ہیں۔ تعلیم کے لئے ، صحت کے لئے، بہت اچھا انتظا م کیا ہے اور روحانیت کی بھی فکر کررہے ہیں۔تروینی ملی ہے، تب میری آپ سب کو بہت  بہت نیک خواہشات ہے۔

بہت بہت شکریہ۔

 

************

ش ح۔ج ق۔ن ع

                                                                                                                                      (U: 4199)



(Release ID: 1816187) Visitor Counter : 267