امور داخلہ کی وزارت

خواتین کی حفاظت کیلئے خصوصی اقدامات

Posted On: 16 DEC 2021 1:27PM by PIB Delhi

بھارتی آئین میں ساتویں شیڈیول کے تحت پولیس اور سرکاری احکامات ریاستی حکومت کے دائرے میں آتے ہیں۔ امن و امان برقرار رکھنے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ سمیت خواتین کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کی ذمہ داریاں متعلقہ ریاستی حکومتوں کے پاس ہیں۔ ریاستی حکومتیں، قوانین کی موجودہ دفعات کے تحت اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے لیے مجاز ہیں۔ تاہم، بھارت سرکار نے ملک بھر میں خواتین کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

 

  1. فوجداری قانونی (ترمیم)، ایکٹ 2013 جنسی جرائم کے خلاف موثر روک تھام کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ مزید برآں، مجرمانہ قانونی (ترمیمی) ایکٹ، 2018 کو 12 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی عصمت دری کے لیے سزائے موت سمیت مزید سخت سزاؤں کے التزامات کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ عصمت دری کے مقدمات کی تحقیقات اور چارج شیٹ کو 2 ماہ میں داخل  کرنے اور ٹرائل کو بھی 2 ماہ میں مکمل کرنے  کو لازمی بناتا ہے۔
  2. ایمرجنسی رسپانس سپورٹ سسٹم، تمام ہنگامی حالات کے لیے ایک پین انڈیا، واحد بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نمبر (112) پر مبنی نظام فراہم کرتا ہے، جس میں کمپیوٹر کی مدد سے دشوار گزار مقام تک  کام آنے وسائل کی ترسیل کی جاتی ہے۔
  3. وزارت داخلہ نے 20 ستمبر 2018 کو شہریوں کے لیے فحش مواد کی اطلاع دینے کی خاطر ایک سائبر کرائم رپورٹنگ پورٹل شروع کیا ہے۔
  4. اسمارٹ پولیسنگ اور حفاظتی انتظام میں مدد کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، پہلے مرحلے میں 8 شہروں (احمد آباد، بنگلورو، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکتہ، لکھنؤ اور ممبئی) میں سیف سٹی پروجیکٹس کو منظوری دی گئی ہے۔ یہ پروجیکٹ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ تیار کیے گئے ہیں، جس میں بیداری پروگراموں کے ذریعے بنیادی ڈھانچے، ٹیکنالوجی کو اپنانے اور کمیونٹی میں صلاحیت سازی سمیت مختلف شعبوں میں اہم اثاثوں کی ترقی کی خاطر خواتین کے خلاف جرائم کے لیے  ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کی ضرورت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

 

  1. وزارت داخلہ  نے 20 ستمبر 2018 کو "جنسی جرائم   سے متعلق قومی ڈیٹا بیس" (این ڈی ایس و) کا آغاز کیا ہے تاکہ ملک بھر میں جنسی جرائم کی تحقیق اور  اس کا پتہ لگانے میں آسانی ہو۔
  2. وزارت داخلہ  نے فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ، 2018 کے مطابق جنسی زیادتی کے معاملات میں وقتی تحقیق کی نگرانی اور پتہ لگانے کے لیے ایک آن لائن تجزیاتی ٹول "جنسی جرائم کے لیے تفتیشی ٹریکنگ سسٹم" شروع کیا ہے۔
  3. تحقیقات کو بہتر بنانے کے لیے، ایم ایچ اے نے مرکزی اور ریاستی  فارنسک سائنس لیبارٹریوں میں ڈی این اے تجزیہ یونٹس کو مستحکم  کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس میں سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری، چندی گڑھ میں جدید ترین ڈی این اے تجزیہ یونٹ کا قیام بھی شامل ہے۔ ایم ایچ اے نے 20 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ریاستی فارنسک سائنس لیبارٹریوں میں ڈی این اے تجزیاتی یونٹس کے قیام اور اپ گریڈنگ کو بھی منظوری دی ہے۔
  4. وزارت داخلہ  نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں فارنسک ثبوت جمع کرنے اور جنسی زیادتی کے ثبوت جمع کرنے کی کٹ میں معیاری ساخت کے لیے رہنما خطوط کو نوٹیفائی  کیا ہے۔ افرادی قوت میں مناسب صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے تفتیشی افسران، پراسیکیوشن افسران اور میڈیکل افسران کے لیے تربیت اور ہنر سازی کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ نے تربیت کے حصے کے طور پر ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جنسی جرائم کے ثبوت جمع کرنے کی 14,950 کٹس تقسیم کی ہیں۔
  5. وزارت داخلہ  نے ملک کے تمام اضلاع میں پولیس اسٹیشنوں اور انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹس میں خواتین کے ہیلپ ڈیسک کے قیام اور اسے مضبوط بنانے کے لیے دو منصوبوں کی بھی منظوری دی ہے۔
  6. مذکورہ بالا اقدامات کے علاوہ،  وزارت داخلہ نے  خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ایڈوائزریز جاری کرتا رہا ہے، جو www.mha.gov.in پر دستیاب ہیں۔

           وزارت داخلہ نے کل راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں یہ  جانکاری دی۔

*************

 

 

 

ش ح- ع ح

U. No.14379



(Release ID: 1782231) Visitor Counter : 283


Read this release in: English , Tamil , Telugu