وزارت اطلاعات ونشریات
اِفّی 52 نے بھولے بھٹکے ہوؤں کے بابا، راجا رام تیواری کے انسانی جذبے کو خراج عقیدت پیش کیا ، جنھوں نے لاکھوں کھوئے ہوئے یاتریوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملانے میں مدد کی تھی
"گنگا پتر – جرنی آف اے سیلف لیس مین" کی تیاری میری زندگی کا سب سے بے لوث تخلیقی سفر رہا ہے: اِفّی 52 بھارتی پینورما فلم ڈائریکٹر جے پرکاش
"میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ راجہ رام تیواری کی انسانیت کی اس بے بہا خدمت کا اعتراف کریں اور انھیں اعزاز دیں"
"اِفّی نے مجھے اپنی بیوی کے ساتھ دوبارہ ملایا ہے، یہ میری اپنا کھویا پایا شِوِر ہے"
ممبئی، 23 نومبر 2021 | پاناجی، 23 نومبر 2021
گنگا پتر کی تیاری – اے جرنی آف ا سیلد لیس مین میری زندگی کا سب سے بے لوث تخلیقی سفر رہا ہے۔ ہدایتکار جے پرکاش نے سماجی کارکن راجہ رام تیواری-- جنھوں نے کھوئے ہوئے لوگوں کو ان کے پیاروں کے ساتھ ملانے میں اہم کردار ادا کیا ہے --کے بے لوث سفر کو دستاویزی شکل دینے کے اپنے سفر کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ہدایتکار نے یہ بات آج 23 نومبر 2021 کو 20 سے 28 نومبر 2021 کے دوران گوا میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی فلم فیسٹیول آف انڈیا کے 52 ویں ایڈیشن کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ۔ فلم کو اِفّی میں بھارتی پینورما سیکشن کی نان فیچر فلم کیٹیگری میں پیش کیا گیا ہے۔
https://youtu.be/xYocaMNlIF4
راجہ رام تیواری کون تھے اور انھوں نے اپنے پیاروں کو دوبارہ کیسے متحد کیا؟ ایک سادہ دھوتی اور کرتے میں ملبوس راجہ رام تیواری، جنھیں پیار سے بھولے بھٹکے والوں کا بابا (کھوئے ہوئے لوگوں کا نجات دہندہ) کہا جاتا ہے۔ ان کا عمر بھر کا مشن یہ رہا کہ کمبھ میلے میں کھو جانے والے یاتریوں کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملا کر ان کی مدد کی جائے۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے 1946 میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی 'کھویا پایا شِوِر'۔ یہ تنظیم تقریباً 15 لاکھ خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ 21,000 سے زائد بچوں کی بازیابی اور انھیں ان کے اہل خانہ کو دوبارہ ملانے میں کام یاب رہی ہے جو 4700 ایکڑ پر محیط وسیع زیارت گاہ میں کھو گئے تھے۔
فوٹو کریڈٹ: فیس بک/ پردیپ گپتا
تیواری کی وراثت جاری ہے۔ 2016 میں 88 سال کی عمر میں انھوں نے دنیا کو خیر باد کہا لیکن ان کا یہ کیمپ ان کے بعد بھی کمبھ میلے، اردھ کمبھ میلے اور ماگھ میلے میں یاتریوں کے لیے رہ نما ئی کا مرکز بنا ہوا ہے اور ضرورت مندوں کی بے مثال جوش اور لگن کے ساتھ خدمت کر رہا ہے۔
فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہدایتکار نے بتایا کہ یہ فلم سلور اسکرین پر راجہ رام تیواری کی منفرد اور مستقل مساعی کو پیش کرتی ہے جو 70 سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہیں۔ جب میں اپنے آبائی شہر پریاگ راج میں تھا تو مجھے ایک انتہائی بے لوث اور سادہ آدمی کی کہانی کو منظر عام پر لانے کا خیال آیا جو لوگوں کو ان کے گھر والوں کے ساتھ ملانے کے لیے گرم جوشی، محبت اور ہم دردی کے پل تعمیر کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کر رہا تھا۔
یہ دستاویزی فلم اس حیرت انگیز شخص کی زندگی پر محیط ہے اور اس کے بے لوث کام کی سماجی اہمیت کو ایک طاقت ور طریقے سے سامنے لاتی ہے۔
پرکاش نے فلم کے شائقین کو بتایا کہ کس طرح ان کی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کیں کہ سامعین سماجی کارکن خِ خدمات کا تجربہ کرنے کے قابل ہوں۔ انھوں نے کہا کہ "ہم نے دس سال کے عرصے میں انتہائی احتیاط سے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں وقتاً فوقتاً دستیاب مختلف آلات استعمال کیے گئے ہیں۔ ناظرین راجہ رام تیواری کے پانچ کمبھ میلوں، سات اردھ کمبھ میلوں اور 54 ماگھ میلوں میں کام کرنے کا تجربہ دیکھ سکتے ہیں۔ "
تیواری کے قائم کردہ خھویا پایا کیمپوں کو مقامی حکام جیسے انتظامیہ اور پولیس سے مدد ملتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ بار بار کی کوششوں کے بعد بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ ملنے سے قاصر ہیں۔ ایسے بدنصیب لوگوں اور ان کے لیے کھلے راستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر نے کہا: "حکام سے رابطہ کرنے کے بعد انھیں بازآبادکاری کا موقع دیا جاتا ہے۔ اگر بچے ہیں تو انھیں دلچسپی رکھنے والے لوگ مناسب عمل کے ذریعے گود لے سکتے ہیں۔ "
پرکاش نے زندگی بھر جاری رہنے والی تیواری کی انسانی ہمدردی کی کوششوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیے جانے کی پرجوش اپیل کی۔ "اگرچہ راجہ رام تیواری نے اپنی زندگی کے دوران کبھی کسی اعتراف کی خواہش نہیں کی تھی، لیکن میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انسانیت کے لیے ان کی اس شاندار خدمت کے لیے ان کا اعتراف کریں اور انھیں اعزاد سے نوازیں۔" وہ پر امید ہیں کہ ملک بھر کے ناظرین اس دستاویزی فلم کے ذریعے راجہ رام تیواری کے بے لوث کام کو دیکھیں گے اور ان کی ستائش کریں گے۔
ہدایتکار نے فلم بنانے کی اپنی خواہش کو پورا کرنے میں درپیش آئے مسائل کا ذکر کیا "مجھے سنگین مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ فلم مکمل طور پر ذاتی اخراجات سے تیار کی گئی ہے۔ تاہم میں نے اپنے راستے پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس کام کو پورا کیا۔ "
انھوں نے بتایا کہ کس طرح اس جدوجہد نے ان کی شادی شدہ زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ "یہ کوئی آسان راستہ نہیں تھا۔ میری اپنی بیوی نے مجھے غلط سمجھا کیوں کہ میں یہ دستاویزی فلم بناتے ہوئے ایک بار کئی دن گھر سے دور رہا۔ جب میں نے 2011 میں یہ فلم بنانا شروع کی تو میری نئی نئی شادی ہوئی تھی؛ جب میں نے اسے ختم کیا تو میری نجی زندگی ٹوٹنے کے دہانے پر تھی۔ "
انھوں نے کہا کہ "لیکن اِفّی نے صورت حال کو بدلنے میں میری مدد کی"۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ انھوں نے کہا کہ جب میری دستاویزی فلم اِفّی کے لیے منتخب کی گئی تو سب نے میرے کام کی تعریف کی اور یہاں تک کہ میری بیوی نے بھی اب مجھے قبول کر لیا ہے۔ چناں چہ ایک طرح سے اِفّی نے مجھے اپنی بیوی کے ساتھ دوبارہ ملا دیا ہے اور میرا سفر یہاں اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے۔ "
ڈائریکٹر نے اپنی کے اختتام پر کہا کہ بالآخر سب کچھ مربوط ہے اور میری کہانی، آن سکرین اور آف سکرین دونوں نے اپنا راستہ مکمل کر لیا ہے، یہ میرے اپنے سفر کا مترادف بن گیا ہے۔
اپنی جڑوں سے فلم کے ان کے رشتے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہدایتکار نے کہا: "میں ہمیشہ اپنے آبائی شہر پریاگ راج کے بارے میں ایک کہانی بنانا چاہتا تھا؛ ہر شخص 'کمبھ' پر فلم بناتا ہے لیکن میں کچھ الگ کرنا چاہتا تھا"۔
* * *
(ش ح۔ ع ا۔ ع ر)
U. No. 13196
(Release ID: 1774337)
Visitor Counter : 174