صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

کووڈ-19: افسانہ بنام حقیقت


ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع شدہ مطالعہ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت میں کووڈ-19 سے ہوئی اموات سرکاری شمار سے زیادہ ہیں، قیاس آرائی اور غلط معلومات پر مبنی ہے

مصنفین خود طریقہ کار کی متعدد خامیوں اور تضادات کا اعتراف کرتے ہیں

Posted On: 11 MAR 2022 3:36PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  11/مارچ 2022 ۔ ایک معروف بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ریاضیاتی ماڈلنگ کی مشق کی بنیاد پر متعدد ممالک کے لئے تمام وجوہات کے سبب ہوئی اضافی اموات کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس مطالعہ کے نتیجے کے مطابق پوری دنیا میں یکم جنوری 2020 سے 31 دسمبر 2021 کے درمیان کووڈ سے 5.94 ملین اموات درج ہوئیں، لیکن اس مدت میں اندازاً 18.2 ملین (95 فیصد غیر یقینی فرق 17.1 سے 19.6) لوگوں کی موت کووڈ-19 کی وبا کے سبب ہوئی ہے۔

محققین کے ایک دیگر گروپ کا کووڈ-19 کے سبب اضافی اموات کے تعلق سے ایک اور اندازہ ہے۔ لازمی طور پر ریاضیاتی ماڈلنگ کی تکنیک معاصر عالمی منظرنامے کی ایک ریاضیاتی نمائندگی کی شکل میں اندازہ لگانے کا ایک عمل ہے۔ اس طرح کے اندازے یا تو معاصر عالمی منظرناموں یا ویسے اِن پٹ کی قربت کی بنیاد پر جو دستیاب نہیں ہیں، کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ اِن پٹ استعمال میں لائی گئی تکنیک کے مطابق اپنی درستگی میں مختلف ہوسکتی ہے۔ عام طور پر ان مطالعات میں نسبتاً چھوٹا حقیقی نمونہ لینا اور اس کے نتیجے کو پوری آبادی پر نافذ کرنا شامل ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کے توسط سے ایک چھوٹے یکسانیت والے ملک / علاقے کے لئے تقریباً درست نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، لیکن ایسی تکنیک ایک بڑی اور متنوع آبادی کے لئے قابل اعتبار نتائج دینے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ یہ مطالعہ مختلف ممالک اور بھارت کے لئے الگ الگ طریقہ کار کو اپناتا ہے۔ مثال کے لئے، اس مطالعے میں استعمال کئے گئے اعداد و شمار کا ذریعہ اخبارات کی رپورٹ اور بغیر احتیاط کے کئے گئے تجزیاتی مطالعوں سے لئے گئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ماڈل اِن پٹ کی شکل میں سبھی اسباب سے بکثرت اموات (ایک دیگر بغیر احتیاط کے کئے گئے تجزیاتی ماڈل پر مبنی) کے ڈیٹا کا استعمال کرتا ہے۔ اور یہ اس شماریاتی مشق کے نتائج کی درستگی کے بارے میں سنگین تشویش پیدا کرتا ہے۔

انوکھے ڈھنگ سے اس مطالعے کی کل مدت کے لئے اپنایا گیا طریقہ کار وقفے وقفے سے اخبارات سے موصولہ ڈیٹا کے بغیر کسی سائنسی بنیاد کی وضاحت کرتی ہے۔ اس مدت کے دوران وبا میں کئی اچھال آئے اور مخصوص وقت پر الگ الگ ریاستوں (ذیلی ریاستی سطح پر) الگ الگ مدارج تھے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مطالعہ کے لئے استعمال کیا جانے والا طریقہ کار ٹھوس نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ کی بکثرت اموات کی گنتی ایک آرٹیکل(https://www.thehindu.com/news/national/other-states/chhattisgarhs-excess-deaths-at-least-48-times-covid-19-toll/article35067172.ece)   کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ اس میں مانا گیا ہے کہ اپریل اور مئی 2021 میں 40 گنا زیادہ اموات ہوئیں۔ ان ریاستوں کے لئے جہاں سول رجسٹریشن سسٹم دستیاب تھا، وبا کے دوران درج کی گئی اموات کے مقابلے سال 2018 اور 2019 میں اسی مدت میں ہوئی اوسط اموات سے کی گئی ہے، جو لاک ڈاؤن، کانٹیمنٹ زون، ٹیسٹنگ اور کانٹیکٹ ٹریسنگ، بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور کلینیکل مینجمنٹ پروٹوکول کا نفاذ اور دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم سمیت وبا کے بندوبست سے متعلق متعدد کوششوں کو پیش نظر نہیں رکھتا ہے، جو ملک میں وبا کے بندوبست کی بنیاد ہیں۔

مرکزی وزارت صحت نے سبھی ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو کووڈ-19 کے سبب ہوئی اموات کی رپورٹ کے لئے تفصیلی رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ ( آئی سی ایم آر) نے  10 مئی 2020 کو ’بھارت میں کووڈ-19 سے متعلق اموات کے مناسب اندراج کے لئے رہنما ہدایات‘ جاری کی تھیں۔ مستقل طور پر شفاف طریقے سے اموات کی رپورٹنگ کی جاتی ہے اور مرکزی وزارت صحت کی ویب سائٹ پر پبلک ڈومین میں اسے یومیہ بنیاد پر اَپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ریاستوں کے ذریعے الگ الگ وقت پر پیش کی جارہی کووڈ-19 شرح اموات سے بیک لاگ کا بھی مستقل طور پر بھارت سرکار کے اعداد و شمار کے ساتھ ملان / ٹیلی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں کووڈ-19 سے ہوئیں اموات کی رپورٹ کرنے کے لئے فوت ہونے والے کے اہل خانہ کو مالی مدد بھی دی جاتی ہے، کیونکہ وہ معاوضے کے حقدار ہوتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے اموات کی کم رپورٹنگ کا امکان کم ہے۔

یہاں اس بات پر توجہ دی جائے کہ مصنفین نے خود اعتراف کیا ہے کہ اضافی اموات کے اندازوں کے لئے براہ راست پیمائش بہتر ہوگی جو سبھی اسباب سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار پر مبنی نہیں ہو، جو عام طور پر اپنی صورت حال سے زیادہ ٹھوس ہوتے ہیں۔ اس سے آگے انھوں نے ذکر کیا ہے’جیسا کہ نیدرلینڈ اور سوئیڈن سمیت کچھ چنندہ ملکوں کے مطالعات سے پتا چلا ہے۔ ہمیں شبہ ہے کہ وبا کے دوران زیادہ تر اموات کووڈ-19 کے سبب ہوئی ہیں۔ حالانکہ زیادہ تر ملکوں میں خاطرخواہ تجربات پر مبنی شواہد موجود نہیں ہیں۔ ملکوں کے درمیان ایپی ڈیمیو لوجیکل پروفائل کے تحت بڑے پیمانے پر توافق کی عدم موجودگی کو دیکھتے ہوئے اس موضوع پر مزید تحقیق کرنے سے قبل اس طرح کے ٹھوس تصورات نہیں بنانا سمجھداری ہے۔

مصنفین نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’سخت لاک ڈاؤن اور میڈی ایشن انٹرونشن سے وبا کے دوران نگیٹیو ایکسس مورٹیلٹی ہوسکتی ہے اور مستقبل قریب میں زیادہ معلومات دستیاب ہونے کے سبب ہمارے اندازوں میں اور زیادہ بہتری مطلوب ہے اور یہ مختلف عوامل لوگوں میں سبھی اسباب اور خاص سبب سے ہوئی موتوں میں تبدیلی کے لئے ذمے دار ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کووڈ-19 کے سبب اضافی اموات کا اندازہ لگانے میں وبا کے دوران موت کے اعداد و شمار میں تبدیلی کے عوامل کے رول کا حل نکالا جانا چاہئے۔

انھوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’آخرکار ایس اے آر ایس – سی او وی-2 ٹیکوں کی ترقی اور ٹیکہ کاری میں وائرس سے متاثرہ لوگوں اور عام آبادی کے درمیان اموات کو کافی کم کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم امید کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ کووڈ-19 کے سبب اضافی اموات کے رجحان میں تبدیلی آئے گی، کیونکہ جیسے جیسے نئے ویرینٹ سامنے آتے ہیں، آبادی کے درمیان ٹیکہ کاری کا کوریج بڑھایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ اور دیگر عوامل بدلتے رہتے ہیں اس لئے وقت کے ساتھ اضافی اموات کا اندازہ لگانے کا عمل جاری رکھنا بہت اہم ہوگا۔‘

اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ موت جیسے حساس معاملات، وہ بھی کووڈ-19 کی وبا جیسے موجودہ عالمی صحت بحران کے دوران، کو سامنے لاتے ہوئے حقائق اور ضروری حساسیت کا خیال رکھنا جانا چاہئے۔ اس طرح کی خیالی رپورٹنگ میں کمیونٹی کے اندر خوف پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو گمراہ کرسکتی ہے، لہٰذا اس سے بچا جانا چاہئے۔

 

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO. 2493



(Release ID: 1805217) Visitor Counter : 283