وزیراعظم کا دفتر

پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں یومِ آئین کے پروگرام سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 NOV 2021 4:47PM by PIB Delhi

نئی دلّی ،26 نومبر/ محترم صدرِ جمہوریہ ، محترم نائب صدرِ جمہوریہ ، محترم اسپیکر ، اسٹیج پر موجود سبھی اہم شخصیات اور ایوان میں موجود آئین کے تئیں وقف سبھی بھائیوں اور بہنوں ۔

          آج باباصاحب امبیڈکر، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسی دور اندیش عظیم ہستیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ آج کا دن ، اس ایوان کو سلام کرنے کا ہے کیونکہ اس مقدس مقام پر مہینوں تک ، بھارت کے دانشوروں اور کارکنان نے ملک کے روشن مستقبل کے انتظامات کا تعین کرنے کے لئے منتھن کیا تھا اور اس سے  ہمیں آئین کی صورت میں امرت حاصل ہوا ، جس نے آزادی کے اتنے طویل دور کے بعد ہمیں یہاں پہنچایا ہے ۔ آج ہمیں قابلِ احترام باپو کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی قربانی دی ، اپنی زندگی وقف کی ، اُن سب کو بھی خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ موقع ہے ۔ آج 11 / 26 ہمارے لئے ایک ایسا افسوسناک دن ہے ، جب ملک کے دشمنوں نے ملک کے اندر آکر ممبئی میں دہشت گردی کا گھناؤنا کام سر انجام دیا۔ ملک کے عام آدمی کی حفاظت کی ذمہ داری کے تحت ، جیسا کہ بھارت کے آئین میں ذکر کیا گیا ہے، ہمارے بہت سے بہادر سپاہیوں نے ، ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ، اپنے آپ کو قربان کر دیا تھا ۔ عظیم قربانی دی ۔ میں آج11 / 26 کے ، اُن سبھی قربانی دینے والوں کو بھی بصد احترام عقیدت پیش کرتا ہوں ۔

محترم، کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اگر آج ہمیں آئین بنانے کا موقع ملتا تو کیا ہوتا؟ تحریک آزادی کا سایہ، حب الوطنی کا شعلہ، تقسیم ہند کی ہولناکی، ان سب کے باوجود بھی  ملک  سب سے پہلے ،  سب کے دل میں ایک یہی منتر تھا۔ تنوع سے بھرا یہ ملک، بہت سی زبانیں، کئی بولیاں، کئی فرقے، بہت سے راجے رجواڑے ، اس سب کے باوجود آئین کے ذریعے پورے ملک کو ایک بندھن میں باندھ کر، آگے بڑھنے کا منصوبہ بنا کر، اگر آج کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ نہیں ، آئین کا ایک صفحہ بھی ہم پورا کر پاتے ؟ کیونکہ نیشن فرسٹ کے بعد سے سیاست نے اس پر ایسا اثر ڈالا کہ بعض اوقات ملکی مفاد بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ میں ان عظیم انسانوں کو سلام پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ ان کے بھی اپنے خیالات ہوں گے۔ ان کے خیالات کا بھی اپنا ایک دھارا ہوگا۔ اس ندی کا بھی ایک کنارہ ہوگا لیکن پھر بھی قومی مفاد سب سے مقدم ہے، سب نے مل بیٹھ کر ایک آئین تشکیل دیا۔

ساتھیو،

ہمارا آئین صرف بہت سے ضابطوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ ہمارا آئین اس عظیم روایت، اکھنڈ دھارا، ہزار سال کی بھارت کی عظیم روایت کا جدید اظہار ہے اور اسی لئے ہمارے لئے ، آئین کے تئیں پورے جذبے کے ساتھ وقف اور جب ہم اس آئینی نظام کو گرام پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک عوام کے نمائندے کے طور پر پورا کرتے ہیں۔ ہمیں آئین کے تئیں ، اُس کے پورے جذبے کے ساتھ وقف ہوکر ہمیشہ اس کے تئیں سچا رہنا ہو گا اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو آئین کے جذبات کو کہاں چوٹ پہنچ رہی ہے ، اس کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اس لئے ، اس یومِ آئین کو ہمیں اس لئے بھی منانا چاہیئے کہ ہم جو بھی کچھ کر رہے ہیں ، وہ آئین کی روشنی میں ہے ۔ صحیح ہے ، غلط ہے۔ ہمارا راستہ صحیح ہے یا غلط ہے ۔ ہمیں ہر سال یوم آئین منا کر اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اچھا ہوتا کہ ملک آزاد ہونے کے بعد 26 جنوری کو عوامی حکمرانی کے تہوار کی شروعات ہونے کے بعد ، ہمیں 26 نومبر کو آئین کا دن منانے کے لئے، ملک میں روایت قائم کرنی چاہیئے تھی  تاکہ اس کی وجہ سے ہماری نسل در نسل جان سکتی کہ آئین بنا کیسے ؟ کون لوگ تھے ، جنہوں نے اسے بنایا ؟کن حالات میں بنا ، کیوں بنا ؟ ہمیں آئین کہاں لے جاتا ہے ، کیسے لے جاتا ہے ، کس کے لئے لے جاتا ہے ؟ ان ساری باتوں پر اگر ہر سال تبادلۂ خیال ہو تا تو آئین ، جسے دنیا میں ایک با حیات اکائی کے طور پر مانا گیا ہے ، ایک سماجی دستاویز کی شکل میں مانا ہے ، تنوع بھرے ملک کے لئے ، یہ ایک بہت بڑی طاقت کی شکل میں نسل در نسل کام آتا لیکن کچھ اس سے چوک گئے لیکن جب بابا صاحب امبیڈکر کی 150 ویں جینتی تھی  کیونکہ اس سے بڑا مقدس موقع کیا ہو سکتا ہے  کہ بابا صاحب امبیڈکر نے بہت بڑا نذرانہ دیا ہے ، اس کو ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدس صحیفے کےطور پر یاد کرتے رہیں اور اسی میں سے ، اور مجھے یاد ہے ، جب ایوان میں اس معاملے پر میں بول رہا تھا ، 2015 ء میں ، بابا صاحب امبیڈکر کی 150 ویں جینتی کے موقع پر ، اس کام کا اعلان کرتے وقت ، تب بھی ، مخالفت آج نہیں ہو رہی ہے ، اس دن بھی ہوئی تھی ، کہ 26 نومبر کہاں سے لے آئے ، کیوں کر رہے ہو ، کیا ضرورت تھی ، بابا صاحب امبیڈکر کا نام ہو اور آپ کے دل میں یہ جذبہ اٹھے ، یہ ملک اب سننے کے لئے تیار نہیں ہے اور آج ، اب بھی بڑا دل رکھ کر کے کھلے دل سے ، بابا صاحب امبیڈکر جیسی شخصیات نے ملک کو ، جو دیا ہے ، اس کو پھر سے یاد کرنے کی تیاری نہ ہونا ، یہ بھی ایک تشویش کا معاملہ ہے ۔

ساتھیو،

بھارت ایک آئینی جمہوری روایت ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت ہے اور سیاسی جماعتیں بھی ہمارے آئین کے جذبات کو عوام تک پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں لیکن، آئین کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ آئین کے ایک ایک ضابطے کو بھی چوٹ پہنچی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں خود اپنا جمہوری کردار کھو بیٹھیں، جو جماعتیں خود اپنا جمہوری کردار کھو چکی ہیں ، وہ جمہوریت کی حفاظت کیسے کریں گی۔ آج ملک میں کشمیر سے کنیا کماری ،  تک بھارت کے کونے کونے میں جائیں، بھارت ایک ایسے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، جو آئین سے سرشار لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور وہ خاندانی جماعتیں، سیاسی جماعتیں، خاندان کے لئے پارٹی، خاندان کے ذریعے پارٹی، اب میں مزید کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک تمام سیاسی پارٹیوں کو دیکھ لیں، یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ یہ اس کے برعکس ہے ، جو آئین ہمیں بتاتا ہے اور جب میں خاندانی جماعتیں کہتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں کہ ایک خاندان کے ایک سے زیادہ افراد سیاست میں نہ آئیں۔ جی نہیں، اہلیت کی بنیاد پر عوام کے آشیرواد سے کسی خاندان کے ایک سے زیادہ لوگ سیاست میں آئیں، اس سے پارٹی خاندانی نہیں ہو جاتی۔ لیکن جس پارٹی کو ایک ہی خاندان نسل در نسل چلاتی رہے، پارٹی کا سارا نظام خاندانوں کے پاس رہے ، وہ صحت مند جمہوریت کے لئے بحران ہوتا ہے اور آج آئین کے دن کے موقع پر آئین پر یقین رکھنے والے ، آئین کو سمجھنے والے ، آئین کے تئیں وقف سبھی شہریوں سے ، میں یہ کہوں گا کہ ملک میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے

جاپان میں ایک تجربہ ہوا تھا ۔ جاپان میں دیکھا گیا کہ سیاسی طور پر چند خاندان ہی نظام چلا رہے ہیں۔ تو کسی نے پہل کی کہ وہ شہریوں کو تیار کریں گے اور سیاسی طور پر خاندان سے باہر کے لوگ فیصلہ سازی کے عمل میں کیسے آئے اور اس میں تیس چالیس سال بہت کامیابی سے لگے لیکن کرنا پڑا۔ جمہوریت کو آگے بڑھانے کے لئے ، ہمیں اپنے ملک میں ایسی مزید چیزیں بھی جاننے کی ضرورت ہے ، فکر کرنے کی ضرورت ہے، اہل وطن کو جگانے کی ضرورت ہے اور اسی طرح ہمارے یہاں بدعنوانی ہے، کیا ہمارا آئین بد عنوانی کی اجازت دیتا ہے؟ قانون ہے، اصول ہیں، سب ہیں لیکن تشویش اس وقت ہوتی ہے جب عدلیہ نے کسی کو اگر بد عنوانی کے لئے ذمہ دار ٹھہرا دیا ہو ، بد عنوانی کے لئے سزا ہو چکی ہو ، لیکن سیاسی مفاد کی وجہ سے اس کا بھی جوڑ توڑ چلتا رہے ۔ بد عنوانی کو نظر انداز کرکے ثابت ہوئی حقیقتوں کے باوجود ، جب سیاسی فائدے کے لئے ساری روایتوں کو توڑ کر ، عوامی لوک لاج کو توڑ کر ، ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا شروع ہو جاتا ہے تو ملک کے نو جوانوں کے دل میں لگتا ہے کہ اگر اس طرح سے سیاست کے شعبے میں قیادت کرنے والے لوگ ، بد عنوانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی خوش آمد درآمد کر رہے ہیں ، مطلب اُن کو بھی وہ راستہ مل جاتا ہے کہ وہ بدعنوانی کے راستے پر چلنا برا نہیں سمجھتے ، دو چار سال کے بعد لوگ قبول کر لیتے ہیں ۔ کیا ہمیں ایسا سماجی نظام تیار کرنا ہے کہ معاشرے کے اندر کرپشن کی وجہ سے کوئی جرم ثابت ہو جائے تو انہیں سدھارنے کا موقع دیا جائے۔ لیکن عوامی زندگی میں وقار کا ، جو مقابلہ چل رہا ہے، میں سمجھتا ہوں، اپنے آپ میں نئے آنے والوں کو لوٹنے کے راستے پر چلنے پر مجبور کرتا ہے اور اسی لئے ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ آزادی کے 75 سال ہیں، یہ امرت کال ہے۔ آزادی کے 75 سالوں میں ، ملک اب تک ، جن حالات سے گزرا ہے۔ انگریز بھارت کے شہریوں کے حقوق کو کچلنے میں مصروف تھے اور اس وجہ سے بھارت کے شہریوں کے حقوق کے لئے لڑنا فطری اور ضروری تھا۔

یہ بہت فطری بات ہے کہ مہاتما گاندھی سمیت بھارت کے شہریوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں، اس لئے وہ لڑتے رہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کی تحریک میں بھی مہاتما گاندھی نے حقوق کے لئے لڑتے ہوئے ملک کو فرض کے لئے تیار کرنے کی مسلسل کوشش کی تھی۔ انہوں نے بھارت کے شہریوں میں وہ بیج بونے کی مسلسل کوشش کی تھی کہ صفائی کرو، بالغوں کو پڑھاؤ ، خواتین کا احترام کرو، خواتین پر فخر کرو، خواتین کو بااختیار بناؤ، کھادی پہنو، اپنے ملک کا سامان ، خود کفالت کا خیال ، ان کی طرف مہاتما گاندھی مسلسل ملک کو تیار کرتے رہے ۔ لیکن آزادی کے بعد مہاتما گاندھی نے ، جو فرائض کے بیج بوئے تھے ، وہ آزادی کے بعد ایک بڑا درخت بن جانا چاہیئے تھا لیکن بد قسمتی سے حکمرانی کا نظام ایسا بنا کہ اس نے حقوق اور صرف حقوق کی باتیں کرکے ، لوگوں کو ایسے نظام میں رکھا کہ ہم ہیں تو آپ کے حقوق پورے ہوں گے ۔ اچھا ہوتا ، ملک آزاد ہونے کے بعد ، فرائض پر زور دیا گیا ہوتا تو حقوق کا اپنے آپ تحفظ ہوتا ۔ فرائض سے ذمہ داری کا احساس ہوتا ۔ فرائض سے سماج کے تئیں ایک ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ۔ حقوق سے کبھی کبھی مانگنے کی عادت پیدا ہوتی ہے کہ مجھے میرا حق ملنا چاہیئے یعنی سماج کو مایوس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فرائض کے احساس کے ساتھ ہی عام آدمی کی زندگی میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ میری ذمہ داری ہے، میں نے اسے نبھانا ہے، میں نے کرنا ہے اور جب میں فرض ادا کرتا ہوں تو خود بخود کسی کا حق محفوظ ہوجاتا ہے۔ کسی کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے، کسی کے حقوق کا احترام ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے فرائض بنتے ہیں اور حقوق بھی کام کرتے ہیں اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

آزادی کے امرت مہوتسو میں ہمارے لئے ، یہ بہت ضروری ہے کہ ہم فرائض کے ذریعے حقوق کے تحفظ کے راستے پر چلیں۔ یہ فرض کا وہ راستہ ہے ، جس میں حقوق کی ضمانت ہے ، فرائض کا وہ راستہ ہے ، جو حقوق کے احترام کے ساتھ دوسروں کو قبول کرتا ہے ۔ اس کا حق ، اُسے دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ، جب ہم یومِ آئین منا رہے ہیں تو ہمارے اندر بھی یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ہم فرض کی راہ پر چلتے رہیں، جس قدر لگن اور ریاضت کے ساتھ ہم منائیں گے ، سب کے حقوق کا تحفظ ہو گا اور آج ہمیں آزادی کے دیوانوں  کے  خوابوں کو پورا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے ، جنہوں نے انہیں لے کر بھارت بنایا تھا۔ ہمیں مل کر ان خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ میں ایک بار پھر محترم اسپیکر کو ، اِس اہم موقع کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں ۔ ان کا خیر مقدم کرتا ہوں ، انہوں نے اِس پروگرام کو منعقد کیا ۔ یہ پروگرام کسی سرکار کا نہیں تھا ۔ یہ پروگرام کسی سیاسی پارٹی کا نہیں تھا ، یہ پروگرام کسی وزیر اعظم نے منعقد نہیں کیا تھا ۔ اسپیکر ، ایوان کا فخر ہوتے ہیں ، ایوان کا یہ مقام فخر کا مقام ہے ۔ اسپیکر کا ایک وقار ہوتا ہے ۔ بابا صاحب امبیڈکر کا ایک وقار ہوتا ہے ۔ آئین کا ایک وقار ہوتا ہے ۔ ہم سب ، اُن عظیم شخصیات سے پرارتھنا کریں کہ وہ ہمیں تعلیم دیں تاکہ ہم ہمیشہ اسپیکر کے عہدے کا وقار بنائے رکھیں ۔ بابا صاحب امبیڈکر کا وقار بر قرار رکھیں اور آئین کا وقار بر قرار رکھیں ۔ اسی امید کے ساتھ آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا )

U. No. 13327



(Release ID: 1775396) Visitor Counter : 212