مواصلات اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

سیل فون ٹاور

Posted On: 06 APR 2022 1:43PM by PIB Delhi

موبائل ٹاور ٹیلی مواصلات سروس فراہم کنندگان/انفراسٹرکچر فراہم کنندگان کے ذریعے، ٹیکنو کمرشیل آسانی، رول آؤٹ سے متعلق ذمہ داری سے مشروط اپنے نیٹ ورک کی کوریج اور صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے نصب کیے جاتے ہیں۔ حکومت نے  موبائل ٹاور نصب کرنے اور ملک کے دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ٹیلی مواصلات کی سروس فراہم کرنے کے لیے متعدد اسکیموں کی منصوبہ بندی اور نفاذ سے متعلق یونیورسل سروس آبلی گیشن فنڈ (یو ایس او ایف) قائم کیا ہے۔

ڈی او ٹی اس سلسلے میں عالمی پیش رفتوں کی نگرانی کے لیے آئی ٹی یو کے تحت، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، انٹرنیشنل کمیشن آن نان آئیو نائزنگ ریڈئیشن پروٹیکشن (آئی سی این آئی آر پی)، بین الاقوامی صلاح کار کمیٹی (آئی اے سی) برائے الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (ای ایم ایف)، بین الاقوامی ٹیلی مواصلات یونین (آئی ٹی یو) اور متعدد مطالعاتی گروپس جیسی متعلقہ بین الاقوامی ایجنسیوں/تنظیموں کے ذریعے تجویز کردہ معیاروں اور بہتر طور طریقوں پر عمل کرتا ہے۔ ہندوستان میں ای ایم ایف اخراج کے اصول آئی سی این آئی آر پی کے ذریعے تجویز کردہ اصولوں سے 10 گنا زیادہ سخت ہیں۔ یہ مختلف علاقوں کے لیے الگ الگ اصول بنانے کی ضرورت  کو لازمی بناتا ہے۔

محکمہ ٹیلی مواصلات نے موبائل ٹاور کی تنصیب سے متعلق کلیئرنس جاری کرنے کے لیے ریاستی حکومتوں کو 01.08.2013 کو ایڈوائزری گائیڈ لائنس جاری کیے تھے۔ ریاستی حکومتوں کو جاری کی گئی یہ گائیڈلائنس  رہائشی علاقوں سمیت تمام علاقوں کے لیے قابل اطلاق ہیں اور  گھنی آبادی والے علاقوں میں موبائل ٹاوروں کی تنصیب پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے۔

بیس ٹرانسیور اسٹیشن (بی ٹی ایس) اور موبائل فون سے الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ (ای ایف ایف) کے اثرات کی جانچ کے لیے 2010 میں قائم کردہ ایک بین وزارتی کمیٹی (آئی ایم سی) نے  ای ایم ایف کی وجہ سے ماحولیاتی اور صحت سے متعلق تشویشوں  پر متعدد قومی اور بین الاقوامی مطالعات کا جائزہ لینے کے بعد، یہ اشارہ دیا تھا کہ زیادہ تر لیباریٹری کے مطالعے ریڈیو فریکوئنسی ریڈئیشن اور صحت کے درمیان ایکسپوژر براہ راست رابطہ تلاش کرنے میں ناکام رہے؛ اور سائنسی مطالعات  ابھی تک فریکوئنسی ریڈئیشن اور صحت کے درمیان وجہ اور اثرات کے تعلقات کی تصدیق نہیں کر پائے ہیں۔

اس کے علاوہ،  آنریبل الہ آبادی ہائی کورٹ کے ذریعے قائم کردہ کمیٹی بشمول کھڑگ پور، کانپور، روڑی، بامبے آئی آئی ٹی اور انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) دہلی جیسے ملک کے دیگر سائنسی اداروں  کے ممبران نے سال 2014 میں جمع کردہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا – ’’دستیاب سائنسی ثبوت، مطالعات اور رپورٹ کی بنیاد پر یہ پتہ چلا ہے کہ  موبائل بی ٹی ایس ٹاوروں سے ای ایم ایف ریڈئیشن کے بیان کردہ خطرات کے بارے میں کوئی جامع ثبوت موجود نہیں ہے…‘‘ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ’’اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ بی ٹی ایس سے ہونے والے ای ایم ایف ریڈئیشن  کا سیل ماڈل، جانوروں یا انسانوں میں بیان کردہ بائیولوجیکل اثرات، اور اس کے نتیجے میں کوئی ممکنہ صحت سے متعلق اثرات کے درمیان کوئی تعلق ہے۔‘‘

مزید برآں،  محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے تحت سائنس و انجینئرنگ ریسرچ بورڈ (ایس ای آر بی) اور محکمہ ٹیلی مواصلات کے ذریعے ایک مشترکہ پہل شروع کی گئی تھی،  جس کے تحت  موبائل ٹاوروں اور  ہینڈ سیٹ  سے زندگی یعنی انسانوں، جاندار جرثوموں، پیڑ پودوں اور ماحولیات پر ای ایم ایف ایکسپوژر کے ممکنہ اثرات سے متعلق مطالعات کے لیے انیس ریسرچ کرائے گئے۔ فی الحال، ان مطالعات سے ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

یہ معلومات آج لوک سبھا میں ٹیلی مواصلات کے وزیر مملکت جناب دیوو سنگھ چوہان نے ایک سوال کے تحریری جواب میں فراہم کیں۔

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 3911

 

 


(Release ID: 1814306) Visitor Counter : 176


Read this release in: English , Marathi , Bengali , Tamil