وزیراعظم کا دفتر
من کی بات کے 85 ویں ایپیسوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن ( 30 جنوری ، 2022 ء )
Posted On:
30 JAN 2022 12:08PM by PIB Delhi
نئی دلّی ،30 جنوری / میرے پیارے ہم وطنو ، نمسکار ! آج ’ من کی بات ‘ کے ایک اور ایپیسوڈ کے ذریعے ہم ایک ساتھ جڑ رہے ہیں ۔ یہ 2022 ء کی پہلی ’ من کی بات ‘ ہے ۔ آج ہم پھر ایسے تبادلۂ خیال کو آگے بڑھائیں گے، جو ہمارے ملک اور ہم وطنوں کی مثبت تحریکوں اور اجتماعی کوششوں سے جڑے ہوتے ہیں ۔ آج ہمارے قابل احترام باپو مہاتما گاندھی کی برسی بھی ہے۔ 30 جنوری کا یہ دن ہمیں باپو کی تعلیمات کی یاد دلاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہم نے یوم ِ جمہوریہ بھی منایا۔ دلّی میں راج پتھ پر ، ہم نے ملک کی بہادری اور طاقت کی ، جو جھانکی دیکھی ، اُس نے سب کو فخر اور جوش سے بھر دیا۔ ایک تبدیلی ، جو آپ نے دیکھی ہوگی، اب یوم ِ جمہوریہ کی تقریبات 23 جنوری یعنی نیتا جی سبھاش چندر بوس کے یوم ِپیدائش سے شروع ہوں گی اور 30 جنوری تک یعنی گاندھی جی کی برسی تک جاری رہیں گی۔ انڈیا گیٹ پر نیتا جی کا ڈیجیٹل مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ اس بات کا ، جس طرح سے ، ملک نے خیر مقدم کیا، ملک کے ہر کونے سے ، جو خوشی کی لہر اٹھی، ملک کے ہر باشندے نے ، جس طرح کے جذبات کا اظہار کیا ، اسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے ۔
ساتھیو ، ملک آزادی کے امرت مہوتسو میں ، ان کوششوں سے اپنی قومی علامتوں کو دوبارہ قائم کر رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انڈیا گیٹ کے قریب ’امر جوان جیوتی ‘ اور اس کے قریب ہی ’ نیشنل وار میموریل ‘ ( قومی جنگی یادگار ) پر جلنے والی جیوتی کو آپس میں ضم کیاگیا ۔ اس جذباتی موقع پر بہت سے اہل وطن اور شہدا کے اہل خانہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ آزادی کے بعد سے شہید ہونے والے ملک کے تمام بہادروں کے نام ’نیشنل وار میموریل ‘ میں کندہ کئے گئے ہیں۔ کچھ سابق فوجیوں نے مجھے لکھا ہے کہ ’’شہیدوں کی یاد کے سامنے جلائی جانے والی ’امر جوان جیوتی‘ شہیدوں کے امر ہونے کی علامت ہے۔ حقیقت میں ، ’امر جوان جیوتی ‘ کی طرح ہمارے شہید ، ان کی تحریک اور ان کا تعاون بھی امر ہے۔ میں آپ سب سے کہوں گا کہ جب بھی آپ کو موقع ملے ’نیشنل وار میموریل‘ ضرور جائیں ۔ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ یہاں آپ کو ایک مختلف توانائی اور تحریک کا تجربہ ہوگا۔
ساتھیو ، امرت مہوتسو کی ان تقریبات کے درمیان ملک میں کئی اہم قومی اعزازات بھی دیئے گئے۔ اُن میں سے ایک ہے ’ وزیر اعظم کا ’ راشٹریہ بال پرسکار ‘ ۔ یہ ایوارڈز ، ان بچوں کو دیئے جاتے ہیں ، جنہوں نے کم عمری میں جرات مندانہ اور متاثر کن کام کئے ہے۔ ہم سب کو اپنے گھروں میں ان بچوں کے بارے میں بتانا چاہیئے۔ ان سے ہمارے بچے بھی تحریک حاصل کریں گے اور ان کے اندر بھی ملک کا نام روشن کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا ۔ ملک میں پدم ایوارڈ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ایسے بہت سے نام ہیں ،جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے غیر معروف ہیرو ہیں، جنہوں نے عام حالات میں غیر معمولی کام کئے ہیں۔ مثال کے طور پر اتراکھنڈ کی بسنتی دیوی کو پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ بسنتی دیوی نے اپنی پوری زندگی جدوجہد کے درمیان گزاری۔ ان کے شوہر کا کم عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا اور وہ ایک آشرم میں رہنے لگیں ۔ یہاں رہ کر ، انہوں نے دریا کو بچانے کے لئے جدوجہد کی اور ماحولیات کے لئے غیر معمولی تعاون کیا ۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے بھی بہت کام کیا ہے۔ اسی طرح منی پور سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ لوریبم بینو دیوی کئی دہائیوں سے منی پور کے لیبا ٹیکسٹائل آرٹ کا تحفظ کر رہی ہیں۔ انہیں بھی پدم شری سے نوازا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ارجن سنگھ کو بیگا قبائلی رقص کے فن کو پہچان دلناے کے لئے پدم ایوارڈ ملا ہے۔ پدم ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک اور شخص جناب امائی مہا لینگا نائک ہیں۔ وہ ایک کسان ہیں اور کرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ٹنل مین بھی کہتے ہیں۔ انہوں نے زراعت میں ایسی ایسی ایجادات کی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر ایک حیران رہ جائے ۔ چھوٹے کسانوں کو ، ان کی کوششوں کا بہت زیادہ فائدہ مل رہا ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے غیر معروف ہیرو ہیں ، جنہیں ملک نے ان کی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ کو ضرور ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ زندگی میں ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
میرے پیارے ہم وطنو، امرت مہوتسو پر، آپ سب ساتھی مجھے بہت سے خطوط اور پیغامات بھیجتے ہیں، بہت سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ اس سیریز میں کچھ ایسا ہوا ، جو میرے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ بچوں نے اپنے ’من کی بات ‘ پوسٹ کارڈ کے ذریعے لکھ کر بھیجی ہے۔ یہ ایک کروڑ پوسٹ کارڈ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہیں، بیرون ملک سے بھی آئے ہیں۔ میں نے وقت نکال کر ، ان میں سے بہت سے پوسٹ کارڈز کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ پوسٹ کارڈ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کے لئے ہماری نئی نسل کا ویژن کتنا وسیع اور کتنا بڑا ہے۔ میں نے ’ من کی بات ‘کے سننے والوں کے لئے کچھ پوسٹ کارڈوں کو چنا ہے ، جنہیں میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ گوہاٹی، آسام سے رِدھیما سورگیاری کا پوسٹ کارڈ اس طرح ہے۔ رِدھیما ساتویں جماعت کی طالبہ ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ آزادی کے 100ویں سال میں ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہتی ہے ، جو دنیا کا سب سے صاف ستھرا ملک ہو، دہشت گردی سے مکمل طور پر آزاد ہو، سو فی صد خواندہ ممالک میں شامل ہو، حادثوں سے پاک ملک ہو اور پائیدار ٹیکنالوجی کے ساتھ خوراک کی سکیورٹی کے قابل ہو ۔ رِدھیما، ہماری بیٹیاں جو بھی سوچتی ہیں، جو خواب وہ ملک کے لئے دیکھتی ہیں، وہ تو پورے ہوتے ہی ہیں۔ جب سب کی کوششیں شامل ہوں گی، آپ کی نوجوان نسل اسے ایک مقصد بنانے کے لئے کام کرے گی، پھر آپ جس طرح سے ہندوستان بنانا چاہتے ہیں، وہ ضرور بنے گا۔ میرے پاس اتر پردیش کے پریاگ راج کی نویا ورما کا پوسٹ کارڈ بھی ہے۔ نَویا نے لکھا ہے کہ 2047 ء میں ، ان کا خواب ایک ایسے بھارت کا ہے ، جہاں ہر ایک کو باوقار زندگی ملے، جہاں کسان خوشحال ہوں اور کرپشن نہ ہو۔ نَویا، ملک کے لئے آپ کا خواب بہت قابل تعریف ہے۔ ملک بھی اس سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آپ نے کرپشن فری انڈیا کی بات کی۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس سے نجات کے لئے 2047 ء کا انتظار کیوں؟ ہم تمام اہل وطن، آج کے نوجوانوں کو مل کر یہ کام جلد از جلد کرنا ہے اور اس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے فرائض کو ترجیح دیں ، جہاں فرض کا احساس ہو، فرض سب سے اہم ہو ، وہاں کرپشن پھٹک بھی نہیں سکتا۔
ساتھیو ، میرے سامنے چنئی سے محمد ابراہیم کا ایک اور پوسٹ کارڈ ہے۔ ابراہیم 2047 ء میں ہندوستان کو دفاعی میدان میں ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چاند پر ہندوستان کا اپنا ریسرچ بیس ہو اور ہندوستان مریخ پر انسانی آبادی کو آباد کرنے کا کام شروع کرے نیز ابراہیم زمین کو آلودگی سے پاک بنانے میں ہندوستان کے لئے ایک بڑا کردار دیکھتے ہیں۔ ابراہیم، جس ملک میں آپ جیسا نوجوان ہو،اس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
ساتھیو ، میرے سامنے ایک اور خط ہے۔ مدھیہ پردیش کے رائے سین میں سرسوتی ودیا مندر میں 10ویں جماعت کی طالبہ بھاونا کا ۔ سب سے پہلے، میں بھاونا سے کہوں گا کہ آپ کا اپنے پوسٹ کارڈ کو ترنگے سے سجانے کا طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔ بھاونا نے انقلابی شریش کمار کے بارے میں لکھا ہے۔
ساتھیو ، مجھے گوا سے لارنشیو پریرا کا پوسٹ کارڈ بھی ملا ہے۔ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ان کے خط کا موضوع بھی ہے – آزادی کے غیر معروف ہیرو ۔ میں آپ کو اس کا ہندی کا ترجمہ بتا رہا ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے – ’’ بھیکاجی کاما ہندوستانی جدوجہد آزادی میں شامل سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے بیٹیوں کو بااختیار بنانے کے لئے ملک اور بیرون ملک بہت سی مہمیں چلائیں۔کئی نمائشوں کا اہتمام کیا۔ ‘‘ یقیناً بھیکاجی کاما تحریک آزادی کی سب سے بہادر خواتین میں سے ایک تھیں۔ 1907 ء میں ، انہوں نے جرمنی میں ترنگا لہرایا۔ اس ترنگے کو ڈیزائن کرنے میں ، جس شخص نے ان کا ساتھ دیا تھا ، وہ تھے - شری شیام جی کرشن ورما۔ شری شیام جی کرشن ورما جی کا انتقال 1930 ء میں جنیوا میں ہوا۔ ان کی آخری خواہش تھی کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ان کی استھیاں ہندوستان لائی جائیں حالانکہ ان کی استھیاں 1947 ء میں آزادی کے دوسرے ہی دن ہندوستان واپس لائی جانی چاہیئے تھیں لیکن یہ کام نہیں ہوا۔ شاید بھگوان کی مرضی ہوگی کہ یہ کام میں کروں اور اس کام کو کرنے کا موقع بھی مجھے ہی ملا ۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو ان کی استھیاں 2003 ء میں ہندوستان لائی گئیں۔ شیام جی کرشن ورما جی کی یاد میں ان کی جائے پیدائش، مانڈوی میں ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔
ساتھیو ، ہندوستان کی آزادی کے امرت مہوتسو کا جوش و خروش صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں ہے۔ مجھے ہندوستان کے دوست ملک کروشیا سے بھی 75 پوسٹ کارڈ ملے ہیں۔ کروشیا کے زاگریب میں اسکول آف اپلائیڈ آرٹس اینڈ ڈیزائن کے طلباء نے یہ 75 کارڈ ہندوستان کے لوگوں کو بھیجے ہیں اور امرت مہوتسو کی مبارکباد دی ہے۔ آپ تمام ہم وطنوں کی طرف سے، میں کروشیا اور اس کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہندوستان تعلیم اور علم کی سرزمین رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کو کتابی علم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے زندگی کے ایک جامع تجربے کے طور پر دیکھا ہے۔ ہمارے ملک کی عظیم شخصیات کا بھی تعلیم سے گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں پنڈت مدن موہن مالویہ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، وہیں مہاتما گاندھی نے گجرات ودیا پیٹھ کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ گجرات کے آنندمیں ایک بہت پیاری جگہ ہے - ولبھ ودیا نگر ۔ سردار پٹیل کے اصرار پر ان کے دو ساتھیوں بھائی کاکا اور بھیکا بھائی نے ، وہاں نوجوانوں کے لئے تعلیمی مراکز قائم کئے تھے۔ اسی طرح مغربی بنگال میں گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور نے شانتی نکیتن قائم کیا۔ مہاراجہ گائیکواڑ بھی تعلیم کے پرجوش حامیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کی تعمیر کرائی اور ڈاکٹر امبیڈکر اور شری اروبندو سمیت کئی شخصیات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے متاثر کیا۔ ایسی عظیم ہستیوں کی فہرست میں ایک نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کا بھی ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے ایک ٹیکنیکل اسکول کے قیام کے لئے اپنا گھر ہی سونپ دیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ اور متھرا میں تعلیمی مراکز کی تعمیر کے لئے کافی مالی مدد کی۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے علی گڑھ میں ان کے نام پر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تعلیم کی روشنی کو عوام تک پہنچانے کا وہی متحرک جذبہ آج بھی ہندوستان میں جاری ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس احساس کی سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟ یعنی تعلیم کے بارے میں یہ بیداری معاشرے میں ہر سطح پر نظر آتی ہے۔ تمل ناڈو کے تریپور ضلع کے ادومل پیٹ بلاک میں رہنے والی تایمّل جی کی مثال بہت متاثر کن ہے۔ تایمّل جی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ برسوں سے ان کا خاندان ناریل پانی بیچ کر روزی کما رہا ہے۔ مالی حالت بھلے اچھی نہ ہو لیکن تایّمل جی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو تعلیم دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کے بچے چِنّ ویرم پٹی پنچایت یونین مڈل اسکول میں پڑھتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن اسکول میں والدین کے ساتھ میٹنگ میں یہ بات اٹھائی گئی کہ کلاس رومز اور اسکول کی حالت بہتر کی جائے، اسکول کا بنیادی ڈھانچہ د ٹھیک کیا جائے۔ تایمل جی بھی اس میٹنگ میں تھیں ۔ انہوں نے سب کچھ سنا۔ اسی میٹنگ میں بات چیت کاموں کے لئے پیسوں کی کمی پر آکر اٹک گئی ۔ اس کے بعد تایمل جی نے ، جو کچھ کیا ، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تایمل جی، جنہوں نے ناریل پانی بیچ کر کچھ سرمایہ جمع کیا تھا، اسکول کے لئے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ درحقیقت، ایسا کرنے کے لئے بہت بڑا دِل چاہیئے ، خدمت کا جذبہ چاہیئے ۔ تایمل جی کا کہنا ہے کہ ابھی جو اسکول ہے ، اس میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی ہوتی ہے۔ اب جب اسکول کا بنیادی ڈھانچہ سدھر جائے گا تو یہاں ہائر سیکنڈری تک کی پڑھائی ہونے لگے گی ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے یہی وہ جذبہ ہے ، جس کی میں بات کر رہا تھا۔ مجھے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے ایک سابق طالب علم کی طرف سے بھی اسی طرح کے عطیہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ بی ایچ یو کے سابق طالب علم جے چودھری جی نے آئی آئی ٹی بی ایچ یو فاؤنڈیشن کو ایک ملین ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے سات کروڑ کا عطیہ دیا۔
ساتھیو ، ہمارے ملک میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جو دوسروں کی مدد کر کے معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اس طرح کی کوششیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ، خاص طور پر ہمارے مختلف آئی آئی ٹیز میں مسلسل دیکھی جا رہی ہیں۔ مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی ایسی متاثر کن مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو مزید بڑھانے کے لئے گزشتہ سال ستمبر سے ملک میں ودیانجلی ابھیان بھی شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مختلف تنظیموں، سی ایس آر اور نجی شعبے کی شراکت سے ملک بھر کے اسکولوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔ ودیانجلی کمیونٹی کی شرکت اور ملکیت کے جذبے کو فروغ دے رہی ہے۔ اپنے اسکول، کالج سے مسلسل جڑے رہنا، اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ تعاون کرنا ، ایک ایسی چیز ہے ، جس کا تجربہ کرنے کے بعد ہی ایسا اطمینان اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، فطرت سے محبت اور ہر جاندار کے لئے ہمدردی، یہ ہماری ثقافت بھی ہے اور ہماری فطرت بھی ہے۔ ہماری اِن اقدار کی ایک جھلک حال ہی میں ، اُس وقت دیکھی گئی ، جب مدھیہ پردیش کے پینچ ٹائیگر ریزرو میں ایک شیرنی نے دنیا کو الوداع کہا ۔ لوگ اس شیرنی کو کالر والی شیرنی کہتے تھے۔ محکمہ جنگلات نے اسے ٹی – 15 کا نام دیا تھا ۔ اس شیرنی کی موت نے لوگوں کو اس قدر جذباتی کر دیا کہ جیسے کوئی اپنا ہی دنیا سے چلا گیا ہو۔ لوگوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں، پورے احترام اور محبت سے اسے رخصت کیا ۔ سوشل میڈیا پر یہ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ پوری دنیا میں فطرت اور جانوروں کے لئے ہم ہندوستانیوں کی اس محبت کو بہت سراہا گیا۔ کالر والی شیرنی نے اپنی زندگی میں 29 بچوں کو جنم دیا اور 25 کی پرورش کرکے انہیں بڑا کیا۔ ہم نے ٹی – 15 کی اس زندگی کا جشن بھی منایا اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو ہم نے اسے جذباتی طور پر رخصت بھی کیا ۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کی خوبی ہے۔ ہم ہر ذی نفس سے محبت کا رشتہ بنا لیتے ہیں۔ ہمیں اس بار یوم جمہوریہ کی پریڈ میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ اس پریڈ میں صدر کے باڈی گارڈز کے چارجر گھوڑے وِراٹ نے اپنی آخری پریڈ میں حصہ لیا۔ گھوڑا وِراٹ 2003 ء میں راشٹرپتی بھون میں آیا تھا اور ہر بار یوم جمہوریہ پر کمانڈنٹ چارجر کے طور پر پریڈ کی قیادت کرتاتھا۔ یہاں تک کہ جب راشٹرپتی بھون میں کسی غیر ملکی سربراہ کا استقبال کیا جاتا تھا تو بھی وہ یہ کردار ادا کرتا تھا۔ اس سال گھوڑے وِراٹ کو آرمی چیف نے آرمی ڈے پر سی او اے ایس ستائشی کارڈ بھی دیا تھا۔ وراٹ کی بے پناہ خدمات کو دیکھتے ہوئے ، اس کے ریٹائرمنٹ کے بعد ، اسے اتنے ہی شاندار انداز میں الوداع کیا گیا۔
میرے پیارے ہم وطنو ، جب خلوص نیت سے کام کیا جائے تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آسام سے سامنے آئی ہے۔ آسام کا نام لیتے ہی ذہن میں چائے کے باغات اور کئی قومی پارکوں کا خیال آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک سینگ والے گینڈے یعنی ایک سینگ گینڈے کی تصویر بھی ابھرتی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سینگ والا گینڈا ہمیشہ سے آسامی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ بھارت رتن بھوپین ہزاریکا جی کا یہ گانا ہر ایک کان میں گونجتا ہو گا۔
ساتھیو ، اس گانے کا مفہوم بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس گانے میں کہا گیا ہے کہ کازی رنگا کا سرسبز و شاداب ماحول، ہاتھیوں اور شیروں کا ٹھکانہ، ایک سینگ والے گینڈے کو زمین دیکھے ، پرندوں کی مدھر چہچہاہٹ سنے۔ گینڈے کی تصویر یں آسام کے دنیا بھر میں معروف مونگا اور ایری کے بنائی والے کپڑوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس گینڈے کو ، جس کی آسام کی ثقافت میں ایک عظیم تاریخ ہے ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ 2013 ء میں 37 اور 2014 ء میں 32 گینڈوں کو شکاریوں نے ہلاک کر دیا تھا ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے گینڈوں کے شکار کے خلاف ایک وسیع مہم چلائی گئی ، جو پچھلے سات سال میں آسام حکومت کی خصوصی کوششوں میں شامل ہے ۔ پچھلے سال 22 ستمبر کو گینڈوں کے عالمی دن کے موقع پر اسمگلروں سے پکڑے گئے 2400 سے زائد سینگوں کو جلا دیا گیا تھا۔ یہ شکاریوں کے لئے ایک سخت پیغام تھا۔ ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب آسام میں گینڈوں کے شکار میں تیزی سے کمی آئی ہے ، جب کہ 2013 ء میں ، جہاں 37 گینڈے ہلاک کئے گئے تھے ، 2020 ء میں صرف 2 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 2021 ء میں صرف ایک معاملہ سامنے آیا ہے ۔ میں گینڈوں کے تحفظ کے لئے آسام کے عوام کے عہد کی ستائش کرتا ہوں ۔
ساتھیو ، ہندوستانی ثقافت کے متنوع رنگ اور روحانی طاقت نے ہمیشہ پوری دنیا کے لوگوں کو راغب کیا ہے ۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ہندوستانی ثقافت امریکہ، کناڈا ، دوبئی، سنگاپور، مغربی یورپ اور جاپان میں بہت مقبول ہے تو آپ کو یہ ایک عام بات لگے گی اور آپ کو تعجب نہیں ہوگا لیکن اگر میں یہ کہوں کہ لاطینی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں بھی بھارت ثقافت بڑی توجہ کا مرکز ہے ، تو آپ یقیناً ایک بار ضرور سوچیں گے ۔ میکسیکو میں کھادی کو فروغ دینے کا معاملہ ہو یا برازیل میں ہندوستانی روایات کو مقبول بنانے کی کوشش، ہم ان موضوعات پر ، اِس سے پہلے کی ’من کی بات ‘ میں بات کر چکے ہیں۔ آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ ارجنٹینا میں بھی ہندوستانی ثقافت اپنے نشان چھوڑ رہی ہے ۔ ارجنٹینا میں ہماری ثقافت کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ 2018 ء میں، میں نے اپنے ارجنٹینا کے دورے کے دوران ایک یوگا پروگرام – ’ یوگا فار پیس ‘ میں حصہ لیا۔ یہاں ارجنٹینا میں ایک تنظیم ہے - ہستینا پور فاؤنڈیشن۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ارجنٹینا میں ہستینا پور فاؤنڈیشن موجود ہے ۔ یہ فاؤنڈیشن ارجنٹینا میں ہندوستانی ویدِک روایات کو فروغ دینے میں شامل ہے۔ اس کا قیام 40 سال پہلے ایک خاتون پروفیسر ایڈا البریکٹ نے کیا تھا ۔ پروفیسر ایڈا البریکٹ آج 90 سال کی ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ، اُن کا تعلق کیسے ہوا ، یہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ جب وہ 18 سال کی تھیں ، تو انہیں پہلی مرتبہ بھارتی ثقافتی کی قوت کے تعارف ہوا ۔ انہوں نے ہندوستان میں کافی وقت گزارا ۔ انہوں نے بھگوت گیتا اور اُپنیشدوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ آج ہستینا پور فاؤنڈیشن میں 40 ہزار سے زیادہ ارکان ہیں اور ارجنٹینا اور دیگر لاطینی امریکی ملکوں میں تقریباً 30 شاخیں ہیں ۔ ہستینا پور فاؤنڈیشن نے 100 سے زیادہ ویدک اور فلسفے کی کتابیں اسپینی زبان میں شائع کی ہیں ۔ ان کا آشرم بھی بہت پرکشش ہے۔ آشرم میں بارہ مندر تعمیر کئے گئے ہیں ، جن میں بہت سے دیوی اور دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔ ان سب کے مرکز میں ایک ایسا مندر بھی ہے ، جسے اَدویت وادی دھیان کے لئے تعمیر کیا گیا ہے۔
ساتھیو ، ایسی سینکڑوں مثالیں بتاتی ہیں کہ ہماری ثقافت نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک انمول ورثہ ہے۔ پوری دنیا کے لوگ اسے جاننا چاہتے ہیں، سمجھنا چاہتے ہیں، جینا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ثقافتی ورثے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اسے تمام لوگوں تک پہنچانا چاہیئے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اب میں آپ سے اور خاص کر ہمارے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ اب تصور کریں کہ آپ ایک بار میں کتنے پش اپس کر سکتے ہیں۔ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ یقیناً آپ کو حیرت سے بھر دے گا۔ منی پور کے 24 سالہ نوجوان تھونا اوجم نرنجوئے سنگھ نے ایک منٹ میں 109 پش اپس کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نرنجوئے سنگھ کے لئے ریکارڈ توڑنا کوئی نئی بات نہیں، جو اس سے پہلے ایک منٹ میں ایک ہاتھ سے سب سے زیادہ نکل پش اپس کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نرنجوئے سنگھ سے متاثر ہوں گے اور جسمانی فٹنس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔
ساتھیو ، آج میں آپ کے ساتھ لداخ کے بارے میں ایک ایسی ہی معلومات شیئر کرنا چاہتا ہوں ، جس کے بارے میں جان کر آپ یقیناً فخر محسوس کریں گے۔ لداخ کو جلد ہی ایک شاندار اوپن سنتھیٹک ٹریک اور آسٹرو ٹرف فٹ بال اسٹیڈیم کا تحفہ ملنے والا ہے ۔ یہ اسٹیڈیم 10 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر بنایا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر جلد پوری ہونے والی ہے۔ یہ لداخ کا سب سے بڑا اوپن اسٹیڈیم ہوگا ، جہاں 30,000 شائقین ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ لداخ کے اس جدید فٹ بال اسٹیڈیم میں 8 لین والا مصنوعی ٹریک بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ، ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہاسٹل کی سہولت بھی ہوگی۔ آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ اس اسٹیڈیم کو فٹ بال کی سب سے بڑی تنظیم فیفا نے بھی سرٹیفائی کیا ہے۔ جب بھی اتنا بڑا کھیلوں کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے، اس سے ملک کے نوجوانوں کے لئے بڑے مواقع آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ، جہاں یہ انتظام ہوتا ہے ، وہاں ملک بھر سے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے ، سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس اسٹیڈیم سے لداخ میں ہمارے بہت سے نوجوانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات ‘ میں بھی ، ہم نے کئی موضوعات پر بات کی۔ ایک اور موضوع ہے، جو اس وقت ہر کسی کے ذہن میں ہے اور وہ ہے کورونا کا موضوع ۔ بھارت کورونا کی نئی لہر کے ساتھ بڑی کامیابی کے ساتھ لڑ رہا ہے، یہ بھی فخر کی بات ہے کہ اب تک تقریباً 4.5 کروڑ بچے کورونا ویکسین کی خوراک لے چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 15 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 60 فیصد نوجوانوں کو تین سے چار ہفتے میں ہی ٹیکے لگائے گئے ہیں ۔ اس سے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی حفاظت ہوگی بلکہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ 20 دنوں کے اندر ایک کروڑ لوگوں نے احتیاطی خوراک بھی لی ہے۔ ہمارے ملک کی ویکسین پر ہم وطنوں کا یہ اعتماد ہماری بڑی طاقت ہے۔ اب کورونا انفیکشن کے کیسز بھی کم ہونے لگے ہیں - یہ ایک بہت ہی مثبت علامت ہے۔ عوام محفوظ رہے، ملک کی معاشی سرگرمیوں کی رفتار برقرار رہے، یہ ہر شہری کی خواہش ہے اور آپ تو جانتے ہی ہیں ’ من کی بات‘ میں، کچھ چیزیں، میں کہے بغیر نہیں رہ سکتا، جیسے، ہمیں ’سووچھتا مہم ‘ کو بھولنا نہیں ہے، ہمیں سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف مہم کو تیز کرنا چاہیئے۔ یہ ضروری ہے۔ ووکل فار لوکل کا منتر ، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم آتم نربھر بھارت کے لئے جی جان سے جٹے رہیں ۔ ہم سب کی کوششوں سے ہی ملک ترقی کی نئی اونچائیوں پر پہنچے گا ۔ اسی امید کے ساتھ ، میں آپ سب سے وداع لیتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا ) (30-01-2022)
U. No. 860
(Release ID: 1793667)
Visitor Counter : 326
Read this release in:
Gujarati
,
Telugu
,
Assamese
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Odia
,
Tamil
,
Kannada
,
Malayalam